حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک عورت نے حضورؐ کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں حاملہ ہوں۔ حضورؐ نے ان خاتون کے ولی کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اورجب اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے خبر کرنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ نے حکم دیا تو ان کے کپڑے ان کے بدن کے ساتھ باندھ دیے گئے پھر آپؐ نے رجم کا حکم دیا اور ان کو رجم کر دیا گیا ۔ پھر آپؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ؐ آپ ہی نے اس کو رجم کیا اور پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ۔ حضور ؐ نے فرمایا اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ میں سے 70 اشخاص پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو جائے ۔ کیا تم اس سے زیادہ افضل توبہ کا تصور کر سکتے ہویعنی کہ انہوں نے اپنی جان اللہ کے لیے دی۔(مسلم کتاب الجدود ، ابو دائود ،کتاب الجدود)
اس حدیث مبارکہ میں مدینہ کی پاکیزہ سوسائٹی کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے وہ اقداور روایات وہ نظام تربیت و تزکیہ وہ خدا خوفی۔
بعض فقہا کا کہنا ہے کہ یہ جن خاتون کا ذکر ہے یہ غامدیہ ہیں۔ وہ رجم ہو کر کیسا آئینہ رکھ گئیں کہ روز حشر تک مسلمان عورتیں اپنا چہرہ دیکھتی رہیں اور اشک ندامت صاف کرتی رہیں۔
جی چاہا غامدیہ سے کہیںملوں ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگائوںان کے سینے سے لگ کر پھر کبھی نہ ہٹوں کہ اس سینے میں کیسا پیارا دل تھا میںغامدیہ سے پوچھتی کہ آپ کو تو پورا قرآن بھی نہ پہنچا ہوگا نہ کوئی تفسیر اس وقت وجود میں آئی تھی نہ خواندگی اتنی عام تھی ۔ ایک کلمہ پڑھ کر آپ اتنا کیسے بدل گئیں کہ وہ کلمہ لہو بن کر آپ کی رگوں میں دوڑنے لگا اور احساس بن کر آپ پر طاری ہو گیا ۔ ہاں ! بشر تو ہے ہی شر کے ساتھ اس زمین سے بہت دور ابلیس تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں بہکانے پر قادر ہوگیا ۔ جب تک دنیا قائم ہے شیطان اپنے چیلنج پر کاربند رہے گا خدا کے بندوں پردائیں،بائیں اورآگے پیچھے سے حملے کرتا رہے گا ۔ قیامت کا صور پھونکے جانے تک جرم بھی رہے گا اور مجرم بھی۔
ہاں بڑا پاپ ہؤا تھا مگر گناہ تو چھپائے جاتے ہیں ۔ عدالتوں میںجھوٹے گواہ پیش کیے جاتے ہیں۔
غامدیہ آپ کے جرم کی تو کسی کو خبر تک نہ تھی ۔ پھر آپﷺ تورحمت اللعالمین تھے۔ آپؐ تو سننا بھی نہ چاہتے تھے اس جرم کی بابت مگر آپ کبھی دائیں کبھی بائیں سے آکر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ سے گناہ ہؤا ہے مجھے پاک کردیں ۔ میں کبھی آپ سے مل پاتی تو پوچھتی ضرور کہ ’’ پاکی‘‘ کا مفہوم آپ نے کس سے جانا ۔ طہارتِ حقیقی کے شعور میںکیسے رچی بسی۔
جنت اور دوزخ تو ہم نے دیکھی ہے نہ آپ نے دیکھی تھی مگر فکر آخرت اور رضائے خدا وندی کی طلب تو آپ کی دھڑکن میں شامل تھی ۔ کیسی بصیرت پائی تھی آپ نے ۔ لاکھوںبصیرتیں اور عقلی دلیلیں قربان آپ کی اس سادہ لوحی اور اقرار ِ جرم پر ۔ ہم تو اپنے گناہوں کے عذرہی تراشتے رہے حالانکہ خوب جانتے تھے کہ
عذرِ گناہ بد تر از گناہ است
وہ اس امت کی ایک بیٹی تھی ۔ کس کے رو برو تھی ، جن کی راتیں اُمتی اُمتی کہتے کہتے صبح میںبدل جاتی تھیں۔
جب ولی کو بلاتے ہیںتوکہتے ہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا حمل سے ہے یہ ۔ آپؐ نہ جانتے توبھلا کون جانتا کہ زمانۂ حمل میںعورت جسمانی دکھ ہی نہیں اٹھاتی وہ جذباتی طور پر بھی بہت حساس ہو جاتی ہے ۔ایک نئی جان جب اس کی جان کے ساتھ جڑتی ہے تو
جب ولی کو بلاتے ہیںتوکہتے ہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا حمل سے ہے یہ ۔ آپؐ نہ جانتے توبھلا کون جانتا کہ زمانۂ حمل میںعورت جسمانی دکھ ہی نہیں اٹھاتی وہ جذباتی طور پر بھی بہت حساس ہو جاتی ہے ۔ایک نئی جان جب اس کی جان کے ساتھ جڑتی ہے تو وہ ایک اور ہی جہان کی باسی بن جاتی ہے۔ وہ گول گوتھنا خوابوں کی ایک دنیا بسائے رکھتا ہے اس کے دنیا میںآنے سے قبل ہی اس کی خوشبو ماںکو حصار میں لیے رکھتی ہے ۔ اس دوران اگر وہ کسی جسمانی حادثے کا شکار ہو جائے تو اپنی نہیں اس کو فکر جنین کی ہوتی ہے ۔اس کے بازو پھڑکنے لگتے ہیں اس ننھے وجود کو اٹھانے کے لیے اس کے وجود سے ممتا کی بھینی بھینی خوشبو چہار سو پھیلنے لگتی ہے۔ کتنی متبرک ہو جاتی ہے وہ اس کے قدموں تلے جنت جو آنے والی ہوتی ہے ۔
اوروہ ولی بھی کیسا ولی اللہ تھا کہ زچگی کے مراحل کے بعد پھر اس کو خدمت اقدس ؐ میں لے کر حاضر ہو جاتے ہیں ۔ نہ پولیس نے پہرے دیے نہ اللہ کے نبیؐ نے کسی کی ڈیوٹی لگائی کہ غامدیہ کے ولی اسے راتوں رات لے کر بستی سے نکل نہ جائیں اس لیے ان کی مسلسل مخبری کی جائے ۔
گناہ ہم سب سے ہوتے ہیں مگر وقت اس احساس جرم کا مرہم بن جاتا ہے وقتی ندامت اور صدمہ آہستہ آہستہ اطمینان و سکون میں بدل جاتاہے مگر غامدیہ کی توبہ ہی نہیں اس کا ایمان بھی ہماری بستیوں میں تقسیم کر دیا جائے تو ہم سچ مچ صاحبِ ایمان ہو جائیں۔
کیسی دل دہلانے والی تصویر ہے جو چودہ صدیوں کی مسافت سے اپنے عکس کی کرنیں پورے آب و تاب سے بکھیررہی ہے ۔ اللہ کے نبیؐ نے کس دل سے رحم کا فیصلہ کیا ہوگا وہ دل جو زخم کھا کر بھی دعائیں دیتا تھا ۔ وہ دل جو طائف کی گلیوں میںلہو لہان جسم کے ساتھ بھی حضرت جبرائیل کے پیکیج کو قبول نہیں کرتا کہ ’’ آپ کہیں تو ہم اس بستی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دیں ‘‘۔آپ ؐ پھر بھی دعا دیتے ہیں تب بھی امید و امکان کادریچہ کھلا رکھتے ہیںکہ ’’ ان کی آئندہ نسلیں شایدایمان لے آئیں ‘‘۔
وضع حمل کے بعد جب آپ ؐ سزا دینے پر آمادہ نہیںہوئے کہ یہ معصوم توابھی صرف شیرِ مادر پر ہے جب کچھ کھانے لگے تو آجانا۔
کیسا تھا وہ سماج اور اس سماج کا ہر پاکیزہ گھرانہ ۔ کوئی نہیں کہتا کہ جا معافی مانگ لے ۔ وہ تورحمت اللعالمین ہیں تجھے بھی معاف کر دیں گے نہ غامدیہ کا ایمان ڈگمگاتا ہے اس شیر خوار کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر اس گول گوتھنے کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے غامدیہ کیسے کیسے آنسوئوں کو ضبط کرتی ہوں گی یا آنچل سے رگڑ کر اسے چمکتے وجود کو بازوئوں میںبھر بھر لیتی ہو ں گی کہ بس اب وقت جدائی قریب ہی ہے ۔
رجم کی خوف ناک سزا کا تصور کر کے راتوں کو کیسے نیند آتی ہو گی؟ کبھی جو آنکھ لگتی ہو گی توجسم پر پتھروں کی ضرب محسوس کر کے کیسے تڑپ کر بستر چھوڑ دیتی ہو گی شاید ساری ساری رات اس نو مولود کو گود میں لیے اس کے ہاتھ پیر چھوتی رہتی ہوں یا اس کی معصوم خوشبو سے ایمان کی تازگی پاتی ہوں ۔ وہ تازگی جو ان سے کہتی تھی کہ اس نو مولود کوکوئی اور گود سنبھال لے گی توقبر کی تاریکی اور قبر کی گود کی فکر کر ۔
پھر آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک نسوانی وجود رجم کردیا گیا اس لیے کہ تاریخ قیامت تک کے لیے لکھی جا رہی تھی ۔ ایک نئے تمدن کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں ۔وہ پاکیزہ تمدن کہ ’’ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹے جاتے ‘‘۔
بلا شبہ پچھلی قومیں ہی نہیں موجودہ قومیں بھی ہلاک اسی لیے ہوتی ہیں کہ گائوں میں بھینس چرانے پر تو سزا دی جاتی ہے لیکن ملک کی اربوں کی دولت لوٹنے والے ہر سزا سے بری الذمہ قرار دے دیے جاتے ہیں۔
جان توایک دن جانی ہی ہے لیکن امت کا آئین لکھا جا رہا تھا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے اس میں جنس کی قیدنہیں ہوتی ۔رعایت برتی گئی تو سماج جرائم کی آماجگاہ بن جائے گا (جیسا کہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں )۔
ایک اللہ سے محبت کرنے والی روح جس سے گناہ سر زد ہو ٔا تھا پاک و صاف ہو کر اپنی جان کا کفارہ ادا کر کے رب کی مہمان ہوئی ۔ ثابت ہؤا کہ قانون کی حکمرانی ہو گی ایک اسلامی ریاست میں مجرم سے ہمدردی جرم کے لیے نرم دلی ہے۔
یہ اسلام ہے دنیا کا عظیم ترین مذہب کہ توبہ کے بعد پاکی ٹھہری گناہ یوں دھل گیا جیسے ہؤا ہی نہ تھا
کتنا عظیم ہے وہ جنازہ جس کی نماز جنازہ خود رسولؐ ادا کریں ۔ حضرت عمرؓ جب تعجب کرتے ہیں کہ آپ اس خاتون کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں جس پر حد جاری ہو چکی ہے تو آپؐ اس ہستی سے جن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’ عمر ؓ جس راستے سے گزرتے ہیں شیطان اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے ‘‘ ان سے فرماتے ہیں کہ کیا تم اس سے افضل توبہ کا تصور کر سکتے ہو ۔ امت کی ایک بیٹی نے توبہ کی اور بتایا کہ توبہ النصوح کسے کہتے ہیں !
اسلام مجرم سے نہیں جرم سے نفرت کرتا ہے ۔آپؐ کے ان الفاظ نے کتنے گمانوں کو خوش گمان کر دیا اور کتنی زبانیں کھلنے سے رک گئی ہوں گی کہ اتنی پیاری توبہ تھی غامدیہ کی کہ امت کے 70لوگوں میںتقسیم کردی جائے تو ان کے لیے کافی ہوجائے ۔ آپ ؐ کی اس شہادت سے ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ’’ انہوں نے اپنی جان اللہ کے لیے دے دی ‘‘ ۔
وہ نیکیاں جوکبیر میں مبتلا کر دیں اس سے بہتر وہ گنا ہ ہے جو شرمسار کرے اور رجوع الی اللہ کی جانب مائل کرلے۔
گناہ کا صدور ایک عمل ہے اور اس کے بعد کی کیفیت ہمارے ایمانی پیمانے کو ناپنے کا ذریعہ ۔ گناہ سے سچی توبہ ولایت کا درجہ عطا کر دیتی ہے ۔ گناہوں کی بھی قسمیں ہیں اور توبہ کی بھی کیفیات جدا جدا ۔
استغفار تسبیح کے دانوں پر پڑھا جانے والا محض کوئی کلمہ نہیں ہے ۔ اپنے دل و جان سے اس ذات کی عظمت کی بڑائی کو محسوس کرنا جس کی نافرمانی کی ہے ۔
اللہ رب کریم اب تک کے گناہوں پر ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب اللعالمین۔
٭…٭…٭