قارئین کرام! سلام مسنون
نئے سال کا استقبال کرنا اس سردی اور سموگ کے درمیان۔۔۔ایسا ہے جیساسردی میںشعلہِ امیدجلانا ، جذبوں کی حرارت ڈھونڈنا۔۔۔اور سموگ میں کھل کر سانس لینے کی تمناکرنا،نشانِ منزل تلاش کرنا۔ اللہ کرے یہ سال ہمارے ملک، امت اور کرہ ارض کے باسیوں کے لیے عافیت اور رحمت کا سال ثابت ہوآمین۔
منی بجٹ نے پسے ہوئے عوام کومہنگائی کے نئے ریلے کے سپرد کردیا ہے۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھی گئی ہے اور وہ بھی اس حکومت کے ہاتھوں جس کا نعرہ تھا کہ بھوکے رہ لیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اگر غلط کہا تھا توووٹ لینے کے لیے عوام کو دھوکہ دیا تھا اور اگر ارادہ تھامگر حکومت میں آنے کے بعدپتہ چلا کہ یہ ممکن نہیں ہے تو نالائقی کی انتہا ہے۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں عوام کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کریں ورنہ عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیاررہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست جھوٹ فریب ،انتقام، دھوکہ ، مفاد پرستی اور بے ضمیری کا ملغوبہ بن چکی ہے ۔سچ ، اصول پسندی اور کردار کا حوالہ آتا بھی ہے تو بقول ظفرؔ اقبال کچھ یوں کہ:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پہ ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کی مغرب نواز پالیسیوں پر عالم اسلام میں تشویش پائی جاتی ہے۔شاہ محمد بن سلمان کے وژن ۲۰۳۰میں معیشت، صحت ،تعلیم، سیاحت اورتفریح کے پہلو سے مکمل منصوبہ موجود ہے۔البتہ اس کے مطابق لائی جانے والی تہذیبی تبدیلیوں کو عمومی طور پر امت کے سوادِ اعظم نے ناپسند کیا ہے ،اور انہیں اسلام کے روحانی مرکز کے لیے نامناسب قرار دیا ہے۔ خصوصاً حرمین کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے شہر دنیا بھر کے مسلمانوںکے لیے عقیدت و محبت، اوردینی وابستگی کے مراکز ہیں، ، دینی تشخص کے مظہر ہیں،جہاں وہ دین کو اس کی اصل روح میں برقرار دیکھنا چاہتے ہیں، خواہ اپنی ذاتی زندگیوں میں کیسے ہی عمل کرتے ہوں۔ وہ ہدایت کے اس منبع کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وبا کے دنوں میں حرمین کی بندش پردنیا میں ہر جگہ کے مسلمانوں کے دل تڑپتے رہے۔ اور جیسے ہی حرمین کے دروازے دوبارہ کھلے، پوری امت کے اندر ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے۔ دجال کی آمد ایک ایسا فتنہ عظیم ہوگا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر نماز میں اس فتنے سے پناہ مانگنے کی تاکیدکی ہے۔ مگر مکہ اور مدینہ وہ شہر ہیں جن کو دجال کے ساتھ آ خری فیصلہ کن معرکے پربھی محفوظ رہنے کی نوید دی گئی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کی پالیسیوں سے امت کے مجموعی مورال پر کیا اثر پڑرہا ہے اور ان تبدیلیوں کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ خواتین کے متعلق کچھ تبدیلیاں ایسی ہیںجو اسلام کی غلط تعبیر پر مبنی پالیسیوں کو ختم کررہی ہیں اور جن پر جدید مسائل کے تناظر میں بہت پہلے نظر ثانی ہوجانی چاہیے تھی جبکہ علما کی اجتہادی آرا ان معاملات میں موجود ہیں مثلاً خواتین کے اکیلے سفر پر پابندی، ڈرائیونگ پر پابندی،پردے کا شدت پسندی پر مبنی قانون، اسی طرح عوام کے لیے تفریح کے محدود مواقع ۔لیکن موجودہ سیاسی پالیسیوں کے تناظر میں ان تبدیلیوں پر بھی تشویش پائی جارہی ہے۔ خصوصاً سعودی عرب کی مقدس سمجھی جانے والی سرزمین پرفلم ایوارڈز تقریب کی میزبانی اس کا تقدس پامال کرنے کے مترادف ہے۔ریڈ سی فلم فیسٹیول کی تقریب جو بنیادی طور پر عرب شائقین کے لیے اور اس خطے کی فلموں کے لیے تھی،مگر دنیا بھر سے اس میں ۶۷ ملکوں نے شرکت کی، کسی اور ملک مثلاً مصرکی سرزمین پر بھی رکھی جا سکتی تھی۔عرب فلم انڈسٹری بنیادی طور پر مغرب کی فلم انڈسٹری سے متاثر ہے،جو نہ صرف سیکیولر، سرمایہ دارانہ ، اخلاق باختہ، بلکہ دجالی تہذیب اور شیطانی مذہب کے
پیروکاروں کا گڑھ ہے۔ امریکی اور یوروپین فلم انڈسٹریز کا صیہونی تحریک اور شیطانی مذہبی علامات سے تعلق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ البتہ ایران اس معاملے میں ضرور قابل تقلید ہے جس نے انقلاب کے بعد سے اپنی فلموں کو معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے بھرپوراستعمال کیا ہے اور اپنے عوام کو معیاری تفریح بھی فراہم کی ہے۔ ایرانی فلموں کے معیار کا اندازہ اس بات سے کیاجا سکتا ہے کہ مغربی دنیا کے ایران کے خلاف تعصب اور بائیکاٹ کے باوجود بین الاقوامی میلوں میں ایرانی فلموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورکئی فلمیں ایوارڈز کی حقدار ٹھہرتی ہیں۔ فلم ایک بے حد طاقت ور ذریعہ اظہار ہے جس سے ترقی یافتہ دنیا نے اپنے معاشروں کی تعمیروترقی میں خوب مدد لی ہے۔ سعودی عرب بھی چاہے تو اس سلسلے میں اسلامی دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے اورتاریخِ اسلام کے ساتھ ساتھ علم و حکمت کی ترویج کے لیے فلم سازی کواپنے وژن کا حصہ بنا سکتا ہے۔ بہر حال سرزمینِ اسلام پر ریڈ سی فلم فیسٹیول کے نظاروں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی۔ اس سے بھی زیادہ ریاض میںبھارتی فلم اداکاروں کے شو کے مناظر تکلیف دہ تھے جن میں بالی ووڈ اپنی تمام تر اخلاق باختگی کی نمائندگی کرنے کے لیے موجود تھا۔اگر وژن ۲۰۳۰ یہی ہے تو یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
دوسری طرف چند سال پیشتر کی ایک خوش کن خبر یہ بھی تھی کہ سعودی حکومت نے اقوام متحدہ کے ویمن امپاورمنٹ پروگرام سیڈا کو مسترد کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت سے پہلوؤں سے اسلامی شریعت سے متصادم ہے۔ اس میں اخلاقی بے راہروی، اصناف کی یکسانیت، ہم جنس پرستی ،اور تعدد ازواج کی ممانعت وغیرہ جیسی شقیں اسلام کے مطابق نہیں ہیں، ہم اس کی توثیق سے انکار کرتے ہیں، اس کی پابندی کو مسترد کرتے ہیں اور شریعت کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں۔یہ ایسا بیان بلکہ اقدام تھا جس نے یو این کے ممبرمسلم ممالک کو حوصلہ دیاکیونکہ سیڈا کی شقوں پر کئی اسلامی ممالک کو اعتراض ہے بلکہ بہت سے دیگر ممالک کو بھی ہے۔یہ قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۵ کا ایجنڈا ہے جس پر ممبر ممالک کو دستخط کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ خود امریکہ نے بھی ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی۔ اس پروگرام کو منظر عام پر آئے ستائیس سال ہورہے ہیں۔ابھی تک اسلامی ملکوں کے وفود اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں دے سکے۔ اسلامی ممالک کو اس معاملے پر مل جل کر ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔سعودی حکومت کا اسے تسلیم نہ کرنا ایک اچھا آغاز ثابت ہوسکتا ہے کہ عورت کے مقام اور حقوق سے متعلق ایک جامع متبادل پروگرام دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
معروف عالم، ماہر تعلیم،مبلغ، کئی بلند پایہ کتب کے مصنف مولانا یوسف اصلاحی رامپور انڈیا میں انتقال کر گئے۔ مدرسۃ الاصلاح سے تعلیم پانے کے باعث اصلاحی کہلاتے تھے۔ آسان زبان میںلکھی ہوئی ان کی کتابیںبلامبالغہ لاکھوں گھروں میں پڑھی جاتی ہیں۔ان کی کتاب آدابِ زندگی نے کئی زندگیوں کو سنوارااور اسلامی اخلاق سے روشناس کروایا۔ آسان فقہ ، حسنِ معاشرت، اسلامی معاشرہ، داعیِ اعظم، روشن ستارے جیسی ساٹھ کے قریب مقبول کتابیں لکھیں۔کئی تعلیمی اور رفاہی اداروں کو بنانے اور چلانے میں ان کی خدمات ہیں۔ نوجوانی میں جماعت اسلامی ہندسے وابستہ ہوئے اورکئی مرکزی عہدوں پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ ضعیفی کے دور میں بھی دعوۃ کے لیے امریکہ یورپ آسٹریلیا اور جاپان کے سفر اختیار کرتے رہے جہاں ہزاروں لوگ ان کے خطاب اور رہنمائی سے مستفید ہوتے۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار تھے اورسمجھتے تھے کہ مسلم گھرانوں میں خواتین کے حقوق تلف کیے جاتے ہیں جو اچھی صورتحال نہیں ہے۔ مسلمان خواتین کو اسلام کے دیے ہوئے حقوق خصوصاً حق تعلیم اور حق وراثت دلوانے پر بہت زور دیتے تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو اعزاز کے ساتھ قبول و منظور فرمائے آمین۔
بتول کی مقبول افسانہ نگار، ہر دلعزیز شخصیت اور ہماری بے حد عزیزمحترمہ قانتہ رابعہ کو ان کی بچوں کے لیے لکھی کتاب پر اکادمی ادبیات اطفال نے ایوارڈسے نوازا جو انہوں نے چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس منعقدہ الحمرا لاہور میں آکر وصول کیا۔ ادارے کی جانب سے ان کو دلی مبارکباد اور ان کے لیے بے شمار نیک خواہشات ۔
اگلے ماہ تک کے لیے اجازت بشرطِ زندگی ، دعاگو
صائمہ اسما