۲۰۲۳ بتول مئیمحشرِ خیال - بتول مئی ۲۰۲۳

محشرِ خیال – بتول مئی ۲۰۲۳

ام ریان۔لاہور
اپریل کا شمارہ رمضان کے حوالے سے گراں قدر مضامین سے سجا ہؤاموصول ہؤا۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے بجا طور پر توجہ دلائی کہ ہم رسمی روزے نہ رکھیں بلکہ خاص اور اللہ کی توفیق ہو تو خاص الخاص روزے رکھنے کی کوشش کریں ۔ ڈاکٹر ام کلثوم کی تحریر میں سلاست و روانی ہے ۔ انہوں نے رمضان کا بڑا اچھا پروگرام مرتب کر کے پیش کیا ۔ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ نے ماہِ رمضان میں قرآن کے نزول کے پیشِ نظر قرآن کو زندگی کے دستور کے روپ میں بڑی جامعیت سے اجاگر کیا۔
حصہ نظم مختصر مگر بھرپور تھا ۔ حبیب الرحمن کی غزل کے اشعار
جہالتوں کی نحوست مجھے نگل لے گی
میں زعمِ فہم و فراست میں مارا جائوں گا
خدا پہاڑ سی دولت بھی گر مجھے دے دے
میں اور اور کی چاہت میں مارا جائوں گا
آج کے انسان کی بڑی صحیح عکاسی کر رہے ہیں ۔ شاہدہ سحر کی مترنم نظم نے سماں باندھ دیا۔
ہوائے مہربا ں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحر یہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے
قانتہ رابعہ نے سوشل میڈیا دیوانوں کا بڑا عمدہ نقشہ کھینچا ہے ۔اس تحریر نے قانتہ کے ’’فالوورز‘‘ میں ضرور اضافہ کیا ہوگا۔
’’ ایک عید و ہ بھی تھی‘‘ اور ’’ برکت کا وقت‘‘ مصنفات نے اچھا لکھا مگر موضوع میں ندرت نہیں تھی اور انجام بھی ٹکسالی تھا۔ ناول دلچسپ ہوتا جا رہا ہے ۔ زرک کے ساتھ ساتھ ہم بھی بے چینی سے پون کے بولنے کے منتظر ہیں ۔پروفیسر خواجہ مسعود اس دفعہ محشر خیال سے باہر نظر آئے اورخوب آئے ۔ خواہش ہے کہ علامہ اقبال کے افکار کو ایک مکمل مضمون کے طور پر نصاب میں پڑھایا جائے ۔ نئی نسل کو ان کی فکر سے آب یاری کی بڑی سخت ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر ممتاز عمر نے اپنے مضمون میں اہم بات کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ بتول میگزین میں مختصر مگر فکر انگیز تحریر یں تھیں ۔ خفتگانِ خاک بڑا اچھا سلسلہ ہے مگر کبھی تو ایک ہی شمارے میں تین تین مضمون ہوتے ہیں اورکبھی رسالے کا دامن بالکل ہی خالی ہو تاہے ۔ مزاح کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔ انٹرویوز کا سلسلہ بھی اگر باقاعدہ ہوجائے تو گلدستۂ بتول زیادہ رنگا رنگ اور دیدہ زیب دکھائی دے۔
٭…٭…٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اپریل 2023ء پیش نظر ہے سب سے پہلے ٹائٹل پر نظرپڑی ۔ ماہ رمضان کی مناسبت سے مسجد کی تصویر سے مزین ٹائٹل اچھا لگا ۔
اداریے میں مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا حالات حاضرہ پر فکرانگیز تبصرہ ،آپ کے یہ جملے چونکا دیتے ہیں ’’ملک کا منظر نامہ حسبِ سابق امکانات اندیشوںاوربحرانوں سے عبارت ہے ۔ آئینی بحران اب عدلیہ کے بحران تک آپہنچا ہے ۔ ہر ادارہ اخلاقی زوال کی انتہا پہ ہے ۔ امانت، دیانت، سچ ، اصول پرستی ، ثابت قدمی اور کردار کی مضبوطی ،با ضمیر ہونا ، نہ جانے یہ مثالیں کہیں ہیں بھی کہ نہیں ۔ نہ جانے کوئی باکردار بچا بھی ہے کہ نہیں ۔ شہر ِ جاناں میں اب باصفا کون ہے ؟‘‘ اور یہ جملہ بھی عوام کے لیے زبردست پیغام ہے ’’ مگر یہی عوام با شعور ہو جائیں تو کوئی ان کے اپنے ملک میں انہیںیوں مانگنے پر مجبور نہ کر سکے ۔ نہ ہی جمہوریت کے نام پر ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکے ۔ عوامی شعور کی بیداری حالات کے سلجھانے میں نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے ‘‘۔جون ایلیا کے خوبصورت اشعار سے اختتام کیا گیا ہے۔

اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے ، عمر گزار دی گئی
ایسے ہی خیال میں منیر نیازی کا بھی ایک خوبصورت شعر ہے ۔
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
’’قرآن ہمارا دستورِ حیات‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا قرآن پاک کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں نہایت بصیرت افروز مضمون ہے ۔ آپ نے بجا لکھا ہے کہ قرآن کریم آسمان والے کی جانب سے زمین والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے ، یہ ہمارے لیے صراطِ مستقیم ہے ، سر چشمہ قانون ہے ، سرا سر شفا ہے ۔ محترم بنت الاسلام صاحبہ کا یتیموں کے حقوق کے بارے میں جامع مضمون شاملِ اشاعت ہے ۔یتامیٰ کے حقوق بہت زیادہ ہیں ۔یتیموں کے مال کی حفاظت اور ان کی سر پرستی کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا ثواب بے حد ہے ۔
’’ رمضان المبارک میں کرنے کے کام‘‘ڈاکٹر ام کلثوم صاحبہ نے اہم رہنمائی دی ہے رمضان نیکیوںکی بہار کا موسم ہے ۔
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر۔
میںجب بھی مارا گیا دوستوں کے ہاتھوں سے
حبیبؔ انہی کی محبت میں مارا جائوں گا
شاہدہ اکرام سحرؔ کی خوبصورت غزل سے ایک منتخب شعر ۔
ہوائے مہر باں چلی تو آنکھ بھی چھلک پڑی
سحریہ اشک ہی لحد میں باعثِ قرار ہے
’’ فالوورز کی دنیا ہے‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کا افسانہ اہم پہلو پر ہے یوٹیوب کی چمک دمک والی دنیا ہماری نئی نسل کو گمراہ کر رہی ہے وہ اپنے اصل راستے سے بھٹک جاتے ہیں اور اپنے فالوورز کی پسند پر پورا اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
’’ ایک عید وہ بھی تھی‘‘ (ام محمد عبد اللہ )قیام پاکستان کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ اس کہانی میں یہی درد ناک داستان دہرائی گئی ہے ۔ کاش ہم اتنی قربانیوں کے بعدحاصل کیے گئے آزاد وطن پاکستان کی قدر کریں ۔
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
’’ خوش رنگ سویرا‘‘ (ڈاکٹر زاہدہ ثقلین) انسان کو زندگی میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پریشانیاں گھیر لیتی ہیں لیکن وہ لوگ سرخرو ہوتے ہیں جواللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اُسی سے مانگتے ہیں اُس پر کامل یقین رکھتے ہیں۔
’’ برکت کا وقت ‘‘( بنت ِ سحر ) بڑے میٹھے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ ہم صبح جلدی جاگیںنماز فجر ادا کریں ۔ تلاوت کلام پاک کریں اور اُس کے بعد دیر تک نہ سوتے رہیں تو گھر میں خیرو برکت آتی ہے۔
’’ لے سانس بھی آہستہ ‘‘( عالیہ حمید) یہ کہانی بتاتی ہے کہ ہمیں سنت رسولؐ کی پیروی کرتے ہوئے ہر کام میں اعتدال کے اصول پر عمل کرنا چاہیے خاص طور پہ کھانے پینے اور خرچ کرنے کے معاملے میں ۔ یہی زندگی میںکامیابی اور صحت کا راز ہے ۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس کا سلسلہ وار ناول) اس دفعہ کہانی کچھ آگے نہیں بڑھ سکی ۔ پون سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے لیکن وہ بے چاری تو معصوم ہے ، بے گناہ ہے پون کی ثابت قدمی قابل داد ہے ۔
’’ رخشندہ کوکب کی تحریروں کے رخشندہ اوصاف‘‘ (مریم خنسا ) محترمہ رخشندہ کوکب کی تحریر کے محاسن کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے فکر اسلامی کی آبیاری کی آپ کے افسانے سکول کالج کی طالبات کے لیے رہنمائی کا باعث بنے بلا شبہ رخشندہ کوکب اصلاحی ادب کا ایک بڑا نام ہے ۔
’’ رحمت کی برکھا رت اور سات چکر ‘‘( مسرت جبیں)یہ جذبہ ایمانی اور عشق خدا اور رسولؐ میں ڈوبی ہوئی ایک تحریر ہے ۔ پڑھ کے لطف آگیا موصوفہ نے خدا کے گھر میں اور مسجد نبوی ؐ میں اپنے اوپر طاری ہونے والے جذبات کا اظہار نہایت عقیدت، محبت اورخلوص کے ساتھ کیا ہے انداز بیاں دل پہ گہرا اثر کرنے والا ہے ۔
’’ پھر وہی بادہ و جام ‘‘ میری تحریر صرف اتنا کہوں گا کہ علامہ

اقبال کے اس شعر میںاور دیگر کئی اشعار میں معنی و مطالب کا ایک خزانہ ملتا ہے ۔
’’اہلِ مغرب کی اچھائیوں پر بھی توجہ کیجیے ‘‘(ڈاکٹرممتاز عمر) ڈاکٹر صاحب نے سمجھایا ہے کہ ہمیں اہلِ مغرب کی صرف برائیوں کو نہیں دیکھنا چاہیے ان کی خوبیوںاور اچھائیوں کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ وہ قانون کے پابند ہوتے ہیں ، وقت کے پابند ، اپنی ڈیوٹی دینے میں ایماندار ۔ ہمیں بھی اسلام نے شاندار روایات عطا کی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان روایات کو سمجھا جائے ان پر عمل کیا جائے ۔
بتول میگزین ’’ جب میں جامعہ میں آئی ‘‘ بنتِ اصغر نے اپنے تعلیمی ادارے اور ہوسٹل کی زندگی کا احوال بیان کیا ہے کہ ہوسٹل کی زندگی ہمیں نظم و ضبط کا پابند بنا دیتی ہے۔
’’ ایک دفعہ‘‘ (رضوانہ مومن) جب اس کی اپنی قمیض کو آگ لگی تو اسے یاد آگیا کہ ایک جہنم کی آگ بھی ہو گی ۔ ہمیں اس خوفناک آگ سے بچنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے ۔
’’ نیت‘‘( فریدہ عظیم ) آپ نے اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ ہمیں کبھی خود غرضی سے کام نہیں لینا چاہیے اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوںمیں دوسروںکو بھی شریک کرنا چاہیے اللہ اور نوازتا ہے ۔
’’ فیصلہ لمحے کا ‘‘( اسما معظم) اس مختصر مضمون میں سمجھایا گیا ہے کہ ایمانداری ایک بہترین وصف ہے جو انسان کو عظیم بنا دیتی ہے ۔
’’ میری بیاض سے ‘‘ ( مہوش خولہ رائو ) آپ نے جامعہ میں گزرے ہوئے خوبصورت لمحات کو قارئین کے ساتھ شیئر کیا ہے واقعی کالج اور ہوسٹل میں گزرے ہوئے دن ساری زندگی یاد رہتے ہیں یہ جملہ خوبصورت ہے ’’ تسبیح کے دانے چھ سالہ ساتھ کے بعد بکھر گئے لیکن دل آج بھی باہم مربوط ہیں ۔ آپ حیران ہوں گے ہمیں ایک دوسرے کے غم و خوشی کا دس سال بعد بھی اندازہ ہو جاتا ہے اک دوجے کے خواب میں آجاتے ہیں۔
’’ غم کے آداب ‘‘ ( مریم فاروقی ) کسی کے فوت ہو جانے پر ماتم کے آداب بڑے اچھے طریقے سے سمجھائے گئے ہیں ۔خاص طور پر غسل میت کا مسنون طریقہ سمجھایا گیا ہے ۔
’’ ہمیں کیا ہؤا؟‘‘ میں آپ نے تھائی لینڈ کی اچھی باتیں شیئر کی ہیں ۔
’’اس جہالت کو کیا نام دیں ‘‘ ( شہناز یونس) آپ نے ولادت رسول پاک ؐ کے موقع پر جو غیر شرعی کام کیے جاتے ہیں ان پر روشنی ڈالی ہے جیسے موسیقی اور ناچ وغیرہ۔
’’ ایک نا فرمان قوم کی کہانی‘‘(رخسانہ شکیل )آپ نے قوم لوطؑ پر آنے والے درد ناک عذاب کا بیان کر کے ہمیں خبر دار کیا ہے کہ کہیں ہم بھی تو ایسی گمراہی کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔
گوشہِ تسنیم ’’ تقویٰ قرآن اور رمضان‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا کالم آپ نے واضح کیا ہے کہ روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا پیدا کرنا ہے ۔ تقویٰ سے انسان کی روح مزین ہوتی ہے ۔ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے ۔ روزہ روحانی بیماریوں کا بہترین علاج ہے ۔
٭…٭…٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here