پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
ماہ نومبر2020ء کا ’’ چمن بتول‘‘ ملا خوب صورت ٹائٹل سبز، نیلے اودے اور جامن رنگ کے پھولوں اور رنیلگوں پانیوں سے مزّئین ہے ۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ تمام مسلمانوں کے دل کی آواز اور جذبات کی ترجمانی ہے۔ اہل مغرب کو دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔ آپ نے یہ جملے بڑے زبردست لکھے ہیں ’’ اہل مغرب جب تک اس معاملے میں تکبر ، تعصب اور دشمنی سے باہر آکر نہیں سوچیں گے صورت حال مزید ان کے قابو سے باہر ہوتی جائے گی … ہم اپنے جرم ضعیفی کا مداوا کرنے کے لیے سوچ بچار کریں ۔ اپنے زوال کے اسباب ڈھونڈیں، ان کو دور کرنے کا لائحہ عمل بنائیں ۔‘‘پھر یہ جملہ بھی خوب لکھا ہے ’’ قصور وار تو اُمت ہے جس نے دوسروںکا دست نگر ہونا منظور کرلیا … کمزوروں کو غصہ کرنے کا کیا حق !‘‘
’’ قرآن کی پیش گوئیاں ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد صاحب نے بڑے تفصیل کے ساتھ قرآن پاک کی ان پیش گوئیوں کی نشاندہی کی ہے جو آنے والے وقتوں میں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں ۔ مثلاً جنگ بدر میں فتح کی پیش گوئی ، فتح مکہ کی پیش گوئی ، فتح خیبر کی پیش گوئی ،ابو لہب کے بارے میں پیش گوئی ، اہلِ روم کے بارے میں پیش گوئی و دیگر قرآن پاک کے رموز سے استفادہ کر کے آج غیر مسلم نت نئی ایجادات کررہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں لیکن مسلمان غافل ہیں۔
’’ رسولؐ اللہ بطور حاکم ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اپنے اس مضمون میں واضح کیا ہے کہ حضور اکرم ؐ نے انسانی تاریخ کی قلیل ترین مدت میں ایسی حکومت قائم کی جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں موجود نہیں ۔
’’ شکر گزاری‘‘ فریدہ خالد کا یہ مضمون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قیامت کے دن ہم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا اور نا شکری در اصل شیطان کی پیروی ہے ۔
’’نظم و غزل‘‘بنت مجتبیٰ میناؔ کی خوب صورت نعت سے ایک شعر
؎ چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھر گئے ہیں
بچائو گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے منتخب شعر
؎ شہر کے پیار میں وہ گائوں سی سچائی کہاں
ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب
شکر ہے اس دفعہ نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ بھی شریک محفل ہیں۔
آپ کی چھوٹے بحر کی خوب صورت غزل سے دو منتخب اشعار
چشمِ نم مسکرائے گی اتنا
دل کو تکلیف جس قدر ہو گی
رات مجھ میں سما چکی ہو گی
شامِ زنداں کی جب سحر ہو گی
’’ جھیل کنارے ‘‘ رقیہ اکبر کی خوب صورت رومانوی نظم ہے۔
اک دوجے کے پیار میں بھیگے ، موج ِ صبا پہ اڑتے ہم
پھولوں پہ شبنم ہو جیسے ، پھول تھا وہ اور میں شبنم
’’ جہاز آنے والا ہے‘‘شازیہ عظمت کی سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی ایک درد بھر ی کہانی 1971 کے ابتلاء کے دور میں مشرقی پاکستان میں متعصب ٹولوں نے کتنے ہی پاکستان سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر ڈالا ۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے جو کبھی نہ بھولے گا ۔
’’ صدقے یا رسولؐ اللہ ‘‘ نبیلہ شہزاد اس کہانی میں رسولؐ اللہ سے محبت کا تقاضا آپ کے دین کی پیروی سے ،یہ پیغام دیا گیا ہے کہ حق سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
’’ ایک تھی انعم‘‘ قانتہ رابعہ اس کہانی میں قانتہ رابعہ صاحبہ نے لڑکیوں کو بڑے پیار سے یہ بات سمجھائی ہے کہ سسرال میں جائیں اور وہاں اپنے میکے سے مختلف طور طریقے اور کھانا پینا دیکھیں تو پریشان نہ ہو جائیں ۔ اپنے آپ کو وہاں کے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ دل لگ جاتا ہے ۔
’’ پانچویں ٹرین‘‘( ام ایمان) ایک مجبور لڑکی کی کہانی جسے ایک لڑکا دھوکہ دے کر ٹرین سے اتر گیا ۔ پھر اسے ایک مخلص جیون ساتھی مل گیا اور زندگی رواں دواں ہوگئی لیکن وہ اس ٹرین کا انتظار اب بھی کرتی ہے تاکہ معصوم لڑکیوں کودھوکہ سے بچا سکے۔
’’ حوصلہ ‘‘ ( ڈاکٹر کوثر فردوس) ایک حوصلہ مند اور وفا شعار بیوی کی کہانی جس کے خاوند کو دماغی مرض لا حق ہو گیا ۔ اسے بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ صبرسے برداشت کرتی رہی۔
’’نیا حمام‘‘(ڈاکٹر فیضی)آج کل کے ٹی وی چینلز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سنسنی خیز کہانی گھڑتے ہیں اور لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ درست عکاسی کی گئی ہے ۔
’’ کشف‘‘آسیہ راشد صاحبہ نے نیک بندوں کی عاقبت کے بارے میں ایک مخیر العقول مضمون لکھا ہے جس سے پتہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ نیک بندوں کو موت کے بعد انعام سے نوازتا ہے اور ان کی قبر جنت کا ایک وسیع باغ بن جاتی ہے ،اللہ ہم سب کی عاقبت سنوارے۔ آمین
’’ سعودی عرب میں رہنے کاتجربہ‘‘ (ڈاکٹر فائقہ اویس) اس بار ڈاکٹر صاحبہ نے سعودی عرب کے ہسپتالوں اور وہاں مریضوں کے بارے میں دلچسپ حقائق بیان کیے ہیں ۔ مجھے خود تجربہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی ڈاکٹر ز کو بعض اوقات خاص پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ آپ نے سعودی عرب کے مزے مزے کے کھانوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ آج کل سعودی لوگ چکن کا استعمال بڑے شوق سے کرتے ہیں خاص طور پر یہ مندی رائس کے ساتھ۔
’’حریف‘‘ (ذروہ احسن )بہت دلچسپ ، مزاح سے بھرپور مضمون ، پڑھ کر مزا آیا۔
’’ تیری وادی وادی گھوموں ‘‘( آمنہ رمیصا زاہدی) بلوچستان کے مختلف علاقوں کی سیر کا دلچسپ احوال ہے ۔ لکھنے کا انداز بڑا شگفتہ شگفتہ سا ہے ۔ لگتا ہے مصنفہ خود ہی شگفتہ مزاج کی مالک ہیں ۔ پڑھ کے اچھا لگا کہ ہمارے بلوچستان میں بھی خوبصورت مقامات ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بلوچستان کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دے کیونکہ یہ صوبہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔
’’پریوں کے دیس میں ‘‘ یہ میری اپنی تحریر ہے ۔ صرف اتنا کہتا ہوں کہ اگر موقع ملے تو ایک دفعہ ضرور اس خوب صورت وادی کی سیر کو جائیں خوب صورت نظاروں سے لطف اندوز ہوں ۔ خاص طور پرپریوں کی جھیل سیف الملوک اور جھیل لولو سر ضرور دیکھیں ، دریائے کنہار کا نظارہ کریں۔
گوشہِ تسنیم’’جذباتی صدمے اور اسوہ رسولؐ ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے صبر و تحمل اور برداشت کے موضوع پر ایک حساس تحریر لکھی ہے آپ نے ہمارے پیارے رسول ؐ پاک کی زندگی سے روشن مثالیں دی ہیں ۔
’’ ایک بڑا آدمی ریٹائر ہو گیا ‘‘ انصار عباسی کے کالم کا اچھا انتخاب ہے جو سابق نیک دل نیول چیف ظفر محمود عباسی کے بارے میں ہے افسران ایسے رویے کو اپنائیں تو پاکستان سنور جائے ۔
٭…٭…٭
خورشید بیگم ۔ گوجرہ
حسبِ معمول ماہنامہ بتول (نومبر) دیر سے ملا اور تبصرہ بھی دیر سے لکھا جا سکا ۔ اللہ کرے اشاعت کا شرف پا جائے ۔ اداریہ حالات ِ حاضرہ سے با خبر کر رہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اب کی بار میلاد النبیؐ کے جلوس احتجاجی جلوسوں میں تبدیل ہو جاتے تاکہ ہماری طرف سے حبِ رسول کا بھرپور پیغام غیر مسلم دنیا کو پہنچتا ۔ ’’ قرآن کی پیشین گوئیاں ‘‘ حرف بحرف درست ثابت ہوئیں ۔ یہ فتح کی خوشخبری آج بھی ہمارے لیے ہے بشرطیکہ ہم ’’ ان کنتم مومنین ‘‘ کی شرط پوری کرنے والے بن جائیں ۔ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے بطور حاکم رسولؐ اللہ کے اسوہِ حسنہ کی ایک جھلک دکھائی ہے ۔ کاش ہمارے حکمران اس نمونے کو اپنائیں ۔ خاص مضمون بے شک خاص ہے ، فریدہ خالد صاحبہ نے خوب تیاری کے ساتھ لکھا ہے۔’’ جہاز آنے والا ہے ‘‘ شازیہ عظمت صاحبہ نے مختصر افسانے کے ذریعے سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ یاد دلا دیا ہے ۔’’ صدقے یار سو ل اللہ‘‘( نبیلہ شہزاد) یہ نعرہ لگانا او محافل میلاد منعقد کروانا تو بہت آسان کام ہے اطاعت و پیروی ہی تو مشکل کام ہے ۔ مشکل کام کون کرے!
’’ ایک تھی انعم‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کے افسانے میں خاندان کی اصلاح اور بہبود کے کئی پہلو موجود ہیں ۔ حصولِ مقصد کے لیے ضرورت صرف شعور کی ہے ۔’’ وائرس‘‘ مریم روشن صاحبہ نے خواتین کی ایک خامی کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ خود نمائی او ر احساس برتری کا مرض وائرس کی طرح ہی انسانی ضمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔’’ پانچویں ٹرین ‘‘ ام ایمان صاحبہ کی مختصر مگر پر مغز کہانی ۔ جوگھر روشانہ کا تھا کسی اور کا ہو گیا اور جو کسی غیر کا گھر تھا اس کا ہو گیا ۔ یہ قدرت کے انوکھے فیصلے ہیں لیکن اس میں کہیں مرد کی بے وفائی کار فرما ہے توکہیں عورت کی خود غرضی ۔ قصور وار کون ہے ؟ فیصلہ بہت مشکل ہے ۔
’’ حوصلہ ‘‘ ڈاکٹر کوثر فردوس کی طرف سے صبر و رضا کا درس، مگر صبر و حوصلہ تو بندے کو اللہ کریم ہی عطا کر سکتا ہے جس کی طرف سے آزمائش آتی ہے ۔ انسان تو کم حوصلہ اور جلد بازہی پیدا ہوا ہے ۔ ’’کشف‘‘( آسیہ راشد) حیات بعد از موت کے کچھ حالات کی خبر دے رہا ہے ایسے مستفید واقعات تو بمشکل ہی ملتے ہیں ۔بتول کے توسط سے ہم ڈاکٹرفائقہ اویس صاحبہ کے سعودی عرب میں رہنے کے تجربے سے بھی مستند ہو رہے ہیں ۔ اس بار انہوں نے ہسپتالوں اور مریضوں کے ذکر کے علاوہ سعودی عرب میں دستیاب کھانوں سے بھی روشناس کروایا ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ملک اور ہر جگہ کا کھانا، بہترین ذائقے کے ساتھ اور وہ بھی کم قیمت میں عوام کو میسر ہے۔
’’ تری وادی وادی گھوموں‘‘ آمنہ رمیصا زاہدی صاحبہ نے بلوچستان کی سیر کروائی اور خوب کروائی ۔ ڈیم بھی دکھائے ، جھیلیں بھی اور پہاڑ بھی ۔ اس بار تو پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے پریوںکے دیس کا بھی چکر لگوا دیا ۔ آبشار ،پہاڑ ، دریا اور مشہور زمانہ جھیل سیف الملوک بھی ان کے توسط سے دیکھ لی۔ سیرو سیاحت کے احوال لکھنے والوں کا بہت شکریہ ہمیں گھر بیٹھے مفت میں پیارے وطن کی سیر کروا دیتے ہیں۔
اب باری ہے گوشہِ تسنیم کی ، جو حسبِ معمول ہم سب کے لیے قابل توجہ ہے ۔ اب کی بار تو اس میں اپنوں کے دیے ہوئے غموں کا مداوا بھی موجود ہے اور ایک حوصلہ افزا پیغام بھی ۔ مجھے یہ تحریر اس قدر موثر لگی ہے کہ میں نے اس کی کاپیاں کروا کر ان لوگوں تک پہنچانے کا ارادہ کرلیا ہے جو ماہنامہ بتول کے خریدار نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پیارے نبیؐ کے اسوہِ حسنہ کو راہِ عمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین)
٭…٭…٭