1- تربیتی نشست کا سامانِ سفر لیے ہم گاڑی میں بیٹھے باہر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے ہی والے تھے کہ ساتھیوں کی بھنبھنانے کی آواز آئی، یوں جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے اس کے گرد منڈلاتی ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ نصب العین اور دعائے نور کو رٹا لگایا جا رہا ہے۔
’’کیوں بھئی، اتنی جلدی کیا ہے یاد کرنے کی ؟‘‘ہم نے پوچھا ۔
’’وہاں یہ سب چیزیں سنی جائیں گی، سرکلر دھیان سے پڑھا ہے آپ نے ؟ ‘‘ ایک پیاری سی ساتھی نے اپنی عینکوں کے پیچھے سے جھانکا ۔
’’اوہ۔ ہ ہ ‘‘ ہم بھی نقاب کے پیچھے سے مسکرائے مگر یاد پھر بھی نہ کیا ۔
’’دیکھا جائے گا،وہاں شام کے ملجگے میں کسی کونے کھدرے میں گھس کر یاد کر لیں گے‘‘ سوچا اور کھڑکی سے باہر قدرت کے حسین نظارے میں محو ہو گئے ،یوں بھی ہمیں دورانِ سفر بولنابالکل پسند نہیں۔
2- ٹھیک ساڑھے دس بجے ہم قرآن انسٹی ٹیوٹ پہنچ گئے اور رجسٹریشن کے بعدکمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے بستروں پر قبضہ کیا اور پھر ڈائریز لے کر اجتماع گاہ میں پہنچنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک ساتھی نے جرابوں کا جوڑا ہماری طرف اچھالا ، ہم نے حیران نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
’’سردی ہے پہن لینا ‘‘ ان کا محبت بھرا جواب آیا ۔
’’ہم نے مسکرا کر بیگ میں ڈال لیا ،ادھر نہ سہی آگے آنے والی سردی میں تو ضرور کام آئے گا، آپ کو بھی یہی مشورہ ہے ،جرابوں کا تحفہ بغیر کسی تکلف کے فوراً قبول کرو‘‘۔
3- پروگرام شروع ہو گیا تھا ، اسٹیج سیکرٹری کے دل نازک پر حاضری گراں گزر رہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ دل گرفتہ چکنہ چور ہو جاتا ،حاضری بہتر ہو گئی۔
4-کھانے کے وقفے میں کھاریاں والے ایک میز پر بیٹھے زور وشور سے کھانا کھا رہے تھے کہ ان کی ایک ساتھی نے آکر ، سر نیچے کر کے دھیرے سے کہا ۔
’’کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہماری کھانے پر ڈیوٹی ہے‘‘۔
’’جبھی تو ہم کھا رہے ہیں‘‘ان سب کا شرارت بھرا جواب آیا ۔
5- نصب العین سنانے کی باری آئی تو ہم کرسیوں کے پیچھے قالین پر سر جھکا کر بیٹھ گئے،مگر پھر پتہ چلا کہ اس حمام میں تو سبھی… خیر مدرس نے بڑے بڑے استادوں کو پڑھا دیا، نالائق شاگردوں کی طرح ہم نے بھی رٹا لگا لگا کر نصب العین یاد کیا۔
6-’’ اپنا تعارف‘‘ پروگرام میں ارکان کے نام جاننے کے متعلق ٹیسٹ ہؤا جس میں سبھی below board ہی رہے۔ ایک رکن نے نائبین ضلع کا بھی ٹیسٹ لینے کا کہا، اور پھر خود بھی دھر لی گئیں ، عالیہ حمید کو طیبہ حمید، شازیہ فضل کو شازیہ عالم جبکہ شاہدہ عالم کو شاہدہ فضل اور بشریٰ سرور کو بشریٰ اشرف بنا دیا گیا۔ بعد ازاں مشورہ سامنے آیا کہ سبھی ارکان ناموں والا بیج لگایا کریں۔ ایک رکن نے تعارف دیتے ہوئے کہا کہ میں فلاں ہوں اور فلاں رکن کی سمدھن بھی ہوں ،بس جی پھر کیا تھا وہاں سمدھن ٹرینڈ چل پڑا۔ ناظمہ ضلع کے بیٹے کی حال ہی میں ایک رکن جماعت کی بیٹی سے نکاح ہؤا ،اب ناظمہ صاحبہ سے تو سب واقف تھے مگر انکی سمدھن سے شناسائی نہیں تھی، جب وہ تعارف کے لیے کھڑی ہوئیں تو سب کہنے لگے یہ ہیں وہ سمدھن ؛ یہ ہیں وہ سمدھن ۔ بس جی پھر تو محفل زعفران زار بن گئی۔
7- ہم ایک پروگرام کے دوران دوسری صف میں بیٹھ کر جی۔میل پر کارروائی لکھ رہے تھے جب مقرر کی آواز آئی کہ :
’’جیسا کہ کل عالیہ بہن نے کہا کہ جمعیت کی تربیت گاہوں پر جاتے موبائل کا تصور نہیں تھا، گھر والوں سے آخری سلام دعا کر کے، خود کو بخشوا آتے کہ واپسی ہو گئی تو ٹھیک ورنہ جنت میں ملیں گے‘‘۔
یہ بات سنتے ہی ہم نے پہلے ادھر ادھر دیکھا پھر غور سے رقیہ بہن کو دیکھا کہ شاید وہ ہمیں موبائل پر مصروف دیکھ رہی ہیں۔ کارروائی لکھنا بند کر کے موبائل آف کر کے بیگ میں ڈال لیا۔ گویا چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہو گئی۔
8- پروگرام ’’ہمیں جانیے آپ کو اچھا لگے گا‘‘ کے تمام شرکاء نے بہت اچھا بولا اور بہت زیادہ بولا ۔ انائونسر نے بار بار پرچیاں دکھا کر اور کرسی پر پہلو بدل بدل کر پروگرام ختم کروایا، ان کے بعد’’ویمن اینڈ فیملی کمیشن ‘‘ کی صدر ڈاکٹر رخسانہ صاحبہ کا پروگرام تھا اور وہ بھی انتظار میں تھیں ،جب ان کی باری آئی تو انہوں نے اسٹیج پر آکر ایک لائن کا بہت خوبصورت تبصرہ کیا ۔
’’ان مولویوں کے ہاتھ میں مائیک تھما دو ، تو ان سے مائیک چھڑوانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں میں کب چھوڑتی ہوں‘‘۔
9- یہی صورتحال اس وقت بھی ہو گئی جب ایک مقررہ بہن ’’بیلٹ پیپر فل کرنا‘‘ پر بات کر رہی تھیں، ان کا وقت ختم ہوگیا تو ان کے ایک طرف اسٹیج سیکرٹری اور دوسری طرف نائب ناظمہ آ کر کھڑی ہو گئیں تو وہ کہنے لگیں کہ’’ کراماً کاتبین‘‘ آ کر کھڑے ہوگئے ہیں اب بات ختم کرتی ہوں۔ نائب ناظمہ انکے بائیں طرف کھڑی تھیں جب انہوں نے یہ سنا تو فوراً دو قدم پیچھے ہٹیں۔
10. ناشتہ و تیاری کا وقفہ ہوا ، ہم کچھ دیر بعد کمرے میں گئے اور چونک گئے ،وہاں ایک بیوٹی پارلر کا سا ساماں تھا ،ارکان ایک دوسرے سے کنگھی، ٹوتھ پیسٹ ، کریم ،لپ اسٹک، پاؤڈر اور ویسلین ادھار مانگتے دکھائی دیے ، ایک ساتھی اپنی چپکی ہوئی ٹوتھ پیسٹ لہرا لہرا کر کہہ رہی تھیں کہ اگر کسی میں ہمت ہو تو نکال کر استعمال کر لیں۔ ہم ہنسے اور کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس کو تو کسی چلتی بائیک کے نیچے رکھنا پڑے گا۔ پاکستانی قوم ان کاموں میں مہارت رکھتی ہی ہے۔ ایک ساتھی کہنے لگیں کہ ذرا دیکھنا میں لپ اسٹک لگانے لگی ہوں کہیں اوپر نیچے نہ ہو جائے ۔ ہم نے کہا کیوں نہیں ۔ ضرور دیکھیں گے ۔ کل ہی تو ناظمہ ضلع نے فرمایا تھا کہ ارکان ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔
11۔ ڈاکٹر رخسانہ کی شخصیت کا اتنا رعب ہے کہ ایک رکن کا پروگرام ہونا تھا وہ بڑے زور و شور سے دعا کر رہی تھیں کہ’’ اے اللہ جب میرا پروگرام ختم ہو تب ہی ڈاکٹر صاحبہ ہال میں تشریف لائیں‘‘ مگر انہیں جب پتہ چلا کہ وہ ان کے پروگرام سے پہلے ہی آ رہی ہیں تو انہوں نے شرح صدر کی دعا ’’رب الشرح لی‘‘ پڑھنا شروع کر دی ، حتیٰ کہ جب کھانا کھانے لگیں تو بھی کھانے کی دعا کی بجائے ان کے منہ سے ’’رب الشرح لی ‘‘ ہی نکل رہا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں انہوں نے پروگرام بہت اچھا کروایا۔
12- محفل نشید میں ہم تصور قہوہ کیے بیٹھے تھے مگر مونگ پھلی پھانکنے کو ملی، مگر ساتھ سریلی و مترنم آوازوں کا جادو اتنا چلا کہ ہم اونگھنے لگے اور خواب خرگوش میں چلے گئے البتہ کچھ سخت جان ارکان رات گئے تک جاگتے رہے اور ترانے ،نغمے اور نعتیں سنا سنا کر دور جمعیت کی یادیں تازہ کرتے رہے۔
13- وقت رخصت ہم بہت اداس ہو گئے تھے ۔ یہ وقت دوبارہ نہیں آنے والا ۔ اور بقول نگہت باجی یہ نصیبے والوں کا وقت تھا جو گزر گیا ۔ منہ دھو کر ہم نے سامنے آئینہ میں دیکھا تو وہاں شیلف پر وہی چپکی ہوئی ٹوتھ پیسٹ رکھی تھی۔ وہ بھی خاموش اور اداس لگی۔ مگر ہم اس کو دیکھ کے پھر سے مسکرا دیے ۔
٭ ٭ ٭