۲۰۲۳ بتول فروریمولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی منجھلی صاحبزادی سے ایک ملاقات - بتول فروری...

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی منجھلی صاحبزادی سے ایک ملاقات – بتول فروری ۲۰۲۳

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

پیکر و مہر و محبت، ایثار و وفا، رواداری و بردباری، فرحت و راحت، علم و عمل کو یکجا کر دیا جائے تو منجھلی آپا بنتی ہیں۔ آپ کی شخصیت ہوا کے لطیف جھونکے کی مانند ہے جو نہایت سبک خرامی سے دوسرے کے دل میں نرمی اور ٹھنڈک کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ آپ سے مل کر بے پناہ پاکیزگی کا احساس جاگزیں رہتا ہے، سراپا اللہ کی بندی دکھائی دیتی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی چاہت وجود سے پھوٹی پڑتی ہے۔ ان سے ملنے کے بعد دل میں اللہ کی محبت فزوں تر محسوس ہوتی ہے۔ آپ ایسی عارفہ ہیں کہ ان جیسے لوگ انسانوں کے ہجوم میں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علم و عمل کی خوشبو اپنے اردگرد والوں کو معطر کیے رکھتی ہے۔ آپ کو اپنے والدین کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی بے پناہ خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں۔

 

س: آپ کا اسم شریف اور سنِ پیدائش کیا ہے؟
ج: میں اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی آپ مجھے مولانا مودودیؒ کی صاحبزادی کہہ کر بلائیں۔ میں 1941ء میں دہلی میں پیدا ہوئی۔ دہلی میں ہمارا ننھیال تھا۔ ہماری اماں کے سات بچے دہلی میں پیدا ہوئے۔ دو لاہور کی پیدائش ہیں۔
س: ننھیال کا کوئی خاکہ کوئی یاد آپ کے ذہن میں ہو تو بتائیں؟
ج: نہیں! بالکل بھی کچھ یاد نہیں۔ میں بہت چھوٹی تھی جن دنوں ننھیال جانا ہوتا تھا۔
س: آپ پٹھانکوٹ کب آئے، وہاں کی کوئی یاد؟
ج: جب ہم لوگ پٹھانکوٹ آئے میری عمر صرف چھ برس تھی۔ وہاں کے گھر کا کوئی نقش میرے ذہن میں نہیں ہے۔ جموں کے پہاڑی سلسلے کے اختتام پر پٹھانکوٹ واقع ہے۔ چودھری نیاز علی صاحب وہاں کے مقتدر زمیندار تھے۔ وہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے پاس آئے اور اسلامی فکر و فلسفہ کی ترویج کے لیے ابا جان کا نام تجویز کیا۔ تبھی ان کے کہنے پر ابا جان نے حیدرآباد دکن سے پٹھانکوٹ کی طرف ہجرت کی۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ ابا جان وہاں نمونے کی ایک بستی بنائیں جو تمام دنیا کے لیے رول ماڈل ہو، ایک آئیڈیل سی ہو۔ وہاں انہی کے کہنے پر ٹرسٹ بنایا گیا جس کا نام ابا جان نے ’’دارالسلام‘‘ رکھا۔
س: آپ لوگ لاہور کب آئے؟
ج: ہم لاہور اکتوبر 1947ء میں آئے۔ دارالسلام کی غیر منقولہ جائیداد کے بدلے میں ہمیں سوہن لال کالج کی عمارت الاٹ کر دی گئی۔ انہی دنوں ابا جان کے ساتھ حکومت وقت کا اختلاف ہو گیا وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا آپ تنقید بھی کرتے ہیں اور ہمارے ہی دیے ہوئے کالج میں بھی رہتے ہیں تو ابا جان نے اسی وقت گھر والوں سے کہا سامان باندھ لیں اور یہاں سے چلیں۔ اس طرح ہم سوہن لال کالج سے اُٹھ کر مہاجرین کے لیے اسلامیہ پارک چوبرجی میں لگائے گئے خیموں میں پناہ گزین ہو گئے۔ مولوی ظفر اقبال صاحب سے ابا جان کی دوستی تھی اس لیے ہم گھر والوں کا زیادہ وقت ان کے گھر فصیح منزل اسلامیہ پارک میں گزرتا۔ ان کے گھر والوں نے ہمیں اتنی محبت دی کہ اماں اکثر کہا کرتیں کہ ان کے پاس رہ کر مجھے میکہ کبھی یاد نہیں آیا۔ مولوی صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ریاض قدیر (پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) ابا جان کی بہت عزت کرتے۔ ان کی والدہ کو اماں سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ بیماری میں اماں کی ٹانگوں کی مالش کیا کرتیں۔ کچھ دنوں کے بعد ہم خیموں سے ان کے گھر شفٹ ہو گئے تو ہمیں لگا ہم جنت میں آ گئے ہیں۔
س: آپ کو والد یا والدہ میں سے کس سے زیادہ محبت تھی۔ آپ کی تربیت میں کس کا زیادہ کردار ہے؟
ج: ہمارے ماں باپ ہم خیال تھے اس وجہ سے ہمیں دونوں سے

ایک جیسی محبت تھی۔ ہماری تربیت میں بلاشبہ اماں کا زیادہ کردار ہے کیونکہ ابا جان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔ اماں کے ساتھ ہمارے چچا ابوالخیر مودودی اور دادی اماں کی تربیت و سرپرستی نے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا۔
س: آپ اپنی دادی جان کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: میری دادی جان کا نام رقیہ بیگم تھا۔ وہ ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے نہایت فقیرانہ مزاج پایا تھا انہیں اپنے لیے کبھی کسی خاص شے کی خواہش نہ ہوتی نہ کوئی عمدہ کپڑا نہ اعلیٰ بستر نہ اچھا کھانا حد یہ کہ باسی روٹی بھی بہت ذوق شوق سے کھا لیتیں۔ ہم نے انہیں کبھی کوئی نیا کپڑا پہنے نہیں دیکھا وہ ابا جان اور چچا جان کے پرانے کپڑے ٹھیک کر کے پہن لیتیں۔ اگر کوئی انہیں نیا کپڑا دیتا تو وہ اسے کسی اور کو دے دیتیں خود نہ پہنتیں۔ ان کی شخصیت کا حیرت انگیز وصف ان کا صبر تھا۔ انہیں ابا جان سے از حد محبت تھی۔ جن دنوں ابا جان کا جیلوں میں جانا ہوتا تو وہ آزمائش کے ان مواقع پر چچا ابوالخیر کے بجائے ہمارے ہاں آ کر رہتیں۔ جب ابا جان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کا چہرہ فکرمندی اور پریشانی سے مرجھائے ہوئے پھول کی مانند دکھائی دیتا تھا مگر انہوں نے لبوں سے کوئی آہ و فغاں بلند نہ کی بلکہ خاموشی سے صبر کا پیکر بنی بیٹھی رہیں۔
گھر والوں کے ساتھ خصوصاً اماں کے ساتھ بہت بہترین رویہ تھا۔ درگزر کرنا ان کا خاص وصف تھا۔ وہ میرے لڑکپن کا دور تھا جن دنوں دوپہر کو سب کو کھانا دینے کی ڈیوٹی میری تھی۔ میں نے سب کو کھانا دے دیا مگر دادی جان کو کھانا دینا بھول گئی۔ شام کو میں نے دیکھا دادی اماں نوکر کو پیسے دے کر بازار سے کچھ منگوا رہی ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کیا منگوا رہی ہیں۔ بہت اصرار کرنے کے بعد بتایا کہ بیٹا تم مجھے دوپہر کو کھانا دینا بھول گئی تھیں جب میں نے یہ سنا تو مارے شرمندگی کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا۔ کاش زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتی۔ نجانے مجھ سے یہ بھول کیسے سرزد ہو گئی۔ میں بھاگی گئی اور کھانا لے کر آئی، اتنے میں بسکٹ بھی آ گئے۔ میں نے انہیں کھانا کھلایا اور انہوں نے مجھے بسکٹ۔ انہوں نے میری اس غفلت کو نادانی سمجھ کر درگزر کیا۔ کوئی غلط سوچ نہ آنے دی۔ کوئی عام خاتون ہوتی تو کہتی یقیناً ماں نے سکھایا ہے۔ آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں نادم ہو جاتی ہوں۔
س: مولانا مودودی صاحب کی والدہ ماجدہ بلاشبہ ایک عظیم خاتون تھیں جن کے بطن سے اس دور کے مجدد نے جنم لیا۔ آپ ہمیں ان کے بارے میں مزید کچھ بتائیں؟
ج: اب میری یادداشت اتنی اچھی نہیں رہی۔ آپا حمیرہ کو بہت سی باتیں اب بھی یاد ہیں۔
س: اگر آپ اجازت دیں تو حمیرہ آپا کی کتاب ’’شجر ہائے سایہ دار‘‘ سے مولانا کی والدہ کے بارے میں چند اقتباسات قارئین کے لیے لکھ دیں؟
ج: جی ضرور مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
حمیرہ مودودی صاحبہ لکھتی ہیں…
’’ہماری دادی اماں بہت حوصلے والی خاتون تھیں وہ ہماری اماں جان کو نصیحت کیا کرتی تھیں، بچوں کو ایسی عادت ڈالو کہ سرد و گرم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وقت سونے کا نوالہ کھلائو، موتی کوٹ کر کھلائو لیکن دوسرے وقت دال سے روٹی کھلائو، چٹنی سے روٹی کھلائو، بچوں کو کبھی ایک طرح کی عادت نہ ڈالو اور نہ ہر وقت کی منہ مانگی مراد پوری کرو۔ ماں باپ تو آسانی سے اولاد کی عادتیں خراب کر دیتے ہیں، لیکن دنیا کوئی لحاظ نہیں کرتی۔ یہ تو بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتی ہے اور پھر کہتی تھیں، میں نے اپنے بچوں کو اسی طرح پالا ہے ایک وقت اچھے سے اچھا کھلایا اور دوسرے وقت دال چٹنی سے روٹی کھلائی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے ابا جان ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے بڑی ثابت قدمی سے گزر گئے اور ہر سختی اپنی جان پر جھیل گئے ان کے اعصاب فولاد کے بنے ہوئے تھے وہ اپنا ٹوٹا ہوا بٹن خود ٹانک لیتے تھے۔ اپنا پھٹا ہوا کرتہ خود رفو کر لیتے تھے۔ ان کی جیل کی کِٹ (Kit) جو پہلی گرفتاری کے بعد ہر وقت تیار رہتی تھی اس میں سوئی دھاگہ اور ہر سائبز کے بٹن بھی ہؤا کرتے تھے۔
ہماری دادی اماں ولی اللہ تھیں۔ وہ جب بیمار ہوتیں تو آسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر بڑے جذبے کے ساتھ دعا اور التجا کرتے ہوئے کہتیں من مریضم تو طبیبم… اور پھر وہ ٹھیک ہو جاتی تھیں۔ زندگی بھر

ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ کبھی دوا پی۔ اگر کبھی پھوڑا پھنسی نکل آتا تو اس جگہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھیں ’’اے دنبل، بزرگ مشو، خدائے مابزرگ تراست‘ (اے پھوڑے زیادہ نہ بڑھ ہمارا خدا سب سے بڑا ہے) یہ کہنے سے وہ پھوڑا ٹھیک ہو جاتا تھا۔ وہ فارسی زبان و ادب کی سکالر تھیں اور اکثر بات کا جواب فارسی اشعار میں دیا کرتی تھیں۔
دادی اماں جس محفل میں بیٹھتیں، خواہ وہ کتنی ہی بڑی محفل ہوتی ان کے ہوتے ہوئے کوئی دوسری خاتون بول نہیں سکتی تھی۔ بس ان کی باتیں سنتے اور انہی کو دیکھتے تھے۔ وہ ہر محفل کی جان ہوتی تھیں گفتگو اس قدر ادبی اور دلچسپ کرتی تھیں کہ کوئی اگر ایک بار ان سے مل لیتا تو ان کو اور ان کی باتوں کو کبھی بھول نہیں سکتا تھا۔ وہ غضب کی حاضر جواب تھیں ایسی برجستہ بات کہتی تھیں کہ سننے والوں کے دل پر وہ بات نقش ہو جاتی تھی۔ ایسی خوش گفتار اور بذلہ سنج خاتون تھیں کہ سب کو ہنساتیں، لیکن خود سنجیدہ رہتیں اس پر ہم لوگوں کو اور زیادہ ہنسی آتی کہ خود کیسے سوکھا سا منہ بنائے رکھتی ہیں اور ہمارا ہنسا ہنسا کر برا حال کر دیتی ہیں۔
ہمارے ماموں جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے انہوں نے ایک روز دادی اماں سے شرط لگا دی کہ ہم دونوں شعر میں بات کریں گے، اب دادی اماں کو تو کسی کی مدد لینے کی ضرورت نہ پڑی، لیکن ہمارے ماموں بار بار ہماری اماں جان کے پاس شعر پوچھنے کے لیے آنے لگے۔
ہماری اماں جان کہتی تھیں میں نے اپنی پوری زندگی میں تمہاری دادی اماں جیسی کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی کہ جس میں ’سرے نفس ہی نہ ہو‘ انہیں کسی چیز کی طلب ہی نہیں تھی۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں صوفیا کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی کو منع نہیں کرتے، طمع نہیں کرتے اور جمع نہیں کرتے۔ اتفاق سے یہ تینوں صفات ہماری دادی اماں، ابا جان اور اماں جان میں موجود تھیں۔ رضا بہ قضا اور صبر جیسی اعلیٰ صفات کی ان تینوں ہستیوں نے اپنے اندر اس طرح سے پرورش کی تھی کہ وہ نفس مطمئنہ کا بہترین نمونہ بن گئے تھے۔
اماں جان کہا کرتی تھیں کہ میں نے جینے کا سلیقہ تمہاری اماں سے سیکھا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی ساس بہو دونوں ہمیشہ ایک رائے رکھتی تھیں اور کبھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی: ’آپ کسی کو بددعا نہ دیں کہ آپ کی دعا اور بددعا دونوں حرف بحرف لگتی ہیں‘ یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ء میں ابا جان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا ’جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے یا اللہ تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے‘… اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہو گیا۔
دادی اماں ہم بچوں سے کہا کرتی تھیں،
’اصل نسل سیدمیں کچھ بنیادی صفات ہوتی ہیں جب کوئی تم سے کہے کہ میں سید ہوں تو اسے سات چیزوں میں پرکھو‘ ٭سید کو طیش نہیں آتا اور اگر آتا ہے تو صرف دین کے معاملے میں آتا ہے ٭سید کبھی ذاتی انتقام نہیں لیتا ٭سید کبھی گالی کے جواب میں گالی نہیں دیتا ٭سید کسی کے لیے دل میں کینہ نہیں رکھتا ٭سید کبھی جھوٹ نہیں بولتا ٭کسی کی غیبت نہیں کرتا ٭سید کھانے میں عیب نہیں نکالتا، بھوک اور پیاس سے کبھی بے حال نہیں ہوتا جو سامنے آئے صبر سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ٭سید پر زندگی میں کبھی نہ کبھی سخت وقت آتا ہے اور اس کی جان تک خطرے میں ہوتی ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارتا۔ اللہ کے بھروسے پر ہر خطرے سے لڑ جاتا ہے اور بدترین حالات سے ٹکر لے لیتا ہے۔
دادی اماں کی بیان کردہ خصوصیات درحقیقت بچوں کی تربیت اور ذہنی تشکیل کے اصول تھے تاکہ وہ اپنی نسبت کے حوالے سے ان امور کا خیال رکھیں۔ تاہم ابا جان میں یہ ساتوں خوبیاں بھرپور انداز میں موجود تھیں۔
۱۹۵۷ء میں ۶ اور ۷ دسمبر کی درمیانی رات کو دو بجے مختصر علالت کے بعد دادی اماں انتقال کر گئیں۔ تمام عمر من مریضم تو طبیبم کہہ کر تندرست ہو جانے والی دادی اماں بالآخر اپنے طبیب حقیقی سے جا ملیں … یعنی ہمیشہ کے لیے شفایاب ہو گئیں۔ دادی اماں کے انتقال کے بعد عام لوگوں کا خیال تھا کہ اماں جی کے صاحبزادے اتنے نامی گرامی عالم دین ہیں کہ ضرور اپنی والدہ صاحبہ کے ایصالِ ثواب کے لیے قل،

دسواں، بیسواں اور چالیسواں کریں گے اور خوب بریانی، زردے کی دیگیں پکیں گی، حلوے اور نان بانٹے جائیں گے لیکن دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ابا جان نے نہ دادی اماں کے قل کیے اور نہ دوسری ہی بدعات … اور جتنے منہ اتنی باتیں … کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا یا اللہ تو سب کو نیک اولاد دے مگر ایسی اولاد تو کسی دشمن کو بھی نہ دے، جس نے اماں جی کو قبر میں اوندھا ڈال دیا اور پلٹ کر بھی نہ پوچھا۔ ان باتوں کا ہمارے گھر میں سب نے بہت برا مانا لیکن ابا جان ان تبصروں سے بہت محظوظ ہوئے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ایک غریب آدمی جو دمے کا پرانا مریض تھا اور مرض کی شدت کی وجہ سے اپنی روزی خود کمانے سے قاصر تھا روزانہ ہمارے گھر دوپہر کو آتا اور اس کو بڑی عزت سے کھانا کھلایا جاتا۔ کھانے کے بعد وہ ہمارے گھر ہی میں چارپائی پر لیٹ جاتا اور رات کو کھانا کھاکراپنے گھر چلا جاتا، ابا جان کا حکم تھا کہ دوپہر کو اسے کھانا دادا ابا کے ایصال ثواب کے لیے کھلایا جائے اور رات کو دادی اماں کے ایصال ثواب کا کھانا پیش کیا جائے۔ پھر اسی سال رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں سعودی عرب جانا ہؤا تو ابا جان نے دادی اماں کے ایصال ثواب کے لیے حج کیا۔ اسی طرح کئی عمرے بھی کیے۔
س: آپ نے کس سکول اور کالج سے تعلیم حاصل کی؟
ج: میں نے فیروز پور روڈ پر واقع گورنمنٹ سکول سے پڑھا اور لاہور کالج فار ویمن سے بی اے کیا۔
س: سکول اور کالج میں جب لوگ آپ کو مولانا کی بیٹی کے حوالے سے پہچانتے تو آپ کو کیسا لگتا؟
ج: سکول اور کالج کا ہر دور بہترین تھا کبھی کسی استاد کو ہم سے شکایت نہ ہوئی۔ میری عادت ہے میں زیادہ دوستیاں نہیں کرتی چند گنے چنے لوگوں سے میری علیک سلیک رہی۔ جتنے بھی لوگ مجھے جانتے تھے سبھی بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے۔ اللہ کا شکر ہے بہت عزت ملی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب والد صاحب کی حکومتوں کے ساتھ شدید کشمکش تھی۔ ہم لیے دیے رہتے تھے تاکہ کسی کو غلط بات کرنے کا موقع نہ ملے اور وہ والد صاحب کے بارے میں طنزیہ جملہ نہ کہہ دے۔ ہمارے والد صاحب کا احترام لوگوں کے دلوں میں جبھی بڑھا جب ان کا ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ سے تعلق بنا۔ جب تمام دنیا کے علماء نے انھیں عزت و تکریم دی، تب ہمارے ملک کے لوگوں اور حکومتوں نے والد صاحب کی ذات اور بات کو اہمیت دینی شروع کی۔ پھر انھیں ان کے مرتبے کا اندازہ ہؤا وگرنہ تو بات بات پر جیل، الزامات کا سامنا رہتا تھا۔
س: اپنی شادی، شوہر اور سسرال کے بارے میں بتائیں؟
ج: میری شادی ۱۹۷۰ء میں ہوئی۔ شادی کی تقریب گورمانی ہائوس میں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ۵؍ اے ذیلدار پارک کے ساتھ ہی کچی آبادی ملحق ہے ہمارے گھر میں ہر کسی کو کھلم کھلا آنے کی اجازت تھی۔ اس سے پہلے تین شادیاں آپا اور بڑے ، چھوٹے بھائی کی یہاں گھر میں ہو چکی تھیں اور تینوں میں غیر متعلقہ لوگوں کی آمد کی وجہ سے کھانا کم پڑ گیا اس لیے میری شادگی گورمانی ہائوس میں ہوئی۔
مسعود صاحب بہترین شوہر تھے۔ ان کا تعلق عمر کوٹ سندھ سے تھا۔ جہاں پنجاب ختم اور سندھ شروع ہوتا ہے۔ وہیں پر عمر کوٹ واقع ہے۔ وہ لوگ سرائیکی اور سندھی ملی جلی بولتے تھے۔
مسعود صاحب کی عمر ایک برس کی تھی جب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور جب وہ آٹھ سال کے ہوئے تو والد بھی دنیا سے چل بسے۔ میرے شوہر کی ایک سگی بہن عائشہ ہیں ایک جیٹھ اور دیور سوتیلے ہیں۔ میرے تمام سسرال والے میرا بہت احترام کرتے ہیں خصوصاً بڑے جیٹھ نے مجھے بہت عزت دی۔ میرے سسرال والوں میں سے کبھی کوئی مجھ سے اونچی آواز میں ہم کلام نہیں ہؤا۔ مجھے اپنی سسرالی زندگی کا کوئی بھی ایسا واقعہ یاد نہیں جس نے میرے دل میں کوئی رنجش پیدا کی ہو۔ عائشہ میری نند مجھ سے بے حد محبت کرتی ہیں اور میں ان سے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے سسرال والے ابا جان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کا پورا خاندان ابا جان کا پرانا عاشق تھا۔ ان کے والد ترجمان القرآن منگوا کر پڑھا کرتے تھے۔ ان کی گھٹی میں یہ بات پڑی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے مجھے بہت محبت و تکریم ملی۔ مسعود صاحب کی وفات کے بعد میں نے تمام سسرال والوں سے پردہ کر لیا سوائے عائشہ کے بچوں کے کیونکہ وہ مسعود صاحب کی زندگی میں میری طرف بہت آتے جاتے تھے۔
س: اپنے میاں کی کوئی خاص بات جو آپ کو بہت یاد آتی ہو؟

ج: یوں تو مسعود بہت سی خوبیوں کے مالک تھے اگر کبھی میں بیمار پڑ جاتی تو تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ ایک بار مجھے بار بار قے ہونے لگی میں بار بار غسل خانے جانے لگی تو انھوں نے مجھے منع کر دیا، کہا آپ بستر پر لیٹی رہیں جب بھی مجھے قے آتی وہ بالٹی لے جا کر دھو کر واپس میرے پاس رکھ دیتے۔ کون شوہر اتنا خیال کرتا ہے۔ انھیں میری بے حد فکر رہتی۔ وہ سمجھتے تھے جیسے مولانا کا کردار قابل احترام ہے ان کی بیٹی کا بھی ویسے ہی ہے۔لوگ ان کی بیٹی کی بھی ویسی ہی تکریم کریں جیسی مولانا کی کرتے ہیں۔
س: آپ لاہور میں اور وہ سندھ میں رشتہ کیسے ہؤا؟
ج: (ہنستے ہوئے بولیں) کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
س: آپ اولاد جیسی نعمت سے محروم رہیں تو آپ نے کوئی بچہ گود کیوں نہیں لیا؟
ج: میں سمجھتی ہوں جو اللہ دے دے وہ لے لو اور جو نہ دے تو اس پر صبر کرو۔ مجھے بہت سے لوگوں نے ایسا کرنے کو کہا، ڈاکٹر بلقیس فاطمہ (پرنسپل فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور) نے کہا آپ ارادہ کریں بہت خوبصورت بچہ لے کر دوں گی۔ بچہ گود لینا بہت بڑی آزمائش ہے۔ پوری زندگی اسے نبھانا پڑتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کچھ عرصہ بعد اسے چھوڑ دیں اگر وہ برا نکلے تب بھی اسے برداشت کرنا پڑتا ہے۔
س: آپ کے شوہر کی وفات کب اور کیسے ہوئی؟
ج: مسعود صاحب کو دل کا مرض لاحق تھا وہ پانچ سال بیمار رہے میں پانچ سال گھر سے باہر نہیں نکلی دل و جان سے ان کی تیمارداری کی مگر جانے والوں کو کون روک سکتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں ان کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر ترپن برس تھی۔
س: ان کی وفات کے بعد آپ نے کیسے وقت گزارا؟
ج: ان کی وفات سے پہلے میں سوچتی تھی کہ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو میں کیسے زندہ رہوں گی۔ میرے جذبات و احساسات شدید تھے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا اللہ مجھے انسانوں کے حوالے نہ کرنا میں تیرے ساتھ رہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی۔ وہ دن اور آج کا دن میں اب تک اپنے رب کے ساتھ ہوں اور یہ دن میری زندگی کے قیمتی ترین دن ہیں۔ شروع دنوں کی بات ہے ایک روز میں سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہی تھی کہ میں اپنے میاں کے بغیر کیسے زندہ رہوں گی تو یہ دعا میرے لبوں سے خود بخود جاری ہو گئی ۔
رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر۔
پھر میرے سامنے جیسے تمام راستے کھل گئے، آسان ہو گئے۔ میں نے زندگی کا مفہوم سمجھ لیا۔ اس آیت نے میرے اندر ٹھہرائو پیدا کر دیا۔ پوری زندگی کی رہنمائی اس آیت میں موجود ہے۔ پھر میں نے کبھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہیں کیا۔ میں نے اپنی زندگی کے بائیس سال مسعود صاحب کی رفاقت میں گزارے اور اب ان کی وفات کو بائیس برس ہو گئے ہیں۔ مگر میرے لیے یہ عرصہ سب سے زیادہ حسین اور خوشگوار ہے جو میں نے اپنے رب کے ساتھ گزارا۔
اللہ تعالیٰ نے میرے رہنے کے لیے بہترین انتظامات کر دیے۔ اپریل ۱۹۷۸ء میں ابا جان نے مسعود صاحب کو کہہ کر اپنے گھر سے ملحق یہ گھر دلوایا۔ اس سے پہلے ہم ماڈل ٹائون رہتے تھے۔ اچھرہ میں شفٹ ہونے کے بعد مجھے ماں باپ کی خدمت کا بہترین موقع ملا۔ یہ گھر قلعے کی طرح ہے۔ آج کل اس کے اوپری حصے میں میرے چھوٹے بھائی خالد فاروق اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رہتے ہیں۔ یہ سب انتظامات میرے رب نے میرے لیے کیے۔
س: آپ کے آج کل کے معمولات کیا ہیں؟
ج: ہفتے میں پانچ دن میرے ہاں قرآن کی کلاس ہوتی ہے نماز فجر کے بعد درس کی تیاری کر تی ہوں۔ ڈیڑھ بجے دوپہر کا کھانا شام کو کوئی کتاب زیر مطالعہ رہتی ہے۔
س: آپ نے قرآن کی تعلیم کس استاد سے حاصل کی؟
ج: میں نے قرآن کا ترجمہ آپا صفیہ سلطانہ صابر قرنی سے پڑھا۔ وہ ان دنوں ہمارے سامنے والے گھر ۴؍ اے ذیلدار پارک میں رہائش پذیر تھیں۔ قرآن کی تفسیر اور حدیث کا علم میری اپنی ذاتی کوشش اور مطالعہ ہے۔

س: آپ مولانا مودودی صاحب کی وہ خوش قسمت بیٹی ہیں جنھیں ماں باپ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ ہمیں مولانا کے روزمرہ کے معمولات کے بارے میں بتائیں؟
ج: اباجان عام طور پر صبح کی نماز کے بعد سوتے دس بجے اٹھ کر ناشتہ کرتے۔ ناشتے کا ایک ہی معمول تھا۔ دوتلے ہوئے انڈے، دو توس ، ایک کپ چائے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پھر وہ اپنے دفتر میں چلے جاتے۔ ظہر کی نماز کے وقت سوا ایک بجے کھانے کے لیے آتے۔ ان کے آنے سے ہم گھڑی کا ٹائم درست کرتے۔ جو اماں جان نے ان کی پلیٹ میں رکھ دیا وہی کھا لیا۔ نمک زیادہ ہے، کم ہے، کبھی شکایت نہ کی نہ کبھی نقص نکالا۔ رات عشاء کی نماز پڑھ کر کھانا کھانے آتے۔ کسی دن ان کو کام کرنا ہوتا تو رات کے کھانے میں انڈہ اور چائے لیتے۔ اگر سونا ہوتا تو سونے سے پہلے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے۔
عصر کی نماز کے بعد چائے پیتے۔ سوال جواب کی مجلس ہوتی جو مغرب تک جاری رہتی۔ وہ ہر وقت ایک سوچ میں رہتے۔ کھاتے پیتے وقت بھی ایسا لگتا جیسے وہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ کھانے کے وقت ان کی خواہش ہوتی کہ سب بچے میز پر موجود ہوں۔ اماں جان کبھی کبھار کہتیں ’’میاں کبھی بچوں کو ڈانٹ بھی لیا کرو۔‘‘ تو وہ کہتے ’’تھوڑی سی دیر کے لیے آتا ہوں اس پر بھی بچوں کو ڈانٹوں۔‘‘
س: رمضان میں کھانے کے کیا معمولات تھے؟
ج: رمضان میں سحری کے وقت اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل سحری کھا لیتے ۔ اس کے بعد انھیں ایک یا دو پان کھانے ہوتے۔ اور کھانے کے پورے ایک گھنٹے کے بعد وہ پانی پیتے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گردے کے مریض تھے۔
افطار کے وقت سردیوں میں چائے کی پیالی یا گرمیوں میں کٹورے میں شربت اور دو کھجوریں تناول فرماتے۔ پھر نماز کو چلے جاتے۔ واپس آ کر پوچھتے کیا بنا ہے۔ کھانے کے ساتھ دہی بڑے، پکوڑے جو بھی ہوتا کھا کر کچھ دیر آرام کرتے۔تراویح کوئی اور پڑھاتا وتر ابا جان پڑھاتے تھے۔
س: تہجد کے بارے میں بتائیں؟
ج: اگر پڑھتے تھے تو ہمیں نہیں معلوم یا ساری رات لکھتے پڑھتے رہتے۔ وہ چار گھنٹے سے زیادہ آرام نہیں کرتے تھے اس بے آرامی کی وجہ سے جوڑوں میں درد رہنے لگا تھا۔ کہتے تھے بیوی ایک ایک جوڑ مجھ سے انتقام لے رہا ہے، ایک ایک ہڈی احتجاج کر رہی ہے۔
س: عید کے معمولات کیا تھے؟
ج: صبح اٹھتے ہی بچوں کو آواز دیتے کہ اتنے بجے نماز کے لیے نکلنا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر جاتے۔ نماز کے فوراً بعد لوگ عید ملنے آجاتے دوپہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔
س: مولانا کھانے میں کیا پسند فرماتے تھے؟
ج: نہاری، سری پائے، سوہن حلوہ ابا جان کی سردیوں کی فرمائش تھی اور گرمیوں کی سبزیوں میں اروی گوشت بہت پسند تھا۔ اماں جان بہت لگن اور محنت سے ان کے ذائقے اور پسند کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان کے پسندیدہ کھانے تیار کرتیں۔
س: آپ نے مولانا کو کبھی بہت خوش دیکھاہو؟
ج: کوئی ایسا خاص واقعہ یاد نہیں۔
س: کبھی بہت رنجیدہ دیکھا ہو؟
ج: جی ہاں، دو مرتبہ میں نے انھیں بے حد رنجیدہ دیکھا۔ پہلا موقع وہ تھا جب اخوان المسلمین کے سید قطب صاحب کو مصر کے صدر ناصر نے ۱۹۶۶ء میں شہید کر دیا تھا۔ انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ ابا جان نے بتایا اس رات طبیعت میں بے پناہ اضطراب، کرب اور بے چینی رہی۔ دل بے پناہ رنجیدہ خاطر اور بے قرار رہا۔ کسی پل چین نہ آیا۔ صبح اٹھ کر معلوم ہؤا کہ سید قطب کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس روز میں نے ابا جان کے دکھ کی شدت کو ان کے چہرے پہ نمایاں دیکھا۔ دوسری بار میں نے ان کو بے حد غمگین تب دیکھا جب دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ ہؤا۔ ابا جان نے اس واقعے کا بہت اثر لیا اور انھیں چند روز بعد پہلا ہارٹ اٹیک ہؤا۔ کیونکہ وہ پاکستان کو دو لخت ہوتا دیکھ کر برداشت نہ کر سکے تھے۔
س: کیا عالم اسلامی کے انقلابی و دینی رہنما مولانا کی فکر سے متاثر

تھے؟
ج: عالم اسلام کی تمام دینی تنظیموں سے ابا جان کا رابطہ تھا۔ اخوان المسلمین کے حسن البنا اور سید قطب شہید سے بھی خطوط کے ذریعے رابطہ رہتا۔ تمام دینی فکر والے لوگ کہتے دنیا میں جہاں کہیں انقلاب آتا ہے، اس کے پیچھے مولانا مودودی کی فکر دکھائی دیتی ہے مگر آپ کے ملک میں یہ انقلاب دکھائی نہیں دیتا۔
س: کیا مولانا کی زندگی کے آخری سال میں آپ ان کے پاس تھیں۔ ان دنوں کی کچھ یادیں بتائیں؟
ج: جی ہاں۔ میں ۱۸ اپریل ۱۹۷۸ء کو اباجان کے پاس اچھرہ آگئی تھی۔ اس طرح مجھے ان کی بہت خدمت کرنے کا موقع ملا۔ ان کے تمام کام میں ہی کرتی تھی۔ ان کا ناشتہ، کھانا، رات کی چائے تک کی ذمہ داری میری تھی۔ رات کو سونے کے لیے انھیں چادر اوڑھا کر ان کے پاس سے ہٹتی پھر اپنے گھر آ کر اپنے میاں کو کھانا دیتی۔ آخری دنوں میں ابا جان نے کھانا پینا بہت کم کر دیا تھا۔ میں ان کے لیے دو دو تین تین سالن بناتی کہ چکھتے چکھتے کچھ تو کھائیں گے۔ جوڑوں کے درد کی وجہ سے بہت سی دوائیاں لینی پڑتیں جس سے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا تھا۔ ابا جان کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی وہ مجھے ہی پکارتے۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں میں نے ان سے بہت دعائیں لیں ۔ ان کی میرے لیے ایک خاص دعا تھی جو وہ روزانہ مجھے دیا کرتے ’’بیٹی اللہ تیرا بھلا کرے۔‘‘ ان کی یہ دعا میرے لیے دونوں جہانوں سے قیمتی ہے۔ وہ شکریہ کا لفط نہ کہتے بلکہ یہ دعا دیتے۔ ان کی یہ دعا آخرت میں بھی میرے کام آئے گی ان شاء اللہ۔
س: اپنی والدہ کے بارے میں کچھ یادیں ہم سے شیئر کریں؟
ج: والدہ صاحبہ کا نام محمودہ خانم تھا وہ اچھی بیوی اور بہترین والدہ تھیں۔ اماں جان کا تعلق دہلی کے متمول مگر آزاد خیال گھرانے سے تھا۔ ان کو اپنے والدین کے گھر میں ہر طرح کی آزادی تھی۔ فیشن ایبل لباس پہننا جن میں چوڑی دار پاجامے، انگرکھے، غرارے عام تھے۔اباجان سے شادی کے بعد اماں جان نے اپنے آپ کو یکسر بدل لیایہ ان کی فطری نیکی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اماں کی والدہ نے انھیں کہا چلو چل کر فلم دیکھتے ہیں تو وہ بولیں ’’نہیں اب نہیں، میاں نے منع کیا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا آپ اتنے آزاد خیال گھرانے کی لڑکی بیاہ کر لے آئے ہیں تو ابا جان نے کہا اگر ایک لڑکی کو بھی نہ بدل سکا تو دنیا کو کیسے بدلوں گا۔ حق بات میں ہمیشہ وزن ہوتا ہے لازماً دوسرے پر اثر کرتی ہے۔ اسی لیے اماں اباجان کے کہنے پر چلتی رہیں۔
اباجان نے بھی انھیں ہر طرح کا آرام دینے کی کوشش کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے ملازمین ہوتے، جب کبھی گھر کے حالات ٹھیک ہوتے تو خانساماں رکھ لیا جاتا کبھی کبھار اسے جواب بھی دینا پڑتا۔ ابا جان نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں نوکر نہیں رکھ کر دوں گا۔ انھیں بیوی کے آرام کی بہت فکر رہتی۔ دن کو بچے اماں سنبھالتیں اور اگر رات کو بچے نے تنگ کیا تو اباجان سنبھالتے۔ اسی طرح اماں جان کو بھی ہم نے اباجان کے ساتھ انتہائی تعاون کرنے والا پایا۔ انھوں نے ہر چیز سے اباجان کو بے فکر رکھا۔بچوں کی پڑھائی، گھر داری، شادیاں، غرض ہر طرح کے گھریلو معاملات خود نپٹائے۔ ہر طرح کے ملازمین کے ہوتے ہوئے بھی ہم سب بہنوں کو گھر داری سکھائی۔ اباجان اماں سے کہتے میرے ہر کام میں تمھارے لیے صلہ ہو گا۔ میں اتنا کام اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ ابا جان کی فطرت میں تقویٰ اور درویشی جیسی صفات ان کی والدہ کی تربیت کا نتیجہ تھیں اور دن رات کام کرنے میں ان کی بیوی کا تعاون شامل تھا۔ اماں جان مجسم صبر تھیں وہ بنائی ہی اباجان کے لیے گئی تھیں۔ ان کے لیے غم اور خوشی دونوں برابر تھے۔ دونوں میں صبر اور شکر مومن کی شان ہوتی ہے۔ زندگی کے آخری چار پانچ سال وہ باتیں بھولنے لگ گئی تھیں۔ وہ مجھے ’’اماں‘‘ کہہ کر پکارتیں۔ وہ میرے ساتھ قرآن کی کلاس میں باقاعدہ بیٹھتیں۔ میں قرآن پڑھاتے ہوئے اگر کہیں غلطی کر دیتی تو فوراً میری اصلاح کرتیں اور اگلی آیات کا ترجمہ تشریح سمجھانا شروع کر دیتیں۔
س: کیا آپ انھیں زندگی کے آخری سالوں میں اپنے گھر لے آئی تھیں؟
ج: میرے لیے اماں کے گھر رہنا مشکل تھا کیونکہ میں نے اپنے گھر کو بھی وقت دینا ہوتا تھا۔ اس لیے اماں دن کے وقت اپنے گھر رہتیں

اور رات کو میرے ہاں آجاتیں۔ اس طرح بار بار آنے جانے سے انھیں نمونیہ ہونے لگا تو میں نے کہا آپ مستقل میرے پاس آجائیں۔ وہ اڑھائی تین سال تک زیادہ بیمار رہیں۔ ان دنوں میں نے اپنا گلبرگ والا درس چھوڑ دیا۔ میں دن رات ان کی خدمت میں مصروف رہتی۔ وہ مجھ سے بہت خوش تھیں انھوں نے میرے بڑے بھائی عمر فاروق سے میرے بارے میں کہا اس نے مجھے پھولوں اور پانوں کی طرح سنبھال کے رکھا ہؤا ہے۔ یہی شہادتیں ہوتی ہیں یہی گواہیاں ہیں کہ اس نے دل سے خدمت کی ہے۔
س: آپ بہت نصیب والی ہیں آپ نے والدین کی خدمت کی اگر کوئی اس سعادت سے محروم رہ جائے اسے والدین کی زندگی کے بعد ان کی خدمت نہ کرنے کا احساس ہو تو وہ کیا کرے؟
ج: اسے چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ان کی مغفرت کی دعا کرے ان کے لیے صدقہ و خیرات کرے۔
س: آخری ایام میں کیا والدہ اباجان کو یاد کرتی تھیں؟
ج: آخری سالوں میں انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ اباجان شیروانی پہنے آئے ہیں اور اماں سے کہہ رہے ہیں۔ ’’بیوی تیار رہنا میں شام کو تمھیں لینے آئوں گا۔‘‘ اماں کو انتظار رہتا کہ اباجان کسی بھی جمعے کی شام کو آئیں گے اور پھر ایسا ہی ہؤا۔ اماں جان بروز جمعہ آٹھ بج کر بیس منٹ پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔
س: کوئی ایسا دن جب آپ نے اماں کو بہت خوش دیکھا ہو؟
ج: جب ابا جان کی پھانسی کی سزا ختم ہوئی اور وہ گھر آگئے۔ دکھ وہ کبھی ظاہر نہ ہونے دیتی تھیں۔ نہ کبھی ایسا جملہ بولا جس سے غم آشکار ہو۔
س: کیا وہ کبھی مولانا سے بچوں کو وقت نہ دینے پر ناراض ہوئیں؟
ج: جی! وہ اباجان سے کہتیں تم نے بچوں کو وقت نہیں دیا اللہ شاید تمھیں قیامت کے دن پوچھے گا اس کے بارے میں کہ تم نے دنیا کو ٹھیک کرنے کی فکر کی بچوں کی فکر نہ کی۔
س:اماںجان کی سب سے قریبی دوست کون سی تھیں؟
ج: بنت الاسلام صاحبہ اماں کو بہت محبوب تھیں وہ اماں اور اباجان دونوں سے عقیدت رکھتی تھیں۔ اماں جان سے ابا جان کے بارے میں ایک ایک چیزبہت تفصیل سے پوچھتیں۔ ان کے علاوہ آپا خورشید سے اماں کے ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے وہ اماں کے سب کام کرواتیں۔
س: ۱۹۸۲ء میں آپ کے ہاں سے خواتین کی ادبی تنظیم کا آغاز ہؤا جس کا نام بعد میں ’’حریم ادب‘‘ رکھا گیا۔ کیا آپ سمجھتی ہیں حریم ادب کے باقاعدہ پروگراموں نے ادبی نکھار کے علاوہ لوگوں کی اصلاح کا بھی کام کیا؟
ج: میرے ہاں حریم ادب آپا نسیم آراء (بنت الاسلام) نے شروع کروائی۔ یہ ان کی خواہش تھی۔ میں نے اس خواہش کا احترام کیا۔ مجھے اس پروگرام کی بہت خوشی تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے لکھنے والوں کو راہنمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی ملتی ہے اور نئے ادیب اور شاعر جنم لیتے ہیں۔ صرف لکھنے والے ہی نہیں پڑھنے اور سننے والے بھی اس پروگرام میں شامل ہو کر مستفید ہوتے ہیں۔ حریم ادب میں میں نے بڑے بڑے لوگوں کی میزبانی کی ان کی میرے گھر آمد میرے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مثلاً آپا نسیم آرا، مسز زینب کاکا خیل، ننھی آپا (سعیدہ احسن) منی آپا (عفت قریشی) اور بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ آپا نسیم آرا سے میں نے زندگی کا ہمیشہ مثبت پہلو دیکھنا سیکھا۔ یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی۔
س: آپ نے اپنے گھر سے ملحق مسجد بنوائی اس کی تعمیر کا خیال کیسے آیا؟
ج: جب ہم لوگ اچھرہ آئے تو یہاں گھر کے قریب ہی ایک مکان بک رہا تھا جو میرے میاں نے خرید لیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اباجان کا انتقال ہو گیا اور ہم ان کی گھر میں تدفین کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میرے میاں نے سوچا اگر ان کی تدفین یہاں ہو رہی ہے تو ہم مستقبل میں اس گھر کو وقف کر دیں گے اور یہاں مسجد بنائیں گے۔ شوہر کا ارادہ تھا مگر وسائل نہ تھے۔ پھر ان کی وفات ہو گئی اور یہ ذمہ داری مجھ پر آگئی۔ میں بیس سال تک دعا کرتی رہی کہ اے اللہ مجھے وسائل بھی دے اور بنا کے دینے والے بھی دے۔ پھر اللہ نے راستے کھول دیے۔ مسعود کی پراپرٹی ماڈل ٹائون میں بکی تو میں نے سب سے پہلے مسجد بنوانی شروع کی۔ مسجد بنانے

کے لیے لوگ بھی ایسے با کمال ملے کہ قابل تعریف ہیں۔ میں نے انھیں کہا مجھے خواب میں اشارہ ملا ہے کہ مسجد سترہ لاکھ میں بنانی ہے۔ انھوں نے مکان توڑا آدھی اینٹیں استعمال کرکے دو ماہ کے اندر اندر مسجد تیار کر دی اور سترہ لاکھ سے کچھ اوپر خرچ ہوئے۔
رمضان آنے والا تھا میں دعائیں کر رہی تھی کہ یکم رمضان ہو اور جمعہ کا دن ہو جب مسجد کا افتتاح ہو، اللہ نے میری دعا قبول کر لی اور میری خواہش کے عین مطابق میاں طفیل محمد صاحب نے رمضان کی پہلی تراویح سے مسجد کا افتتاح کیا اور وہ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ دس مرلے میں بننے والی مسجد میں اتنی وسعت ہے کہ بنانے والے اور دیکھنے والے دونوں ہی حیران ہیں کہ یہ جگہ دس مرلے لگتی نہیں بہت وسیع لگتی ہے۔
دس سال تک اس کا انتظام میں نے خود کیا آج کل اس کا انتظام جماعت اسلامی کے سپرد ہے۔ ابا جان کے گھر کو لائبریری کی شکل دے دی گئی ہے یہاں آنے والے مسجد میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ تراویح اور عیدین بھی پڑھائی جاتی ہیں۔
س: کیا اس گھر کے علاوہ بھی مولانا کی کوئی پراپرٹی ہے؟
ج: جی نہیں صرف یہ گھر ہے جسے اب لائبریری بنا دیا گیا ہے۔
س: آپ کی کوئی خواہش جو ابھی تک پوری نہ ہوئی ہو؟
ج: میں اللہ تعالیٰ کی بے حساب شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے بہترین خاندان میں پیدا کیا، بہترین پرورش دلوائی، بہترین ازدواجی زندگی دی۔ جتنا بھی وقت گزرا کہیں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ اب صرف ایک ہی تمنا ہے کہ اللہ اس کہانی کا آخر بھی اچھا کر دے۔
س: آپ کا ’’بتول‘‘ سے تعارف کب ہؤا؟ آپ کے خیال میں کیسا پرچہ ہے؟
ج: جب سے ہوش سنبھالابتول کو اپنے گھر میں پایا۔ بتول ایک معیاری پرچہ ہے۔
س: نوجوان نسل کے لیے کوئی پیغام آپ دینا چاہیں؟
ج: نوجوان نسل کے لیے ایک ہی پیغام دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو آخرت کے مقصد سے دور نہ ہونے دیں۔ زندگی کا مقصد آخرت ہے، علم حاصل کریں۔ اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کریں تاکہ ایک بامقصد زندگی گزرے۔ نوجوان نسل اتنی ذہین ہے کہ اسے خود دیکھنا ہے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے جس کے لیے خلافت راشدہ کے سنہری دو رکو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ پھر جس قدر ان کی راہ اپنا سکتے ہیں اپنائیں۔ ان کے دور کی صحابیاتؓ کو بھی رول ماڈل بنائیں۔
س:کوئی پسندیدہ شعر؟
ج: ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت ِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہؤا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
آپ کا بے حد شکریہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمیں ملاقات کا شرف بخشا۔
(بتول نومبر2014)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here