بےثبات اس دہر میں بادِ فنا کے زور سے
درد سے معمور دل سینہ ہے غم سے داغ داغ
آسمانِ علم و دانش کا جہانِ بے کراں
حکمت مشرق ، فنافی الشاعرِ مشرق بھی تھا
کر کے دکھلائی ہے اُس نے فکر کی تزئین بھی
دُود مانِ ہاشمی کا گوہر تابندہ تھا
راہرو بھی تھا اگر وہ ، صاحبِ منزل بھی تھا
صاحبِ علم و ہنر تھا ، واقفِ حالات بھی
تھا یقیناً بے مثیل استاد بھی ، نقاد بھی
تھا قلم میں تیز تر، آہستہ خُو گفتار میں
رہنما بھی ، راز داں بھی تھا ، مراہمدم بھی تھا
دوستی اس سے رہی آدھی صدی سے مستزاد
جب سے میرا فکر اس کے فکر سے وابستہ ہے
دل ہے اس کی مغفرت کو میرا، پیوستِ دُعا
بجھ رہے ہیں رفتہ رفتہ علم کے روشن دیے
بجھ گیا ہے علم کا اک اور درخشندہ چراغ
حضرتِ اقبال کے فکر و نظر کا ترجمان
صاحب فکر و بصیرت ، فکر میں صادق بھی تھا
اصل کا وہ ہاشمی یعنی رفیع الدین بھی
لمحہ لمحہ دانشِ اقبال سے خورسندہ تھا
ایک بحرِ علم، دانائے کفِ ساحل بھی تھا
بے مثال و بے بدل ہیں اس کی تحقیقات بھی
اورتحقیق ادب کا اک جہاں آباد بھی
آنکھ میں آشفتگی ، شائستگی کردار میں
مکتب عرفان و دانش اُس کا جامِ جم بھی تھا
اس کی ہر تحقیق میرے فکر کو ہے مستفاد
صاحب اصل ہدف مجھ سا خدنگ جستہ ہے
اٹھ رہا ہے آسماں کو یہ مرا دستِ دُعا