مہینوں سے کچرا وہاں جمع ہو رہا تھا۔ تعفن سے سانس لینا دوبھر تھا۔ اس سے چھٹکارے کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ ایک صاحب نے آگ لگا دی۔
کچھ دن بعد وہاں سے گزر ہؤا ۔ کچرے کا نام و نشان تک نہ تھا۔کسی نے راکھ اٹھا کر نئی مٹی ڈال کر کچھ بو دیا تھا۔
خوشگوار حیرت کچھ عرصے بعد گزرنے پر ہوئی۔ وہاں چھوٹے چھوٹے پودے ترتیب سے اگ آئے تھے۔درمیان میں کیاری میں تروتازہ سبزیاں جا بجا پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔یقیناً کسی نے مستقل توجہ دی تھی۔
آج معمولات سے فراغت کے بعد منزل مقصود استقبال رمضان کا پروگرام تھا۔ درس دینے والی کا پہلا جملہ ہی چونکا گیا۔ وہ رمضان کا مطلب ’’جل جانا‘‘بتا رہی تھیں۔
سوال ہؤا کس چیز کا جل جانا؟
جواب تفصیلی تھا۔
’’یہ مہینہ ایک بھٹی کی مثل ہے جو گزشتہ گناہوں کو جلا دیتی ہے۔ مومن پاک صاف اجلا ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر اور بھلائی کے لیے ویکیوم پیدا ہوجاتا ہے۔جگہ صاف کرکے نئی مٹی ڈال کر بیج بوئے جائیں تو کئی طرح کے پودے ،پھل اور پھول اگائے جا سکتے ہیں‘‘۔
ذہن میں کچرے سے کیاری کا سفر آ گیا۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ،ایک بڑے انقلاب کا پیامبر ، کچرے سے کیاری بنانے والا بس آیا چاہتا ہے۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخر میں خطبہ ارشاد فرمایا۔
اے لوگو تم پر عظمت والا ایک مہینہ سایہ فگن ہو گیاہے۔یہ برکت والا مہینہ ہے۔وہ مہینہ جس میں لیلتہ القدر ہے۔جس میں فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر اور نوافل کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔شیطان قید کر دیا جاتا ہے۔بخشش کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
یعنی اس عظیم مہینے کا سایا پڑنا شروع ہو گیا ہے۔لہٰذا یہ مہینہ خاص تیاری کا متقاضی ہے۔
اندر باہر کے کچرے کو جاننے اور اس سے نجات کی فکر کا مہینہ ہے۔کہ اگر اس میں پاک صاف ہو کر داخل ہوئے تو خیر اور بھلائی کی اعلیٰ درجے کی فصل بوئی جا سکتی ہے اوراس رمضان کو زندگی کے عظیم لمحات میں بدلاجا سکتا ہے زندگی کا مناسب رخ طے ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے وہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے اس رمضان المبارک سے مکمل فائدہ ،اللہ کا قرب اور محبوب لوگوں کی صف میں جگہ بنائی جا سکتی ہے؟
اوّل تو اس سوال کا اٹھنا ہی بہت اہم ہے اور اس بات کا ادراک کہ اللہ نے ایک بار پھر ایک بڑی سعادت سے ہم کنار ہونے کی مہلت دی ہے۔
اوریہی کام پہلا کرنے والا کام ہے کہ اس سعادت کو شعور ی طور پر محسوس کریں۔ یہ گویا دروازہ کھولنا ہے ،جھولی پھیلانا ہے انعامات کے حصول کی تیاری ہے۔
اس کا لاشعوری طور پہ، بے توجہی سے استقبال بدقسمتی اور محرومی ہے۔
اللہ کے لیے خالص ہونا دوسرا اہم کام ہے۔ تمام تر دیگر فوائد سے ہٹ کر نیت کو اللہ کے لیے خالص کرنا اہم ہے کہ باقی فوائد تو اس کے ساتھ حاصل ہو ہی جائیں گے۔ اس وقت مادہ پرستی نے زندگی کو آلودہ کر رکھا ہے۔ آسائشات کا حصول،زیادہ سے زیادہ کی حرص ،دنیا طلبی ، جیسے جذبے غالب ہیں کہ ان میں کھو کر اصل شے رب کریم سے تعلق کی طلب، جستجو ، اس سے جڑنے، اس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔ تعلق،توکل،یقین کی کمی نے خودغرضی پیدا کردی ہے۔ اپنی ذات کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہی موقع ہے کہ اللہ کو، اس کے احکامات کو زندگی کی ترجیح اول بنائیں۔
ہر طرح کے شرک سے برأت کا اظہار کریں۔ اسی کو خالق، مالک ، رب ،وارث عملی طور پر مانیں اور تمام معاملات کی ڈور اس کے ہاتھ میں تھما دیں ۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقین رکھیں آپ کو دنیا جہاں کی دولت مل گئی کہ اصل دولت یہی ہے۔ پھر آپ ہر مادی اور فانی چیز سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
اگلا کام صفائی کا کریں اور صفائی کا آغاز دل سے کریں۔ نفرت،بغض،حسد ،منفی خیالات ،دوسروں کی ٹوہ ،خود کو کچھ سمجھنے والا ، لایعنی فضول گوئی ،بے حیائی کا کچرا نکالیں۔ بد گُمانی،بے یقینی ، بے ایمانی ،بد عہدی ، بے مروتی ، بدلحاظی کے جالے صاف کریں۔ کونوں کھدروں پر توجہ دیں ۔ شخصیت کے جس کونے میں جہاں بھی زنگ لگا ہے ،فالتو سوچوں کا انبار ہے،نکال پھینکیں کہ اس سے صفائی نہیں ہوگی تو رمضان کی برکات بھی روٹھ جائیں گی۔
صحابہ ؓکرام رمضان المبارک میں داخلے سے پہلے بغض، کینہ، حسد سے بچنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے ۔ مومن کی اصل خوبصورتی تو دل کی خوبصورتی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارےمیں ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔ صحابہؓ کرام نے ان کی خو بیو ں کی کھوج لگائی ۔معلوم ہوا وہ بغض ،حسد کینہ ،نفرت جیسے جذبات کو قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتے خود کو منفی رویوں اور سوچوں سے پاک رکھتے ہیں۔سونے سے قبل سب کو شعور ی طور پر معاف کر کے سوتےہیں۔
ایمان دراصل ایسے ہی صاف شفاف دل کو اپنی روشنی سے منور کرتا ہےکہ جہاں ہر طرف اجلا پن ہو میل کچیل نہ ہو۔اس کے بعد ہی گھر اور ارد گرد کی صفائی کی پلاننگ کریں۔
معافی تلافی اور گناہوں سے توبہ کا اہتمام ابھی سے کریں۔آئندہ ہر گناہ سے بچنے کا ارادہ کریں کہ توبہ کرنے والوں کے لیے بے بہا اجر کا وعدہ ہے۔ بڑے انعامات میں گناہوں کی معافی ہی نہیں بلکہ ان گناہوں کا نیکیوں میں بدلنا ہے۔ استغفار کا عمل اتنا پسندیدہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے فرشتے تین چیزوں کی دعا کرتے ہیں۔
معافی کی
رحمت کی
توبہ کی قبولیت کی
وقت کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش شروع کر دیں کہ پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت کہا گیاہے:
جوانی بڑھاپے سے پہلے
صحت بیماری سے پہلے
فراغت مصروفیت سے پہلے
مال فقر سے پہلے
حیات موت سے پہلے
انسان کے لیے اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ قیمتی اوقات کو بےکار کاموں میں برباد کر دے۔
دل و ذہن جو صاف و شفاف کیے ہیں ان پہ علم کا ترکاؤ کریں۔ ایمان و ایقان اور اخلاص کی خالص مٹی ڈال کر دعاؤں کے بیج بوئیں۔ دعاؤں میں کمال کی دعائیں وہ ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئیں یا پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب سے مانگیں ۔ان دعاؤں میں کئی خزانے چھپے ہیں۔بے پناہ باریکیاں پوشیدہ ہیں انھیں تلاش کریں۔
ہر شر سے پناہ مانگیں۔ہر نیکی کی توفیق مانگیں۔دین کی خدمت ، اللہ کا راستہ،اس کی رضا ،رحمتیں ،برکتیں فضل کی درخواست کریں۔ اقامت دین کے ہراوّل دستے میں اپنی جگہ اپنا کردار مانگیں۔ راہ حق پر استقامت اور سرخروئی مانگیں ۔ مانگ نہیں پا رہے تو طریقہ اور توفیق مانگیں۔ سب کچھ مانگیں۔
ہر زخم کا مرہم اسی کے پاس ہے۔اپنا ہر غم ،ہر دکھ ،ہر درد کہہ دیں۔اس سے اسی کے ظرف کے مطابق مانگیں۔ ملک کے لیے،ملت کے لیے،اپنے پیاروں کے لیے۔
آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کااس سے ڈائریکٹ رابطہ ہے۔ ورنہ پیامبر ہو تو حال دل کے بیان میں سو رکاوٹیں در آتی ہیں ۔اس کے سامنے روز کھڑے ہو جایا کریں ،جھکا کریں، کبھی محبت سے، کبھی عاجزی سے، کبھی مان سے،خود کو گرا لیا کریں،طاقت نہیں تو گھسٹ کر پہنچنے کی کوشش کریں وہ آپ کی طرف خود بڑھ آئے گا،تھام لے گا کہ اس کے در پر گرنا دراصل اٹھنا ہے۔
دل پر زخم ہیں وہ بھی دکھائیں۔آبلہ پائی ہےتو مرہم لگوائیں۔ کانٹے ہیں تو وہ چنوائیں۔ تھکے ہیں پسے پڑتے ہیں تو طاقت لیں۔ اپنی پہچان نہیں تو یہ بھی پوچھ لیں۔ سوال کی کوئی حد نہیں نہ دینے والے کی حد ہے ۔ وہ آپ کا اور آپ خالص اس کے ہیں۔ یقین رکھیں اس سے مانگنے پر آپ کبھی محروم نہیں رہیں گے۔
کئی طرح کی نیکیوں کےدرخت اگائیں ان کو توجہ دیں جھاڑ جھنکار صاف کریں کھاد ڈالیں۔ جہاں نرم زمین دیکھیں اللہ کے توکل پر بیج ڈال دیا کریں۔ زمین نرم نہیں تو نرمی کا سامان کریں۔
وہ سب جو اللہ نے خالص آپ کو دیےان کی قدر کریں، ان کو دیکھیں وہ مرجھا تو نہیں گئے، ان کی شادابی کا اہتمام کریں۔
مطالعہ قرآن، مطالعہ حدیث،لٹریچر ،صدقات و خیرات، کو لازم کر لیں۔
ربوبیت کریں ۔جس کو جب بھی جس مقام پر بھی جیسی معاونت درکار ہو کرنے کے لیے تیار رہا کریں۔
یہ کرتے آپ رمضان المبارک میں داخل ہوں تو مبارکباد ہے آپ کے لیے ،بہاریں آپ کی منتظر ہیں۔سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائیے۔
٭ ٭ ٭
انسان کے لیے اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ قیمتی اوقات کو بےکار کاموں میں برباد کر دے۔آئیے اس قیمتی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں