’’بارش کے بعد‘‘منشورات کا شائع کردہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب پر سلیم منصورخالد، فرزانہ چیمہ اورصائمہ اسماءجیسی قدآور شخصیات کے تبصرے قیمتی اثاثہ ہیں۔
مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’شام و سحر تازہ کریں ‘‘شگفتہ اسلوبی سے لکھی تحریر بہت پراثر بھی ہے جو دوران مطالعہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ پرانے زمانے کی خوبصورت منظرکشی پڑھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔ تاریخی، تہذیبی اور سماجی قدروں کے ذکر نے تحریر میں جان ڈال دی ہے۔ بڑی بڑی حویلیاں، باغ، جھولے، اور پھول پودے، برآمدہ و تخت اور تخت پر دادی اماں اور ان کا پاندان وغیرہ یہ تمام باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔ وفا اور حیا کا بڑے خوبصورت پیرائے میں ذکر، پاکیزہ جذبوں کی حقیقی ترجمانی، مغربی تہذیب سے متاثر اولاد کی بے حیائی اور بے اعتنائی پر بحیثیت باپ عبد الرحیم مرزا کا ملول ہونا، ان سب قصوں میں حقیقت کا رنگ نظر آیا۔ ہر پہلو سے یہ ایک شاہکار تحریر اور بہترین افسانہ ہےجو افسانہ نگار کی فن پہ گرفت کا ثبوت دے رہا ہے۔
’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی ‘‘یہ کہانی آپ کی پاکستان سے دلی محبت اور اس کی تاریخ سے گہری وابستگی کا مظہر بھی ہے۔ آپ نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی داستان، اس المیے کے جنم لینے کی حقیقی وجوہات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ بات قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اس کہانی کو پڑھ کر کوئی جذباتی نہ ہو،مجھے تو ایسا لگا کہ میرا زخم تازہ ہوگیا۔ ان بنگالیوں کا یہ کہنا ’’یہ چمن ہم کو آدھا گوارا نہیں‘‘ یقین کریں اس فقرے نے تو جیسے دل چیر کر رکھ دیا۔ ہمارے لیے تو اس میں شرمندگی ہی شرمندگی ہے۔ مگر اب کس کو شرمندگی ہے، کارواں کے دل سے احساس زیاں ہی جاتا رہا۔آہ! کس کس بات کو روئیں۔سقوط ڈھاکہ ایک ناقابل فراموش المیہ اور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک سیاہ دن تھا۔ اس افسانے میں مصنفہ نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔
افسانہ ’’تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ‘‘ میں حقیقت کا رنگ اور مشرقی روایت کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کے افسانے محض تفریح طبع کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اصلاحی پہلو لیے ان میں ایک مثبت پیغام بھی ہوتا ہے۔ معاشرے میں وقوع پذیر واقعات پر اپنے خیالات و احساسات کو اپنے قلم سے صفحۂ قرطاس پر اس خوبصورتی سے بکھیرنا کہ قاری کو یوں محسوس ہو جیسے یہ بالکل سچا واقعہ ہو۔ یہ آپ کے قلم کا ہنر ہے۔
افسانہ’’ پہلا پاکستانی‘‘ معلومات سے بھر پور ،روانی و سلاست کا اعلیٰ نمونہ ہے۔’’پہلا پاکستانی کون؟‘‘ کا تجسس بھی خوب دلچسپ ہے۔ کاش قائد اعظم کے اس معیار پرہم پورے اترتے تو آج پاکستان واقعی امت مسلمہ کی رہنمائی کرسکتا تھا۔
بشریٰ تسنیم میں لکھنے کی زبردست خداداد صلاحیت ہے ۔بہترین تماثیل،الفاظ کی نشست و برخاست،بہت عمدہ اور مدلل حکایتیں تحریر کو مستند کر دیتی ہیں ۔افسانہ ’’دست کشکول‘‘ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے جو قاری کے ذہن کو مثبت اندازفکر دینے کی ساری خوبیاں رکھتی ہے ۔
افسانے پھولوں کے دشمن، خزاں کے بعد بہار آئی، سوز دروں، وہ دل وہ دیا، مذکورہ مختصر افسانے بھی بہت اچھے اور دلچسپ ہیں ۔ عمدہ خیالات اور حقائق سے قریب تر مقصدیت سے پُر، معاشرے کی بے حسی، لوگوں کے نامناسب رویے، نا روا رکھے جانے والے سلوک، انسان کو یہ احساس دلانا کہ وہ کون ہے اور کیا ہے، خصوصا گرمیوں میں کھلی
چھت اور آسمان کا منظر، سردیوں کی راتیں، رات کو گلی میں کتے بھونکنے اور لحاف میں دبک جانا، نانی اماں کا ہجرت کی کہانی بیان کرنا ۔۔۔بہت ہی حقیقی تاثر ملتا ہے۔ داستانی اسلوب میں خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ باتیں پڑھ کر مجھے اپنی دادی مرحومہ یاد آگئیں۔وہ بھی ہمیں بچپن میں اکثر اپنے ہجرت کے واقعات سنایا کرتی تھیں جسے ہم بھائی بہن بہت دلچسپی سے سنا کرتے تھے
افسانہ ’’بارش کے بعد‘‘جو اس مجموعے کا عنوان بھی بنا، واقعی منفرد اور عمدہ ہے ۔ احساسات و خیالات کو کمال خوبی سے تحریر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اخلاص کے ساتھ دل سے نکلی ہوئی صدا رائیگاں نہیں جاتی ۔
تمام افسانے بہت خوبصورت، دلکش اور پُر اثر ہیں اورنسل نو کو اپنے دین و وطن سے محبت اور اخلاقی تربیت کے لیے بہترین ہیں ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
٭ ٭ ٭