This Content Is Only For Subscribers
گزشتہ قسط کاخلاصہ: شازمہ کو لگتا ہے کہ شاہ زر نے بچوں کے ہر فیصلے کا اختیار اس کو دے کے بچوں کی ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑایا ہے۔ شازمہ کو بچوں کے پرنسپل سے ملنے جانا پڑا اور بچوں کے اوٹ پٹانگ جوابات سن کراسے وہاں بہت شرمندگی کا سامنا ہؤا۔ صباحت نے اپنی مرحومہ بھابھی کا بچہ گود لیا تو عماد حماد نے خود کو اس بچے کی ماں تصور کرلیا۔ نوجوانی میں قدم رکھا تو لاک ڈاؤن میں بچوں کو فارغ دیکھ کے شازمہ نے ان کی شادی کروادی۔ اس کو شروع سے ہی کم عمری میں بچوں کی شادی کروانے کا شوق تھا۔ شادی کے بعد شازمہ کو ادراک ہؤا کہ اب اسے دو نہیں بلکہ چار بچوں کو پالنا تھا۔ منال اور ہانیہ اتنی شرمیلی نہیں تھیں جتنا اس نے شروع میں سمجھ لیا تھا۔ جلد ہی تکلف کی دیوار گری تو پتہ چلا دونوں ہی سیر پہ سوا سیر تھیں۔ شازمہ کو سسرال میں ساتھ رہنے کا تجربہ نہیں تھا مگر اس نے سن رکھا تھا کہ عموماً گھروں میں کبھی دیورانی جٹھانی کی نہیں بنتی تو کہیں ساس بہو میں ان بن رہتی ہے۔ اس کے گھر میں انوکھی ہی ریت چلی۔ منال اور ہانیہ یک جان ہوجاتیں تو عماد حماد ایک ساتھ ہوجاتے۔ کرکٹ، لوڈو، کیرم، بیڈمنٹن، آن لائن گیمز، ہر طرح کے کھیل کھیلے جاتے لیکن آڑی نہ بدلتے۔ بڑے جوش و خروش سے کھیل شروع ہوتا۔کچھ دیر ہی سکون سے کھیل پاتے پھر چیٹنگ، لڑائی، شور شرابہ ہوتا۔ ناراضگی بڑھتی اور کھیل تلپٹ کر دیا جاتا ۔ڈھیروں شکایتوں کا پلندہ لے کے شازمہ کے سر پہ پہنچ جاتے۔ وہ ان چاروں کی صلح کرانے میں ہلکان ہوجاتی۔ ایسے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کے الزام لگاتے جیسے شادی شدہ نہ ہوں پرائمری کے بچے ہوں۔ شازمہ مصنوعی غصہ دکھاتی مگر دل ہی دل میں صدقے واری جاتی۔ شادی سے پہلے حماد عماد غل مچاتے تو وہ جھنجھلا جاتی تھی۔ سر میں درد شروع ہوجاتا۔ جب سے اس کی بہوئیں اس منظر میں شامل ہوئی تھیں اس کو یہ ہلچل گھر کی رونق لگنے لگی تھی۔ اس پر بہت چھوٹی عمر میں گھر کی ذمہ داری پڑی تھی اس لیے وہ بہوؤں پر اتنی جلدی کوئی ذمہ داری ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔ بے فکر، خوش باش کھلکھلاتی بہوئیں اس کی پہلی ترجیح تھی۔
لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوگئی تھی۔ سال ڈیڑھ سال تعلیمی سرگرمیاں بند رہنے کے بعد اسکول ہفتہ میں تین دن کھلنے لگے۔ منال اور ہانیہ اتنی دور سے اپنے اسکول نہیں جا سکتی تھیں تو انتظامیہ سے بات کرکے آن لائن نصاب مکمل کرنے کی اجازت لے لی گئی البتہ میٹرک کے پیپرز دینے کراچی جانا پڑتا۔ عماد حماد بھی ہفتہ میں ایک دن کالج جارہے تھے۔ اکیڈمی بھی کھل گئی تھی۔ معمولاتِ زندگی آہستہ آہستہ پرانی ڈگر پہ آنے لگے تھے۔
شاہ زر کے کولیگ کے بیٹے کی شادی تھی۔ ویسے تو کم ہی لوگوں کو بلایا تھا مگر شاہ زر کو خصوصی طور پر بچوں کو لانے کی تاکید کی تھی۔ شادی کے بعد بچوں کی دعوت نہیں کی تھی تو اسی بہانے نئی بہوؤں کی دعوت ہوجاتی۔ صبح سے ہی گھر میں خوشگوار سی ہلچل مچی تھی۔ منال اور ہانیہ ایک ایک چیز لا کے شازمہ کو دکھا رہی تھیں۔ کپڑے، میچنگ سینڈل، میک اپ ہر چیز میں شازمہ کا مشورہ درکار تھا۔ شادی کے بعد دونوں پہلی دفعہ کسی شادی میں جا رہی تھیں تو دونوں کو ہی بہت پیارا لگنے کی چاہ تھی۔
شاہ زر نے وقت سے پہلے ہی جلدی جلدی کا شور ڈال دیا تو شازمہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ وہ بھی بچوں کو آوازیں دینے لگی۔
’’پھپھو ہم تیار ہیں‘‘ منال اور عماد دونوں ساتھ ہی کمرے سے نکلے تو شازمہ نے فوراً ہی ماشاءاللہ پڑھا۔
’’ہانیہ اور حماد کو کتنی دیر ہے‘‘ اس نے پوچھا ہی تھا کہ ہانیہ ہاتھ میں برش لے کے آگئی۔’’چاچی حماد جوتے پہن رہے ہیں۔ میں بھی تقریباً تیار ہوں بس بال رہ گئے یہ سلجھ ہی نہیں رہے‘‘ہانیہ نے برش شازمہ کے ہاتھ میں تھمایا تو شازمہ اس کے بال سلجھانے لگی۔
’’جاؤ تم دونوں تو جاکے گاڑی میں بیٹھو ابھی شاہ زر ہارن پر ہارن بجانا شروع کر دیں گے‘‘۔
عماد تو اس کی بات سن کر فوراً باہر نکل گیا۔ منال جاتے جاتے کچھ سوچ کے رک گئی۔
’’کیا ہؤا ؟‘‘ شازمہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’پھپھو یہ تو بتادیں میں کیسی لگ رہی ہوں‘‘۔
’’بہت پیاری لگ رہی ہو بیٹا‘‘ شازمہ نے مسکرا کر کہا۔
’’اور میں!‘‘ ہانیہ نے بھی جلدی سے پوچھا۔
’’تم بھی بہت اچھی لگ رہی ہو‘‘۔
’’نہیں نا! صحیح سے بتائیں‘‘۔ہانیہ مڑ کے شازمہ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’مطلب؟‘‘ شازمہ نے ناسمجھی سے دونوں کو دیکھا جو سوالیہ نگاہیں لیے کھڑی تھیں۔
’’مطلب ہم دونوں میں زیادہ اچھا کون لگ رہا ہے؟‘‘منال کے سوال پہ شازمہ مسکرادی۔
’’بھئی یہ بتانا تو بہت مشکل ہے‘‘۔ مجھے تو تم دونوں ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہو۔ آج بھی دونوں پیاری لگ رہی ہو، اپنے اپنے میاں سے پوچھتیں وہ صحیح سے تعریف کرتے۔
’’پوچھا تھا کہنے لگے چڑیل لگ رہی ہو‘‘۔ ہانیہ نے منہ بسورا تو دونوں ہنس دیں۔
’’عماد بھائی نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے ان سے پوچھا ہی نہیں وہ خود ہی مجھ سے پوچھے جارہے تھے میں کیسا لگ رہا ہوں… میں کیسا لگ رہا ہوں۔ میں نے کہا عماد ہی لگ رہے ہیں، یہ ایک گھنٹے تک بال بنانے سے فواد خان تو لگنے نہیں لگے۔ وہ ناراض ہی ہوگئے‘‘۔
’’توبہ ہے تم لوگوں کو لڑنے کے علاوہ بھی کوئی کام ہے۔ شازمہ نے سر پہ ہاتھ مارا‘‘۔چلو تم گاڑی میں جا کے بیٹھو۔ہانیہ تم بالوں میں کوئی کیچر لگا کے آؤ اور یہ بالوں کی نوکیں کتنی چھوٹی بڑی ہو رہی ہیں۔ بال نیچے سے موڑ کے کوئی پن لگا لینا۔ شازمہ نے برش ہانیہ کو پکڑایا اور منال کے ساتھ باہر آگئی۔
شاہ زر اور عماد گاڑی میں بیٹھے انتظار کررہے تھے۔ شاہ زر بار بار ہارن بجا رہا تھا۔
’’کیا ہوگیا اتنا شور کیوں کر رہے ہیں۔ ابھی بہت وقت ہے۔ خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہیں۔ ہمیں بھی پریشان کر رہے ہیں‘‘۔ شازمہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی ہوئی شاہ زر کے پاس پہنچی۔
’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے جلدی ہال بند ہورہے ہیں۔ اس لیے تقریبات جلدی نمٹا دی جاتی ہیں۔ عین کھانے کے وقت جانا اچھا لگتا ہے کیا‘‘۔ شاہ زر نے پیچھے نظر دوڑائی۔
’’حماد ہانیہ کہاں ہیں‘‘۔
’’آرہے ہیں پانچ منٹ میں، تیار ہی ہیں‘‘۔ شازمہ اور منال گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پانچ کی جگہ دس منٹ گزر گئے دونوں نہیں آئے تو شاہ زر کو غصہ آنے لگا۔
’’اچھا غصہ نہ کریں میں دیکھ کےآتی ہوں‘‘۔ شازمہ گاڑی سے اتر کے اندر چلی گئی۔
ہلکی سی دستک دے کے کمرے میں داخل ہوئی تو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہؤا۔ ہانیہ آنکھوں میں آنسو لیے کھڑی تھی۔ حماد کے ہاتھ میں قینچی تھی اور وہ کچھ ہراساں لگ رہا تھا۔
’’کیا ہوگیا‘‘ شازمہ بھی پریشان ہوگئی۔
’’چاچی میں نے حماد سے کہا میرے بالوں کی تھوڑی سی نوکیں کاٹ کر بال سیدھے کردیں۔ انہوں نے پیچھے کمر سے بالوں کے ساتھ ساتھ میری قمیض بھی کاٹ دی‘‘۔ہانیہ روہانسی ہو کے پیچھے مڑی تو قمیض کے بیچ میں کوئی ڈیڑھ انچ کا کٹ لگا تھا۔
’’اف میرے خدا تمہیں کس نے بتادیا تھا کہ میرا بیٹا نائی ہے‘‘۔ شازمہ نے سر پیٹا۔’’ اچھا اب رونا نہیں میک اپ خراب ہوجائے گا میں کچھ کرتی ہوں۔ ہانیہ کی رونکھی شکل دیکھ کے شازمہ نے پہلے ہی بند باندھا‘‘۔دوسرے کپڑے بدلنے کا بالکل وقت نہیں ہے اور نہ کوئی کپڑے استری ہیں۔ میں اسی کو کچھ کر دیتی ہوں۔’’حماد تم جا کے گاڑی میں بیٹھو۔ باہر کسی کو یہ سب بتانا نہیں۔ میں دو منٹ میں لا رہی ہوں ہانیہ کو‘‘۔
حماد شکر ادا کرتا ہؤا باہر نکل گیا کہ ڈانٹ نہیں پڑی۔ شازمہ نے ہانیہ کی قمیض میں سیفٹی پن لگا کے اس کا دوپٹہ سر پہ بہت خوبصورتی سے سیٹ کر دیا۔ بال اور پوری کمر دوپٹہ کے نیچے چھپ گئی۔ ہانیہ نے گھوم کر پورا خود کو شیشہ میں دیکھا پھر مطمئن ہوکے شازمہ سے پوچھا ’’اچھا اب تو صحیح سے بتادیں میں کیسی لگ رہی ہوں‘‘۔
’’چڑیل لگ رہی ہو‘‘ شازمہ نے جھنجھلا کے کہا پھر خیال آیا کہیں رونا ہی نہ شروع کردے ویسے ہی چھوٹے دل کی تھی ۔مگر ہانیہ قہقہہ لگا کے ہنس دی۔
’’اس میں ہنسنے والی بات تھی کیا؟‘‘شازمہ نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلتے ہوئے پوچھا۔
’’جب میں زیادہ اچھی لگتی ہوں تو حماد مجھے چڑیل ہی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب میں آپ کو زیادہ اچھی لگ رہی ہوں‘‘۔
واہ واہ کیا منطق تھی، شازمہ مسکرادی۔ منال نے کچھ حیرت سے ہانیہ کو دیکھا۔ اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی جھٹ سوال کیا۔’’تم پوری تقریب میں سر پہ دوپٹہ رکھوگی؟‘‘
’’ہاں نا! شادی کے بعد پہلی بار کہیں جارہی ہوں سر پہ دوپٹہ لینے سے نئی نئی شادی شدہ لگوں گی‘‘ہانیہ نے اطمینان سے کہا مگر باقی کے سفر میں منال بےاطمینان ہوگئی۔ گاڑی سے اترتے ہی شازمہ سے بولی ’’میرا بھی ہانیہ کی طرح دوپٹہ سیٹ کردیں ہانیہ زیادہ اچھی لگ رہی ہے‘‘۔
شازمہ نے مسکراہٹ دبا کے اس کا بھی دوپٹہ سر پہ سجا دیا۔ پوری تقریب میں شازمہ کی بہوؤں کی خوب ہی تعریف ہوئی۔ آج کے زمانے میں اتنی سیدھی شرمیلی بچیاں کہاں ملتی ہیں جنہوں نے دوپٹہ ذرا سا بھی سر سے سرکنے نہیں دیا۔ شازمہ مسکرا مسکرا کے اپنی بہت شرمیلی بہوؤں کی تعریف وصول کرتی رہی۔
٭
صبح فجر پڑھ کے شازمہ چائے بنانے کچن میں آئی تو باہر سے عماد اور منال کی تکرار کی آواز سنائی دی۔ حیران ہوکے باہر جھانکا تو حسبِ توقع دونوں کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔
’’کیا ہوگیا صبحِ ہی صبح کیوں لڑ رہے ہو؟‘‘
’’پھپھو دیکھیں نا عماد جا گنگ پر جا رہے ہیں۔ مجھے بھی واک پہ جانا ہے مگر یہ مجھے ساتھ لے کے نہیں جا رہے‘‘منال نے منہ بسورتے ہوئے شکایت کی۔
’’کیوں نہیں لے کر جارہے عماد! یہیں قریب ہی تو پارک ہے‘‘۔
’’وہ ہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں قریب ہی پارک ہے۔ شام میں امی کے ساتھ چلی جانا۔ مجھے جاگنگ کے لیے جانا ہے فٹا فٹ جاؤں گا،جلدی آجاؤں گا۔ یہ واک پہ دیر لگائے گی‘‘۔
’’عماد یہ تمہاری بیوی ہے میری نہیں۔ تمہاری ذمہ داری ہے ساتھ لے کے جاؤ۔ کوئی گھنٹوں واک نہیں کرےگی۔ جتنی دیر تم جاگنگ کرو گے اتنی دیر وہ واک کر لے گی پھر واپس آجانا‘‘۔ شازمہ نے قطعیت سے کہا تو عماد نے منہ بگاڑنے لگا۔
’’اچھا چلو‘‘ وہ ہینڈز فری کان میں ٹھونس کے باہر نکل گیا۔ منال بھی خوشی خوشی اس کے پیچھے چل دی۔
عماد عموماً جاگنگ کے لیے جاتا، جِم بھی اکثر چلا جاتا۔ حماد کو ایسا کوئی شوق نہیں تھا۔ ہانیہ بھی جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر خوش رہتی مگر منال کو ہر دو دن بعد یہ وہم ستانے لگتا کہ وہ موٹی ہورہی ہے۔ ڈائٹنگ احتیاط وغیرہ شروع کردیتی جو بمشکل دو دن ہی جاری رہ پاتی۔ آج کل منال کو واک کا شوق اٹھا تھا۔ وہ سارا دن گھر میں چکراتی رہتی۔ پارک ان کی گلی سے دو گلی آگے ہی تھا۔ منال کو شازمہ نے خود مشورہ دیا تھا کہ وہ پارک جا کے واک کر لیا کرے مگر اس بات پہ بھی ان کی بحث شروع ہوجائے گی اس کا اندازہ نہیں تھا۔
ابھی اس نے چائے بنا کے اپنے اور شاہ زر کے لیے پیالیوں میں ڈالی ہی تھی کہ عماد واپس آگیا۔ آتے ہی فریج سے بوتل نکالی اور کھڑے کھڑے پینے لگا۔
’’بیٹھ کے پیو‘‘۔ اس نے عماد کے کندھے پر ہاتھ مارا اور ہینڈز فری کانوں سے کھینچی۔
’’منال کہاں ہے؟‘‘شازمہ کے سوال پہ حلق میں جاتا پانی کلی کی صورت باہر نکل گیا۔
’’منال! اف خدایا میں تو اس کو پارک میں ہی بھول آیا‘‘ عماد نے سر پکڑا۔
’’کیا؟‘‘ شازمہ کے بھی اوسان خطا ہوئے ۔بے شک پارک قریب ہی تھا مگر اس کے لیے تو نئی جگہ تھی اگر وہ کسی اور طرف نکل جاتی تو!
’’تمہارا دماغ خراب ہے۔ اپنی بیوی کو بھی کوئی بھولتا ہے‘‘۔ شازمہ بدحواسی میں کچن سے باہر نکلی۔
’’میں لے کے آتا ہوں ‘‘عماد گیٹ کی طرف بڑھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود لے کے آرہی ہوں۔ بیچ راستہ میں لڑنا شروع ہو جاؤ گے۔ ایک دوسرے کو الزام دوگے، خوامخواہ تماشا بنے گا۔ میری چادر لے کے آؤ‘‘ شازمہ نے جلدی سے چپل پہنتے ہوئے کہا۔
عماد پلٹ کے اندر چلا گیا۔شازمہ نے عجلت میں دروازہ کھولا تو سامنےمنال تھی جو واپس مڑ کے کہیں جارہی تھی۔
’’منال شکر تم آگئیں، واپس کہاں جارہی ہو!‘‘ اس نے سکون کا سانس لیا۔
’’وہ پھپھو میں عماد کو پارک میں ہی بھول آئی اس کو لینے جارہی ہوں‘‘۔
’’ماشاءاللہ دونوں ایک سے بڑھ کے ایک ہو ….وہ پہلے ہی تمہیں بھول کر گھر آچکا ہے‘‘۔شازمہ نے اپنے پیچھے اشارہ کیا۔
منال غصہ میں عماد کے پاس آئی ۔’’ آپ مجھے پارک میں بھول آئے؟ اگر میں کھوجاتی تو!‘‘
’’تم بھی تو مجھے بھول کے آئی ہو اس کا کیا!‘‘
’’میرے بھولنے سے آپ کھوئیں گے تو نہیں نا…. مگر آپ مجھے کیسے چھوڑ کر آسکتے ہیں‘‘۔
’’اگر میں بھول گیا تو تم بھی بھول گئیں حساب برابر‘‘۔
’’جی نہیں! کوئی حساب برابر نہیں ہوسکتا۔ میں بھول سکتی ہوں آپ نہیں بھول سکتے‘‘ ۔
دونوں کی پھر چونچیں لڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ شازمہ سر دھنتے ہوئی واپس کچن میں آگئی۔ اب ہر بار تو وہ ان کی صلح نہیں کراسکتی تھی۔ اپنے مسئلے وہ خود ہی حل کریں یہ ہی بہتر تھا۔
شام میں ہانیہ اور منال شازمہ کو گھیر کے بیٹھ گئیں۔ موبائل میں اپنی دوستوں کی تصویریں دکھارہی تھیں ساتھ ہی تصویر کا پس منظر بتاتیں۔ ان کے پاس اسکول کے ڈھیروں قصے تھے۔ بات چاہے عام سی ہوتی مگر دونوں کے بیان کرنے کا انداز اتنا دلچسپ تھا کہ ہنسی آجاتی۔
وہ تینوں مگن تھیں کہ صباحت طلال کے ہمراہ چلی آئی۔ وہ آج بھی دبلی پتلی اور حسین تھی ،وقت اسے چھوئے بغیر گزر رہا تھا۔ جب وقت ہی اسے نہیں چھیڑ رہا تھا تو اسے کیا ضرورت تھی بردبار ہونے کی،سو اس کا برتاؤ آج بھی نوجوان لڑکیوں کے جیسا تھا ۔مگر اب شازمہ نے چڑنا چھوڑ دیا تھا۔ خود کو صباحت سے بڑاتسلیم کر لیا۔ شازمہ نے بچے کی پرورش کے حوالے سے اس کی بہت مدد کی تھی۔ وہ بھی بچے کا ہر چھوٹا بڑا مسئلہ لے کے ہمیشہ اپنی’’شازمہ باجی‘‘ کے پاس ہی آتی تھی۔ ابھی بھی وہ طلال کو شازمہ کی بہوؤں کے پاس ٹیوشن بٹھانے آئی تھی۔ شازمہ کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا طلال بہت ذہین اور تمیز دار بچہ تھا۔ اس کو ٹیوشن پڑھانا مشکل نہ تھا۔
اس نے دونوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ منال تو خاموش رہی کیونکہ وہ خود پڑھائی کی چور تھی مارے باندھے ہی پاس ہوتی البتہ ہانیہ نے ہامی بھر لی۔شازمہ چائے بنانے کےلیے اٹھنے لگی تو ہانیہ کو لحاظ آگیا۔
’’چاچی آپ بیٹھیں میں بنا کے لے آتی ہوں‘‘۔
’’اچھا لے آؤ ‘‘۔ شازمہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔کچن کے چھوٹے موٹے کام تو دونوں کر ہی لیتی تھیں۔ کچھ خیال آنے پر ہانیہ کو واپس بلا کے کان میں کہا۔
’’بازار کا دودھ ختم ہوگیا۔ الماری کے اوپر پاؤڈر کا کھلا دودھ رکھا ہؤا ہے۔ ایک جگ پانی میں گھول کے ابال دے لو‘‘۔
’’جی اچھا‘‘ ہانیہ سر ہلاتی ہوئی چلی گئی۔
چائے کو کافی دیر ہوگئی تھی۔ شازمہ کو بے چینی ہونے لگی۔ اٹھ کے کچن میں آئی تو ہانیہ پریشانی سے دودھ کو دیکھ رہی تھی۔
’’کیا ہؤا ہانیہ چائے نہیں بنی‘‘۔
’’چائے تو کب کی پک گئی مگر دودھ میں ابال ہی نہیں آرہا۔ پانی اور دودھ الگ الگ تیر رہا ہے اور خوشبو بھی عجیب سی آرہی ہے شاید خراب ہوگیا‘‘۔
ناگوار تیز بدبو سے شازمہ کا ماتھا ٹھنکا۔
’’یہ دودھ تم نے کہاں سے لیا ؟‘‘
’’آپ کی الماری کے اوپر سے‘‘۔
’’اف ہانیہ دودھ کچن کی الماری میں ہوگا یا میرے بیڈ روم کی الماری میں؟‘‘ بات تو غصہ والی تھی مگر شازمہ کو ہنسی آگئی۔ اس کو بچیوں پر غصہ آتا ہی نہیں تھا۔ اس نے آگے بڑھ کے ابلتے ہوئے عجیب سے محلول کو سنک میں بہایا۔’’میری الماری پر بورک پاؤڈر رکھا تھا جو حماد کیرم بورڈ پر ڈالنے کے لیے لایا تھا۔ دودھ یہ رکھا ہؤاہے‘‘ اس نے الماری سے خشک دودھ اٹھایا۔ دوسری پتیلی میں گھول کے چولہے پہ رکھا۔
’’اب جلدی سے چائے لے آؤ۔ اندر صباحت کے سامنے کوئی ذکر نہ کرنا۔ میں اندر جارہی ہوں اگر کچن میں ہی رہی تو وہ سمجھ جائے گی کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے‘‘۔ شازمہ نے بسکٹ اور کوکیز رکھ کر ٹرے سیٹ کی اور تحمل سے کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔ ہانیہ شرمندہ سی کھڑی ڈانٹ کا انتظار کر رہی تھی۔ اندر جاتی شازمہ کو حیرت سے دیکھا اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔
صباحت نے شازمہ کی دونوں بہوؤں کو بہت سراہا۔ چائے کی بھی تعریف کی اور شازمہ کو تاکید کر کے گئی کہ ’’دونوں بھابھیوں ‘‘کو لے کر اس کے گھر ضرور آئے۔ جبکہ اتنی بڑی آنٹی کے منہ سے اپنے لیے بھابھی کا لفظ سن کے دونوں ہکا بکا کھڑی تھیں۔ شازمہ یونہی دونوں کو حیران چھوڑ کے اندر بڑھ گئی۔ ان کو بھی جلد صباحت کی فطرت سمجھ آہی جانی تھی۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭