پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
شمارہ جولائی 2021ء سامنے ہے وادی ہنزہ اور گلگت کے حسین پہاڑی مناظر سے مزین ٹائٹل دلکش ہے ۔ آج کل تو دل یہی چاہتا ہے کہ اُڑ کے وہاں پہنچ جائیں۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے ریلوے کے سانحہ گھوٹکی کے موقع پر ’’الخدمت‘‘والوں کی احسن کار کردگی کا ذکر کیا ہے یہ لائق تحسین ہے ۔ بجٹ سیشن کے موقع پر ہماری پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر آپ نے بڑی درد مندی سے تبصرہ کیا ہے ۔ خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات پر آپ نے صحیح تجزیہ پیش کیا ہے کہ سب سے پہلے انٹر نیٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے ، پھر ان جرائم پر کڑی سزائیں بھی دی جائیں ۔
’’ عد ل و انصاف‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اسلام میں انصاف کی بہت تلقین کی گئی ہے ۔ہمارے رسول پاک ؐ سب سے بڑے عادل تھے ۔ عدل و انصاف کسی معاشرے میں امن و سلامتی کی پہچان ہے، ظلم امن عالم کو تباہ کر دیتا ہے ۔
’’ خطبہ حجۃ الوداع‘‘ (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ) آپ نے یہ تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ لفظ لفظ پیش کیا ہے ۔ بلا شبہ یہ خطبہ امن و سلامتی ، تہذیب و معاشرت اور حقوق انسانیت کا ایسا پیغام ہے جو اپنی جزائیات کے اعتبار سے انتہائی مکمل اور جامع ہے ، گویا ایک مکمل اسلامی منشور ہے ۔
’’ خلفائے راشدین کے رفاہی کام ‘‘( پروفیسر امیر الدین مہر ) رسول پاک ؐ نے مدینہ میں ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور خلفائے راشدین نے بھی انہی اصولوں پر کام کیا۔یہ مضمون خلافتِ راشدہ کے دو دوادوار کی خدمات پر بہترین معلومات دے رہا ہے ۔
حصہ شعر و شاعری میں کرامت بخاری صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر
نہ کیوں صحرا میں عکس آب دیکھوں
یہ پانی کی پرانی رہ گزر ہے
حبیب الرحمن کی چھوٹے بحر میں خوبصورت غزل سے منتخب اشعار
بہار لازوال لا
جہان کو کھنگال کر
رکھو دیارِ حسن میں
دل و نظر سنبھال کر
’’مبارزت‘‘ اسما صدیقہ کا سنجیدہ اور فکر انگیز کلام
یقین کی دولت سے جو غنی ہیں
خدا کی الفت کے جو دھنی ہیں
قسم خدا کی وہی جری ہیں
ذکیہ فرحت کے کلام سے حاصل غز ل اشعار ، خوبصورت کلام ہے ۔
پھر کلی چٹکی کہیں یاد کوئی آتا ہے
بوئے گل بن کے کوئی دل میں بسا جاتا ہے
پھر سے آتی ہے میرے دل میں کسی یاد کی رَو
بانسری جیسے کوئی لَے میں سناجاتا ہے
اسامہ ضیاء بسمل کے کلام سے منتخب سنجیدہ اشعار
طوفانوں کے بعد سمندر
کرتا ہے فریاد سمندر
خاک و خوں اور آہوں کا ہے
کوفہ و بغداد سمندر
فسانہ و کہانی ’’مدو جزر‘‘ (دانش یار) آپ کی کہانیاں اکثر دیہاتی پس منظر میں لکھی ہوتی ہیں ، یہ کہانی بتاتی ہے کہ تعلیم بلا شبہ ایک قیمتی زیور ہے جو انسان کی زندگی کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔
’’ اللہ کا رنگ‘‘ ( شہلا خضر) آپ نے اس سبق آموز کہانی میں سمجھایا ہے کہ تصنع ، نمودو نمائش اور تکبر اللہ کے ہاں سخت نا پسندیدہ ہیں ، خلوص دل اور خلوص نیت بہر حال دین میں مستحسن ہے۔
’’منزل ہے کہاں تیری ‘‘( عالیہ رشید ) اولاد کی تربیت میں کمی رہ جائے تو ماں باپ خود بھی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ۔ جدید دور کے المیہ پر اچھی کہانی ہے ۔
’’ دو گھرانوں کی کہانی ‘‘ ( عالیہ حمید) امرا اور غریب گھرانوں کے درمیان خوب موازنہ کیا ہے ۔
’’ ہمیں خبر ہی نہ تھی تو بھی رہگزر میں ہے ‘‘ ( شہلا اسلام) ورکنگ خواتین کے مسائل کا احاطہ کرتی ہوئی ایک زبردست کہانی ہے ۔
’’ جنگی قیدی کی آپ بیتی ‘‘ ( سید ابو الحسن ) میرٹھ چھائونی ( انڈیا) میں پاکستانی جنگی قیدیوں کی حالت کا خوب نقشہ کھینچا ہے ۔یہ جملے رلا دیتے ہیں ‘‘ جب بھی پاکستان ٹوٹنے کی بات ذہن میں آتی تو وہ لمحات میرے لیے نا قابل برداشت ہوتے ۔ کاش اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ہم پاکستان کو بچالیتے کاش لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ، پاکستان تو بچ جاتا ‘‘۔
’’میری اماں جان اور اللہ والے بابا جی ‘‘ (ڈاکٹر عامر جمال) آپ نے اپنی پیاری نانی صاحبہ اور ان کے بھائی صاحبزادہ حبیب اللہ صاحب کی پیاری یاد ہمارے ساتھ شیئر کی ہیں ۔ واقعی وہ دور اچھا تھا ۔ مذہبی ہم آہنگی تھی ،خلوص تھا ، پیار تھا ہمدردی اور محبت کا درد تھا ، اب حالات یکسر بدل گئے ہیں ۔ نفسا نفسی کا دور ہے ۔
’’ رب کا شکر ادا کر بھائی ‘‘ ( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم) بارش اور برف باری میں مری کے سفر کا دلچسپ احوال ہے ۔ اندازِ بیاں دل موہ لینے والا ہے برف باری کی منظر کشی بہت خوب کی ہے ۔
’’ ایک شام مدیرہ بتول کے ساتھ ‘‘ (فرحی نعیم )مدیرہ چمن بتول کے ساتھ ایک خوشگوار اور یاد گارادبی نشست کا بڑا خوبصورت احوال پیش کیا ہے۔ آج کے دور میں ’’ چمن بتول ‘‘ نئی نسل کی لڑکیوں کے لیے مشعل راہ کا کام کر رہا ہے ۔ مدیرہ صاحبہ نے نئی لکھاریوں کو مفید مشورے بھی دیے ۔ یہ محفل بلا شبہ بہت اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں مشفق لکھاریوں کے ساتھ ساتھ نئی لکھاری خواتین بھی شامل تھیں جن کا فن دن بدن نکھرتا جا رہا ہے ۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ ‘‘ ( ڈاکٹر فائقہ اویس) اس دفعہ آپ نے سعودیوں کے ہاں شادیوں کے رسوم و رواج کا ذکر بہت دلچسپ انداز میں کیا ہے اور یہ کہ ماتم کے موقع پر بھی سعودی زیادہ آہ وبکا نہیں کرتے صبر و شکر کا دامن تھام لیتے ہیں۔
گوشہِ تسنیم ’’ ٹوٹنے والا دل ایک نعمت ‘‘ ( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم) بہت اچھا اصلاحی کالم ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ نفس ہی انسان کو گناہوں پر ابھارتا ہے ۔ اسے ہمیشہ قابو میں رکھیں ، اس کا محاسبہ کرتے رہا کریں رضائے الٰہی کو ہمیشہ اولیت دیں۔ اپنے اندر انسانیت کی پرورش کرتے رہیں ۔ خود احتسابی بہترین عمل ہے ۔
’’ ریاست مدینہ کا راستہ ‘‘ (جاوید چوہدری )زبردست کالم ہے ۔ ایک ہندو خاتون ( ممتا بینرجی ) نے اسلامی اصولوں سادگی اور عاجزی کو اپنایا تو دنیا کی 100طاقتور ترین خواتین میں اپنا نام لکھوا لیا ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ اگر پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانا چاہتے ہیں تو اسلامی اصولوں ایمانداری ، سادگی ، عاجزی اور انصاف کو اپنا شعار بنا لیں ۔
ادارہ بتول اور سب قارئین کے لیے نیک تمنائوں کے ساتھ اجازت ۔
٭…٭…٭
’’ چمن بتول ‘‘ ماہ جون 2021 کا دلکش ٹائٹل کشمیر جنت نظیر کی جھیل ڈل کا خوبصورت منظر پیش کر رہا ہے ۔ جھیل کا نیلگوں پانی کنارے پہ سر وقد درخت اور پس منظر میں برف پوش پہاڑ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ صائمہ اسما کا فلسطین کے المیے پر رلا دینے والا اداریہ ہے ۔فلسطین میں نہتے مسلمان مردوں ، بچوں اور خواتین کا خون نا حق بہایا جا رہا ہے۔ آپ نے صحیح خبر دار کیا ہے کہ اسرائیل اور بڑی طاقتوں کا اگلا ہدف حرم شریف پر قبضہ کرنا ہے ۔ ہمارا
قبلہ اول تو پہلے ہی ان کے قبضے میں ہے ۔ عالم اسلام کو بیدار ہو کر ان کے مذموم ارادوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
آپ کے یہ جملے پڑھنے کے لائق ہیں ’’ کیا اپنے مسلمان بھائی بہنوں ، معصوم بچوں کو مرتا ہؤا دیکھ کر خاموش ہو رہیں ۔ اپنی زندگیوں میں مگن رہیں ؟ احتجاج کے ذریعہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرنا یقینا مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا فرض نبھانے کے برابر ہے‘‘۔
’’ وحیِ الٰہی کا مختصر تعارف‘‘ وحیِ الٰہی کے بارے میں عبد المتین صاحب کا مد لل مضمون آپ نے واضح کیا ہے کہ وحی کے علم کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہے ۔مثلاً جنت دوزخ کا علم سائنس کے ذریعہ نا ممکن جبکہ وحی کے واسطے سے ہمارا ان پر ایمان لازم ہے۔ اہل علماء اور فقہا اور مفسرین ہی کلام پاک کی بہتر تفسیر کر سکتے ہیں۔
’’ وعدہ پور ا کرنے کی اہمیت ‘‘ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ ایفائے عہد اعلیٰ اخلاقی وصف اور بلند پایہ اسلامی رویہ ہے وعدے کی تکمیل ایمان کا حصہ ہے ۔ ہمارے پیارے رسول پاکؐ عہد پورا کرنے میں بڑے سنجیدہ ہوتے تھے اور غیر مسلموں کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی نبھاتے تھے ۔
’’ اسرائیل فلسطین تنازعہ‘‘ تزئین حسن صاحبہ کا مسئلہ فلسطین پر زبردست تحقیقی مضمون ہے 1948 میں اپنے غیر قانونی قیام کے بعد سے ہی اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ شدید تفریق اور امتیاز پر مبنی ظالمانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہا ہے جس سے مظلوم فلسطینی اپنے گھروں اور زندگی گزارنے کے بنیادی وسائل سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے علمبردار بین الاقوامی ادارے’’ ہیومن رائٹس‘‘ نے تو اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔
اس دفعہ نجمہ یاسمین یوسف ، صاحبہ کی پیاری نعت شامل ہے ۔ ایک منتخب شعر
جہاں کی نیم مردہ زندگی کو سوزِ نو بخشا
کرامت ہی کرامت ہے محمدمصطفیؐ کا دیں
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے ایک پیارا منتخب شعر
ہے جس میں مہک آج بھی پرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ درو دیوار بھی ہم ہیں
عزیزہ انجم کی خوبصورت غزل سے دو منتخب اشعار
رت جگے لے لو ، نئی صبح کا تارا دے دو
دھوپ دیکھی ہے بہت پیڑ کا سایہ دے دو
ہجرتیں اور مقدر میں نہ لکھنا یا رب
پائوں زخمی ہوئے جاتے ہیں ٹھکانہ دے دو
’’ غزہ کے پھول‘‘ شہلا خضر کی فلسطین کے پس منظر میں لکھی ہوئی دردو الم میں ڈوبی کہانی ۔ پڑھ کے دل دہل گیا آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ ظالم اسرائیلیوں کی بمباری سے ایک مسلمان گھر میں باپ کے انتظار میں عید کی خوشیاں منانے کی خواہش دل میں لیے دونوں بچے ماں سمیت شہید ہو گئے ۔ یہ جملے دل ہلا دیتے ہیں۔’’ دونوں مجاہدین کے ننھے جسد خاکی اپنے پاکیزہ فلسطینی پر چم والے رومال میں لپٹے ہوئے تھے ۔ ننھی فاطمہ کی نیلی آنکھیں گرچہ پتھرا چکی تھیں پر لبوں پر بکھری معصوم مسکراہٹ اور سینے سے چمٹا یا پھولوں کا گلدستہ بتا رہا تھا کہ وہ بابا جان کے اپنا وعدہ نبھانے پر سراپا تشکر ہے ‘‘۔
اور کیا خوبصورت جملہ ہے’’ نیلا آسمان‘‘ چمکتی صبح ، سبک رفتار ہوا سب موجود تھے مگر غزہ کے پھول شہیدوں کے سرخ خون میں نہا کر ہمیشہ کے لیے امر ہو چکے تھے‘‘۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کو انگلش اور عربی میں ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا جائے کہ یہ کہانی عالمی ضمیرکو جھنجھوڑتی ہے ۔
’’آخرِ شب‘‘ بشریٰ ودود کی لکھی رشتوں کی چاہتوں میں ڈوبی ایک گھریلو کہانی ۔ ماں تو ہر حال میں اپنی اولاد پر جان نچھاور کرتی ہے، بعض اوقات بیٹے اور بہو اپنی جوانی کے زعم میں ماں کی ممتا کو ٹھکراتے ہیں۔ لیکن ممتا کی محبت اور تڑپ ختم نہیں ہو سکتی کہانی میں بیٹے اور بہو کو احساس ہو جاتا ہے اور یہ رشتے دوبارہ بحال ہو جاتے ہیں۔
’’ آرگینک‘‘( سلمان بخاری)بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک چیونٹی بار بار دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے گرتی رہتی ہے لیکن ہمت نہیں ہارتی اور دسویں بار دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ بس ایسے ہی ایک نوجوان کی کہانی ہے جو بار بار مختلف کاروبار شروع کرتا ہے ناکام ہو تا ہے مگر ہمت نہیں ہارتا ۔
’’ ری سائیکل بن میںپڑی ایک ڈیلیٹڈ ای میل کا جواب‘‘( اسد محمود خاں) ہماری اسلامی تاریخ فاطمہ بنت عبد اللہ ، ناہید بنت ابو الحسن اور آمینہ بنت فاتحی جیسی دلیر مسلمان لڑکیوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ واقعی جس قوم میں ایسی دلیر خواتین ہوں گی اسے کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ آج فلسطینی خواتین بھی اپنے مردوں کے شانہ بشانہ اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اللہ انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے ( آمین)
’’ جنگی قیدی کی آپ بیتی ‘‘ سید ابو الحسن ۔ تاریخ پاکستان کا ایک المناک باب سقوط ڈھاکہ اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں ۔ آپ نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کے ساتھ ہندوستان کا رویہ نہایت ہتک آمیز اور نا مناسب تھا ۔ خدا ایسے کم ظرف دشمن کا قیدی کسی کو بھی نہ بنائے (آمین)۔
’’ منور گلی کا آدھا چاند‘‘ محترمہ صائمہ اسما نے اپنا ایک خوبصورت سیاحت نامہ ( ایڈونچر ) پیش کیا ہے ۔ عنوان بہت رومانوی ہے ایک زبردست ایڈونچر تھا پڑھ کے مزہ آگیا لگتا ہے یہ سیاحت نامہ کافی سال پہلے کا ہے جب ابھی ان علاقوں میںسفری سہولتیں کم تھیں ۔ لیکن داد دینا پڑتی ہے سفرنامہ نگار کی جرأت کی ، ہمت اور بہادری کی کہ چھوٹے چھوٹے بچوںکے ساتھ اتنا دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا سفر کیا ۔ آپ واقعی کافی ایڈونچر س رہی ہیں ۔ انداز بیان بڑا دلچسپ ہے ، پڑھ کے مستنصر حسین تارڑ صاحب کے سفر نامے یاد آگئے۔ وہ بھی ایسے ہی دلچسپ پہاڑی دشوار گزار سیاحت نامے لکھ چکے ہیں۔
’’ پر سکون نیند ایک عظیم نعمت ہے ‘‘ فریدہ خالد صاحبہ نے اس مضمون میں بجا فرمایا ہے کہ نیند اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان کے تھکے ماندے جسم اور ذہن کو راحت ، اطمینان اور سکون مہیا کرتی ہے ۔ اچھی نیند انسان کو چاق و چوبند اور ہشاش بشاش رکھتی ہے ۔ اس کے برعکس بے سکون نیند یا نیند کی کمی بے شمار دماغی و جسمانی بیماریوں کا سبب بنتی ہے ۔
’’ زوال کو عروج میں کیسے بدلیں ‘‘ ( افشاں نوید ) آپ نے مسلمانوں کو ان کا شاندارماضی یاد دلایا ہے ۔ مثلاً اندلس میں عظیم مسلمان مفکر ، سائنس دان ماہرین فلکیات، ماہرین طب ، عالم ، مؤرخ ، ادیب اور شاعر موجود تھے اور تمام یورپ سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے اندلس جایا کرتے تھے ۔ بہت دل سوزی سے لکھی گئی یہ تحریر مسلمانوں کو نشاۃ ثانیہ کے لیے پھر سے بیدار ہونے کا پیغام دے رہی ہے ۔
’’ سفر ہے شرط‘‘ ڈاکٹر فائقہ اویس نے کرونا ، وبا کے دنوں میں پاکستان سے واپس سعودی عرب جانے کا احوال لکھا ہے اور اس سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ دلچسپ احوال سفر خاص طور پہ جب ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے سامان میں پاکستانی اچار مربے ، چٹنیاں ، دالیں ، سبزیاں اور دیسی گول مٹھائی وغیرہ سب کچھ باندھاتو واقعی پردیس میں پاکستانی چیزوں کی قدر ہوتی ہے خاص طور پر جب پیاری امی یہ چیزیں دے۔
’’ ہمارا جسم اور اللہ کی نعمتیں ‘‘ اس مضمون میں حبیب الرحمن صاحب نے انسانی جسم اور اس کے مختلف اعضاء کے بارے میں دلچسپ معلومات اور حقائق بیان کیے ہیں ۔’’ سپرائوٹس‘‘ (محمد سلیم)سپر ائوٹس کے بارے میں دلچسپ اور مفید معلومات ہیں ۔
گوشہِ تسنیم ’’ دنیابدل جائے گی ‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ تبدیلی کی خواہش انسان کے اندر خدا نے فطرتاً دویعت کر رکھی ہے ۔ غذا سے لے کر بودو باش تک تبدیلی کی خواہش جسمانی و ذہنی آسودگی کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کائنات میں تبدیلی کا عنصر رکھ دیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حالات میں تو بہ و استغفار سے ہی صورت حال میں تبدیلی ممکن ہے اور اسلامی تعلیمات پرکما حقہ عمل کرنے سے ہی ہماری اصلاح و نجات ممکن ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آفات و حادثات سے محفوظ رکھے اور ہمارا ’’چمن بتول‘‘خوشگوار حالا ت میں پھلتا پھولتا رہے ( آمین)۔٭