قارئینِ کرام! سلام مسنون
ایک دکھ بھرے واقعے سے آغاز کرنا پڑرہا ہے۔ پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں بم دھماکا تازہ سانحہ ہے۔۸۳ قیمتی جانیں چلی گئیں اور بہت سے لوگ زخمی ہیں۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات کچھ عرصے سے دوبارہ سر اٹھارہے ہیں،اور اس افسوس ناک واقعے نےتوواضح طور پہ ہمارے شہروں،عوامی جگہوں اور حساس مقامات کوایک بار پھر دہشت گرد حملوں کی زد پر ہونے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بین الاقوامی اور اندرونی عناصر کی ملی بھگت کے ساتھ ہمارا ملک اس وقت کئی قسم کےشیطانی منصوبوں کا نشانہ ہے۔انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ آنے والا وقت خیر اور بہتری کا ہو ،آمین۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ صرف ہوئے بلکہ ان کے نتائج نے اہل کراچی کو خوش اورسندھ حکومت کو پریشان کردیا۔ایسے وقت میں جبکہ بلدیاتی انتخابات کرواناکسی جماعت کی ترجیح نہ تھی،جماعت اسلامی نے مسلسل انتخابات منعقد کروانے کے لیے جدوجہد کی اور اب وہی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ٹھہری ہے۔کراچی کے شہریوں نے فیصلہ دے دیا ہے اور حافظ نعیم الرحمان کے لیے بطور میئر اپنی پسند پر مہر لگا دی ہے۔
مگر اہل کراچی کی خوشی ادھوری ہے ، کراچی کو حق دینے کے لیے ان کی رائے سامنے آنے کے باوجود ان کی رائے کے احترام کا حق انہیں نہیں دیا گیا۔بلدیاتی سیٹ اپ کو ابھی تک کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔قبل از انتخابات جو حلقہ بندیوں میں من مانی کی گئی وہ تو ایک طرف، بعد از انتخابات دھاندلی کی بھی تاریخ رقم کر دی گئی۔ براہ راست سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے ایما پر نتائج کو تبدیل کردیا گیا۔ریٹرننگ افسرپیپلز پارٹی کے ورکر بن گئے۔ انکار کرنے والےپریذائڈنگ افسروں سے گن پوائنٹ پر ٹھپے لگوائے گئے۔ اب دوبارہ گنتی کے نام پہ جعلی نتائج ظاہر کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔الیکشن کمیشن کے پاس تمام اختیارات ہیں۔سب سے پہلے اس کا فرض بنتا ہے کہ عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کی حفاظت کرے اورحاصل کردہ ووٹوں کے مطابق نتائج کا اعلان کرے۔ اس کام میں جتنی تاخیر ہورہی ہے اتنا زیادہ اس بات کا امکان بڑھ رہا ہے کہ کمیشن معاملات کو سندھ حکومت کی منشا کے مطابق طے کرنا چاہتا ہے۔کراچی کے شہریوں نے بہت ابتری دیکھی ہے ،مختلف ناموں سے سالہاسال دھوکے کھائے ہیں۔ اب جبکہ اپنا میئر منتخب کرنے میں انہوں نے ہو ش و خرد کا مظاہرہ کیا ہےتو ان کی رائے کا ہر قیمت پراحترام ہونا چاہیے ۔
کراچی کی جیت کا تمامتر کریڈٹ حافظ نعیم الرحمان کی قیادت اور اپنےساتھیوں کے ہمراہ ان کی مسلسل جدوجہدکو جاتا ہے۔ کراچی کے مسائل کی خاطرانہوں نے جس طرح دن رات ان تھک محنت کی اور شہریوں کے حقوق کے لیے ڈٹے رہے، ثابت قدمی اور صبر سےایم کیو ایم کی غنڈہ گردی کا مقابلہ کیا،بغیر عہدوں اختیارات اور وسائل کے عوام کی بے لوث خدمت کی اور ان کا اعتماد حاصل کیا خصوصاً نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بنایا،سندھ حکومت کو انتخابات کے انعقاد سے بھاگنے نہیں دیا،ذہانت سےاپنا بیانیہ ترتیب دیا، اور جیت کے بعد جس تواتر سے وہ اپنے حق کے لیے کھڑے ہیں،یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اہلِ کراچی کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں اور شہر کے لوگ اب امانتیں ان کے ہاتھوں میں سونپنا چاہتے ہیں۔آج جبکہ ہر طرف مفاد پرستانہ سیاست کا چلن ہے،انہیں جماعت اسلامی کےکرپشن سے پاک دامن ، ایمانداری اور خدمت کے بے مثال کردار نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اپنے شہر کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیں۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست بھی لمحہِ فکریہ ہے۔کراچی سے کئی قومی اور صوبائی نشستیں جیتنے کے باوجود یہ جماعت بلدیاتی الیکشن میں بے حد کم ووٹ حاصل کرسکی۔ کراچی کے مسائل نے ووٹر کو مائل اور قائل کیا کہ قومی منظر نامے میں اقتدار کی
رسہ کشی سے ہٹ کر مقامی حکومت کے لیے اپنی ترجیحات نئے سرے سے طے کرےجن کی بنیاد سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور امانت و دیانت پر ہو۔یہ شعور قومی پیمانے پر نجانے کب بیدار ہوگا! بلاشبہ کراچی سب سے بڑا شہر ہے اور مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے اسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے،مگر یہ محض ایک شہر کے انتظامی معاملات ہیں،ملک کے حالات تب بدلیں گے جب عوام ایسی ہی ہوش مندی صوبائی اور وفاقی حکومتیں منتخب کرتے ہوئے دکھائیں گے جو بدستور نامخلص اور بے ایمان عناصر کے ہاتھوں میں ہیں اور اسی لیے ملک کا یہ حال ہے۔دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ شکوہ رہتا تھا کہ عوام ان کے نمائندوں کی بجائے کرپٹ عناصر کو منتخب کرتے ہیں تو ان کی چوائس ایسے ہی لوگ ہیں، مگراب کراچی کے لوگوں نے اس بات کو غلط ثابت کردیا ہے، حافظ نعیم الرحمان کی صورت میں بصیرت ،دانش مندی،سیاسی حکمت عملی،دلپذیر بیانیہ اور مؤثرابلاغ کا ایک ایسا رول ماڈل سامنے آیا ہے جس سے استفادہ کرکےجماعت اسلامی قومی سیاست میں بھی مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بن سکتی ہے۔
ملک کے معاشی حالات پہلے سے کہیں زیادہ دگرگوں ہیں۔ ڈالر کے مقابل روپے کی قدرمیں حالیہ کمی اور پٹرول کی قیمت میں یک لخت اضافے نے بہت تشویش ناک حالات پیدا کردیے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے کم عرصے میں پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرومیں پانچ گناسے بھی زیادہ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح بارہ فیصد سے پینتیس فیصد ہونے جارہی ہے۔اس کمی کا بوجھ اب ہر عام محنت کش ملازمت پیشہ پاکستانی بھگتے گاجبکہ یک لخت یہ جھٹکا دے کر کئی بااختیار افراد نےاپنے اثاثے کئی گنابڑھالیے ہوں گے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ہمارے حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہاہے،آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط کی غلامی ہمیں دیوالیہ کردے گی۔دوسو ارب کے ٹیکس مزید عوام پر لگیں گے اس کے باوجودلگتا یہ ہے کہ ہم معیشت کو سنبھال نہیں پائیں گے۔کسی بڑے ہمہ جہتی معاشی انقلاب کے بغیر معیشت بہتر ہونے کی توقع نہیں ہےاور یہ کسی حکومت کی ترجیح نہیں ہےکیونکہ ہر حکومت اپنا وقت گزارنا ، جمہوری تماشے میں بولیاں لگانایا پھر ملکی وسائل زیادہ سے زیادہ لوٹنا چاہتی ہے۔
لاہور کے ایک مہنگے سکول میں چند لڑکیوں کی اپنی ہم جماعت لڑکی کے ساتھ بدمعاشی اور تشدد کا انتہائی مذموم واقعہ پیش آیا جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ نشے کی لت ہمارے تعلیمی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔اورنشہ تو ہے ہی ام الخبائث جو دیگر ہر بے شرمی اور بداخلاقی کا دروازہ کھولتا ہے۔ ان لڑکیوں کے خلاف ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جاسکی اور ان کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی ہوچکی ہے،سکول کی انتظامیہ خاموش ہے۔ افسوس کہ تربیت نہ گھروں میں ہے اور نہ سکولوں میں،اور انصاف طاقتور کے گھر کی باندی ہے۔سوچنے کا مقام ہے کہ مہنگی اورجدیدتو ایک طرف، ایسی تعلیم ہی کا کیا فائدہ جو انسان کے بچوں کو انسان کے مقام سے گرا دے۔
مولانا مودودی کی صاحبزادی محترمہ اسما مودودی انتقال کر گئیں۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے آمین۔ ان کی یاد میں دو مضامین اس بار شمارے میں شامل ہیں۔ پانچ فروری یوم کشمیر کے موقع پر مقبوضہ وادی کے نام راحت اِندوری کے چند اشعار:
نیند پچھلی صَدی سے زخمی ہے
خواب اَگلی صَدی کے دیکھتے ہیں
روز ہم اِک اَندھیری دُھند کے پار
قافلے روشنی کے دیکھتے ہیں
دُھوپ اِتنی کراہتی کیوں ہے
چھاؤں کے زخم سی کے دیکھتے ہیں
ٹکٹکی باندھ لی ہے آنکھوں نے
راستے واپسی کے دیکھتے ہیں
بارشوں سے تو پیاس بجھتی نہیں
آئیے زہر پی کے دیکھتے ہیں
اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی! دعا گو، طالبہ دعا
صائمہ اسما