زمین و آسمان پر بہار ہی بہار ہے
خدائے مہرباں مرے لیے یہ تیراپیار ہے
نکل پڑی ہیں کونپلیں خزاں رسیدہ شاخ پر
اثر یہ کس ہَوَا کا ہے، کہاں کا یہ نکھار ہے
یہ کہکشاں زمین پر فلک سے آئی ہے اتر
ندی رواں ہے نور کی، اندھیرا سوگوار ہے
جہاں جہاں نظر اٹھے، برس رہی ہیں رحمتیں
یہ بحرِ فضلِ بیکراں کا ایسا آبشار ہے
دلوں کو زندگی ملی تو روح پھر سے کھِل اٹھی
لبوں پہ اب صیام اور قیام کی پکار ہے
صدائے سابقو اٹھی تو مغفرت کو سب بڑھے
وہاں سجی دھجی بہشت محوِ انتظار ہے
ہوائے مہرباں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحرؔ یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے