قارئین کرام سلام مسنون!
بہارکے ساتھ ساتھ روزوں کی بھی آمد آمد ہے۔ اللہ کرے ہم اس ماہِ مبارک سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔
خواتین کا ایک اور عالمی دن اس حال میں آیا ہے کہ سڑکیں تو رنگارنگ سرگرمیوں سے بھر گئی ہیں مگر ہماری کثیرعورت حقوق کی اس جنگ سے بے خبر بیماری ،غربت ، بے روزگاری اور تعلیم سے محرومی کی چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اپنے اپنے نعروں کی گونج میں اس عام عورت کے دکھوں کا ازالہ بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔ہر بار معیشت جھٹکا کھاتی ہے تو لاکھوں مزید افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیتی ہے۔ کئی گھروں کے مزیدچولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ،تعلیم عیاشی اور علاج معالجہ ایک خواب بن جاتا ہے۔سندھ کی سیلاب سے اجڑی ہوئی عورت ابھی تک اپنے گھرکا راستہ دیکھ رہی ہے۔ کئی علاقوں میں تا حد نگاہ پھیلاپانی بھی نہیں اترا،تنکا تنکا جوڑ کر بنائے ہوئے جھونپڑے ہی سہی، خستہ تنی کو ایک پناہ تو میسر تھی۔ عورت ذات کو اوٹ چاہیے ہوتی ہے۔ جہاں عورت کو اوٹ کا حق بھی نہ ملے اور وہ سڑک پر بستر ڈالے پڑی ہو، وہاں کوئی اس کے جسم کی مرضی بھی تو پوچھے! سندھ کی سرکار عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اربوں کھربوں کے اشتہارات پر پھونک رہی ہے۔ان اشتہارات کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ ایک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک کے سیلاب زدہ مفلوک الحال صوبے کی حکومت ہے۔متوسط طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہے۔دوسری طرف چند فیصد خوشحال طبقہ ہے جسے فاسٹ فوڈ کی نئی کھلی ہوئی چین کے لیے قطار میں لگنا بھی گوارا ہے۔ اس سے پہلے کہ امیر اور غریب کا یہ خطرناک تفاوت ہمیں فساد کی طرف لے جائے، ہمارے باشعور طبقے کو عملی میدان میں آنا ہوگااور ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرنی ہوگی۔ اب تو قرض دینے والوں نے بھی شرط لگا دی ہے کہ پہلےعوام کا پیسہ کھانے والوں کو روکو پھر قرض ملے گا، یعنی قرض کی مے پینا بند۔ یہ اور بات کہ ایساایک آدھ بیان دےکے پھر عوام کی حالت پر رحم کھا کر قرض جاری کردیا جاتا ہے کہ کہیں واقعی یہ قوم جاگ ہی نہ جائے۔
عورتوں کے حقوق کی اس بڑھتی ہوئی لڑائی کو بھی درست اور مثبت سمت دینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں انتشاراور تفریق سے عام عورت کا بھلا نہیں ہوگا،بلکہ اس کی زندگی مزید مصائب کا شکار ہوگی۔ مردوں اورعورتوں کے زیادہ تر مسائل اچھی حکومت نہ ہونے کے باعث ہیں مگر عورتیں ان مسائل کی وجہ سے زیادہ متأثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کو زچگی اور ولادت جیسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سےعوام کے مسائل حل کرنا ہماری حکومتوں کی ترجیح نہیں ہوتی ۔ہمارے جیسے ملکوں میں عورتوں کی بہتری کے تمام منصوبے سب سے پہلے اچھی حکومت سے مشروط ہیں اور اس کے ساتھ معاشرتی تبدیلی بھی ضروری ہے جوعورتوں کے معاملے میں فرسودہ اور روایتی طرز فکر کو ختم کرے۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر کی نجی جیل سےاغوا شدہ خاندان کی بازیابی اور کچھ افراد کی لاشیں ملنے پر بے حد اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس وزیر کو جس کا تعلق مسلم لیگ سے الگ ہوکربننے والی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے ، گرفتار کرلیا گیا ہے مگر مقدمہ کب چلے گا اورمظلوموں کو انصاف ملے گا یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مجرم بااثرہو تو اس کا چھوٹ جانا یقینی ہوتا ہے،سزائیں اور جیلیں صرف عوام کے لیے ہیں۔ یہی وہ روش ہے جس کے باعث قوموں پر عذاب آیا کرتے تھے۔اور ایسے ہی واقعات بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور علیحدگی پسندوں کے حوصلے بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔
ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلے سے ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔اندازہ ہے کہ پچاس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اللہ جانے والوں کی مغفرت فرمائے،اس کٹھن وقت میں دونوں ممالک اور ان کی تباہ حال آبادیوں پر رحم فرمائے اور اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کا حوصلہ دے آمین۔ترکی میں عمارات گرنے کی تحقیقات ہورہی ہیں، خیال ہے کہ زلزلہ کے امکانات والا علاقہ ہونے کی وجہ سے جو تحفظ کےاصول وضوابط لاگو ہوتے تھے وہ تعمیر میں ملحوظ نہیں رکھے گئے۔وہ عمارات ٹوٹنے پر انصاف کررہے ہیں، ستم ظریفی یہ کہ ہمارا توملک ٹوٹ گیا اورذمہ داران کو سزائیں نہیں دی گئیں۔
اس بار کے شمارے میں قراردادِ پاکستان، رمضان المبارک اور یوم خواتین، تینوں اہم مواقع کی مناسبت سے تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
ادب سے تعلق رکھنے والی دو اہم شخصیات اس ماہ ہم سے رخصت ہوگئیں۔امجد اسلام امجد اور ہر دلعزیزشاعر اوربے حد مقبول ڈرامہ نویس تھے۔ان کی شاعری پڑھنے سننے والوں میں ہر عمر اور ذوق کے افرادشامل تھے۔ پی ٹی وی ڈرامہ کے سنہری دورمیں انہوں نے کئی مقبول سیریل اور طویل کھیل ناظرین کو دیے جن میں بیشتر ایسے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ان کا ڈرامہ سلجھا ہؤا باوقار اورمعاشرتی مسائل سے جڑا ہؤا ہوتا تھا جس میں بین السطور وطن سے محبت جھلکتی رہتی تھی۔ مثبت طرز فکر کے ساتھ تلخ ترین حقائق کو بھی خوبی سے پیش کرتے تھے۔ضیا محی الدین صدا کار اور ہدایت کار، خوبصورت لب و لہجے میں ستھری اردو اور انگریزی بولنے والے تھے، کئی بڑے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کو اپنی آواز سے مزید اثر انگیز بنایا۔زبان کے زوال اور لفظ کی توقیرپامال ہونے کے اس دور میں ان کا دم غنیمت تھا۔ اللہ مرحومین کو غریقِ رحمت کرے آمین۔ امجد صاحب کے دلگیر اشعار کے ساتھ اجازت دیں بشرطِ زندگی اگلے ماہ تک۔
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خشک بھی نہ ہو پائی روشنائی حرفوں کی
جانِ من مکرنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
فرد کی نہیں ہے یہ بات ہے قبیلے کی
گر کے پھر سنبھلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
درد کی کہانی کو عشق کے فسانے کو
داستان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دستکیں بھی دینے پر دَر اگر نہ کھلتا ہو
سیڑھیاں اترنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
بھیڑ وقت لیتی ہے رہنما پرکھنے میں
کاروان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
مستقل نہیں امجدؔ یہ دھواں مقدر کا
لکڑیاں سلگنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دعا گو، طالبہ دعا
صائمہ اسما