ام ایمانملاقات - بتول جون ۲۰۲۳

ملاقات – بتول جون ۲۰۲۳

جس طرح بند کمرے کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے پتہ چل جاتا ہے کہ باہر دن نکل آیا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے آدمی کاکردار بے نقاب ہوجاتا ہے ۔
ساجدہ ماسی کا حال کچھ ایسا ہی تھا جہاں کام کرتی وہاں کے لوگ اس کو چھوڑ کردوسری ماسی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں اگر وہ خود گاؤں جانے کا ارادہ کرلے جو کہ ہر سال ہی کر لیتی تھی تو کسی کے روکے نہ رکتی ۔ جہاں جہاں کام کرتی تھی ….وہاں وہاں کے لوگ مجبوراً کسی دوسری ماسی کو رکھ تو لیتے لیکن دل سے اس کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ….واقعی اچھامدد گار بھی تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے خاص طور سے خواتین کے لیے…. اُن میں سے بھی خاص اُن خواتین کے لیے جو جاب کرتی ہوں ۔
ساجدہ کی ایک باجی صبح بچوں کو اسکول بھیج کر نکلتی تو ساجدہ آ چکی ہوتی ۔ وہ اسے چھوڑ کر نکل جاتیں ، اس قدر اعتماد تھا ۔ ساجدہ سارے گھر کی صفائی کے ساتھ باورچی خانہ صاف کرتی برتن دھو کر روٹی پکاتی اورپھر باہر کا دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔ لاک اندر سے بٹن دبا کر بند ہوجاتا تھا۔
اس کے بعد ساجدہ تین اور گھروں میں کام کرتی تھی جس میں سے دو گھر کی باجیاں گھر میں ہوتی تھیں لیکن آخری گھر میں چوکیدار گھر کادروازہ اس کے لیے چابی سے کھولتا تھا ۔ یہ ایک بڑا بنگلہ تھا جہاں اندر دو بہنیں موجود ہوتی تھیں لیکن گھنٹی کی آواز پر دروازہ کھولنا یا تو اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھیں یا پھر سستی اور کاہلی تھی۔بہر حال آخری گھر میں کام کرتے کرتے ساجدہ کو مغرب ہو جاتی۔
سب گھر والے اس کی اس عادت کو جانتے تھے کہ وہ بچا ہؤا کھانا نہیں لیتی۔ کبھی کوئی اصرار کرتا تو بھی نہیں ….لہٰذا گھر جاتے ہوئے اس کے ہاتھ میں کوئی تھیلی نہیں ہوتی جیسا کہ عموماً ماسیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ باسی کھانا ہوتا ہے جس سے اس کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے ، پھر دوا ڈاکٹر پرخرچ کرنا پڑتا ہے …. کیا فائدہ ؟
دو باجیاں گھر پر ہوتیں جن کے گھر پر وہ کام کرتی تھیں وہاں دونوں گھروں میں وہ کوئی پندرہ بیس سال سے کام کر رہی تھی۔ جب وہ آئی تھی تو ان کے بچے چھوٹے تھے اب خود وہ بچوں والے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو وہاں ایک بڑے کی حیثیت سے دیکھتی تھی۔ گھر والے بھی اُسے وہی درجہ دیتے بچے دادی کہتے اور ان کے ابا اماں اُسے اماں کہتے، وہ خوب خوش ہوتی ۔ بچوںکی تکلیف بیماری میں مشورے بھی خوب دیتی۔
شروع کے تین گھر فلیٹ تھے لہٰذا کام جلدی ختم ہو جاتا تھا۔ چوتھا گھر بنگلہ تھا ۔ وہاں دوسری ماسی بھی آتی تھی جو صبح کام کرتی تھی ۔ ساجدہ چار پانچ بجے کے درمیان پہنچتی تھی شام کے کام اس کے ذمے تھے ۔ مہمان بھی اس دوران اکا دُکا آجاتے تھے۔
بنگلہ بڑا تھا ۔کل چار بہنیں تھیں ماں باپ کب انتقال کر گئے پتہ نہیں لیکن اب اس بنگلہ میں دو بہنیں رہتیں تھیں ،تیسری بہن پشاور میں رہتی تھی اور چوتھی لندن میں تھی ۔ پشاور اور لندن والی بہن کے بچے بھی تھے ۔ بنگلے میں رہنے والی ایک بہن کاانتقال ہؤا تو لندن والی بہن آکر دوسری بہن کے پاس رہی، یہ سب سے چھوٹی تھی شادی کے ایک سال بعد ہی علیحدگی ہو گئی کیوں کہ یہ بہت زبان کی تیز اور لڑاکا تھی ۔ لندن سے آئی بہن کو کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ پشاور والی بہن کا بھی انتقال ہو گیا ۔ لندن سے آئی ہوئی بہن چھوٹی بہن کے پاس چار مہینے رہی ۔ایک دن دونوں میں لڑائی ہوئی چھوٹی بہن نے بڑی کو تھپڑ مارا اور کمرے میں جا کرچاقو لے آئی۔
بنگلے والی باجی کی یہ کہانی ساجدہ کے لیے بڑی حیران کن تھی۔ویسے تو وہ ایک گھر کی بات دوسرے کوبتانے سے گریز کرتی تھی لیکن یہ بات اتنی عجیب اور پریشان کن تھی کہ اس نے اپنی باقی تینوں باجیوں کو بتائی اور ان سے پوچھا کہ اسے وہاں کام کرنا چاہیے یا چھوڑ دینا

چاہیے کیونکہ وہاں اب بنگلہ میں صرف ایک بہن ہوتی تھی جو بہت غصہ والی اور جھگڑالو تھی اور جس نے اپنی بہن کا بھی لحاظ نہیں رکھا تھا۔
تینوں باجیوں نے اسے یہ ہی مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ وہ وہاں کام نہ کرے لیکن ساجدہ اس مشترکہ مشورے کے باوجودوہاں کام کرتی رہی کیوں کہ وہاں سے ملنے والی تنخواہ اچھی خاصی ہوتی تھی ۔ساجدہ کے اپنے تین بچے تھے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا …. رقم کی ضرورت اُسے اس لیے بھی تھی کہ اُسے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کرنی تھی ۔ بیٹے کودرزی کا کام سیکھنے پر لگایا تھا ۔ وہ سیکھ تو گیا تھا لیکن مستقل مزاجی سے کام جمانے پر توجہ نہیں دیتا تھا ۔ کئی دفعہ ساجدہ نے اس کو دکان کروا کر دی لیکن اس سے گھر کا خرچہ تو چھوڑ دکان کا کرایہ تک نہیں نکلتا تھا ۔ پھر بھی ساجدہ اس کے لیے محنت کرتی رہتی تھی ۔آخر چند ماہ بعد اس نے اپنی دونوں بیٹیوں اور بیٹے کی شادی کردی وہ سب کاکام چھوڑ کر اسی کے لیے گاؤں چلی گئی ۔ پورے ایک ماہ کے بعد وہ واپس آئی ۔ ساری باجیوں نے اُس کو بیٹیوں کی شادی کے لیے کچھ نہ کچھ امداد دی تھی ۔
واپس آکر وہ اپنے تینوں گھروں میں دوبارہ کام کرنا شروع ہو گئی لیکن چوتھا گھر جہاں جھگڑالو بہن رہتی تھی وہاں کاپتہ چلا وہ بنگلہ خالی ہے اور وہاں رہنے والی بہن ہسپتال میں ہے ۔ لندن والی بہن نے آکر اُسے ہسپتال میں داخل کیا تھا ۔ بعد میں یہ بنگلہ فروخت کر کے اسے سہارا اولڈ ایج ہاؤس میں جمع کرایا، اس پر فالج کا اثر ہوگیا تھا ۔ یہ سب کام کر کے وہ بہن واپس لندن چلی گئی۔ مال اسباب رشتے ناتے سب کتنے کم حیثیت ہوگئے ہیں ۔ سب کچھ رہتےہوئے بھی نہیں رہتے ۔
ساجدہ نے بیٹے کی شادی کی تو اللہ نے اسے ہر سال پوتے پر پوتے دیے ۔ساجدہ خوشی سے نہال ہوتی اور مزید محنت کرتی۔ کچھ عرصہ گزرا اب اس کے پانچ پوتے ہو گئے تھے ۔ ساجدہ کی محنت اب مزید بڑھ گئی تھی ،بیٹے اور اس کے بیٹوں کے لیے ۔اب اس نے دو اور گھروں میں کام شروع کردیا تھا ۔وقت کے ساتھ وہ کچھ کمزور ہو گئی تھی لیکن کام اسی ایمان داری اور مستقل مزاجی سے کرتی تھی ۔ پوتوں کو پڑھا بھی رہی تھی اور کسی نہ کسی جگہ ہنر سکھانے کے لیے بھی بٹھا یا ہؤ اتھا ۔ حالات بہتر ہوگئے تھے ۔ پوتے کمانے لگے تھے اور دادی کوکہتے تھے کہ بس اب کام چھوڑ کر آرام کریں۔ ان کی اس بات سے ساجدہ خوش تو بہت ہوتی لیکن کام چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتی، کہتی گھربیٹھ گئی تو میرے جوڑ جڑ جائیں گے چلتے پھرتے محنت کرتے حق حلال کماتے اللہ سے ملنا چاہتی ہوں۔
اس دن اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ دن بہت گرم تھا ۔ ساجدہ کام سے آئی تو بہت تھکی ہوئی تھی ۔ سارا دن پسینے کی دھاریں بہتی رہی تھیں۔ کتنی ہی بار کپڑے یوں گیلے ہوئے جیسے نلکےکے نیچے کھڑی ہو کر نہائی ہو…. کپڑوں سمیت ….گھر آکر کئی گلاس پانی پیا پھر بھی منہ خشک تھا۔
کچھ دیر میں عشاء تک پوتے کام سے باری باری آتے گئے ۔ سلام دعا کر کے سب نے دادی کا حال پوچھا ۔بڑا پوتا ہاتھ میں ایک مٹی کا گلک لے کر دادی کے سرہانے بیٹھ گیا اور ذرا جوش سے بتایا کہ دادی ہم سب روز اس میں کچھ نہ کچھ پیسے ڈالیں گے ۔
کیوں بھئی ؟ کس چیز کے لیے جمع کرو گے ؟دادی نے حیرانی سے پوچھا۔
حج کے لیے ….آپ کو اللہ سے ملاقات کا بہت شوق ہے نا ! منجھلا جلدی سے بولا۔
ساجدہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں ،ساتھ ہی دو آنسو بھی ٹپک گئے ۔ ساجدہ نے جلدی سے پلو سے آنکھیں پونچھیں۔
خوشی کے ہیں ،ساجدہ نے باری باری سب پوتوں کو پیار کر کے بتایا اور خوب دعائیں دیں۔
تھکی ہوئی تھی لیکن دل ہلکا پھلکا تھا ، خوشی کی خبر نے سہانے خوابوں کی کہکشاں کا در کھول دیا تھا۔
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اٹھنے والی ساجدہ پوتوں کی بات چیت شورشرابے سے اٹھنا تو دور کی بات ہلی تک نہیں ۔
’’دادی خدا حافظ ‘‘باری باری سب پوتے کہہ کرنکل گئے۔ چھوٹا ذرا لاڈلا تھا گلے لگ کر پیار کی عادت تھی ۔اس نے دادی کو ہلا کر اٹھایا۔لیکن کہاں۔۔۔وہ تو ایک طرف کو ڈھلک گئیں ۔ چہرےپرہلکی سی مسکراہٹ لیے مطمئن پر سکون چہرہ بتا رہا تھا کہ نفس مطمئنہ ملاقات کے لیے پہلے ہی روانہ ہوگیا ہے۔٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here