بتول اگست ۲۰۲۴اٹھتے ہیں حجاب آخر سوالات کے جوابات پر مبنی حکیمانہ گفتگو سے...

اٹھتے ہیں حجاب آخر سوالات کے جوابات پر مبنی حکیمانہ گفتگو سے انتخاب؎۱ – بتول اگست ۲۰۲۴

صدقات کا نظام
میرے خیال میں صدقات ایک فرد کی نہیں ، بلکہ اس ملک کی بلا ٹال دیں گے ۔ صدقات واحد نظام ہے ، جو سود کو ختم کرتا ہے ۔ قرآن و حدیث کے مطابق صدقات کے نظام کے نفاذ کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت سود کو ختم نہیں کر سکتی ۔ پرور دگار عالم نے فرمایایمحق اللہ الربو ویربی الصدقاتاللہ سود کو گھٹاتااور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ جس ملک ، معاشرے اور پورے نظام میں صدقات کی کوئی سر کاری سطح نہ ہو ، وہاں سود کیسے ختم ہو سکتا ہے ؟
خطبہ حجۃ الوداع کا دن ہے ۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ آج کے دن میں تمام سود باطل قرار دیتا ہوں ۔ سب سے پہلے میں اپے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود ختم کرتا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ کے دن تک عباسؓ سود لے رہے تھے۔ان کو پہلے کیوں نہیں منع کیا گیا ؟۲۲ برس قرآن اترتا رہا اور عباسؓ سود لیتے رہے۔ کیا اللہ کے رسولؐ شروع سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ سود حرام ہے ، جبکہ دو آیات پہلے اتر چکی تھیں ۔آخری دو آیات میں سے ایک آیت یہ تھی کہ جو یہ کام کرے گا ، اللہ کے رسولؐ سے جنگ کرے گا ۔ اس سے پہلے ۲۲ برس قرآن کے اترنے تک لوگ اس کو لیتے دیتے رہے ۔ حتیٰ کہ خطبہ حجۃ الوداع والے دن حضور ؐ اکرم نے سود کو اپنے تعلق داروں سے باطل کیا اور عمومی سطح پر اس کو نافذ ٹھہرایا۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟
وجہ صرف ایک تھی کہ ابھی تک اسلام کے اپنے سسٹم نفاذمیں نہیں آئے تھے ۔ اس کے زکوٰۃ اور صدقات کے نظام میچور ہو رہے تھے ۔ خدا ایسا نہیں ہے کہ وہ محض نعروں سے کام لیتا ۔ خدا ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگوں کی جبلتوں پر بے جا دبائو ڈالتا ۔ خداکو پتہ تھا کہ جب تک اس سسٹم میں متقابل نہ دے لوں ، اس سسٹم کو باہر نہیں نکال سکتا ۔ خدا نے انسانوں سے ایک ایک چیز چھڑانے میں سالہا سال لیے ۔ کہاں وہ یسٔلونک عن الخمرکا وقت اور شراب کے بارے میں پوچھا گیا قل فیھمااثم کبیرا و منافع للناس اس میں لوگوں کے لیے کچھ نفع ہے، مگر اس کی برائیاں اس کے نفع سے زیادہ ہیں ۔ کسی نے چھوڑی ، کسی نے نہ چھوڑی۔
کچھ اور وقت گزر گیا ۔ پھر خدا نے قرآن میں فرمایا ، دیکھو! تمہاری سائیکی لات و منات پر فکس ہے ۔ شراب پی کر تمہارا شعوری یقین ختم ہو جاتا ہے ۔ تمہارا Libidoتمہارے ذہن سے لات و منات کو نکال لاتا ہے ۔ اس حالت میں جب تم نماز پڑھتے ہو ، تو تم نہیں جانتے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ لا تقربو الصلوۃ وانتم سکریٰ نشے کی حالت میں تم نماز کے قریب نہ جائو ۔ کچھ لوگوں نے چھوڑی ، کچھ نے جاری رکھی۔ حتیٰ کہ تیسرے مقام تک پہنچ گئے ۔
کیا اللہ جیسے بڑے استاد کا یہ طریقہ ہو سکتا ہے کہ بغیر وقت دیے اور بغیر تبدیلی کے احکامات کی گنجائش فراہم کیے اچانک کوئی فیصلہ مسلط کر دے ؟اسی طرح آپ کوئی بھی تبدیلی لانا چاہتے ہیں ، تو اس کی قبولیت میں اس کے داخلی عقیدے کے لیے آپ کو وقت دینا لینا پڑتا ہے ۔ فوری تسلیم کوئی تسلیم نہیں ہے ۔ اگر ایک شخص ایک دن شراب پی رہا ہے دوسرے دن داڑھی رکھ کر تبلیغ کے لیے چلا جاتا ہے ۔ وہ آپ کے نزدیک مقدس ہو سکتا ہے ، ہمارے نزدیک وہ ایک ارتجاعی ہے ۔اس کے باطن میں کوئی تفہیم ڈیولپ نہیں ہوئی ۔ اس وقت تک ، جب تک وہ غور و فکر کے ساتھ ایک شرعی فیصلہ نہ کرے کہ میں نے اس رستے سے ہٹنا ہے اور اس رستے پر جانا ہے ۔
پروردگار عالم نے اپنے دین کوفہم و فراست اور اخلاق کی پختگی کے لیے پیدا کیا ۔ صدقات میں سب سے بڑے صدقہ کا فائدہ یہ ہے کہ وہ آپ کے پورے نظام سود کو ختم کرتا ہے ۔ یہ انفرادی کام نہیں ہے ۔ یہ ریاست کا کام ہے لوگوں کو اس کا مقصد بتائے اور یہ بتائے کہ ہم سود ختم کرنا چاہتے ہیں اور صدقات شروع کرنا چاہتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ہر اچھا کام صدقہ ہے ۔ کسی کو رستہ دکھانا ، ایک کھجور دینا صدقہ ہے ۔ حسن کلام اور کسی کی طرف مسکرا کے دیکھ لینا صدقہ ہے ۔ اچھے چہرے کے ساتھ برے چہرے والے کو ملنا صدقہ ہے ۔ صدقے کی نوعیت اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی ۔ صدقہ احساس ہے اور عمل بھی ۔ صدقہ کسی بھی معاشرے کے سخت رویوں کو نرم کرتا ہے ۔ یہ جو معاشرہ اندر ہی اندر اپنے سخت موقفات پر قائم ہو جاتا ہے اور جو ایک ابدی نفسیات کے تحت مقبولیت نہیں دکھاتا ، تو صدقہ سے اس میں قبولیت پیدا ہوتی ہے ۔ صدقہ قوت برداشت پیدا کرتا ہے ۔ کیونکہ صدقات کی وسعتیں کلام سے عمل تک ایک ہی طرح محیط ہیں ۔
مہارتوں کا حصول
میں شاید اس سے اتفاق نہیں کرتا ۔ جوں جوںزمانہ آگے بڑھ رہا ہے ، خدا کی وضاحتیں اور اس کے نظام مزید نکھر کر سامنے آ رہے ہیں ۔ کل کی متشابہات آج کی محکمات ہو رہی ہیں ۔ بعض آیات گرامی ، جو اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں نہیںتھیں، وہ آج کمپیوٹر یا جدید علوم کی وجہ سے بالکل واضح طور پر ہمیں سمجھ میں آ رہی ہیں ۔ سو علم جدید ہو یا قدیم ، اپنے زمانے میں قوت فیصلہ رکھتا ہے ۔ جب ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین سے سوال کیا کہ حضرت گرامی! آج تک آپ لوگ زندہ ہیں ، جن سے ہم علم سیکھ لیتے ہیں ، کل کو کیا ہوگا ؟ فرمایا ، ہر زمانے کا علم قرآن کی بہتر تفسیر میں مدد دیتا ہے ۔ اس کے لیے آج کے علوم ، آ ج کے زمانے میں قرآن کی بہتر تفسیر کر رہے ہیں ۔ اسلام جدید علوم کے راستے کی قطعاً رکاوٹ نہیںہے ۔
رزق حلال کا جہاد
ہم میں اور ایمان والے میں ایک بڑا فرق ہوتا ہے ۔ وہ فرق یہ ہے کہ ہم اس عرصے میں ، جس میں ہمیں خدا پر اعتبار کرنا چاہیے ، اسی عرصے میں ہم اسباب پر اعتبار کرتے ہیں ۔ خدا کو ہم نے کبھی مجبوری اور جبر کے حالات میں آزمایا ہی نہیں ۔ در اصل ہم بہت زیادہ کمٹیڈ نہیں ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال ذاتی حوالے سے کہ لاہور کالج چھوڑا ، تو میرے پاس محاورتاً پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اور مجھے قرض اتارنے کے لیے اپنی ایک چار پائی اونے پونے بیچنی پڑی ۔ میں وہاں سے واپس آگیا کہ جو روکھی سوکھی مل گئی ، کھا لوں گا ۔ میرا اس وقت تھوڑا سا پراویڈنٹ فنڈ بنا ہؤا تھا ۔ جب میں وہ لینے گیا ، تو بادشاہ لوگوںنے کہا کہ کچھ رقم لگے گی ، ایسے نہیںنکلے گا ۔ مجھے اس وقت غصہ آیا ۔ میں نے پروردگار سے کہا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس پراویڈنٹ میں میری زندگی ہے یا بڑے اسباب میں میری زندگی ہے ؟ میں نے اسے وہیں چھوڑا اور گھر آگیا ۔ خدا نے مجھے زندہ رکھا ۔ دس سال بعد وہ پراویڈنٹ فنڈ میرے گھر میںمیرے محکمے نے مجھے ڈیلور کیا۔
کیوں نہ ضرورت میں ہم تھوڑا سا خدا کوآزما لیں ۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ حالات و معاملات سے کارنر ہوگئے ہیں ۔ تھوڑا سا جھک جائیں اور خدا کو یہ بتائیں کہ ہم تم میںیقین رکھتے ہیں نہ کہ اشیا میں ، تو مجھے یقین ہے کہ آپ نہ صرف خدا کو پاجائیں گے ،بلکہ انشاء اللہ معاملات کو بھی پاجائیں گے ۔
ہر سسٹم کا متبادل سسٹم
معیشت کے سوالات حکومتی ڈھانچے ، معیشت کے سپر سٹرکچر اور فیصلہ سازی کے سپر سٹرکچر سے متعلق ہیں ۔مثلاً ایک عالم فتویٰ دیتا ہے کہ بینکوں کی تمام نوکریاں حرام ہیں ، اگر اس قسم کے دو چار دس فتوےاور آجائیں ، تو میرے خیال میں پاکستان میں زندگی بڑی مشکل ہو جائے گی اور ہر آدمی کام کاج چھوڑ کنارے لگ جائے گا ۔ چونکہ بہت سارے معاملات میں معیشت اور معاشرت کی ذمہ داری حکومتی نظام پر ہوتی ہے ، تو جب تک کوئی حکومت واضح تبدیلی کا ثبوت نہ دے اور کسی مقصدیت یا اسلام کو فروغ نہ دے ، اس وقت تک اسلام جزوی طور پر کسی قیمت پر نافذ نہیں ہو سکتا۔
اسلام ایک ملا جلا نظام ہے ، جس میں نظام عدل بہت ضروری ہے ۔ جب آپ موجودہ زمانے میں دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ اسلامی شریعت غالباً سب سے مظلوم گدائوں کی طرح ہے ۔ میں نہیں سمجھ سکا یہ حضرات بیٹھے ہوئے وہاں کرتے کیا ہیں ؟ تمام تر قوانین و معاملات غیر اسلامی قوانین کے پیٹرن میں طے ہوتے ہیں ۔ ہمیں خدا کی توہین کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس کے قانون کوابتر حالت میں رکھتے رہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے اور ایسا ہی کرتے رہے ، تو خدا ہمیں کبھی امن نہیں دے گا ۔
فرض کیجیے کہ تمام مسلمان شعوری طور پر کسی نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، تو خدا نے ہر سسٹم کا متبادل سسٹم دیا ہے ۔ جیسے کہ لوگ سود کی بات کرتے ہیں تھوڑا سا غور کریں تو پتہ لگے گا کہ پورے قرآن حکیم میں سود کے بارے میںصرف ایک آیت ہے ، جو اصولی آیت ہے ۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ خدا نے کہا کہ جو یہ کام کرے گا ،وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے ۔مگر بحیثیت اصول سود کے بارے میں اللہ نے بڑی مختصر سی بات کی اور بات ختم کردی یمحق اللہ الربو ویربی الصدقاتکہ اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ اگر سود سرکاری اور قومی سطح پر لیا جا رہا ہے اس کو کم کرنا ہے اور خدا کو آزمانا ہے تو آپ کو صدقات کے نظام بھی گورنمنٹ کی سطح پر بڑھانے ہوں گے ۔ جب آپ کے پاس ایسا کوئی سسٹم وجود نہیں کرتا نہ آپ اس کو چلانے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں تو جومرضی ہے کرلیں ، آپ سود سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ۔انفرادی سطح پر آپ کی سلامتی ، آپ کی جان اور آپ کی زندگی اضطراب میں ہے ۔ پیسہ پاس رکھنے میں خطرہ ہے ، تو اول تو خرچ کر دیا کریں ، ورنہ مجبوری کی بات اور ہے ۔
حلال و حرام گڈ مڈ
آج کے دور میں رزق حلال اور حرام کچھ اس طرح آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ حلال والے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کھا رہا ہے ؟ کدھر سے کما رہا ہے ؟ وہ محنت بھی کرتا ہے اور تردد میں بھی رہتا ہے ۔ وہ اپنی حد تک تو بڑا نیک نیت ہوتا ہے ،مگر حلال کھانے کے تمام رستے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں ۔ ایسے عالم میں اس پر بھی اضطراب کا قانون لگتا ہے ۔ اگر جان جا رہی ہے اور کوئی ذریعہ زندگی نہیں ہے تو پھر اپنی حد تک حلال کھائو ۔ جیسے یہ رشوت کا قانون ہے ۔ ایک دیانتدار آدمی بھی موجودہ کاروبار زندگی میں کسی قسم کی حرکت کو جاری نہیں رکھ سکتا ، جب تک وہ رشوت نہ دے لے ۔ میرے نقطۂ نظر سے نقصان ہوتا ہے ، ہوجائے ۔ جو رزق نہیں ملتا ، نہ ملے ، میں اس رزق کو حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کرتا ۔ یہ میری حد تک ہے ۔ اگر کسی رزق میں حرام کا شائبہ ہو اور اس کے بغیر گزر بھی نہ ہو ، تو اس پر بھی وہی اطلاق لگے گا کہ انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر۔
قرآن کی تلاوت یا مطالعہ
ہر کتاب خواہ معمولی ہو یا بڑی، اس میں کسی نہ کسی گائیڈ یا پڑھانے والے کی ضرورت پڑتی ہے۔ قرآن حکیم تواتنی بڑی کتاب ہے کہ پوری کائنات کے موضوعات اس میں موجود ہیں۔ بہت ساری قرآن حکیم کی شرحیں، جو میںنے دیکھی ہیں، ان میں بنیادی نقص شارح میں نہیں، بلکہ شارح کے علم کے معیار میں پایا ۔ ایک بڑا عالم بھی یک طرفہ عالم ہونے کی حیثیت سے کچھ آیات کی وضاحت اچھی طرح کر لیتا ہے ۔ مگر وہ باقی آیات کی وضاحت میں کمزور رہ جاتا ہے ۔
اگر ہم علم سے تعصب نہ رکھیں مگر شارح یا مفسر سے تعصب رکھیں ، تو ہمارا علم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی ناقص رہ جاتا ہے ۔ اس میں مسلک ملوث نہیں ہے ۔ اسی تردد میں میں نے لاہور میں ایک قرآن دیکھا ۔ اس کی اشاعت انہوں نے عدم فروختگی کے باعث بند کردی تھی ۔ اشرف بک ڈپو نے اسے شائع کیا ۔ قرآن کا نام فوائد سلفیہ اشرف الحواشی تھا ۔ میں اسے اپنے نصیب کی خوبی کہتا ہوں کہ مجھے یہ قرآن ملا ۔ اس میں ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ مدون اور مرتب نے اس میں قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ تر اصحاب رسولؐ کی تفسیر درج کی تھی ۔میرے لیے یہ بات بڑی خوش آئند تھی کہ قرآن کی جس آیت کو اصحاب رسولؐ نے جیسے سمجھا ، اگر میں اس معیار اور سادگی تک پہنچ جائوں ، تومیرا نصیب بن جائے۔ میں آپ کو مذکورہ قرآن حکیم میں اصحاب کی تفسیر کے جو خوبصورت پہلو نظر آئے ، بتاتا ہوں ۔
قرآن کی ایک آیت ہے واعبد ربک حتی یا تیک الیقین کہ تو یقین تک پہنچے Till death you cannot confirm your opinion
عبوری عرصے میں کبھی بھی اپنی رائے کو حتمی نہ جاننا۔ جب آپ زندہ ہوں اور علمی جدوجہد کر رہے ہوں ، تو اس وقت تک کبھی بھی نتائج نہ نکالنا ۔ اپنے آپ کو ہمیشہ ایک طالب علم کی طرح نرم رکھنا اور سیکھتے رہنا چاہیے ۔حتیٰ کہ تو موت تک پہنچے ۔ میں اس شخص کا بہت شکر گزار ہوں ، جس نے قرآن کا یہ ترجمہ ترتیب دیا اور وہ اتنا قیمتی قرآن ہے کہ اس کے حاشیے میں تفسیر صحابہ درج ہے ۔ آج تک مجھے قرآن فہمی میں اصحابؓ کی رائے کے آگے کسی رائے کی ضرورت نہیں پڑی۔
اب ایک اور مثال سائنسی اشو کے حوالے سے قرآن میں سے بتائوں ۔ ایک جگہ قرآن نے کہا کہ زمین پہلے بنائی۔ دوسری جگہ کہا ، آسمان پہلے بنایا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ زمین اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں کس بیان کو کہاں ایڈجسٹ کیا جائے ؟ کہیں ان میں تضاد نہ آجائے ۔ میں نے تقریباً تمام وضاحتیں دیکھیں ۔ بڑے بڑے عالموں کی تفاسیر سے رجوع کیا ، جو قرون وسطیٰ سے چلتی تھیں ۔ کسی جگہ مجھے اس کی وضاحت نظر نہیں آئی ۔ میرے نقطہ نظر سے یہ واحد تضاد تھا ۔ جب میں زیر نظر قرآن پڑھ رہا تھا ، تو کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ٹھیک یہی سوال پوچھا تھا ۔ ان کا جواب اتنا سائنٹفک تھا کہ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ ایک صحابی کی فہم و فراست کہاں تک پہنچتی ہے ۔ فرمایا کہ زمین پیدا تو پہلے کردی گئی تھی، مگراس کا ظہور اور پھیلائو بعد میں سامنے آیا۔
غور طلب بات ہے کہ دو ارب سال جمع دو ارب سال تو زمین تو پہلے چھ ارب سال میں جدا ہو گئی تھی ۔ مگر اس کے پھیلائو اور ٹھہرائو میں دو ارب سال اور گزر گئے اور یہ وضاحت صرف اورصرف حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ہی دے سکتے تھے ۔ مذکورہ قرآن میں تاریخی پس منظر بھی ہے اور اصحاب کی تفسیر بھی ۔
دنیاوی یا قرآنی علم
ہم اتنی سنجیدگی اور لگن کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کرتے ہیں ، جو کہ ایک کم تر مقصد ہے ۔ کم تر مقصد کا مطلب وہ علم ہے ، جو ہمیں اپنی ترجیح اول کی طرف رہنمائی نہیں کرتا ۔ خدا کے لیے علم کے سوا باقی تمام علوم ووکیشنل ہیں ۔ ایک آرٹسٹ، ادیب ، سائنسدان ، ٹیچر اور فنی علوم کا استاد اپنی علمی اور ذہنی کاوش کے عوض اپنی زندگی گزارنے کے اسباب بھی مہیا کرنا چاہتا ہے ، تو تمام علوم سوائے خدا کی شناخت اور پہچان کے وہ علوم ہیں ، جن سے ہم زندگی گزارتے ہیں ، کہیںبھی پروردگار یا اس کے رسولؐ نے ان علوم کی تحصیل سے منع نہیں کیا ۔
ایک علم برائے علم ہے ۔ بجائے علم کو توڑنے پھوڑنے کے ، اسے برائے زندگی اور برائے علم رکھنے کے ، اگر ہم علم برائے خدا حاصل کریں ، تو پروردگار ہمیں ترجیح اول سے واپس لوٹائے گا ۔ وہ آپ کو الیگزینڈر فلیمننگ یا آئن سٹائن سے بہت جلد اور بہت بہتر عروج اور خیال عطا فرمائے گا ۔
حضورؐ نے بنو عیسیٰ میں دو بڑی صفات خوبصورت گنوائی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے ظالم بادشاہوں کے ہاتھ روک دیتے ہیں ۔ یتیم اورفقیر کے حق میں بڑے اچھے ہیں اور جب ان کو شکست ہو جائے تو فوراً پلٹتے ہیں۔ یہ صفات بد قسمتی سے مسلمانوں میں نہیں ہیں ۔ حالانکہ یہ ان میں زیادہ موجود ہونی چاہئیں تھیں ۔ بحران یہ ہے کہ اگر ایک شخص دنیاکے لیے محنت اور ترقی کرتا ہؤاآئن سٹائن اور فلیمننگ بنتا ہے ، تو یہی محنت اور جستجو اللہ کے لیے اس کے راز ہائے پوشیدہ کے انکشاف اور حقائق کی جستجو کے لیے کی جائے ، تو اس سے بہت کم وقت میں خدا وند کریم آپ کو ایسی ایجادات اور دریافتوں سے نوازے گا ، جو شاید مغرب کے تصور میں بھی نہ ہوں گی ۔
قرآن اور زبان عربی
جو ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ بی ۔ اے ، ایم اے کرتے ہیں ۔ پی ایچ ڈی کرتے ہیں ، تو اس کے پیچھے ہمارے ذہن کی چھوٹی موٹی سرگرمی ہوتی ہے کہ ہم نے یہ کیرئیر اپنانا ہے ۔ انجینئر بنناہے، ڈاکٹر بنناہے۔ چنانچہ اس کے مطابق کوئی بیس پچیس سال کی محنت ہم اس مضمون کو دیتے ہیں ۔کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح زندگی میں جس کا انتخاب اللہ ہوتا ہے ، وہ اگر سال آدھ یا دو سال عربی کو د ے دے ، تو بطور زبان یہ سیکھنے اوراخذ کرنے میں زیادہ آسان ہے ۔ ہم کم از کم اس چیز پر قادر ہو جاتے ہیں کہ قرآن کو سمجھیں ۔ یہ انسان کی محنت اور لگن کے پیٹرن پر ہے کہ وہ کس چیز کو پہلے چاہتا ہے اور کیا اس کا لیول ہے ۔
بعض اوقات مترجم ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں ، عالمانہ نظر سے نہیں ۔ بلکہ ایک مقامی نظر سے دیکھتے ہوئے ترجمے کو مشکوک کر دیتے ہیں ۔ مگر الحمد للہ قرآن حکیم خالی اردو میں ٹرانسلیٹ نہیں ہؤافارسی ، انگریزی میں دنیا کی اکثر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم تو قرآن پڑھ ہی نہیں سکتے تھے ۔ اگر میں آپ کو ایک صفحہ دکھا دوں ، جو صحیفہ عثمانی ہے، تو آپ اسے ایک اچنبھے کی کارروائی سمجھیں گے ، قرآن نہیں سمجھیں گے ۔اللہ اپنے دین کی مدد کسی فاسق و فاجر سے بھی لے لیتا ہے۔ جب مسئلہ غیر اقوام کا پیش آیا ، تو حجاج بن یوسف نے اعراب لگوائے ۔ چنانچہ اب جو قرآن نصیب ہے ، اس سے ہر آدمی قرآن پڑھ سکتا ہے ، سمجھ سکتا ہے اور کسی مکمل عالم سے بھی اس کے سمجھنے کے لیے مدد لے سکتا ہے ۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ آپ واقعی خدا کے بارے میں کچھ سمجھنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ جذبہ موجود ہو ، تو تھوڑی کوشش کے بعد اس مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں ۔ مجھے گھر پر کسی نے ناظرہ قرآن بھی ٹھیک سے نہیں پڑھایا۔ میں قرآن پڑھنے سے بھاگ جاتا تھا ۔ پوسٹ گریجویشن میں لٹریچر پڑھا۔ دنیا جہان کے فلسفوں کا مطالعہ کیا ۔ پھر مجھے اللہ کا شوق پیداہؤا۔ اللہ ہی کے لیے میں نے پہلی مرتبہ قرآن صدق دل سے پڑھا ۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ کس قسم کی ہستی ہے ۔ اس کو سمجھا ، اس کو جانا ۔ اللہ کی وجہ سے اس سے تھوڑی بہت انسیت اورمحبت پیدا ہو ہی جاتی ہے ۔ انسانی بشری تقاضوں کے باوجود ۔ اللہ کی وجہ سے آج میں اس قابل ہؤا کہ جو کچھ جانتا ہوں ، اس کو آپ تک پہنچا سکوں ۔ میرے خیال میں بنیادی شوق اللہ ہی کا ہے ۔ یہ کوئی ایسی مشکل نہیں ہے ۔ جس کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں ۔ یہ کور ہو سکتی ہے ۔
جہاں تک عجمی ہونے کا سوال ہے ،عجمی کا مطلب اس وقت کونگا مشہور تھا ۔ عرب اپنے سوا تمام قوموںکو گونگا کہتے تھے ۔ انہیں اپنی زبان پر اس قدر ناز تھا کہ وہ تمام زبانوں کو گھٹیااور کم تر سمجھتے تھے ۔اپنے آپ کو فصیح و بلیغ کہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن عربی میں اترا۔
زبانوں کے حوالے سے ذرا وضاحت ہو جائے ۔ اردو زبان فرانسیسی ، عربی اور سنسکرت زبان کا ملغوبہ ہے ۔ انگریزی میں چاند کے لیے لفظ MoonاورLuna اور سورج کے لیے sunاور solar ہے ۔ اس کے علاوہ تیسرا کوئی لفظ نہیں ہے ۔ اردو زبان میں قمر ، چاند ، مہ ، مہتاب ہے۔ اسی طرح سورج کے لیے متقابل پندرہ لفظ نظر آئیں گے ۔جبکہ عربی اتنی بڑی زبان ہے کہ اونٹ کے پیدا ہونے کے بعد اس کے جوان ہونے تک اس کی زندگی میں ایک سواڑتیس لفظ ہیں ۔ قرآن کواس لیے خاص طور پر عربی میں اتارا گیا کہ اس کے ترجمے میں سہولت ہے ۔ یہ جس زبان میں بھی جائے ، اس کو ترجمہ کرنا آسان ہے ۔ اس کے پاس اتنی فراخی اور مواد ہے کہ ساری زبانوں میں جتنا بھی کوئی مشکل لفظ ہو گا ، وہ کسی نہ کسی ترجمے پر پورا اترے گا ۔ یہ بھی ایک کرامت اور معجزہ قرآن ہے اور ہم عجمیوں کے لیے تحفہ ہے۔
آج کے زمانے میں مسائل کچھ پیچیدہ ہوگئے ہیں ۔ جگہیں مختصر ہو گئی ہیں ۔ امریکہ سے بھی ہم ایک پل میں فتویٰ منگوا سکتے ہیں اور ریاض سے بھی ۔ اب اصولاً زندگی اتنی پیچیدہ ہو گئی ہے کہ جس امام نے بھی جس غور و فکر سے مسائل کو سمجھا اوران پر تقریظ یا توجیہہ کی ہے ، میرے خیال میں اب ان چاروں آئمہ سے استفادہ کرنا ہمارا حق ہے ۔ اب ان چاروں فقہوں کی رائے کو مد نظر رکھ کر ایک نئی فقہ کو ترتیب دینا ہوگا ۔
ہم فقیہہ اس کو کہتے ہیں ، جو قرآن کی اس آیت کے مصداق ہو طہ ماانزلنا علیک القرآن لتشقی ہم نے قرآن کو مشقت کے لیے نہیں اتارا ۔ اسے چاہیے کہ وہ بند گان خدا پر اسلامی تعلیمات کو آسان کر کے پیش کرے ۔ ان کو سانس دے ۔ یہ جو ہمارے ہاں مذاہب رائج ہیں، ان کے لیے زندگی چھوڑنی پڑتی ہے ۔ حضور ؐ کے زمانے میں جو مذہب تھا ، وہ مذہب بھی تھا اورزندگی بھی تھی ۔ اب ہمیں معمول سے ہٹنا پڑتا ہے اور یہ مذہب کی غلط توجیہہ ہے۔
میں بنیادی طور پر حنفی مسلک میں ہوں۔ مگر میں فتاویٰ حنا بلہ اورشافعیہ کے مطابق دیتا ہوں ۔ اس لیے کہ مجھے پتہ ہے ، لوگوں کا علم نہیںہے ۔ میرے علم میں ایسی احادیث بھی ہیں اور ابن ماجہ کی حدیث بھی موجود ہے کہ وہ ابن عباس کے پاس آئے اور پوچھا ابن عباس! رسولؐ اللہ کے زمانے میں کیا متعدد طلاقیں ایک نہ سمجھی جاتی تھیں ؟ فرمایا، ہاں۔ پوچھا کہ ابن عباس ! کیا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں متعدد طلاقیں ایک نہ سمجھی جاتیں تھیں؟ کہا ہاں۔ پھر پوچھا ابن عباس ! زمانہ اقتدار عمر ؓ میں متعدد طلاقیں ایک نہ سمجھی جاتی تھیں ۔ کہا ، ہاں ۔ پھر جب عمر نے طلاقیں کثرت سے ہوتی دیکھیں ، تو پھر تینوں طلاقوں کو آخری قرار دیا۔ اب دیکھیں ، یہ ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہے ۔ صورتحال خراب ہو رہی تھی ۔ لوگ تعلیمات علمی کو الجھا رہے تھے ۔ اب ہمیں لازم پڑتا ہے کہ ہم آج کے مسائل کو سمجھیں ۔ ہم لوگوں کی تعلیمات اور ان کے انتخاب میں اضافہ کریں ۔جتنے ہمارے انتخاب میں اضافہ ہوگا ، ہمارامذہب زیادہ کشادہ اور زیادہ قابل فہم ہو جائے گا۔
استخارے کا پراسس
ہر شخص یقیناً کر سکتا ہے اور کسی شخص کا استخارہ کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکتا ۔ میں نے یہ بڑا عجیب و غریب طریقہ دیار پاکستان میں دیکھا کہ ہم نے مولوی صاحب سے استخارہ کرایا ۔ اپنی فلاںپھوپھی سے بڑی نیک ہیں ، ان سے استخارہ کرایا ۔ بھلا ان کواس مسئلے سے کیا تعلق ہے ، جو ان کو استخارے کا جواب آئے گا ؟ استخارہ بڑی سادہ چھوٹی سی روایت ہے۔حدیث ہے کہ اس شخص کو کبھی خسارہ نہیں ہؤا جس نے استخارہ کیا ۔ استخارہ کامطلب یہ ہے کہ کنفیوژن میں دو راستوں میںانتخاب کے لیے آپ اپنی چوائس کی بجائے خدا کی راہنمائی طلب کرتے ہیں۔
استخارے کا سادہ پراسس یہ ہے کہ رات کوسونے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کریں اور ہر رکعت میں تین مرتبہ الحمد کے ساتھ سورہ اخلاص پڑھیں ۔ پھر بولیں نہیں اورخدا سے آرزو رکھیں کہ اے پروردگار ! میں اس مسئلے میں الجھا ہؤا ہوں ، مجھے رہنمائی عطا فرما۔ جب آپ سوئیں گے ، ایک دن ، دو دن ، تین دن کے اندر آپ کو کسی نہ کسی بڑے واضح اشارے سے ہدایت مل جائے گی۔
نفاق، نماز، شیطان
نفاق عملی نہیں ہوتا ۔ عمل میں کوئی نفاق نہیں ہوتا ۔ بلکہ نفاق تقسیم دل کو کہتے ہیں ۔ جب آپ کادل تقسیم ہو جائے ۔ خیر و شر میں تفریق نہ کر سکے اور آپ کی جبلی قدروں اورذاتی خواہشات کو ان احکامات الٰہیہ سے جدا نہ کر سکے ، جو حدود ہیں اور جولازم ہیں، تو آپ کا دل نفاق کا شکار ہوتا ہے ۔ جب آدمی کا دل کسی بڑی خطایا جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے ایسے دلائل گھڑے ، جو قرآن و حدیث کی اصولی حدود کوناقص کریں ، تو اس وقت آپ کا دل منافق ہوتا ہے ۔
جب آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیوں نماز نہیں پڑھتے ہو، تو اکثر جواب یہ ہوتا ہے کہ کیا پڑھیں ؟ نماز میں تو ہر وقت وسوسے آتےرہتے ہیں ۔ میںتو یہ چاہتا ہوں کہ جب نماز پڑھوں ، پورے خشو ع وخضو ع اور اطمینان کے ساتھ پڑھوں ۔ میں وساوس والی نماز پڑھنا نہیں چاہتا ۔ جب کوئی بہانہ عذر بنا کر یہ کہے کہ میں وساوس والی نماز نہیں پڑھنا چاہتا ، تو یہی نفاق دل ہے ۔
اگر انہوں نے تھوڑا سا قرآن و حدیث کامطالعہ کیا ہوتا ، تو نماز کے لیے خدا نے ہمیشہ اقامات کا لفظ استعمال کیا ہے کہ اس کو قائم ہونا چاہیے ۔ آپ کا دل چاہے نہ چاہے ، اتنی مدت کی جو آپ نماز پڑھتے ہیں ، اس میں یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ ساری زندگی ایک جوش ، ایک اخلاص سے کوئی کام کیا جائے ۔
کمپیوٹر کیوں ایجاد ہؤا؟اس لیے کہ انسانی یا دداشت اپنی ہی کارکردگی کو اتنی ہی تعلیم کے ساتھ بار بار دہرا نہیں سکتی ۔ ایک آدمی جو ایک وقت میں سو نمبر لیتا ہے ، دوسرے وقت میں ہو سکتا ہے ، دس نمبر لے ۔ انسان نے اپنی استعداد کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے کمپیوٹر ایجاد کیا ۔ کیونکہ کمپیوٹر اس معاملے میں خطا نہیں کرتا ۔ جو اس نے استعداد ایک مرتبہ دکھانی ہے ، ہرمرتبہ بٹن دبانے پر وہی استعداد دکھائے گا ۔ یہ کمپیوٹر کا بنیادی راز ہے ۔
اب آپ دیکھیں کہ خدا وند کریم جو انسانی ذہن اورانسانی بنیادی مسائل کو سمجھتا ہے وہ آپ سے کب یہ توقع کرے گا کہ ہر مرتبہ بڑے خلوص، بڑی محبت اوربڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھیں ۔ نصیحت تو اس نے کردی مگر جیسے مسئلہ آپ کو آج پیش آ رہا ہے جب اصحاب رسول نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ؐ ! نماز میں وساوس بڑے آتے ہیں ؟ فرمایا: عین ایمان ہے ۔ آپ کو وسوسہ برا لگتا ہے اورنماز چھوڑنے کا بہانہ لگتا ہے ، جبکہ رسول ؐ اللہ فرماتے ہیں کہ عین ایمان ہے ۔
اب عین ایمان کی وضاحت یہ ہے کہ جب کبھی انسان نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو کوئی اور ایسا مقام نہیں ہے ، جہاں شیطان کو انسان اپنے سے جدا لگے ۔ بازار میں ، گفتگو میں ، ہر حرکت میں ، ان کی آپس میں بہت بڑی شراکت داری ہے ۔ کیوں آپ کو بازار میں جھوٹ بولتے ہوئے تنگ کرے گا ؟ آپ اسی کی تو خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔ کیوں آپ کو ناقص گفتگو سے منع کرے گا یا وہ کیوں خوش گپیوں میں وقت ضائع کرنے سے آپ کو خبر دار کرے گا ؟ وہ اس وقت آپ کی مخالفت کرے گا ، جب آپ اس سے بالکل ہٹ کے اس عالم کل کے رب کریم کے سامنے اپنی خطا کا نسیان کا ازالہ کرنے کھڑے ہوں گے ۔ وہ اس وقت آپ کو ضرور بہکائے گا ۔ ضرور وساوس دے گا ۔
جب ان وساوس کے باوجود آپ کی نماز نہیں ٹوٹی اور آپ نے آمنت باللہ ورسول بھی کہا کہ میں اپنے اللہ اور رسول پر ایمان لایا اوراحکام بجا لایا، تو آپ کی نماز کہیں زیادہ بہتر ہے اس سے کہ آپ جتنے بھی خشوع و خضوع سے پڑھیں اورشیطان آپ کی پرواہی نہ کرے ۔ آپ بڑے خشوع و خضوع سے پڑھ رہے ہیں اور شیطان کو آپ کی کوئی پروانہیں ، کوئی وسوسہ آپ کو نہیں دے رہا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ باوجود خشوع و خضوع کے آپ کو اس سے کوئی داخلی مفاہمت ضرور ہے ۔
اس لیے نفاق دل کے تقسیم ہونے ، خرچ ہونے کو کہتے ہیں ۔ دل خیر کے لیے ہے ۔ اللہ کی یاد اور محبت خدا وند کے لیے ہے ۔دل امن اور سکون کی آماجگاہ ہے ۔ دل کا اضطراب اوراس کی بے چینی اس کا نفاق ہے۔ دل کا تقسیم ہونا اور خدا کی یاد سے غافل ہونا اس کانفاق ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب دلوں کا اطمینان خدا کی یاد میں ہے ۔ جب خدا کی یاد نہ ہو گی ، تو دل ضرور اپنے آپ کو منافق محسوس کرے گا۔
علم ذریعہ گمراہی
شیطان کو کبھی علم حاصل تھا نہ وہ کبھی عالم کہلایا۔ وہاں بھی اللہ نے پہلی کیٹیگری میں اعمال پر اسے عزت اور برکت دی اور تمام عرصہ وہ جانتا تھا کیونکہ جب ہم شیطان کو واپس پلٹتا دیکھتے ہیں ، تو اس کا دعویٰ علم کا قطعاً نہیں ہے۔ علم کادعویٰ تو آدم کے ساتھ پورا ہؤاجب ملائکہ نے ضد لگائی۔ آدمی کی تخلیقی صلاحیتیں اور اس کی جانچ پرکھ کا علمی فیکلٹی میں عروج ثابت ہؤا ، تو باقی ملائکہ کو شک نہیں رہا ۔ مگر جب شیطان نے آدم کی مخالفت کر دی تو اس نے علمی مخالفت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ میں تو آگ سے پیدا ہؤا ہوں۔ میں نفیس تر مخلوق ہوں اور یہ مٹی سے پیدا ہؤا ہے اورغلیظ تر مخلوق ہے ۔ اس طرح شیطان جاہلانہ تعصبات کا پہلا بانی ہے ۔ اس کو ہم عالم تو کسی صورت نہیں سمجھ سکتے ۔ علم کے ساتھ ایک چیز کی اور ضرورت ہے اور وہ توفیق الٰہی ہے ۔
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here