قارئینِ کرام سلام مسنون
ربیع الاول کے مہینے کا آغاز ہے۔ہادیِ برحق، ختمِ رسل،محسنِ انسانیت، رحمت للعالمین، محبوبِ سبحانی ،محمد مصطفیٰ ﷺ کی نسبت سے ذکرودرود اور نعت کی محفلیں منعقد کی جائیں گی۔آج کے دور میں جبکہ دین فرقوں میں قید ہوگیا ہے ، ان فرقوں کی تعلیمات کو ہی اصل دین سمجھ لیا گیا ہے، اور اسی بنا پر ایک دوسرے پر کفرونفاق کے فتوے لگائے جاتے ہیں، باہم فسادکی آگ بھڑکائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں جانیں تک چلی جاتی ہیں، ایسے میں ’’دیں ہمہ اوست‘‘ کی یاددہانی اور تفہیم سب سے اہم بات ہے۔ نبیِ رحمت کے اسوہ حسنہ اور آپؐ کی صاف ستھری پاکیزہ،افراط وتفریط سے پاک تعلیمات کو ہر معاملے میں رہنما بنانا،دین کے نام پر نفس، فرقہ،گروہ،روایات اور آباؤاجداد کے طرزِ عمل سے ہٹ کر ،آپؐ جو کتاب ہمارے درمیان چھوڑ کر گئے اس کو مشعلِ راہ بنانا، سیرتِ پاک سے رہنمائی لینا ہمیں اصل دین کی طرف لوٹا دے گا۔علامہ کے الفاظ میں جس راستے سے ہم محمدؐمصطفیٰ تک نہیں پہنچتے،وہ سراسر بولہبی ہے،یعنی گمراہی ،دین سے دشمنی اور ہلاکت ہے، چاہے وہ کتنے ہی خوش نما ناموں سے ہو۔
بلوچستان میں بدامنی کی فضا بڑھ گئی ہے۔ تین مختلف مقامات پر باغیوں نے حملے کرکے بے گناہ افراد کی جانیں لیں۔پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر فورٹ منرو کے قریب مسافروں کو بس سے اتار کر پنجاب کی شناخت پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بدقسمتی سے بلوچوں کے ساتھ مخلصانہ بات چیت کے ذریعے ان کے موقف کو سننے کی پالیسی کبھی بھی نہیں اپنائی گئی۔ نتیجے میں شرپسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے عوام کے جائز مطالبات کو پرتشدد رنگ دے دیا۔ اب بھی ہم ہوش کے ناخن لیں تو حالات سدھر سکتے ہیں۔عوام میں ویسے بھی اضطراب بڑھ رہا ہے۔ بجلی کے بلوں، ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ملک کے طول وعرض میں کامیاب ہڑتال ہوئی ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ایک طبقہ عیاشی کررہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب عوامی شعور کو دبانا ممکن نہ رہے گا۔
بھارت بنگلہ دیش کوآبی دہشت گردی کا شکار کررہا ہے۔مون سون کی شدید بارشوں سے پہلے ہی متأثرعلاقوں میں اس نےبغیر وارننگ کے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر ایک وسیع رقبے کو سیلاب زدہ کردیا ہے۔ یہود و ہنود کی ملتی جلتی ذہنیت ہے۔ اسرائیل فلسطینی آبادی سے حماس کی حمایت کا بدلہ لے رہا ہےتوبھارت اپنے پٹھوؤں کو رد کرنے کی سزا بنگلہ دیش کے لوگوں کودینے پر تل گیا ہے۔مہینہ بھر پہلے بنگلہ دیش کے عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے ڈٹ گئے تھے۔کم از کم نوے افراد جان سے گئےمگرانہوں نے ظلم و جبرپر مبنی حکومت کو اپنے سر سےاتار ڈالا۔یہ حسینہ واجد کےپندرہ سالہ دورِ اقتدارمیں ملک کو بھارت کی گود میں ڈال دینے کا ردعمل تھا۔کوٹہ سسٹم کے تحت بھارت کے دوستوں کو نوازنے کی پالیسی بحال کرنےکا اقدام عوام کے لیے اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہؤا۔ اگرچہ اس دوران اعلیٰ عدالت نے حکم منسوخ بھی کردیا مگر عوامی احتجاج کا لاوابالآخر پھوٹ پڑا تھا جو شیخ حسینہ کی آمریت میں پندرہ سال سےاندر ہی اندر پک رہا تھا۔حزبِ مخالف کی آواز دبانا، بلکہ ہر اختلافِ رائے کو خاموش کروانا، جبری گم شدگیاں، اورماورائے عدالت قتل اس مطلق العنان حکومت کا وتیرہ رہا۔اس بارطالب علموں نے سینوں پر گولیاں کھائیں مگر جبر کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔
مکتی باہنی کا کردار،پاکستان سے علیحدگی،اور بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق شیخ حسینہ کی متشدد سوچ اس انتہا کو پہنچی کہ اس نے پچاس سال بعد بھی پاکستان کی وحدت کے لیے کام کرنے والے محب وطن رضاکاروں کو پھانسی پہ چڑھایا۔ظلم کا ایک فطری ردعمل ہوتا ہے اور سچائی کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ اس کے یہ انتہا پسندانہ اقدامات بالآخر اسی کو لے ڈوبے اور عوام احتجاج کرتے ہوئے خود کو رضاکارپکارنےلگے۔
اس تمام بحران میں بنگلہ فوج کا ذمہ دارانہ کردار قابلِ ذکر ہے۔فوج کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی سےدور رہنا چاہیے اورجب حکومت اور عوام میں ٹھن جائے تو ریاستی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، بنگلہ فوج نے یہی کیا ہے۔ بنگلہ عوام اپنی فوج کی عزت کرتے ہیں اوراس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ فوج نے عقل مندی سےکام لیا اوراپنےعوام پر گولی چلانے اور خون کی ندیاں بہانے سے انکار کردیا۔اب امید ہے کہ عوام کی خواہشات کے مطابق عبوری حکومت تشکیل دے کر فوج سیاسی معاملات سے الگ ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کو دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات سے بری کردیا گیا ہے اورفوج کے سربراہ جنرل واقرا لزمان نے احتجاج کے دوران مارے جانے والوں کو انصاف دینے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔ اللہ کرے بنگلہ دیش میں آنے والی اس مثبت تبدیلی کے کچھ اچھے اثرات وطنِ عزیز میں بھی محسوس ہوں۔
اسرائیل غزہ کے ساتھ اب مغربی کنارے کے باسیوں کو اپنی دہشت گردی کا شکار بنا رہا ہے۔ وہاں ہر روز شہریوں پر بے دریغ حملے کرکے قتلِ عام کررہا ہے۔دنیا میں اس کی پشت پناہ طاقتیں یہ بھی نہیں پوچھتیں کہ حماس تو غزہ میں تھی، مغربی کنارےکے مسلمانوں نے کس وجہ سے جہاد کا راستہ اختیار کیا۔اور پورے پورے محلوں پر کس لیے بم برسائے جارہے ہیں۔فلسطین کے مسلمان تو ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، مگر امت کے حکمران اپنا جواب کہاں دیں گے؟اپنے اپنے مفادات کو لے کربزدلی سے بیٹھے رہنے والے روزِ محشر رسول اللہ ﷺکا سامنا کیسے کریں گے؟
قادیانی سرگرمیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا خصوصاًچیف جسٹس کے بیان پر بہت شور اٹھا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کے معترضہ پیرا گراف حذف کردیے ہیں اور وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے قادیانیوں کے لیے آئین اور قانون کے مطابق طرز عمل کو بحال کردیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند خبر ہے اور جماعت اسلامی سمیت تمام مدعیان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے آئین سے متصادم فیصلے کو چیلنج کیا۔
اس بار کا سرورق تفریحی مقام فورٹ منرو کو جانے والی سڑک پر مشتمل ہے۔ اس کوجاپان کی مدد سےایک مضبوط پل کے ذریعے تعمیر کیا گیا ہے جو کہ ایشیا کا دوسرا بڑا سٹیل کا پل ہے اورجنوبی پنجاب کو سی پیک روٹ سے ملارہا ہے ۔فورٹ منروکا پہاڑی علاقہ تقریباًمری جتنی بلندی رکھتا ہے اور اس سڑک کی تعمیر سے اس مقام کو سیاحت کے لیے مقبول بنانا ممکن ہؤا ہے۔ مگر افسوس کہ بلوچستان کی بدامنی کے حالات یہاں کے سفر کو غیر محفوظ بنارہے ہیں اور ملکی ترقی کے ایک اہم ذریعے کو خطرات میں ڈال رہے ہیں۔
امجد اسلام امجد کی ایک غزل آپ کے لیے،اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی۔
جو زندگی فروش تھے وہی ہیں شہر کی زباں
جو خود زمیں کا بوجھ ہیں بنے ہیں میرِ کارواں
جو روشنی کے چور تھے وہی ہیں روشنی نشاں
غلام سر اُٹھائیں گے کہاں تھا تخت کو گماں
زمین کھا گئی اُنہیں جو بَن رہے تھے آسماں
جو زندگی کا حُسن تھے وہ لوگ رہ گئے کہاں
بہت تلاش ہو چکی بس اب تو تھک گئے میاں
بنیں گی اَبر ایک دن یہ چھوٹی چھوٹی بدلیاں
دعاگو،طالبہِ دعا
صائمہ اسما