۲۰۲۳ بتول اکتوبربتول فائل - امّی - صبیحہ نبوت خان

بتول فائل – امّی – صبیحہ نبوت خان

’’آپ اتنے دن بعد آئی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے آگے بڑھ کر امی کا استقبال کیا۔ میں نے امی کا ہاتھ تھاما۔ دیکھا تو دو موتی سفید براق ہاتھ پر جگمگا رہے تھے۔ یہ کس کے آنسو تھے؟ اب نظریں سوالیہ نشان تھیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ اپنی عادت کے مطابق مسکرا رہی تھیں او رکسی خیال میں گم۔
پھر یہ کس کے آنسو تھے؟ … یہ جاننے کے لیے میں نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھا تو وہاں دو کیا بے شمار موتی پھیل رہے تھے۔ لیکن میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور امی سے مخاطب رہی۔
’’آپ اتنے دن سے کہاں تھیں۔ میں روز انتظار کرتی ہوں اور آپ کو یاد کرتی ہوں‘‘ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہی تھیں۔
’’میں یہیں تو تھی تمھارے پاس! اس دن جب تم پریشان تھیں… میں نے ہی تو تمھیں پیار کیا تھا۔ کیا تم بھول گئی ہو۔‘‘ وہ رک رک کر بولتی رہیں …’’ تم بیمار ہوتی ہو تو کون تمھاری خدمت کرتا ہے؟ کون تم کو دوا پلاتا ہے ؟ کون تمھارا سر دباتا ہے؟ کون تسبیح لے کر ساری ساری رات تمھارے لیے دعائیں کرتا ہے؟ کون تمھاری صحت یابی کے نفل مانتا ہے؟ کون صدقہ خیرات کرتا ہے؟ کون ہے وہ بولو نا ‘‘ انھوں نے اتنے بہت سے سوالات کر ڈالے۔
واقعی وہ کون ہے؟ دل ہی دل میں میں نے یہ جملہ دہرایا … ’’کوئی تو ہے جو مجھے مرنے نہیں دیتا … کیا وہ آپ ہی ہیں … یقینا ً آپ ہی کی دعائوں سے میں زندہ ہوں … آپ ہی نے ہمیشہ مجھے حوصلہ دیا ہے اور گرنے سے بچایا، ہر موقع پر تھاما۔‘‘
’’پھر تم پریشان کیوں ہو۔میں یہیں تو رہتی ہوں اور اگر نہ بھی رہوں تو کیا تمھیں بھول سکتی ہوں یا تمھیں چھوڑ سکتی ہوں؟‘‘
وہ بولے جا رہی تھیں اور میں سنے جا رہی تھی۔ آنکھیں جل تھل تھیں، جسم ساکت تھا اور اس وقت صرف ایک ہی خواہش کہ وہ سامنے بیٹھی رہیں، یوں ہی بولتی رہیں اور میں ان کے وجود میں کھو کر ہر شے سے بے خبر انھیں دیکھتی رہوں اور سنتی رہوں کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا۔ سارا طلسم اس گھنٹی کی ٹرن ٹرن میں گھومنے لگا۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا۔ آنکھوںکے سیلاب اور دل کی جلن کو چھپا کر مسکرانے کی کوشش کی۔ آواز کو بدلا۔ ریسیور اٹھایا تو بے ربط آوازیں آنے لگیں۔
’’کیا کھانا تیار ہے؟ میرے ساتھ کھانے پر کچھ اور لوگ بھی ہوں گے۔‘‘یہ سنتے ہی میں سٹپٹا گئی واقعی میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں پکایا۔ ’’کیا آپ بازار سے کچھ نہیں لا سکتے؟‘‘
’’نہیں بھئی بہت سے لوگوں کے ساتھ بازار جانا ممکن نہیں۔ تم کچھ سادہ سا کھانا بنا لو۔‘‘
انھوں نے یہ کہہ کر فون تو بند کر دیا لیکن میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اف اللہ اب کیا کروں؟ کیا چیز جلدی پک سکتی ہے؟ گھر میں آلو ہی تھے جو اس وقت جلدی پک سکتے ہیں یہ سوچ کر میں نے آلو انڈے کا سالن ، آلو کا بھرتا، آلو کی کھیر اور آلوکے پراٹھے بنا ڈالے۔ اس وقت میرا دھیان کھانے میں ہی تھا۔
اچانک ایسا لگا کسی نے آواز دی گھوم کر دیکھا تو امی …
’’ارے آپ یہاں چلی آئیںمیرا کام ختم ہو گیا ہے۔‘‘
میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں صوفے پر بیٹھ گئے ۔ امی کا وہی شکوہ ’’تم کو تو بات بھی کرنے کی فرصت نہیں ملتی ہے۔ کام اتنا ہی کرو جس کا بوجھ آسانی سے اٹھا سکو حد سے زیادہ کام نے تمھاری صحت خراب کر دی ہے۔‘‘
’’امی یہ سب تو پرانی باتیں ہیں کوئی نئی بات سنائیں۔‘‘
’’میرے پاس کون سی نئی بات ہے۔‘‘ انھوں نے سر جھکا کر میرا ہاتھ سہلانا شروع کر دیا۔ ’’کتنے کمز ور ہو گئے ہیں … رگیں تک ابھر آئی ہیں۔‘‘
اتنے میں کچھ جلنے کی بدبو آئی ’’ارے کچھ جل رہا ہے میں ابھی آئی۔‘‘ یہ کہہ کر کچن کی طرف دوڑی آلو کی بھجیا جلتے جلتے بچ گئی۔ شکر ہے پیچھے سے آواز آئی ’’کیا جلا‘‘ دیکھا تو امی پھر کھڑی تھیں۔
’’بچ گیا امی…‘‘ ’’شکر ہے‘‘ انھوں نے بھی شکر ادا کیا۔ ’’ارے آپ یہاں گرمی میں بار بار کیوں آجاتی ہیں‘‘ وہ مسکرائیں۔ ’’میرے لیے گرمی ہے تو تمھارے لیے کیا ہے؟‘‘ ان کی بات تو صحیح تھی … لیکن میں نے انھیں تسلی دینے کے لیے کہا ۔’’ امی میں تو ہر تکلیف برداشت کر سکتی ہوں۔ پھر مجھے تو یہ سب کرنا ہی ہے نا؟ گرمی کیا اور سردی کیا۔‘‘
’’کیوں تم انسان نہیں ہو ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑ گئیں۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھی۔’’ چلیں اب آپ لیٹ جائیں میں آپ کے لیے فیض احمد فیض کی پسندیدہ غزل لگاتی ہوں۔ ‘‘’’نہیں بھئی مجھے نہیں سننا۔‘‘ امی نے پہلی دفعہ غزل کے بارے میں یہ بات کہی۔ ’’کیوں امی…‘‘
’’بس تم میرے پاس بیٹھی رہو ۔ تمھیں تو بات کرنے کی فرصت ہی نہیں۔‘‘
’’میں نے سوچا تھا میں صفائی وغیرہ کر لوں گی اتنی دیر میں۔‘‘
’’بھئی تمھارے ساتھ تو یہی مسئلے لگے ہوئے ہیں۔ پھر میرے آنے نہ آنے کا شکوہ کیوں کرتی ہو۔‘‘
’’اچھا چلیں میں یہیں بیٹھی ہوں بس میں آپ کو اب جانے نہیں دوں گی آپ کے بغیر بہت سناٹا ہوتا ہے۔ کوئی بات کرنے والا ہی نہیں ۔ کوئی ہمدرد بھی نہیں۔ کوئی نہیں کہتا تم نے اتنا کام کیوں کیا۔ بس آپ یہیں رہیں یا مجھے اپنے پاس بلا لیں۔‘‘ میں نے روتے ہوئے امی سے التجا کی۔ انھوں نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
’’تم رویا نہ کرو۔ مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے ۔ تمھارے آنسو میری برداشت سے باہر ہیں اور اگر تم اسی طرح روتی رہیں تو میں آنا چھوڑ دوں گی۔ میں نے تمھیں جو کچھ سبق دیے تھے کیا وہ بھول گئی ہو۔ میں نے تمھیں ہمیشہ صبر کی تلقین کی اور تم کو ویسا ہی پایا۔ تم نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا نہ کسی سے حسد نہ کسی سے نفرت نہ کسی کی برائی۔ پھر یہ بار بار کا رونا کیسا۔ شاید یہ تمھارے لیے آزمائش ہے اور ایسے ہی صابر لوگوں کو اللہ تعالیٰ آزماتا ہے۔ یہاں جو صابر ہے وہی اس کی محفل میں سرخرو ہوتا ہے اور کندن بن کر نکلتا ہے۔ اس لیے بجائے رونے کے یہ سوچو کہ ہر کام میں اس کی کوئی نہ کوئی بھلائی ہو گی جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس سے شکوہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ رحیم بھی ہے کریم بھی ہے اور محبت کرنے والا ہے۔ وہ ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ پتہ ہے تمھیں میری محبت کچھ بھی نہیں۔ تو کیا تم اس کی محفل میں سرخرو ہونا نہیں چاہتی ہو؟‘‘یہ کہہ کر امی نے میرے آنسو پونچھے۔ میں نے ان کی گود میں سر رکھ دیا۔
’’مجھے آپ کی ہر بات یاد ہے … ہر بات یاد آتی ہے امی … میری آنکھوں میں ، دل میں، دائیں بائیں ، آس پاس پورے گھر میں ، پورے ماحول میں، خوابوں میں، حقیقت میں صرف آپ اور آپ کی باتیں ہی ہیں۔‘‘
’’بس تو پھر ان اللّٰہ مع الصابرین، یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اسی کو یاد رکھو وہ تمھارے ساتھ ہر ہر قدم پر ہے۔ یہ سب آزمائش ہے میری بیٹی۔‘‘
ابھی امی نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ امی نے پیار بھری نظروں سے دیکھا۔ ’’جائو دروازہ کھولو اور مہمانوں کو دیکھو ۔ ‘‘میں نے اپنے آنچل سے آنسو پونچھے ۔ امی کے پاس سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن اٹھنا تو تھا۔ دروازہ کھولا میز لگائی اور کھانا لگایا۔ مزے لے لے کر سب نے کھانا کھایا۔ میں ٹرے لگا کر امی کے لیے کھانا لے کر کمرے میں آئی تو کمرہ خالی تھا۔ میں ٹھٹھک گئی ۔’’ ارے امی …‘‘ وہ کہیں بھی نہیں تھیں لیکن ان کی خوشبو سے پورا کمرہ معطر تھا اور ہر کونے سے ایک ہی آواز آ رہی تھی۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ ٭
٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here