”میرے تایا بہت بیمار ہیں پلیز پلیز ان کے لیے دعا کریں اللّہ ان کے لیے آسانیاں کریں‘‘۔
”کیا ہے یہ سب ؟“امی نےارم کےموبائل پرآنےوالےمیسج کودیکھتےہوئےکہا۔” اسے پڑھ کر تو دعا کرنے کے بجائے ہنسی آنے لگتی ہے ،مذاق محسوس ہوتا ہے ،بھلا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اتنا پریشان ہو اور ان الٹی سیدھی ایموجیز کے ساتھ دعا مانگنے کو کہے۔“
’’امی لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں جبھی تو دعا کرنے کو کہتے ہیں۔ ‘‘
ارم نے فیس بک کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے ماموں جان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اور جان کی بازی ہار گئے۔‘‘
امی نےایک اورمیسج پڑھا۔پھرارم سےدریافت کیا۔
’’ اچھا! فرض کرو کہ تمہارا کوئی قریبی بیمار ہو تو تم کیا فیس بک کھول کر اسٹیٹس ڈالنے بیٹھ جاؤ گی ،؟ اتنی پھول پتیوں اور ایموجیز کے ساتھ سب سے دعا مانگنے کے میسج کرنے لگو گی یا اس پریشانی میں تم کو یہ خیال آئے گا کہ صرف اور صرف اللّہ پاک سے مدد مانگو ؟‘‘
’’ اوہو امی ، ہم ہر جگہ خود کو کیوں رکھ کر سوچیں ، بھئ کسی نے کہا ہے کہ دعا کرلو تو بس ہم آمین لکھ کر آگے بڑھ گئے ،کیا پتا کس کی دعا قبول ہو جائے۔‘‘ ارم نے کہا اور وہاں سے اٹھ جانے میں ہی عافیت جانی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ امی کو قائل نہیں کرسکتی۔
یوں تو ارم کی امی بھی فیس بک استعمال کرنے کے خلاف نہیں تھیں مگر کسی بھی چیز کے غلط استعمال پر ان کو غصّہ آ جاتا تھا ۔
ایک دن ارم کا بھائی عدنان سیڑھیوں پر سے گر گیا ارم اس کے قریب ہی تھی اس نے گھبرا کر امی کو آواز دی ۔
’’ امی، امی! جلدی سے آئیں ،عدنان سیڑھیوں سے گر گیا ہے‘‘ مگر فوراً ہی خیال آیا کہ امی تو گھر پر ہی نہیں ہیں۔ اس نے بڑی مشکل سے بھائی کو اٹھایا اور سہارا دے کر کمرے میں لے کر آئی،شکر ہے اس کے خون نہیں نکلا تھا۔ پھر اس نے امی کو فون کیا،امی جلد ہی آگئیں۔
عدنان کے پاؤں میں بہت درد ہورہا تھا۔ امی اس کو ڈاکٹر کے ہاں لے گئیں تاکہ اس کا ایکسرے وغیرہ کروا لیں۔ارم گھر میں اکیلی تھی،وہ دعا کر رہی تھی کہ اس کا بھائی ٹھیک ہو ،وہ مسلسل دعا کر رہی تھی کہ اچانک اس کو خیال آیا کہ فیس بک پر لکھ دیتی ہوں میری دعا پر سب آمین لکھیں گے تو بھائی جلد ٹھیک ہو جائے گا ۔ اس نے موبائل اٹھایا ہی تھا کہ امی اور بھائی واپس آگئے ۔ امی نے بتایا ’’ ہلکی سی موچ آئی ہے فکرکی کوئی بات نہیں۔عدنان جلد ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘
ارم نے اللہ کاشکر ادا کیا ۔
’’ موبائل پر کیا کر رہی تھیں‘‘؟ اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر امی نے پوچھا تو وہ تھوڑا سا گھبرا گئ’’ وہ میں …..‘‘
’’کیا ہوا گھبرا کیوں رہی ہو؟ ‘‘امی سمجھ توگئی تھیں مگران جان بنتےہوئے پوچھا ۔
’’ وہ میں سوچ رہی تھی کہ فیس بک پر سب سے کہوں کہ میرے بھائی کے لیے سب دعا کریں کہ اس کو زیادہ چوٹ نہ آئی ہو۔‘‘ ارم نے کہا ۔
’’ اچھا پھر کیا جواب آیا؟‘‘ امی نے پوچھا ۔
’’ ابھی میں نے صرف سوچا تھا کہ آپ آگئیں ،لکھا نہیں تھا‘‘ ارم نے بتایا ۔
’’ تو تم اتنی دیر تک کیا کرتی رہیں، فورا ہی کیوں نہیں میسج لکھا۔‘‘ انہوں نےتعجب کااظہارکیا۔
’’ اف امی میں اتنی پریشان تھی ،بس اللّہ تعالیٰ سے دعا مانگتی جارہی تھی ،فیس بک کا تو خیال بھی نہیں آیا،اب اچانک ہی خیال آیا توآپ دونوں آگئے‘‘۔
اس نےکہا۔
’’ اچھا یہ بتاؤ اگر تم لکھتی تو کیسے لکھتی ؛ ڈھیر ساری ایموجی رونے والی ،دعا والے ہاتھ ،پلیز کے لیے ہاتھ جوڑنے والی ایموجی ؟‘‘ انھوں نےپوچھا۔
’’ نہیں امی کہاں ، میں تو شاید بس لکھ دیتی کہ سب دعا کریں ،بلکہ پتا نہیں وہ بھی لکھ پاتی یا نہیں،اتنا رونا آ رہا تھا کہ بس۔‘‘ اس نےسچائی سےکہا۔
’’تو میری گڑیا ،میں تم کو یہ ہی تو سمجھا رہی تھی کہ اگر انسان اتنا پریشان ہو تو صرف اللّہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتا ہے ،جو لوگ اس طرح کے میسج لکھتے ہیں تو صرف لائکس کے لیے ،یا فضول توجہ حاصل کرنے کے لیے ، ایسا ناممکن ہے کہ ہم پریشانی میں ایسے پھول پتیوں اور شکلوں والے میسج کریں ،تم اللّہ تعالیٰ سے مدد مانگ رہی تھی تو شیطان نے تم کو بہکایا اور تم اللّہ کے بجائے اس کے بندوں سے مدد مانگنے کا سوچنے لگی۔‘‘انھوں نےلوہاگرم دیکھ کرچوٹ ماری۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں امی ، مجھے آج یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آ گئی۔‘‘ ارم نے مسکراتےہوئے امی کےگلےمیں بانہیں ڈال دیں۔٭