پروفیسر سید مختار الحسن گوہر بھی ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند جا سوئے۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے صاحب فراش تھے ۔ قوت گویائی سلب ہوچکی تھی۔ ممکن ہے قوت سماعت باقی ہو کیونکہ آواز دینے پر آنکھیں کھولتے اور محض پتلیاں گھما کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتے اور پھر محو خواب ہو جاتے۔ 29نومبر کی دوپہر سانسوں کا یہ بندھن ٹوٹا اور قلب کی حرکت بھی خاموش ہوتی چلی گئی۔
ان سے تعلق چار عشروں سے زائد عرصے پر محیط رہا ۔گوہر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ معاشی تنگدستی میں گزارا ۔ کرائے کے مکان میں جو جامع مسجد ربانی کورنگی سے ملحق تھا مقیم رہے یہ وہ دور تھا جب نان شبینہ کے حصول میںاکثر انہیں ناکامی کا سامنا رہا مگر اپنی غربت اور نا آسودگی کا اظہار کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا ۔ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے ۔
80کی دہائی میں کورنگی میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں امیدوار بنے قیوم آباد سے کورنگی تک کوئی آٹھ کلومیٹر طویل حلقہ انتخاب ان کے حصے میں آیا ۔ جب انتخابی نتائج آئے تو وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دوسرے نمبر پر رہے ۔ جبکہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پہلے نمبر پر رہنے والا امیدوار مختلف رہا ۔ یوں جب تمام نتائج مرتب ہوئے تو وہ بھاری اکثریت سے کونسلر منتخب ہوئے ۔ علاقے میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہؤا سڑکوں کی تعمیر ہو یا سیوریج کے نظام کی بحالی ، اسکولوں کی تعمیر ہو ، یا صفائی کے انتظامات بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی ہو یا پارکوں اور کھیلوں کے میدان کا قیام ہر حوالے سے ان کی انفرادیت نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ مزاج میںسادگی ، رواداری اور انکساری موجود تھی اس لیے کونسلر بن کر بھی درویشانہ انداز اختیار کیے رکھا ۔ وہ عوام کے درمیان رہے۔ اس دور میں بھی وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے ۔ ٹھیکے داروں نے پیش کش کی کہ ذاتی مکان کی طرف توجہ کریں بولے امانت میں خیانت کیسے کر سکتا ہوں ۔ بلکہ ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ کونسلر بننے کے بعد آمدنی میں کمی اوراخراجات میں کچھ اضافہ ہؤا ہے میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ بولے بلدیہ کے اجلاس میں شرکت کرنی ہو، شام میں دفتر میں بیٹھنا ہو تو اس کے لیے وقت نکالنا پڑ رہا ہے ، پھر ملاقاتیوں کی آمد کی وجہ سے تواضع کے لیے اخراجات بڑھے ہیں مگر پھر یہ کہہ کر خاموش ہو رہے کہ خدمت انسانی کی خاطر ایثار و قربانی کا مظاہرہ تو کرنا ہی ہوگا یوں یہ وقت بھی ان کی نیک نامی ، ایمانداری اور دیانتداری کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کے دلوں پر ان مٹ نقوش قائم کر گیا۔
آج کل وہ کورنگی سے کچھ دور سوسائٹی میں رہتے تھے مگر جب بھی کورنگی آتے لوگ بڑے عزت و احترام سے پیش آتے اور ان کے دور کونسلری کو بھی یاد کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نماز جنازہ اور تدفین میںکورنگی کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
2002 ء کے انتخابات میں کورنگی سے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا ۔ یہ وہ دور تھا جب شہر کراچی لسانی عصبیت کے شکنجہ میں جکڑا ہؤا تھا ۔ مختار گوہر صاحب نے انتہائی سخت اور مشکل حالات میں انتخابی مہم چلائی ۔ جہاں تک ممکن ہوا وہ گھروںپر گئے مساجد میں نمازیوں سے ملاقاتیں کیں اور پیغام محبت دیا مگر ٹھپے بازی کے نتیجے میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ البتہ جیتنے والے کے مقابلے میں وہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے کافی قریب تک پہنچے۔
آج سے دو دہائی قبل جب ان کے مالی حالات خاصے بہتر ہو چکے تھے بیٹوں نے کاروبار سنبھال لیا تواس موقع پر وہ اپنی بڑی بیٹی حمیرا کے فرض کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔شادی کی یہ تقریب سادہ مگر پروقار تھی ۔ وسیع حلقہ احباب تھا ۔ اس لیے شرکاء محفل کی تعداد بھی کثیر تھی ۔ عقدِ مسنونہ کی اس تقریب میں ایک پرانی روایت کو جلا بخشی گئی اور اس پرمسرت موقع پر رخصتی کے اشعار پڑھے گئے ۔ اس موقع پر فرط محبت سے گوہر صاحب کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری تھی کہ جگر کے گوشے کو رخصت کررہے تھے ،ایک شعر یوں تھا۔
آنکھ کا کشکول آخر بھر گیا
ہاتھ سے مختار کے گوہر گیا
چند سال قبل ان کی اہلیہ سنجیدہ گوہر داغِ مفارقت دے گئیں تو گوہر صاحب بڑے رنجیدہ اور ملول رہنے لگے ۔ ایک دو برس نہیں چار دہائیوں کا ساتھ تھا دکھ سکھ کا زمانہ صبر و استقامت کے ساتھ گزارا تھا ۔ ان کی اہلیہ انتہائی صابر و شاکر ، منکسر المزاج اورقناعت پسند خاتون تھیں ۔ تنگدستی ہو یاخوشحالی کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں ۔ میرا کئی بار گھر جانا ہؤا۔ بڑی محبت سے پیش آتیں ان کے مزاج کی یہی خوبی ر ہ رہ کر یاد آتی ہے ۔ اور پھر گوہر صاحب کا رنج و ملال بجا ہے کہ ان کی کامیابیوں میں ان کی اہلیہ کی دعائوں کا بڑا حصہ شامل حال رہا ہوگا ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی موت کے بعد گفتگو انہی سے شروع ہوتی اور ان ہی پر اختتام پذیر ہوتی۔اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے زندگی سے عشق اپنی اہلیہ کی وجہ سے ہؤا جو بڑی باہمت اور صابر و شاکر خاتون تھیں ۔میں کہتا اپنے کپڑے بنوا لیں تو جواب ملتا تھا کہ میں تو گھر میں رہتی ہوں آپ کو بنوانے چاہئیں کیونکہ آپ باہر رہتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا رہتا ہے ۔
چند برس قبل اپنی بیوی کے انتقال کے بعد وہ صاحب فراش ہو گئے ۔ فالج کے حملے نے جسم کے ایک حصے کو متاثر کیا ۔ بڑے مایوس و اداس دکھائی دیتے تھے جس کی اصل وجہ نماز کی با جماعت ادائیگی نہ ہونا تھا۔ مگر پھر اپنے احباب کی دعائوں کے نتیجے میں بہت جلد صحت یاب ہو کر پہلے مسجد اور پھر احباب سے تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے ۔ اسلامی نظریہ صحافت کے علمبردار کی حیثیت سے پروفیسر سید مختار الحسن گوہر کسی تعارف کے محتاج نہ تھے ۔ ان کی صحافتی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے چہرے پرمسکراہٹ سجائے تھک کر نہ بیٹھنے والے اس مجاہد کے قلم کا اعجاز مجھ پر نہیں لا تعداد قارئین پر عیاں ہے مگر ان کی زندگی گواہ تھی کہ وہ محض گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی تھے ۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
ڈاکٹر ممتاز عمر
٭…٭…٭