بتول دسمبر ۲۰۲۰ناسمجھ - بتول دسمبر ۲۰۲۰

ناسمجھ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

’’کتنے بورنگ ہیں آپ ۔پورا چھٹی کا دن سو کر برباد کر دیتے ہیں ۔ دوپہر کے کھانے پرسب انتظار کر رہے ہیں اورمسٹر جان عالم کی تو ابھی صبح ہی نہیں ہوئی ‘‘۔
مہک گھر کے سب کام نمٹا کر کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر جان عالم کو بے فکری سے سوتا دیکھا تو اسے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی۔ انہیں جگاتے ہوئے اس کا لہجہ شکوہ بھرا تھا۔
’’مجھے ایک ہی دن چھٹی کا ملتا ہے میڈم کبھی میرے بارے میں بھی سوچ لیا کریں‘‘۔
جان عالم کو خواب خرگوش کے درمیان اپنی بیگم کی یوں اچانک در اندازی بالکل پسند نہ آئی ۔انہوں نے چادر کھینچ کر منہ پر تان لی ۔
’’ واہ بھئی کیا بات ہے …..آپ کو تو ایک چھٹی کا دن مل ہی جاتا ہے آرام کے لیے ہمیں تووہ بھی نصیب نہیں ۔صبح سے باورچی خانے میں کھڑی آپ کی پسند کے پکوان پکا رہی ہوںاورآپ کو احساس ہی نہیں‘‘۔
مہک کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو چھلک گئے۔
’’اوفوہ اب رونا دھونا مت شروع کردینا…..تم جانتی ہو کہ مجھے یہ فلمی ادائیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں‘‘جان عالم نے چادر منہ سے ہٹا کر رکھائی سے کہا ۔
’’یہی بات طریقےسے بھی توکی جاسکتی تھی کہ بیگم میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔مگر دل توڑنا تو کوئی آپ سے سیکھے ‘‘۔
مہک نے آنکھوں میں آئے آنسو دوپٹے کے پلو سے پو نچھتے ہوئےکہا ۔
’’یار تم کتنا بولتی ہو ۔سر میں درد ہو گیا، اٹھتے ہی تمہارا میلو ڈرامہ دیکھ کر ‘‘ جان عالم نے رخشی کے دو جملوں کے بعد ہی سر پکڑ لیا ۔
’’ لو جناب اب میرا بولنا بھی برا لگنے لگا آپ کو ۔خیریت تو ہے نا کہیں کسی اور کو نظروں میں تو نہیں بسا لیا‘‘دل میں کھٹکتی بات بالآخر مہک کی زبان پرآ ہی گئی ۔
’’اپنی غلطی تو آپ کو کبھی ماننی نہیں الٹا مجھے ہی کٹہرے میں کھڑاکردیا‘‘۔
مہک کی تیکھی باتوں سے جان عالم کی نیند کا خمار پوری طرح اتر چکا تھا ۔چادر پرے پھینک کر کھڑے ہوگئے ۔
’’اب آپ بات کو گھما رہے ہیں۔ میرے سوال کا جواب دیں کیا بات ہے آپ آجکل مجھ سے اکھڑے اکھڑے کیوں رہتے ہیں؟‘‘ مہک بھی پوری جرح کے بغیر بات ختم ہی نہ کرتی تھی ۔جان عالم کو اس کے شکی مزاج سےبہت کوفت ہوتی تھی۔ وہ کسی بھی جواب سے مطمئن نہ ہوتی ۔
’’ٹی وی ڈرامے دیکھ دیکھ کر آپ کو زندگی بھی ڈرامہ لگنے لگی ہے۔ارے میڈم حقیقت اور ڈرامے میں بہت فرق ہوتاہے ۔ میں تو ہتھیار ڈال رہا ہوں آپ کے سامنے ۔جو سمجھنا ہے سمجھ لیں میرے پاس کوئی جواب نہیں آپ کی ان بچگانہ باتوں کا ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ واش روم کی جانب چل دیے ۔
جان عالم والدین کے اکلوتے ہونہار سپوت تھے ۔پورے خاندان کی آنکھ کا تارا،دادا دادی کے اکلوتے پوتےاور تین پھوپھیوں کے چہیتے بھتیجے تھے ۔ والدہ مہر النسا بیگم انتہا کی سیدھی سادھی اور نیک خاتون تھیں ۔والد پروفیسرفدا عالم شہر کی بڑی یونیورسٹی میں صدر کلیہ تھے ۔ رعب دار شخصیت کے مالک اور انتہا ئی منظم زندگی گزارنے کے قائل ۔ ان کا اصول تھا کہ ہر کام وقت پر اور ہرچیز قرینے سے رکھی ہوئی ہو ۔بچپن ہی سےفوجی ٹریننگ جیسے ماحول کی وجہ سے جان عالم بھی بہت سنجیدہ مزاج اور تنہائی پسند ہو چکے تھے ۔
قابلیت اور علمی مزاج انہیں وراثت میں ملے تھے ۔ تعلیم میں امتیاز حاصل کیااور اپنے والد صاحب کو اپنی آئیڈیل شخصیت بنا کرتدریس کے شعبے کو کیریئرکے لیے چنا۔
ہونہار بیٹا جب پیروں پر کھڑا ہو گیا توحسب روایت سہرے کے پھول سجانے کا سوچا گیا ۔
دلہن ڈھونڈنے کے اس مشن میں تینوں پھوپھیوں نےاپنی ماہرانہ خدمات پیش کر دیں ۔سدا سے سسرال والوں اور شوہر کی مرضی سے چلنے والی مہر النسا بیگم نے نندوں کی اس پیشکش کو بلا تامل قبول کر لیا ۔
ابا جان نے اپنا حکم نامہ جاری کردیا کہ انہیں لکھنؤ یا دہلی کے علاوہ کسی علاقے کی بہوقطعی قبول نہیں ۔انہوں نے یہ قدغن کس مصلحت کے تحت لگائی تھی اس پر سوال اٹھانے کی جرأت کسی میں نہ تھی ۔والدہ صاحبہ کی تو بس ایک ہی معصومانہ چاہت تھی کہ اپنے سانولے سلونے بیٹے کے لیے گوری چٹی بہو لےکرآئیں تاکہ آنےوالی نسلیں گوری رنگت لے کر پیداہوں ۔
پھپھیو ں کا ملا جلا رجہان تھا ۔وہ اپنے سسرال والوں کو مرعوب کرنے کے لیے اونچےخاندان کی پڑھی لکھی اورچھوٹی فیملی والی لڑکی لاناچاہتی تھیں۔
سب کی رائےپوچھی گئی ۔سب کی پسندناپسندکاخیال رکھاگیا۔ بس نہیں پوچھاگیاتوبےچارےدولہامیاں ہی سےنہ پوچھاگیا کہبھئی دولہے میاں! جیون ساتھی کے بارےمیں کچھ سوچ رکھا ہےتو بتاؤ۔
خیر جناب تمام خواتین لگن اور جذبہِ دریافت کےساتھ اس مہم میں جُت گئیں۔رشتے والیوں سے ٹیلی فون پر لمبی لمبی مشاورتیں کی جاتیں ۔ درجنوں لڑکیوں کی پروفائل دیکھی جاتیں ۔چند خوش نصیب ناز نینوںکو چن کر شرف ملاقات بھی بخشا جاتا ۔یہ بات الگ ہے کہ اکثریت کے ساتھ تو بات ملاقات برائےملاقات تک ہی پہنچ پاتی اور خواتین کایہ ٹولہ گوہرنایاب کی تلاش میں اگلی منزل کی جانب رخت سفرباندھ لیتا۔
صد شکر رب کا کہ وہ جوڑے آسمان پر بناتا ہے ورنہ تو بے چارے جان عالم شاید زندگی بھر دلہن کی راہ ہی تکتےرہ جاتے!
خدا کی مہربانی سے منجھلی پھپھو کے دیور کے سسرالی رشتے داروں میں یہ تلاش بہ خو بی ختم ہوئی۔فرنیچر کے کاروبارسے منسلک دہلی سے تعلق رکھنے والے’’نورالدین قریشی‘‘ کی بڑی دختر نیک اختر انگوٹھی میں جڑے نگینے کی طرح سب کی پسند پر فٹ آ گئیں ۔
گوری رنگت، دراز قد ،انٹر پاس ،خوش شکل مہک قریشی جلد ہی ’’مہک جان عالم‘‘ بن کر جان عالم کے گھر کے آنگن میں اتر آئی ۔
اعلیٰ نفیس فرنیچر اور جہیز دیکھ کر پھوپھیاں تو کیا ان کا پورا ننھیال ددھیال ہی مرعوب ہو گیا ۔
مہک ایک زندہ دل اورخوش مزاج لڑکی تھی ۔اس کے اسکول کالج فیملی اور فرینڈز سب کے علیحدہ علیحدہ ایک درجن کے قریب حلقے تھے جن کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی باقاعدگی سے چیٹنگ کے ذریعے رابطے قائم تھے ۔جبکہ جان عالم نے تو اپنی پوری زندگی میں گنتی کے چند دوست ہی بنائےتھےاوروہ بھی جان عالم کی طرح سنجیدہ مزاج تھے۔کبھی کبھارخیرخیریت پوچھناہی کافی سمجھتےتھے۔جان عالم اپنی شادی تک عمرکی تیس بہاریں دیکھ چکےتھے۔علمی ذوق کی وجہ سےکچھ زیادہ ہی بردبار ہوچکے تھے ۔گھر میں بنائی چھوٹی سی لائبریری نما سٹڈی روم ہی ان کا پسندیدہ کمرہ تھا جہاں ان کا اکثر وبیشتر وقت گزرتا۔
شادی کے شروع دن ہی سے مزاج کا یہ تضاد مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہؤا۔ ایک طرف خاموشی پسند شوہر تودوسری جانب بے حد سوشل اور چنچل بیگم، عجیب کشمکش اور تناؤ کی کیفیت کاسامنا تھا۔دونوں کے درمیان بات چیت کے لیے کوئی بھی باہمی دلچسپی کاموضو ع نہیں تھا۔اس کےنتیجےمیں دوریاں بڑھتی گئیں۔فارغ اوقات میں زیادہ تر مہک سوشل میڈیاپر اورپروفیسرجان عالم اپنےلیکچرزکی تیاری اور پرچوں کی چیکنگ میں مصروف دکھتے۔
اور تو اور کمرے کی اکلوتی کھڑکی بھی مسئلہ ِکشمیربنی ہوئی تھی۔
مہک کو کھلی کھڑکی سےچھن کرآتی ہلکی دھوپ اور سڑک کے کنارے لگے آرائشی پیڑ اور سڑک پار بنے پارک کو دیکھنابہت پسند تھا ۔جبکہ جان عالم ٹھہرے سدا کے تنہائی پسند انسان ۔وہ کتابی دنیا ہی میں شجرحجر چرند پرنددیکھنے پراکتفاکر تے ۔یہ کھڑکی تو بچپن ہی سے وہ بند رکھنے کے عادی تھے کیونکہ انہیں شور اور ہنگامے سے اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوزکرنے میں دقت پیش آتی تھی۔
مہک کےزندگی میں داخل ہونے سے ان کی پر سکون اورڈسپلنڈ زندگی میں ہلچل مچ گئی ۔
گھر والے سب لاکھوں میں ایک دلہن ڈھونڈھ لانے کی اپنی عمدہ کھوج پر پھولے نہ سما رہے تھے ۔ابا حضور کے ویٹو پاور کی مکمل حمایت بھی مہک کو اس دن سے ہی حاصل ہو گئی تھی جب زعفرانی کھیر بادامی قورمہ اور بگھارے بینگن پکا کر اس نے انہیں کھلائے۔
مگر جہاں تک جان عالم کی بات تھی، چار ماہ کے مختصر عرصے میں دونوں کا یہ حال ہوچکا تھا کہ بات بات پر نوک جھونک چلتی رہتی ۔
جلدی جلدی غسل سے فارغ ہو کر جان عالم کھانے کی میز پر پہنچے ۔وہ جانتے تھے کہ اب ابا جان کا غصہ یقیناً نقطہ ابال تک پہنچ چکا ہو گا۔ مزیدتاخیرکی صورت میں ان کواچھی خاصی ڈانٹ پڑنےکااحتمال ہے ۔
کھانے کی میز پر ابا جان کرسیِ صدارت پر براجمان تھے ۔ انہیں کھانے کے وقت غیر ضروری گفتگو بالکل پسند نہ تھی ۔اسی لیے سب خامو شی سےکھاناکھارہےتھے۔اباجان زمانہ شناس تھے۔وہ گزشتہ کئی دنوں سےبہواوربیٹےکےبیچ موجود ان دیکھے کھنچاؤاورتناؤکومحسوس کر رہے تھے ۔لہٰذا کھانا ختم ہونے کے بعد بیٹے کو مخاطب کر کے بولے ۔
’’برخوردار میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ گھر والوں کے لیے وقت بالکل نہیں نکال رہے۔آج چھٹی ہے۔آپ بہوکولےکرکہیںگھومنےچلے جائیں ‘‘۔
فرمانبردار بیٹے نے تائید میں جواب دیا ’’جی ابا جان جیسے آپ کا حکم ہو‘‘۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں گاڑی میں سی ویو کی جانب رواں دواں تھے ۔
’’تم اچھے سے جانتی ہوکہ مجھے یوں بےکار سڑکیں ناپنا اور وقت برباد کرنا بالکل پسند نہیں ۔ضرور تم نے ابا جان سے میری شکایت کی ہوگی جبھی انہوں نے ایسا کہا‘‘ ۔
جان عالم اتوار کو اپنے پڑھنے کے لیے لائبریری سےایک بہت خاص تحقیقاتی کتاب لائےتھے۔اتوارکےعلاوہ کتب بینی کےلیے وہ پورےہفتےکےدوران کوئی وقت نہیں نکال پارہےتھےاورآج چھٹی کادن بھی انہیں ضائع ہوتادکھائی دےرہاتھا۔وہ گھرسےباہرآتوگئے پر شدیدکوفت کاشکارہوکر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے ۔
’’جی نہیں میں نے کچھ نہیں کہا ۔آپ خود ہی فون کر کے پوچھ لیں اباجان سے‘‘ مہک نے کندھے اچکا کر بہت اطمینان سے جواب دیا ۔
’’ تم یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ مجھے کہیں نہیں جانا‘‘ ۔جان عالم نے منہ پھلاتے ہوئےکہا۔
’’ آپ خود بھی تو منع کر سکتے تھے ۔ابا جان کے سامنے توآواز ہی نہیں نکلتی جناب کی ‘‘۔ مہک بھی اب زچ ہو چکی تھی ۔
’’ تم جانتی ہو کہ ابا جان کی حکم عدولی کا میں سوچ بھی نہیں سکتا ‘‘۔ جان عالم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
’’ تو ٹھیک ہے نہ کریں ،میں نے کب کہا کہ حکم عدولی کریں ‘‘۔
حسین شام بھی دونوں کی بحث کی نظر ہوگئی اوروہ تفریح کے بجائےمزیدبدمزگی لےکرواپس لوٹے ۔
ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ان کی زندگی میں ایک بہت بڑا طوفان آ گیا ۔
اتوار کا دن تھا۔ صبح ہی سے مہک شاپنگ پر جانے کی ضد کر رہی تھی ۔گرمی کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ ایک جگہ لان کی نئی کلیکشن کی ایگزی بیشن لگی ہوئی تھی جس کا آخری دن تھا ۔جان عالم مسلسل کئی دن سے امتحانات لینے اور رزلٹ بنانے میں مصروف تھےاور سر درد میں مبتلا تھے، کچھ بخار سا بھی محسوس ہورہا تھا سو انہوں نے لے جانےسےمعذرت کرلی۔
مگر مہک کو تو آج ہر صورت ایگزی بیشن میں جاناتھا۔ اس نے فوراً فون پرچھوٹی پھپھو کے ساتھ ڈولمین جانے کا پروگرام بنا لیا ۔
شاپنگ کے دوران ا تفاق سے اس کی اسکول فرینڈ زرتاج گل وہاں مل گئی ۔زرتاج کا تعلق ایک پٹھان خاندان سے تھا اور اس کی شادی میٹرک کے فوراً بعد ہی ہوگئی تھی ۔شادی کے بعد وہ دبئی چلی گئی تھی اور کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔آج جب دونوں سہیلیوں کی یوں اچانک ملاقات ہوئی تودونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئیںاور محبت بھرے گلے شکوے شروع ہو گئے۔باتوں باتوں میں زرتاج نے بتایا کہ وہ سسرالی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے صرف چندروزکےلیے پاکستان آئی تھی اوردودن بعدواپسی ہے۔مہک اور چھوٹی پھپھو دونوں کے بے حداصرار پر وہ ان کے ساتھ ان کے گھر چائےپینےکےلیے راضی ہوگئی ۔
یوں زرتاج اور اس کے دو عدد ننھے شرارتی بچے بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی گھر پہنچ گئے ۔
مہر النسا بیگم سے مہک نے اپنی سہیلی کا تعارف کروایا ۔زرتاج بھی مہک کی طرح بہت خوش مزاج اور باتونی تھی۔کچھ ہی دیر میں یوں گھل مل گئی جیسے برسوں کی واقفیت ہو ۔
زرتاج کے بچوں نے بڑوں کو باتوں میں مگن دیکھا تو چپکے سے ڈرائینگ روم سے نکل کر لاؤنج میں اپنے ساتھ لائی ٹینس بال سے کھیلنے لگے ۔
جان عالم دوا کھا کر لیٹے تھے،شور کی آواز سن کر چونک گئے ۔ سونے کا ارادہ تھا مگر اب ممکن نہ لگ رہا تھا۔ناگواری سے باہر آئے تودوعددشرارتی بچےاودھم مچارہےتھےاورڈرائینگ روم سے قہقہے بلند ہور ہےتھے۔
جان عالم کو تجسس ہوا ۔ وہ صورت حال جاننے کےلیے ڈرائینگ روم پہنچے۔
اتنے سالوں بعد سہیلی ملی تھی تو مہک باتوں میں مگن تھی ۔جان عالم کی طبیعت خراب ہے یہ تو وہ بھول ہی گئی تھی۔اچانک ان کو ڈرائینگ روم میں دیکھ کر وہ چونک گئی ۔ اس نے زرتاج گل کا تعارف جان عالم سے کروایا اور اتفاقیہ ملاقات کا قصہ جوش وخروش سے سنایا ۔ جواباًازراہ تکلف جان عالم نے بھی خیر خیریت پوچھی ، چند رسمی جملے کہے اور واپس کمرے کی جانب چل دیے ۔
اسی اثنا میں بد قسمتی سے زرتاج گل کے دونوں شرارتی بیٹے جان عالم کی سٹڈی تک پہنچ چکے تھے ۔سامنے کھلے اہم کاغذات اور چند کتابوں پر انہوں نے رنگا رنگ مارکروں سے خوب آرٹ کے نمونے بنائے، لکیریں لگائیں اور بقیہ سے صفحات پھاڑ کر ہوا ئی جہاز بنا کر اڑانے لگے ۔
جان عالم جب کمرے میں لوٹے تو کمرے کا نقشہ ہی بدلا ہؤا تھا ۔ ان کا غصے سے برا حال ہوگیا۔ چنگھاڑتے ہوئےڈرائینگ روم پہنچے۔ و ہ کہتےہیں ناکہ ’’غصہ عقل کادشمن ہے ‘‘توجان عالم کےساتھ بھی کچھ ایساہی ہؤا۔مارےغصےکےعقل گل ہوگئی اورحواس قابومیں نہ رہے۔ جوبھی منہ میں آیا کہتے چلے گئے جس کا لب لباب یہ تھا کہ تم جیسی کم عقل کند ذہن لڑکی سےشادی کر کے میں پچھتا رہاہوں ، تمہاری بے وقوفانہ حر کتوں سے تنگ آ چکا ہوں اب میں مزید برداشت نہیں کرسکتا ۔ مجھےاپنی زندگی میں سکون چاہیے۔
غصے میں تلملاتے جان عالم پیر پٹختے ہوئےچلےگئے ۔ڈرائینگ روم میں سب کوسانپ سونگھ چکاتھا۔مہک مہمان اور گھر والوں کے سامنےاس قدرذلت پربت بنی کھڑی تھی۔
کچھ دیرمیں سب سنبھلے تو زرتاج گل نےسب سے معذرت کی ۔ شرمندگی کے مارے اس کا برا حال تھا ۔مہک کو بھی دلاسا دیا ۔ اس لمحے اس نے بچوں کو لے کر چلے جانا ہی مناسب سمجھا ۔
مہک اب تک اپنے شوہر کی خشک مزاجی کو ہنس کر برداشت کرتی رہی تھی۔ اس امید پر کہ ایک نہ ایک دن وہ اس کی محبت کی وجہ سے اپنا رویہ ضرور تبدیل کریں گے ۔لیکن آج کی ذلت نے اس کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
بات بات پر آنسو بہانے والی مہک میں نہ جانے کہاں سے اچانک اتنی طاقت آگئی کہ ایک آنسو بہائےبنا خاموشی سے اٹھی،سامان سمیٹااور چلی گئی ۔سب گھروالوں نےاسےروکنےکی کوشش کی پرآج اسےکوئی بھی نہ روک پایا۔
مہک کے جانے کے بعد جان عالم کی زندگی یکسر بدل گئی ۔ایک گہرا سکوت پورے وجود پر طاری تھا۔جس سکون کا وہ متلاشی تھے وہ تو مل گیا پر دل کو پھر بھی قرار نہ تھا ۔چند ہی دنوں میں گھر کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا ۔بے کلی اور اداسی بڑھتی جا رہی تھی ۔انہیں رہ رہ کر اپنے غصے پر قابو نہ رکھنے کا افسوس ہو رہا تھا ۔والدہ اس اچانک آئی پریشانی سے دل گرفتہ تھیں۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی یوں اداسیوں کی نظر ہوتے دیکھ نہ سکتی تھیں ۔ابا جان بھی فکر مند تھے پروہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک وہ دونوں خود نہ چاہیں زبردستی صلح سود مند نہیں ہو گی ۔
دفتر جانے کے لیے جب الماری سےکپڑےنکالے تو پہلی بار نوٹ کیا کہ نفاست سے استری شدہ کپڑے ہینگرز پر لٹک رہے تھے۔ جان عالم کو حیرت ہوئی کہ تمام پینٹس کے ساتھ میچنگ شرٹس اور ٹائی بھی اس کی پسند کے مطابق لٹکائےگئے تھے۔
’’کیامہک کومیری پسندناپسندکی اتنی اچھی سمجھ ہے؟ میں تو اسے کند ذہن سمجھتا تھا!‘‘
جان عالم دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ انہیں تو اتنے مہینے ساتھ رہنے کے باوجود مہک کی پسند کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں تھا ۔یا شاید انہوں نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی تھی!
دوسری طرف مہک کا دل اپنی محبتوں کے جواب میں ملنے والی سردمہری اور مسلسل بے اعتنائی کی وجہ سے کرچی کرچی ہوچکا تھا ۔ جس دن سے وہ اپنی امی کے گھر آئی تھی طبیعت بوجھل تھی اور سرچکرا رہاتھا ۔ والدہ ڈاکٹر کے پاس لے گئیں جس نے بتایا کہ مہک امید سے ہے ۔ اتنی بڑی خوش خبری سے بھی مہک کے چہرے کی اداسی نہ ختم ہوئی ۔گھرمیں سب نے پوچھا پرطبیعت خراب کا بہانہ کردیااورکسی سے کچھ نہ کہا ۔سب سے دل کی بات چھپائی جا سکتی ہے پر ماں وہ ہستی ہے جو کچھ کہےبنا بھی سب جان جاتی ہے ۔ مہک کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے کرب کو انہوں نے محسوس کرلیا۔ مہک کو انہیں سب بتانا پڑا ۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گئیں۔
’’کچھ کہتی کیوں نہیں آپ؟ کس قدر بد اخلاقی کا ثبوت دیا جان عالم نے۔بہت مان ہے اپنی تعلیم پر ان کو…..کیا یہ ایک پڑھے لکھے شخص کا انداز ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ ماں کو چپ دیکھ کر بولی۔
’’ بیٹی جان عالم نے سب کے سامنے ڈانٹ کر اچھا نہیں کیا۔مہمان کے اکرام کے بھی خلاف تھا اس کا طرز عمل…..مجھے افسوس ہؤا۔مگرتمہیں بھی دھیان رکھنا چاہیےتھا‘‘۔
’’ کمال ہے!آپ ہی بتائیں میری کیا غلطی تھی جو مجھے اتنا کچھ سنا دیا انہوں نے؟‘‘مہک نے شکوہ بھری نگاہوں سے ماں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’غلطی تو شاید نہیں مگر حکمت کے خلاف ضرور تھی تمہاری حرکت…..اگر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی توشاپنگ کرنے کے بجا ئے گھرپررہ کراس کاخیال رکھناچاہیےتھا۔اچھی بیوی بھی تو شوہر کے مزاج کو سمجھنے والی ہوتی ہے‘‘مہک کی امی نے کہا۔
’’پر امی آپ تو جانتی ہیں نا کہ ہمیشہ پورے خاندان اورفرینڈز میں لان کے نئےپرنٹ سب سےپہلےمیں ہی پہنتی ہوں اوراب شادی کے بعد یہ پہلی ایگزی بیشن تھی، اگر میں اس بار نئےپرنٹ نہ لیتی تومیری کتنی سبکی ہوتی ‘‘اس نے اپنی صفائی پیش کی۔
’’ میری نادان بیٹی لان کے نئےپرنٹ پہن کرجس شوہر کو دکھانےہیں اگروہی ناراض ہے…..توجتنےبھی خوب صورت اورجدید پرنٹس پہن لوگی وہ تمہیں خوشی نہ دے پائیں گے ۔ میاں بیوی کا رشتہ ہر دکھ سکھ اور پریشانی میں ساتھ نبھانے سے مضبوط ہوتا ہے۔ تمہاری سہیلی اور اس کے بچے تو جان عالم کے مزاج کو نہیں جانتے تھے پر تم تو اچھی طرح جانتی تھیں‘‘۔
مہک خاموش تھی۔ماں نےبیٹی کو پیار سے سینے سے لگا کر کہا ۔
’’ میری پیاری بیٹی جو ہونا تھاہوچکا ۔اب جبکہ تم ایک ماں بننے والی ہو تو اب تمہیں اپنے لا ابالی پن کو چھوڑ نا ہوگا ۔ تمہارا فرض اولین گھرکو جنت بناناہے ۔باقی شوق اور مشغلے بھی ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں مگر انہیں ایک حد تک ہی اہمیت دی جاسکتی ہے ۔ انہیں پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی میں زہرتو نہیں گھولا جا سکتا ۔ اور رہا سوال جان عالم کے مزاج کا،تو حوصلہ رکھو وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی تبدیل ہو جائے گا، اچھی تربیت پایا ہؤا لڑکا ہے ہم نے دیکھ بھال کر ہی شادی کی ہے‘‘۔
ماں کی پیار سےسمجھائی باتوں نے دل پہ پھاہا رکھا تواس نے بھی معاملے کو نئے زاویے سے دیکھا۔اس کی سوچ کا رخ تبدیل ہونے لگا کہ شاید جانے انجانے اس سے بھی کچھ کوتاہی ضرور ہوئی تھی ورنہ سمندر کی گہرائی کی طرح پر سکون رہنے والے جان عالم اچانک آتش فشاں کی طرح شعلے کیسے اگلنے لگے ۔ اور پھر ان کے سٹڈی روم میں آنے والی تباہی جس کو مہک نے مہمانوں کے جانے کے بعد دیکھا تھا، اس کی نظروں میں گھوم گئی۔ذہن پر کام کا بوجھ ،تھکن، بخار، شوروغل، بے آرامی اور اوپر سے بے ترتیبی اور نقصان…..کیا تھا اگر وہ خود خیال کرلیتی کہ جان عالم ڈسٹرب نہ ہوں۔
مہک کی والدہ نے سمدھن کو بھی فون کر کے دادی بننے کی خوش خبری سنا دی ۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑگئی ۔ سب مہک کو واپس لانے کے لیے بےتاب تھےپرجان عالم نے کسی کی ایک نہ سنی ۔ انہیں جو سکون چاہیےتھا وہ مل گیا تھامگر اب اپنے رویے کی بے سکونی نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ وہ خود کو مہک کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ پاتے تھے۔ آخر کار راشدہ بیگم کوبڑی نندکےساتھ مبارکباددینے خودہی جاناپڑا۔
مٹھائی لے کر وہ مہک کے گھر پہنچیں ۔مہک ان کے آنے کا سن کر کھل اٹھی ۔اسے امید تھی کہ جان عالم بھی اتنی بڑی خوش خبری سن کر دوڑے چلے آئیں گے ۔پر جان عالم لاکھ چاہنے کے باوجود اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر آ نہیں پائےاورمہک کی تشنہ نگاہیں انہیں ڈھونڈتی ہی رہ گئیں۔مہرالنسااپنی بہوکےاداس چہرےکودیکھ کررنجیدہ ہوگئیں۔ وہ مہک کوساتھ لےجاناچاہتی تھیں پر بیٹے کی رضامندی کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھیں لہٰذا مبارک باددے کر کچھ دیر بیٹھیں اور واپس آ گئیں۔
’’جان عالم خود بھی تو آ سکتے تھے مجھے لینے ۔انہوں نے تو فون پر بھی مبارک باد نہ دی …..کیا اتنا برا کہہ کر بھی ان کا غصہ نہیں اترا؟کیا میری کوئی وقعت نہیں ان کی نظرمیں ؟‘‘ طرح طرح کے سوالات مہک کے منتشر خیالات کو مزید الجھارہے تھے۔
مہک کو گھر سے گئے دس روزہوچکےتھے۔شام کاوقت تھا ۔ اباجان اورامی دونوں بڑی پھپھو کےگھر ان کےپوتےکے عقیقےپر گئے تھے۔جان عالم کوتقریبات میں جانا قطعی پسند نہیں تھا لہٰذا وہ گھر پر ہی تھے ۔ کچھ دیر لان میں ٹہل کرکمرےمیں آ گئے۔آج کتابیں پڑھنےکوبھی دل نہیں چاہ رہاتھا ۔ پورےگھرپرخاموشی کاراج تھا۔کمرے کی دیوار پر لگی گھڑیال کی ٹک ٹک کی آواز انہیں اپنی تنہائی کا مذاق اڑا تی لگ رہی تھی ۔ انہوں نے گھبرا کر کمرے کی کھڑکی کھول دی ۔سورج کی نرم کرنیں درختوں کی ٹہنیوں سے چھن چھن کر چہرے سے ٹکرانے لگیں ۔ چہچہاتے پرندوں کے غول ایک جانب اڑان بھرتے اور چکر لگاکر درخت پر واپس آ کر بیٹھ جاتے۔فٹ پاتھ کے کنارے لگے عنابی سفید اور گلابی پھول جھوم جھوم کر بہار کی آمد کااعلان کررہے تھے ۔ سبک رفتار ہواکے زور سے درختوں کے پتے دھیرے دھیرے ہلکورے لے رہےتھے ۔جان عالم مبہوت سے ہو گئے۔
’’ اف میرےخدایہ سب نظارےکتنےمسحورکن ہیں۔میں نےتوکبھی ان کی طرف نظربھرکےبھی نہ دیکھا‘‘۔
سڑک کے اس پار فیملی پارک میں بھی آج خوب رش تھا ۔ پڑوس کے مکان کے پرانے رہائشی رضی صاحب گنٹھیا کی دائمی مریضہ اپنی بیگم کو وہیل چیئر پر پارک کی سیر کروارہے تھے ۔کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔چند فیملیز چاندنی بچھائے اپنے ساتھ لائےکھانےپینےکےسامان سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اورخوش گپیوں میں مگن تھیں۔
آج پہلی بار جان عالم نے اپنی ذات کے گرد بنائےتنہائی کے مصنوعی خول سےباہرجھانکاتوانہیں شدت سےاپنی غلطی کااحساس ہؤا۔ وہ اللہ کی دی نعمتوں سے منہ موڑ کر کتنی بڑی ناشکری کے مرتکب ہو رہے تھے ۔ چرند پرندانسان اور نباتات سب کا وجود ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہے۔تنہاکسی کاوجودبھی کارآمدنہیں۔گھر میں رہنے والے انسان کتابوں سے زیادہ اہم ہیں اور توجہ کے قابل!
میں نے تنہائی کو اپنی طاقت سمجھا اور پھرپتہ ہی نہ چلا کب وہ میری کمزوری بن گئی ۔ مہک مجھے زندگی کی انہی چھوٹی چھوٹی انمول خوشیوں کی طرف لے جانا چاہتی تھی اور میں شاید اپنے اس خودساختہ مصنوعی خول سے نکل نہیں پا رہا تھا ۔
جان عالم نے آج خود کو تلاش کر لیا تھا…..اپنے وجود کے کھوئےہوئےحصےکوتلاش کرلیاتھا۔
وہ فوراً گاڑی کی چابی اٹھا ئےکمرےسےنکل آئے۔اب ایک لمحہ بھی ضائع کیےبغیروہ مہک کےسامنےاپنی تمام غلطیوں کا اعتراف کرناچاہتےتھے۔بتاناچاہتےتھے کہ اس کے بغیر ان کی زندگی بالکل ادھوری ہے۔
بیل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دبانے سے پہلے ہی گیٹ کسی نے کھول دیا ۔مہک اپناچھوٹاسابیگ لیےباہرآرہی تھی۔وہ بھی چونک گئی۔
’’آپ یہاں کیسے؟‘‘وہ حیرت سے گم صم کھڑی تھی۔
’’تمہیں گھر لے جانے آیا ہوں …..مگر تم…..شایدکہیں جا رہی ہو ؟‘‘
’’ میں بھی توگھر ہی جانے کے لیے نکلی تھی‘‘۔مہک نگاہیں جھکا کر مسکراتے ہوئے بولی۔
جان عالم بھی مسکرا دیے۔
’’مجھے تم سے بہت سی باتیں کہنی ہیں اور ….. تم سے زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سیکھنا ہے۔ کاش مجھ میں بھی تم سی سمجھ ہوتی!‘‘
مہک کی آنکھوں میں پہلے بے یقینی ابھری پھر خوشی کے آنسو چھلک گئے ۔
’’توجناب سمجھدار بیگم صا حبہ اب بتائیںکہ…..کیا آپ چلیں گی سی ویو اپنے اس نا چیز شوہر کے ساتھ؟‘‘
جان عالم نے سر جھکا کر معصومیت سے جو کہا تو گہری ہوتی شام میں دونوں کے قہقہے دور دور تک گونج اٹھے ۔

٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here