رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ سب لوگ بستر میں گھسے نیند کے مزے لے رہے تھے۔ اچانک تابش صاحب کے گھر سے ہلکی سی آواز آئی۔ کوئی سسکیاں لےلے کر رو رہا تھا۔ تابش صاحب کے گھر میں ایک لائبریری بھی تھی۔ یہ سسکنے کی آواز وہیں سے آرہی تھی۔ سسکیاں آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ سب سے پہلے بوڑھے صوفے کی آنکھ کھلی۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔
’’ارے بھائی ! کون رو رہا ہے؟‘‘ بوڑھے صوفے نے پوچھا۔ اس کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ چکا تھا۔
’’یہ وہ خوبصورت رنگوں سے سجی پینٹنگ رو رہی ہے جو پانچ دن پہلے ہی لائی گئی تھی۔ وہ ایک کونے میں پڑی ہوئی ہے۔‘‘ میز نے سرگوشی کی۔
’’اوہ اچھا ! بھلا اسے کیا ہوگیا؟‘‘بوڑھے صوفے نے میز سے پوچھا اور پھر اونچی آواز سے پینٹنگ کو مخاطب کیا۔
’’اے پیاری پینٹنگ ! مجھے بتاؤ کہ تمہیں کس بات نے تکلیف پہنچائی ہے؟ آخر رات کے اس پہر رونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’بس ماضی کے اچھے دن یاد آگئے تھے۔ وہ بھی کیا سہانے دن تھے۔‘‘ پینٹنگ نے سرد آہ بھری۔’’ مجھے اس ملک کے سب سے مایہ ناز مصور نے محبت سے بنایا تھا اور آج میں یہاں پڑی اپنی ناقدری کا رونا رو رہی ہوں۔‘‘
’’تم ہمیں اپنی کہانی سناؤ۔ شاید اس طرح تمہارا غم ہلکا ہو جائے۔‘‘دیوار پر لگی ہوئی گھڑی بولی۔ اب وہ بھی جاگ چکی تھی۔
’’مجھے بناتے وقت مصور کا جوش دیدنی تھا۔اس نے بہترین اور خوبصورت رنگ استعمال کیے۔ جب میںمکمل ہوئی تو مصور کی آنکھیں چمکہی اُٹھی تھیں۔ اسے یقین تھا کہ اس نے ایک شاہکار تخلیق کیا ہے۔ مجھے نمائش کے لیے ملک کی مشہور و معروف گیلری میں رکھا گیا۔‘‘ پینٹنگ اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ کمرے میں موجود ہر شے ہمہ تن گوش تھی۔
’’وہاں ایک باذوق شخص کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔ اس شخص نے مجھے فوراً خرید لیا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آیا۔ اس نے اپنے ڈرائنگ روم کی دیوار پر مجھے جگہ دی۔ یہ ایسی جگہ تھی کہ ہر آنے والے کی نظر سب سے پہلے مجھ پر پڑتی تھی۔ لوگ مجھے دیکھتےاور تعریف کرتے تھے۔‘‘ پینٹنگ نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔’’پھر حالات بدلے میرے مالک نے مستقل بیرون ملک رہائش رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پاس بہت ساری قیمتی چیزیں تھیں۔جنھیں انہوں نے نیلام کردیا۔‘‘
’’تو کیا تابش صاحب تمہیں نیلامی سے خرید کر لائے ہیں؟‘‘ میز نے پوچھا۔
’’جی ہاں ! تابش صاحب بھی نیلامی میں موجود تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ بولی لگا کر مجھے خرید لیا۔میں خوش تھی کہ مجھے ایک قدردان انسان نے خریدا ہے۔’’پینٹنگ نے افسوس سے کہا۔‘‘لیکن یہ تو یہاں آکر پتا چلا کہ تابش صاحب صرف قیمتی چیزیں جمع کرنے کے شوقین ہیں تاکہ دوسروں پر رعب جما سکیں ورنہ چیزوں کی حقیقی قدر کرنا تو انہیں آتا ہی نہیں۔ اب یہی دیکھ لو ! آج پانچواں دن ہے۔ تابش صاحب نے مجھے خرید کر یہاں پھینکا ہوا ہے۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ مجھے کسی دیوار پر ہی لٹکا دیں۔‘‘
’’آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ یہاں موجود سب چیزیں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی ہیں۔ انہیں حاصل کرنے کے لیے تابش صاحب نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا لیکن جب چیز حاصل ہوگئی تو پھر قدر نہیں کی۔ ہمیں ہی دیکھ لو۔ دنیا بھر کے کتب خانوں سے مہنگی کتابیں اکٹھی کی ہوئی ہیں لیکن کبھی کھول کر دیکھا ہی نہیں۔‘‘ الماری میں رکھی کتابوں نے بھی شکوہ کیا۔
’’مجھے تابش صاحب نے انٹرنیٹ کے ذریعے دریافت کیا تھا۔ انہیں جب یہ پتہ چلا کہ میں ایک مہنگا ترین پودا ہوں تو انہوں نے مجھے خاص طور پر جاپان سے منگوایا تھا لیکن اب وہ پانی کا انتظام بھی کبھی کبھار کرتے ہیں۔‘‘کمرے کے ایک کونے پر پڑے ہوئے بونسائی پودے نے کہا۔
’’میں آپ سب کی باتیں سن رہا ہوں۔ آپ کا شکوہ بجا ہے لیکن جس انسان نے اپنی قدر نہیں کی وہ کسی اور چیز کی قدر کیا کرے گا۔‘‘الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں سبز غلاف میں لپٹا قرآن بول رہا تھا۔ ’’میں اس کے لیے خالق کی طرف سے بھیجا گیا پیغام تھا۔ مجھے پڑھنے، سمجھنے اور مجھ پر عمل کرنے کی بجائے مجھے غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔‘‘
کمرے میں موجود تمام چیزیں افسردہ تھیں۔ سب اپنا اپنا دکھ بیان کر رہی تھیں۔ اچانک کمرے میں روشنی ہوگئی۔ کسی نے بلب جلا دیا تھا۔ وہ تابش صاحب کا بیٹا حسن تھا۔ سب اشیاء خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ابھی تو فجر کی اذان بھی نہیں ہوئی تھی تو یہ حسن یہاں کیا کر رہا تھا؟ حسن نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ وہ کسی چیز کی تلاش میں تھا۔ اس کے چہرے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس نے لپک کر جائے نماز اٹھا ئی۔اور زمین پر بچھائی۔ اب وہ الماری کی طرف آیا۔ اس نے قرآن پاک اٹھایا، اسے غلاف سے نکالا۔ بوسہ دیا اور سینے سے لگا کر جائے نماز پر بیٹھ گیا۔ اس کی تلاوت کرنے کی آوازآہستہ آہستہ کمرے میں پھیلتی چلی گئی۔ کمرے میں امید کے جگنو جگمگا رہے تھے۔ اس گھر میں ایک قدردان پیدا ہوچکا تھا۔
محسن حیات شارف
٭ ٭ ٭