This Content Is Only For Subscribers
حریم ادب کانیر تاباں میٹ اپ
عصمت اسامہ حامدی۔ لاہور
ایک ادیب یا لکھاری کا قلم معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے،وہ انسانیت کے مسائل کو سمجھتا ہے پھر اپنی دماغ سوزی اور درددل سے ان مسائل کا حل سوچتا ہے۔ پھر ایک مرحلہ آتا ہے کہ اس کے قلم سے نکلے الفاظ لوگوں پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں،اس کا درددل انسانیت کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہے۔ پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ؎
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان ِشوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا۔
خواتین کا ادبی فورم حریم ادب پاکستان بھی اسی مشن کے لیے مصروف عمل ہے۔ حریمِ ادب کی مختلف سرگرمیاں نہ صرف لکھاریوں کی رہنمائی اور اور ان کی صلاحیتوں کومہمیزدینے کا کام کرتی ہیں بلکہ ممتاز قلم کار خواتین کے ساتھ نشستوں کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کی ممتاز قلم کار’’نیر تاباں‘‘ کی کینیڈا سے پاکستان آمد کا غلغلہ سنائی دیا تو ہم نے بھی ان سے ملاقات کی ٹھان لی۔ اگرچہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے یہ کام کٹھن نظر آرہا تھا لیکن حریم ادب نے ان سے لاہور آنے کی صورت میں ایک نشست کا وقت لے ہی لیا ۔
نیر تاباں خواتین کے گھریلو معاملات و مسائل ، پیرنٹنگ ،بچوں کی تربیت و پرورش کے حوالے سے لکھتی ہیں اور ان کی تحریریں مقبولِ خاص وعام ہیں۔ جب ان کی لاہور آمد کا علم ہوا تو زوم میٹنگ میں ہم لوگ سر جوڑ کے بیٹھ گئے کہ ایک ہی دن کے اندر سارے انتظامی امور کیسے انجام دیے جائیں اور کس کس کو انوائیٹ کیا جائے۔ خیر ایک دعوت نامہ سوشل میڈیا پہ پوسٹ کیا تو بہت سے افراد نے آنے کی خواہش ظاہر کی۔
آخر وہ دن آہی گیا جب راقمہ الحروف بطورسیکرٹری حریم ادب ، مرکزی میڈیا سیل سےشازیہ عبد القادر اور لاہور آئی ٹی انچارج نوشین صدیقی ،پھولوں کے گلدستے تھامے ہوئے نیر تاباں کا استقبال کر رہے تھے۔ایک چمکتی دمکتی سمارٹ قلم کار بہت اپنائیت سے ہم سے مل رہی تھیں ۔ ایسے حالات میں جب کرونا کے سبب لوگ گھروں سے نکلنے سے گریزاں ہوں ، کوئی آپ سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں پہل کردے تو بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ہماری ادبی نشست’’ نیر تاباں میٹ اپ لاہور ‘‘ کا آغاز سورہ الفرقان کی تلاوت سے ہؤا۔اس کے بعد راقمہ نے نیرصاحبہ اور حاضرین محفل کو خوش آمدید کہتے ہوئے ماؤں کے مسائل ، بچوں کی تربیت اور پرورش کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کیا۔ہمارے گھروں میں کام کاج ، بزرگوں کی دیکھ بھال ، مہمان داری ،سسرال کے معاملات کا نباہ ،یہ سب خاتون خانہ کو ہی کرنا ہوتا ہے ۔مائیں اپنی ذات بھلا کر سارے معاملات کو سنبھال رہی ہوتی ہیں ،ایسے میں اگر بچے تنگ کریں یا بات نہ مانیں تو سارا غصہ ان پہ نکل جاتا ہے جس پر بعد میں مائیں پشیمان ہوتی ہیں، تو ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے ؟
میزبان کے اس سوال کے جواب میں نیر تاباں نے اپنی زندگی کے کچھ تجربات شیئر کیے اور کہا کہ ماؤں کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیےاور جب بچے بہت ستائیں تو پہلے آپ خود کو کنٹرول کریں ،خود کو ریلیکس کریں پھر بچے کو سمجھائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کسی وقت بچے کو غلطی کے باوجود چھوڑ دیں ۔بعد میں کسی وقت اسے آرام سے سمجھائیں تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ شرکائےمحفل ماؤں نے اپنے مسائل و تجربات شیئر کیے تو نیرصاحبہ نے بڑے دلچسپ انداز میں ان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں آپ بچوں کو سکھانا چاہتی ہیں اگر آپ خود ان پر عمل کرتی ہوں گی تو بچے کو بھی سیکھنے میں آسانی ہوگی۔ دعا ضرور کریں ،ماں کی دعا قبول ہوتی ہے۔
اس محفل میں ڈاکٹر زجاجہ نے ورکنگ ویمن کے گھریلو مسائل پر
بات کی۔ تقریب کی کمپیئر شازیہ عبد القادر نے اپنی ایک قریبی اور بہت عزیز سہیلی کی وفات کا ذکر بہت جذباتی انداز سے کیا جنہیں یہی فکر تھی کہ ان کے چلے جانے کے بعد ان کے بچوں کا کیا ہوگا ؟ اللہ نے ان کی دعا ایسے سنی کہ ان کی وفات پر بچوں نے بہت صبرو سکینت کا مظاہرہ کیا۔اس کے بعد سب شرکائے محفل کا تعارف لیا گیا۔بزرگ قلم کار فرزانہ چیمہ اور ام عبد منیب نے بھی حاضرین محفل کی گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے بروقت ٹپس دیں۔انھوں نے نیر تاباں صاحبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کروائیں۔راقمہ نے حریم ادب کا تعارف پیش کیا اور شرکاء کی توجہ بچوں کا ادب لکھنے کی طرف دلائی اور بچوں کو سکرین سے ہٹانے کے لیے متبادل سرگرمیاں دینے کی تجاویز بھی دیں۔تقریب میں مستبشرہ امیرالعظیم، رحمہ طارق ،عیشہ راضیہ ،ڈاکٹر زجاجہ سمیت ادب اور پیر نٹنگ سے دلچسپی رکھنے والی خواتین اور طالبات نے شرکت کی۔ مہمان خصوصی کو کتابوں کا تحفہ پیش کیا گیا۔مہمانان گرامی کی ضیافت پر تکلف کھانے سے کی گئی، یوں یہ خوبصورت تقریب اختتام پذیر ہوئی۔٭
آہ! افشاں بہن
شاہدہ اسلم
موت کو زندگی کی سب سے تلخ حقیقت اور موت کی تیاری کر کے جانے والوں کو احادیث مبارکہ میں سب سے عقلمند کہا گیا ہے بلا شبہ یہ صفت میری دوست، میری بہن افشاں طارق کی ہستی میں موجود تھی ۔ میں کوئی لکھاری نہیں ہوں اور نہ ہی میرے پاس الفاظ کے قیمتی خزانے ہیں لیکن اپنی دوست کی جدائی کا دکھ بلا شبہ ایسا ہے جس نے میرے قلم کو قوت گو یائی بخشی ۔اس سے پہلے قلم میں روانی تب آئی تھی جب میری والدہ محترمہ اور خالہ جان مسعودہ بیگم یکے بعد دیگرے داغِ مفارقت دے گئی تھیں ۔ اب ایک مرتبہ پھر دل کو ٹھیس پہنچی تو دوبارہ قلم کو زبان مل گئی۔افشاں بہن ہمارے شعبے ویمن ایڈٹرسٹ(WAT)کی صدر تھیں ۔ اس شعبے کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کھپا ڈالا۔
شعبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملاقاتیں کرتیں ، فنڈنگ کرتیں ، قرض حسنہ کی درخواستیں آتیں تو ان کے لیے علیحدہ انتظام کرتیں ، ایک علیحدہ فنڈ بنایا ہؤا تھا جو کہ صرف قرض حسنہ دینے کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ تمام حسابات کا ریکارڈ بہترین طریقے سے درج کرتیں ۔ کئی غریب عورتوں کے ماہانہ راشن لگوائے ہوئے تھے ۔ ان کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ کبھی شکوہ شکایت نہیں کرتی تھیں دوسروں کے ساتھ در گزر کا معاملہ کرتی تھیں ۔ عمارت کی ان اینٹوں میں سے تھیں جوزیر زمین ہوتی ہیں مگر جن کی وجہ سے عمارت مضبوط ہو جاتی ہے ۔
دین کے کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کرلیا تھا ۔ رمضان المبارک میں ان کی کلاس دورۂ قرآن اپنی کالونی ( القریش) میں فجر کی نماز کے بعد ہوتی تو ہم حیران ہو کر پوچھتے افشاں بہن کیا اتنی صبح خواتین اکٹھی ہو جاتی ہیں تو کہتیں بڑے دینی جذبے کے ساتھ بڑی خوشی سے اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان کے مزاج میں میل ملاپ کا بہت خزانہ تھا ہر ایک سے آگے بڑھ کر ملتی تھیں ۔ جیل میں قید عورتوں کے لیے WAT بہت کام کر رہا ہے ۔ جیل جاتے ہوئے راستے میں دینی ، دنیاوی ہر قسم کی گفتگو ہوتی ۔
ہمارے آپس کے صلاح مشورے کی بنیاد ہمیشہ خیر خواہی ہوتی ۔ ہمارا تو ہر کام آپس کے مشورے پر ٹکا ہوتا تھا لیکن معلوم ہؤا کہ یہ معاملات صرف ہم لوگوں کے ساتھ محدود نہیں تھے بلکہ انتقال کے دن اور بعد میں آنے والی ہر دوسری خاتون یہ بات دہراتی تھی کہ ہماری بہت خیر خواہ تھیں۔سب ہی کی آنکھوں سے موتی برس رہے تھے ۔میں حیران تھی کہ خواتین کا ایک اژدھام تھا جو ان کی اچانک رخصتی پر بے حال تھیں ، اپنے لیے ان کی محبت انتہائی خاص ہونے کا تذکرہ کر رہی تھیں۔جب ہارٹ اٹیک ہؤا اس وقت جامع العلوم پروگرام میں شریک تھیں ۔ وہیں سے انہیں کارڈیالوجی ہسپتال لے کر گئے ۔ جب ہم ان کی تیمار داری کے لیے گئے تو ہمیں دیکھ کر کھل اٹھیں حال پوچھا تو اللہ سے گلہ شکوہ نہیں بلکہ الحمد للہ کہا ، ہمارے ساتھ باتیں کرتی رہیں ۔
افشاں ایک ایسی شخصیت کہ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہو گی ۔ انشاء اللہ ان سے جنت کے باغوں میں ملاقات ہو گی ۔ آنکھیں ان کی جدائی میں نمناک ہیں مگر جانے والے کب واپس آتے ہیں ، بس یادیں چھوڑ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبولیت کا شرف بخشے ، ان جیسی نیکیاں کرنے کی ہمیں بھی توفیق دے ۔ آمین٭