بتول جولائی ۲۰۲۴بتول میگزین - بتول جولائی ۲۰۲۴

بتول میگزین – بتول جولائی ۲۰۲۴

واردات
سعدیہ نعمان
ایک سال اور سرک گیا تھا اور ایک بار پھر اسے جنوری کے اس یخ بستہ دن کا سامنا تھا آہیں بھرتا بین کرتا چیختا چنگھاڑتا ہوا دن…..وہ خود سے الجھتا ہوا باہر نکل آیا کوئی منزل نہ تھی بس یونہی آوارگی ….. اندر کے شور سے گھبرا کے اس نے سوچا تھا کہ وہ آج کا دن گھر میں نہیں گزارے گا شائد باہر کا شور اندر برپا کہرام کو دبا دے اور اس کی اذیت میں کچھ کمی ہو جائے ۔
نجانے کیوں سردیوں کے چھوٹے دنوں میں یہ ایک قیامت جیسا دن اس قدر طویل کیوں ہو جاتا تھا لیکن آج اس نے طے کیا تھا کہ وہ اندر کی آوازوں پہ ذرا کان نہ دھرے گا \۔اس نے نظر اٹھا کے نشتر میڈیکل کالج کی سفید کبوتری جیسی عمارت کو تکا ساتھ ہی ایک ستون پہ ایستادہ قد آدم کلاک پہ نظر پڑی۔گہرے گلابی یا قدرے سرخی مائل ہسپتال کی عمارت بھی ساتھ ہی جڑی تھی اسے محسوس ہوا کہ یہ ہسپتال نہیں ایک بڑا سا دیو ہے جو منہ کھولے کھڑا ہے اور ہر قریب آنے والے کو ہڑپ کر جاتا ہے۔یہ کیفیت اسی کربناک دن کے بعد پیدا ہوئی تھی ورنہ سارا بچپن اسی ہسپتال کی راہداریوں میں چکر کاٹتے اور انہی جانی پہچانی سڑکوں پہ اچھلتے کودتے گزرا تھا روز گارڈن میں رنگا رنگ تروتازہ پھولوں کے سنگ نرسنگ ہاسٹل کے گراونڈ میں جھولے جھولتے طارق ہال اور رفیدہ ہال کے کمروں میں کتابوں میں منہ گھسائے مستقبل کے مسیحاوں کی فکرمندی کو حیرت سے تکتے۔ ہنستے ہنساتے، شرارتیں کرتے وہ بڑے ہوگئے تھے ۔ اور پھر ایک دن…..ایک سنسناہٹ سی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ اس نے سر جھٹکا اور تیز تیز قدم اٹھاتا بیرونی گیٹ کی جانب بڑھا ۔اس کے دائیں جانب بڑے سے حروف میں ایمرجنسی وارڈ لکھا تھا۔ اس نے نظریں چرا لیں لیکن یہ آواز….. اس آواز کا وہ کیا کرے۔ ایمبولینس کے لمحہ بہ لمحہ بجتے سائرن کی آواز …..اور اس آواز کے ساتھ جڑا درد….. اس کا دل ڈوبنے لگا…..’’رکشہ‘‘ اس نے جلدی سے ہاتھ کا اشارہ کیا اور جھٹ سے رکشے میں سوار ہو گیا’’اسم باغ لے چلو قلعہ پہ ‘‘رکشہ بھی مزیدار عوامی سواری ہے شور اتنا کہ اردگرد سے کچھ سنائی نہ دے جبکہ دروازوں کی جگہ دونوں اطراف سے کھلی ہو تو باہر کے نظاروں سے لطف بخوبی لے سکیں۔ آج چھٹی ہے تو یقینا وہاں تفریح کے لیے آنے والوں کا ایک ہجوم ہو گا اس ہجوم میں وہ گم ہونا چاہتا تھا ۔
نشتر روڈ ….. اس سڑک کے چپہ چپہ سے وہ واقف تھا۔ کہاں کون سا میڈیکل سٹور ہے ۔کون سے پرائیویٹ کلینک اور ہسپتال ہیں برگد کا گھنا درخت کس کونے میں ہے جس کی چھاؤں تلے بابا شیدو نان چنے کا ٹھیلا لگاتا تھا ہاسٹل سے نکل کے مستقبل کے اکثر ہی ڈاکٹر یہاں سستا ناشتہ کرنے جمع رہتے تھے ۔یونیورسٹی بس کا اسٹاپ کہاں ہے اور تین چار سال وہ کیسے بھاگ بھاگ کے بس پکڑتا تھا….. اور یہیں قریب نشتر کی جامع مسجد تھی جہاں یہ دنیا چھوڑ کے جانے والوں کے کتنے ہی اعلان ہوئے اور اتنے ہی جنازے ۔لیکن وہ فجر کی اذان کے ساتھ ہونے والا ایک اعلان اور مغرب کی نماز کے بعد ہونے والا جنازہ اس کے دل کو چیر گیا تھا ایک ایسا زخم جو ہر وقت رستا رہتا ۔اور پھر ایمرجنسی وارڈ کی دیوار سے ذرا ہی آگے قبرستان کی دیوار شروع ہو جاتی تھی۔اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ السلام علیکم یا اھل القبور۔بس اتنا ہی کیونکہ مکمل دعا عربی میں تھی جو اسے یاد نہ رہی تو وہ شہر خموشاں کے مکینوں سے اردو میں ہی بات کر لیتا تھا ۔ب سے کچھ اپنے پیارے یہاں آباد ہوئے تھے اس کی وحشت بھی اس جگہ سے کچھ کم ہوئی تھی۔ دور تک قبروں کی طویل قطار دیکھتے اس کے ذہن میں عجیب خیال آیا وہ سوچنے لگا کہ جتنے لوگ اس وقت زمین کے اوپر چل پھر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تو زمین کے نیچے ہیں یعنی وہ دنیا ہماری اس دنیا سے زیادہ پر رونق ہوئی….. یہ عجیب و غریب تقابل اسے دلچسپ لگا اور وہ خود ہی مسکرانے لگا…..
اس نے محسوس کیا کہ جس دنیا میں وہ سانس لے رہا ہے وہ تو بس ایک تماشا گھر ہے جہاں سب کردار اپنے اپنے حصے کا تماشا دکھا کے اپنی راہ لیتے ہیں یا پھر یوں کہ جیسے ایک قید ہے اور قیدی کو ایک خاص وقت قید میں رہنے کے بعد رہائی مل جائے….. یا جیسے یہ سرائے ہے جہاں مسافر کو کچھ وقت کے لئے پڑاؤ کرنا ہے….. پھر اگر ایسا ہی ہے تو یہ دل میں اس کی محبت کیوں رچ بس جاتی ہے۔
رکشہ قبرستان سے آگے بڑھ چکا تھا لیکن وہ ابھی قبرستان ہی میں تھا وہ محسوس کر سکتا تھا کہ زندہ وجود کے ساتھ اذیت اور درد کے لمحات سے گزر کے آگے بڑھنا کیسا ہوتا ہے سنو کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر جانے والے کے ساتھ ایک نہیں دو قبریں بنتی ہیں ایک میں ہم اپنے پیارے کو دفنا دیتے ہیں اور دوسرے میں اپنے دل کا ایک ٹکڑا دفن کر دیتے ہیں۔۔۔اپنے وجود کا کچھ حصہ ہم وہیں کہیں چھوڑ آتے ہیں۔پھر زندگی کبھی بھی پہلے سی نہیں رہتی ،سب بدل جاتا ہے ۔
’’بیٹا کچھ امداد کر دو اللہ تمہیں لمبی حیاتی دے‘‘ فقیر کی صدا نے اسے حال میں لا پھینکا۔ رکشہ ایک سگنل پہ رکا تھا ۔لمبی حیاتی۔وہ تلخی سے ہنس دیا ’’ با با جی آپ کو دعا بدلنی ہو گی‘‘اس نے کچھ رقم فقیر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔گن کے پورے چار قبرستان آتے تھے قلعہ تک کے راستے میں…..گرد گرما گدا اور گورستان…..ہاں یہی چار علامتیں تھیں اس شہر کی ۔و بس قبرستان تو جا بجا آباد تھے ۔قلعہ کے داخلی گیٹ پہ اتر کے وہ پیدل پی اندر والی سڑک پہ ہو لیا….. دور ہی سے شاہ رکن عالم رح اور بہاؤالدین زکریا کے مزارات کے گنبد واضح دکھائی دے رہے تھے ۔اس اوپر کی جانب چڑھتی سڑک سے اسے ایک خاص ہی انسیت تھی کتنے ہی ٹھکانے تھے جہاں پہنچنے کو اسی سڑک سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔آج چھٹی کا دن تھا تو رونق میلہ کچھ زیادہ ہی تھا لوگ باگ طوطوں کے ذریعے فال نکلوا رہے تھے ۔دیگیں بانٹی جا رہی تھیں ۔ کہیں بے سرے سے قوال تالیاں پیٹتے قوالی کی محفل جمائے بیٹھے تھے۔مختلف اسٹال لگے تھے پارک بچوں سے بھرے ہوئے تھے جھولے لیتے غبارے پھاڑتے ٹافیاں کھاتے ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے بچے….. کہیں نوجوانوں کی ٹولیاں تھیں ایک دوسرے سے گھٹیا سے مذاق کرتے بے فکری سے قہقہے لگاتے نوجوان…..وہ چلتا گیا آگے بڑھتا گیا اندر کا شور کہیں دب گیا تھا باہر کا شور اب زیادہ ہو رہا تھا ۔
چلتے چلتے تھک کے وہ نیچے کی جانب اترتی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا دور افق پہ کہیں ڈھلتا سورج ایک ٹکیا کی مانند دِکھ رہا تھا ۔
’’سنو‘‘ ….. وہ چونک گیا ….. ’’سنو کیا تنہائی با برکت ہوتی ہے؟‘‘ آواز کہیں قریب سے ہی آئ تھی بالکل قریب سے ….. اچھا سنو دل ڈوبتا کیوں ہے بالکل ایسے جیسے وہ دور پرے سورج ڈوب رہا ہے ؟ کیا انتظار کا سفر آسان ہو سکتا ہے؟ بچھڑ کے ملنے کی خواہش ہو تو امید کے سہارے زندہ رہا جا سکتا ہے؟ کتنی مدت تک ؟ پھر کب یہ ہوتا ہے کہ آپ زخم کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں۔ تکلیف کی شدت میں بھی مسکرانے لگتے ہیں اور پھر کب یہ ہوتا ہے کہ درد ہی دوا بن جائے ؟ ہاں کب ؟
اندر کا شور پھر بڑھنے لگا تھا ۔٭
اردو قواعد
عالیہ بٹ
آج اپنے بہن بھائیوں کو لکھنے کے حوالے سے کچھ باتیں بتاتی ہوں جو یقیناً آپ سب کے علم میں بھی ہوں گی اگر کہیں غلط ہوں تو تصحیح کر دیجیے گا، میں نے اب تک پچھلی صدی کی کتابوں کا جو مطالعہ کیا، اسی سے جانا اور سمجھا اور اپنے اسکول کے زمانے میں اردو قواعد کی کتاب میں جو قواعد کے اصول سمجھے، عام روزمرہ بات چیت میں بھی ان اصولوں کے مطابق لکھنے اور بولنے کی کوشش کی، جب سے اردو میں انگریزی کی زبردستی ملاوٹ کی گئی ہے تب سے اردو کی اہمیت بھی ختم ہوتی گئی ہے گو الحمد للہ اسی صدی میں اردو کے قدر دانوں کو احساس ہؤا کہ اردو کا خانہ خراب ہو رہا ہے تو انہوں نےاردو کا خانہ آباد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں،بہت سے لوگ قواعد کے مطابق لکھنا بھول گئے ہیں مگر یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ لکھ رہے ہیں، ہم سب کو ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
چلیں میں آپ کو اردو کے ایک بہت اہم قاعدے کے بارے میں بتاتی ہوں، جس پہ بہت سے لکھنے والے غور نہیں کرتے، یہ قاعدہ فاعل ،مفعول اور فعل کی ترتیب کا قاعدہ ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ لکھتے ہوئے جملے میں سب سے پہلے فاعل یعنی کام کرنے والے کا ذکر آتا ہے، اس کے بعد مفعول یعنی جس اسم پہ فاعل نے کوئی کام کیا ہو اور آخر میں اس فعل کا ذکر کیا جاتا ہے جو مفعول پہ وقوع پذیر ہؤا ہو۔ اس کے لیے ایک مثال دیکھ لیجیے :
میں نے کتاب پڑھی۔
اس جملے میں میں فاعل ہے، کتاب مفعول ہے اور پڑھی فعل ہے۔
اکثر لوگ اس ترتیب کو ہی الٹ دیتے ہیں اور کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
پڑھی کتاب میں نے۔
فاعل کو جملے کے آخر میں دھکا دے دیتے ہیں۔
میں، آپ، انہیں، یہ، وہ ،ان ،جن جنہیں یا کوئی بھی نام، سب فاعل ہیں یعنی کام کرنے والے اور ہر وہ چیز جس پہ فاعل کام کر رہا ہو وہ مفعول ہوتی ہے۔
اب رموز اوقاف کی بات کرتے ہیں جسے تحریر کے لوازمات بھی کہتے ہیں، جس سے تحریر میں خوبصورتی آتی ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ کہاں ٹھہرنا ہے اور کہاں بات ختم کرنی ہے یا جاری رکھنی ہے۔
یاد رکھیں کہ حالانکہ، چونکہ، جیسا کہ، اگر، مگر،اور، لیکن جیسے الفاظ سے پہلے کسی قسم کی علامت نہیں لگائی جاتی، یہ تمام الفاظ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی بات جاری ہے. ان الفاظ سے پہلے جو بھی کسی قسم کی علامت کرتے ہیں وہ اپنی تحریر کے ساتھ بہت بڑا ظلم کرتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
عہد الست کی منتقلی
عالیہ زاہد بھٹی
آخری کپ دھو کر خشک کر کے ریک میں رکھ کر اس نے کچن ٹاول سے ہاتھ خشک کیے اور کمرے میں جھانک کر دیکھا ۔
’’فاطمہ ابھی تک پڑھ رہی ہو ؟ وائنڈ اپ کر دو جلدی سے اور یونیفارم پہن کر تیار ہو جاؤ‘‘۔
’’جی مما بس کر دیا‘‘۔
فاطمہ نے کتابیں سمیٹ کر تیاری کو آخری شکل دیتے ہوئے کہا ۔
’’ سب دیکھ لینا ایڈمٹ کارڈ پین اور اسٹیشنری وغیرہ سب کچھ‘‘
نیہا نے ماسک لگا کر چادر اوڑھتے ہوئے یاد دہانی کروائی ۔
’’ جی مما جی سب ریڈی ہے بس یونیفارم پہن کر آتی ہوں‘‘۔
فاطمہ جیسے ہی یونیفارم کے کر اوپر عبایا پہنے اسکول شوز کے لیسز بند کرتے ہوئے نیچے اتری نیہا آن لائن ڈرائیو کی سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گھر کے دروازے کے سامنے ہی سواری منگوا چکی تھی جیسے ہی دونوں امتحانی مرکز پہنچیں پیپر شروع ہونے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا اور مرکزی دروازہ ابھی بند تھا کوئی ماں اپنی بیٹی کو لے کر آئی تھی کہیں باپ ،بھائی ساتھ کھڑے تھے یہ دونوں بھی ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئیں ۔
نیہا کی آنکھوں میں چند جھلملاتے ہوئے عکس اتر آئے وہ بھی تو کبھی فاطمہ کی طرح بورڈ کا پہلا پہلا پیپر دینے بہت سے خدشات کے ساتھ اپنے ابو جی کے ساتھ کھڑی تھی ۔
’’ بیٹا جو بھی یاد ہو سب حاضر دماغی سے لکھنا اور دیکھو اپنے زور بازو پر ہی بھروسہ رکھنا کسی کی کاپی میں نہ جھانکنا نہ ہی کسی سے کوئی نقل کرنا‘‘۔
ابو جی دھیرے دھیرے بول رہے تھے ۔
’’ابو جی کیا آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں‘‘۔
نیہا نے لاڈ سے منہ پھلا کر کہا ۔
’’ناں میری شہزادی تمہیں ایسا نہیں سمجھتا مجھے معلوم ہے کہ میری بیٹی بہت اچھی ہے مگر شیطان تو اچھا نہیں ہے ناں‘‘۔
ابو جی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
’’جی مجھے شیطان سے لڑنا آتا ہے میرے پاس قرآن کی طاقت ہے ناں‘‘۔
نیہا نے اپنے حافظ قرآن ہونے کی طرف توجہ دلائی ۔
’’پھر بھی ہمیشہ اپنے آپ کو یاد دہانی کرواتی رہا کرو کہ تم اللہ کی بندی ہو اور اسی کے مطابق زندگی گزارنی ہے اور اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
ابو جی کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی اور نیہا کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ساتھ ہی عجیب بے ہنگم سی چیخ و پکار پر چونک کر حال میں واپس آئی ۔
’’کیا ہؤا یہ شور کیسا ہے؟‘‘
اس نے لڑکیوں کے ایک غول کے درمیان شور سن کر پوچھا ۔
’’ پیپر آؤٹ ہو گیا ہے تیس منٹ پہلے تو سب بچیاں اپنے اپنے والدین کے موبائل پر پرچہ دیکھ کر شور مچا رہی ہیں ‘‘۔
ساتھ والی خاتون نے بھی لپک کر موبائل دیکھتے ہوئے خوشی سے بتایا ۔
’’ہیں پیپر آؤٹ ؟تو آدھے گھنٹے میں کیا ہو جائے گا ؟‘‘
وہ ہونق لگ رہی تھی ۔
’’ اے لو اور کچھ نہیں تو خالی جگہیں جو دس بیس نمبر کی ہوں گی جلدی جلدی وہ ہی دیکھ کر اتنے نمبر تو پکے کروا لیں‘‘۔
خاتون ہنوز اپنی بیٹی کو آؤٹ شدہ پرچہ دلجمعی سے دیکھنے کو کہتے ہوئے اسے جواب دے گئی ۔نیہا نے متاسف نگاہ سے اسے اور ان جیسے تمام افراد کو دیکھ کر نگاہیں فاطمہ کے مطمئن چہرے پر گاڑ دیں ۔
’’ کیوں ؟ کیا خیال ہے ؟ کسی سے پیپر لے کر دیکھنا ہے تم نے بھی ؟‘‘
نیہا نے دھڑکتے ہوئے دل سے فاطمہ کو چھیڑا ۔
’’ جی نہیں مما جی مجھے حرام کے راستے سے ملنے والی کامیابی نہیں بلکہ اپنی محنت کے ساتھ اللہ جی کی رضا والی کامیابی چاہیے ‘‘۔
فاطمہ کے چہرے پر الوہی سی مسکراہٹ تھی اور نیہا کے کانوں میں ابوجی کی آواز کی بازگشت تیز ہوتی گئی۔
’’ پھر بھی ہمیشہ اپنے آپ کو یاد دہانی کرواتی رہا کرو کہ تم اللہ کی بندی ہو اور اسی کے مطابق زندگی گزارنی ہے اور اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
امتحانی مرکز کا دروازہ کھول دیا گیا تھا فاطمہ نے اندر جانے کے لیے ماں کے سامنے الوداعی بوسے کی غرض سے سر جھکایا۔
نیہا نے اس بازگشت کو اپنی سماعتوں میں محفوظ کرکے گویا فاطمہ کی پیشانی پر مہر عہد الست ثبت کی۔
گھر کی طرف لوٹتے ہوئے ماسک میں چھپے چہرے پر ٹپاٹپ گرتے آنسوؤں کی یورش میں ابو جی کو خیالوں میں مخاطب کیا ۔
’’جزاک اللہ ابوجی! اللہ کریم آپ کی قبر کو نور سے بھر دے دیکھ لیں آپ کی شہزادی نے آپ کی نصیحت اپنی شہزادی تک منتقل کر دی ہے اس یقین کے ساتھ کہ وہ اپنی شہزادی تک اسے ضرور منتقل کر دے گی ‘‘۔
٭ ٭ ٭
ہیں کواکب کچھ
طلعت نفیس
حرا کی خوشی دیدنی تھی۔آج وہ اپنی بچپن کی سہیلی ردا کو اپنے پڑھے لکھے اور ریالوں میں کمانے والے دیور کے لیےدلہن بنا کر لے آئی تھی۔ردا یتیم تھی اورویسے بھی اس کا خاندان صاحب حیثیت نہ تھا۔
ہر شخص کی زبان پر تھا کہ دوست ہو تو حراجیسی ۔واقعی حرا نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ دونوں بچپن کی دوست تھیں آپس میں بہت محبت تھی۔ خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی۔حرا نے دل کے سارے ارمان نکالے۔
شادی کے پندرہ دن بعد دونوں بھائی واپس سعودیہ لوٹ گئے جہاں وہ کئی سال سے کما رہے تھے۔ حرا کے ساس سسر یعنی ہاشم اور راحم کے والدین کا انتقال کافی عرصہ پہلے ہوگیا تھا۔ دونوں بھائی ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ ہاشم صرف میٹرک پاس تھا۔جب کہ راحم نے ماسٹرز کیا ہؤا تھا۔وہ اچھی پوسٹ پر تھا۔جب کہ حرا کا میٹرک پاس شوہر اسی کمپنی میں ڈرائیور تھا۔ اسی لیے ہاشم اب تک بیوی اور بچے کو سعودیہ نہیں بلا سکا تھا۔ اس لیےحرا اپنے ایک بیٹے کے ساتھ پاکستان میں ہی تھی۔ دیور اور شوہر کی کمائی سب اسی کے ہاتھ میں آتی۔
دونوں بھائیوں کے جاتے ہی حرا نے کام والی کو رخصت کردیا ۔
’’رداذرا تم اسے سنبھال لو ۔میں بھائی کے ساتھ کام سے جارہی ہوں‘‘۔ وہ یہ کہہ کریہ جا وہ جا۔
ردا جو ابھی گھر کے کاموں سے فارغ ہوئی تھی،کلستی منہ بناتی روتے ہوئے بچے کو گود میں لیے اپنے کمرے کی طرف مڑ گئی۔
’’پتا نہیں کون سے کام ہیں باہر کے جو ختم ہی نہیں ہوتے‘‘۔ وہ بڑبڑائی۔
ردا شوہر کی چودہ دن کی رفاقت کو یاد کرکے اداس تھی۔
جب اس کی شوہر سے ویڈیو کال پر بات ہوتی تو وہ جھوٹی تسلیاں دیتا کہ میں تم کو بلا لوں گا۔
’’ہنہ! تمھارے بھائی کو اتناعرصہ ہوگیا وہ بھابھی کو ابھی تک نہیں بلا سکے تم کیسے بلائوگے‘‘۔ردا چڑ کر کہتی۔
’’حرا بھی مجھ کو یہ ہی کہتی ہے وہاں جانے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو‘‘۔
’’میں خود تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا بہت جلد تمھیں لینے آئو ں گا‘‘۔راحم پیار سے کہتا۔
منے کے رونے کی آواز سن کر اس نے کال کاٹ دی ۔
’’ابھی حرا آکر ادھم مچا دے گی کہ یہ کیوں رو رہاہے ۔غلام سمجھتی ہے مجھے‘‘ _وہ شدید غصے میں تھی۔
حرادنیا کے سامنے پارسا بھی بنی ہوئی تھی۔ وہ بظاہر بہت محبت جتاتی تھی۔مگر اب ردا پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ وہ کتنی اچھی دوست ہے ۔
حرااس بات سےواقف تھی ۔کہ آج کل کے زمانے کی لڑکیاں ساس کے قابو میں نہیں آتیں ۔ تو اس کے قابو میں کیاآئےگی۔اس لیے اس نے رداکا انتخاب کیا تھا۔جس کا نہ کوئی آگے نہ پیچھے ۔ ماںسوتیلی تھی اس کوکیا غرض اب وہ جیے یا مرے ۔ شادی سے پہلے بھی حرا بہت سارے اپنے کام اس سے کروایا کرتی تھی ۔اور ردا سہیلی کی محبت میں کر دیتی۔
شادی کے چھ ماہ بعد ا ایک دن ردا کا شوہر راحم اچانک ایک ہفتے کے لیےپاکستان آگیا حرا نے دیور کے سامنے ردا کو تخت پر بٹھا دیا ۔خوب خاطر مدارات کیں۔ جاتے وقت سجی سنوری رد کو راحم کے پہلو میں کھڑی دیکھ کر وہ بولی۔
’’خیریت‘‘؟
’’وہ بھابھی میں ردا کے کاغذات بنوا کر لایاتھا۔میں اسے ساتھ لے کر جارہا ہوں‘‘ ۔
اے ہائے کیسی گھنی نکلی۔حرا نے دانت کچکچا کر اس کو دیکھا ۔
اور ردا کیب کا دروازہ کھول کر بیٹھنے سے پہلے ایک کمینی سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالنا نہ بھولی۔
٭٭٭
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ میں ہمارے لیے سبق
رخسانہ کوثر وہاڑی
حق و باطل کے ان معرکوں میں ہزاروں لوگ عزم اور استقلال کی چٹان بن کر کھڑے رہے اور اپنے لہو میں نہا کر شہادت پیش کر دی۔
عمومی طور پر شہادت کی داستانیں شہیدوں کی قربانیوں کے بعد رقم ہوتی ہیں مگر شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا اعزاز ہے کہ یہ داستان سفر کی ابتدا ہی سے رقم ہو رہی تھی۔
میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مقصد حب الہی،اعلاے کلمہ الحق ،اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کا قیام اور حق و صداقت کی نشرو اشاعت تھا۔
10 محرم کا تاریخی اور اور انقلابی سانحہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ نواسہ ِرسولؐ اور ان کے اصحاب کی شہادت’’حق‘‘ کے لیے تھی۔ حق کبھی مرتا نہیں زندہ رہتا ہے ۔ انھوں نے حق کے لیے پیاس برداشت کی اور وہ پیاسے آج بھی زندہ ہیں ۔
ہمارے لیے سبق کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ہر مرحلے پر ’صبر اور نماز‘ سے کام لیا۔ آج ہم اپنے معاملات میں’صبر کے شربتٔ‘ اور ’نماز کے ہتھیار‘ سے کتنا کام لیتے ہیں؟
آج بھی ہم نے کئی ماہ سے مسلط جنگ میں اہل غزہ سے سیکھا کہ موت سامنے ہو،بدن زخموں سے چور ہو تو قرآن کی آیات کس طرح ثابت قدم رکھتی ہیں کس طرح زخموں کا مرہم بن جاتی ہیں کس طرح صبر انڈیل دیتی ہیں۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تاریخ کائنات پر واضح کردیا کہ کہ اسلام کے لیے ہر شے کو قربان کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام کو کسی شے پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔
آج ہم اسلام کے لیے کیا قربان کر رہے ہیں؟
اولاد، مال، جان،وقت، قابلیت، صلاحیتیں، صحت،علم،
آئیں سوچیں اور اپنا جائزہ لیں۔
72 شہیدوں کی سوگوار’’ خاتون کربلا ‘‘حضرت زینب نے قافلہ وفا کی سالار بن کر امامت کا کردار ادا کیا اور خواتین کو یہ پیغام دیا کہ عورت اپنے کردار سے جبر و تشدد کے خلاف لڑ کر ظلم و جبر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ چاروں طرف دشمن پھر بھی یزید کے دربار میں حق بیان کررہی ہیں۔ آج فلسطینی عورت کو خاوند کی شہادت کی خبر ملتی ہے تو وہ غم کرنے کی بجاے اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہے کہ وہ اپنے چاروں بیٹوں کو حق کے لیے اللہ کی راہ میں قربان کرے گی۔ وہ زندہ ایمان والی عورتیں دنیا کو پیغام دےرہی ہیں کہ مسلمان عورت حضرت حاجرہ اور حضرت زینب کی طرح کتنی مضبوط ہوتی ہے۔خواتین کربلا نے مخدوش حالات میں بھی حجاب کی حرمت کا خیال رکھا اور ہم امن کی حالت میں بھی دوپٹے سے بے نیاز ہیں۔
کربلا کاپیغام کہ جب حق پامال ہو رہا ہو اور باطل کا رواج ہو رہا ہوتو اپنے سر سے زمہ داریوں کو ٹالنے کی کوشش نہ کرنا،اپنا مصلی الگ کر کے گوشہ نشین نہ ہو جانا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے وقت کی حکومت کے سامنے آواز اٹھائی۔ سر دے دیا لیکن….ناحق کی بیعت کے لیے اپنا ہاتھ نہیں دیا۔اصول…. جیت گیا اور…. جبری مفاہمت کی کوششیں ہار گئ۔ آج ہم حق کی آواز میں اپنی آواز کس قدر ملاتے ہیں؟ آج کے حسینوں کے خون آلود لاشے ہمیں کتنا متاثر کرتے ہیں؟
مسجد اقصیٰ میں عبادات میں مشغول،مصائب میں گھرے، بارود کی بارش میں ،کفن میں لپٹی لاشوں کے ڈھیر میں ، مسلسل جدجہد میں مصروف زخمی اور تھکن سے چور جن پر سر زمین القدس نازاں ہے اپنے لہو کے خراج سے امت مسلمہ کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
آج امت مسلمہ کوفیوں کی طرح خاموش تماشائی بنی ہوئ ہے۔ اس ٹیکنالوجی اور مادر پدر آزادی کے دور میں بھی صیہونیوں کی فسطائیت اور ظلم کی داستان سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ فلسطین کے معصوم نہتے عوام اپنی زمین،اپنی جانوں کی بقاء اور اس کے دفاع کے لیے مسلم حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن مسلم حکمران اپنے انجام سے بے خبر چین کی بانسری بجا نے میں مشغول ہیں۔
اہل غزہ تو شہادتوں کا رتبہ پا رہے ہیں۔ وہ مر نہیں رہے بلکہ شہیدان کربلا کی طرح امر ہو رہے ہیں۔،مر تو ہم رہے ہیں کیونکہ وھن کا کینسر تو ہمیں گھلاے دے رہا ہے،زندگی تو ہمیں پیاری ہے۔ موت کا خوف تو ہمیں ڈس رہا ہے۔
یاد رکھیں جن لوگوں نے ظاہری زندگی کو ترجیح دی اور تماشائی بنے رہے آج تاریخ میں ان کا نام بھی نہیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ ثابت کردیا کہ اگر یقین محکم اور مقصد نیک ہو تو راہ حق میں آنے والے مصائب و آلام اور باطل قوتوں کی دولت و طاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ آپ کی شجاعت و جرات رہتی دنیا کے مظلوم اور استحصال زدہ طبقوں اور قوموں کے لیے قوت مقاومت فراہم کرتی رہے گی اور ان کے مردہ جسموں کو تپش حیات مہیا کرتی رہے گی۔
٭ ٭ ٭
کاش ہم زندگی جینا جانتے
لالہ رخ
ہم زندگی جی نہیں رہے ہوتے ہم زندگی گزارتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بہت اچھی گہری بات دل کو بھائی کہ اگر ہم مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر ہم سفر نہیں کرتے ۔اگر ہم زندگی کی آواز نہیں سنتے۔ ہم خود کو خود ہی نہیں جان رہے ہوتے ۔خود اپنی ہی سوچ کی،اپنی ہی ہی ذات کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے عزم توانا نہیں کرتے۔ تو جان لیں کہ دراصل ہم آہستہ آہستہ مر رہے ہوتے ہیں ۔اگر ہم اپنی عادتوں کے خواہشوں کے غلام بن رہے ہیں اسی ڈگر پر چلتے رہنا پسند کرتے ہیں ہمارے روز و شب یکسانیت کا شکار ہیں ،اپنے گرد و پیش سے اجنبیت برقرار رکھتے ہیں دوسروں کو اپنی مدد کی اجازت نہیں دیتے ۔تو جان لیں کہ ہم دھیرے دھیرے مر رہے ہوتے ہیں ۔جب ہم اپنے جذبات کو کچلتے ہیں ۔ان لمحات سے لطف اندوز ہونے سے گریزاں ہیں۔جن سے ہماری آنکھیں چمکتی ہیں ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے۔
ہم یقین و بے یقینی کی کیفیت میں حیران و پریشاں سرگرداں کوئی بھی راستہ اپنانے کا خطرہ مول نہیں لیتے ۔کائنات میں موجود رنگا رنگ نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوتے ناں تو ہم لمحہ لمحہ مر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں خود کو اجازت دینی ہوگی ۔
سمجھدار نصیحت کے لیے بابرکت زندگی کے لیے قیمتی لمحات کو اپنانے کے لیے خوش ہونے کے لیے اچھی زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے ہمیں خود کو ایسی موت سے بچانا ہے جس میں رب سے ملاقات کا یقین ہی نہ ہو۔ جس میں رب سے ملاقات کی خوشی ہی نہ ہو ۔جس میں رب کو راضی کرنے کی خواہش ہی نہ ہو۔ ہمیں پورے یقین سے ایمان سے اعتماد سے خوشی سے جینا ہے کہ ہم اس حال میں مریں کہ رب ہم سے راضی ہو۔
٭ ٭ ٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here