قرآن میں کئی مقامات پر ایسے سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں جنھیں آج سے چودہ سو سال پہلے کا انسان پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھا اور قرآن پر ایمان لانے والوں نے انھیں شرح صدر کے ساتھ اس لیے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے اور اس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد جیسے جیسے انسان کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور سائنسی تحقیق نے بہت سے ایسے حقائق پر سے پردہ اٹھایا جو اس سے پہلے مخفی تھے تو ہمیں قرآن کی ان آیات کا مطلب زیادہ وضاحت سے سمجھ میں آنے لگا۔ یہ قرآن کا ایک معجزہ ہے کہ اس نے چودہ سو سال پہلے ہمیں اس کائنات کے بارے میں ایسے حقائق سے آگاہ کیا جو اس وقت کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے اور پھر خود انسان نے ہی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ان حقائق کی صداقت ثابت کر دی۔ ذیل میں اس موضوع پر کچھ مثالیں دی جا رہی ہیں:
حمل کی کم سے کم مدت
قرآن مجید میں بچے کی ماں کے پیٹ میں پرورش اور دودھ پلانے کی مدت (رضاعت) کے بارے میں درج ذیل تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے:
’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے‘‘۔ (البقرہ۲۳۳)
’’اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے‘‘۔ (لقمان۱۴)
’’ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتائو کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اُسے اپنے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا۔ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے‘‘۔ (الاحقاف۱۵)
ان تینوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر رضاعت کی مدت دو سال ہو جیسا کہ حکم دیا گیا ہے تو پھر حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ بنتی ہے اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ اگر شادی کے بعد کسی عورت کے ہاں چھ ماہ میں بچے کی ولادت ہو جائے تو وہ اس کے شوہر کا جائز بچہ تصور ہو گا۔ اس قسم کا ایک واقعہ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے زمانے میں پیش آیا۔ جب ایک شخص نے قبیلہ جہینہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ ہی مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا۔ اس شخص نے حضرت عثمانؓ کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر اس پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت علیؓ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمان کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے اوپر دی ہوئی تینوں آیتیں پڑھیں جن سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہو سکتی ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور وہ بچہ اس شخص کا جائز بچہ قرار پایا۔
یہ سب اس زمانے کی بات ہے جب علم ولادت(Obstetrics) کی سائنس کا کوئی تصور نہیں تھا اور اس موضوع پر معلومات اسی حد تک تھیں جو عام مردوں اور عورتوں کو ہو سکتی تھیں اور حمل کی مدت عموماً نو ماہ ہی سمجھی جاتی تھی۔ اب اس وقت جدید سائنس نے ہمیں جو معلومات دی ہیں ان کے مطابق کل مدتی حمل (Full Term Pregnancy)کا دورانیہ۲۸۰ دن مقرر کیا گیا ہے۔ یہ نو ماہ اور دس دن یا چالیس ہفتے بنتے ہیں، جدید طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچے کو کم از کم ۲۸ ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشوونما پا کر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ مدت ۱۹۶ دن یا چھ ماہ اور ۱۶ دن بنتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان مدتوں کا تعین آخری ایام حیض کی ابتدا سے کیا جاتا ہے اور اس مدت میں آخری ایام حیض بھی شامل ہیں۔
پھر یہ معلوم کرنا بھی ممکن نہیں کہ ایام حیض ختم ہونے کے بعد استقرارِ حمل کب ہؤا۔ یہ عمل پندرہ دنوں میں کسی بھی وقت ہو سکتا ہے اس طرح دو ہفتے کی کمی بیشی کا امکان تو ہو ہی سکتا ہے۔اور اصل کم سے کم مدت ساڑھے چھ ماہ سے چھ ماہ تک ہو سکتی ہے۔
اب تک مدتوں کے اوقات کا یہ حساب ان عورتوں کے بارے میں کیا جاتا ہے (اور آئندہ بھی ایسے ہی ہو گا) جو معمول کے مطابق ایام حیض سے گزر رہی ہوں۔ لیکن پچھلے دنوں انگلستان میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جس نے قرآن مجید کی بیان کی ہوئی چھ ماہ کی مدت کی مزید تصدیق کر دی۔ اس واقعہ میں حمل کی مدت آخری ایام حیض کی ابتدا سے بچے کی ولادت تک شمار کرنے کی بجائے ایک بچے کی ولادت کے بعد سے دوسرے بچے کی ولادت تک کا دورانیہ مدت حمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۸ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں دو بچوں کی تصویروں کے ساتھ اس واقعہ کی خبر اس طرح شائع ہوئی۔
’’لندن (نیٹ نیوز) لندن میں ایک خاندان کے ہاں دو بچوں کی پیدائش حیرت انگیز طور پر صرف ساڑھے چھ ماہ کے وقفے کے اندر ہو گئی۔طبی ماہرین نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ واقعہ برطانیہ میں ایک ہی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے دو بچوں کے درمیان سب سے کم وقفہ ہے جس نے ماہرین کے علاوہ سننے والوں کو بھی ششدر کر دیا ہے۔ ان دونوں بچوں کو اب آگے پیچھے پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کا نام دے دیا گیا ہے کیونکہ دونوں کی پیدائش میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ والدین اور فیملی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں بہن بھائی صحت مند ہیں اور بالکل عام بچوں کی طرح پرورش پا رہے ہیں‘‘۔
اس واقعہ میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو دوبارہ بار آور ہونے میں کم سے کم پندرہ دن تو لگے ہی ہوں گے اس طرح حمل کی مدت چھ ماہ ہی رہ جاتی ہے۔ اس طرح جدید سائنسی حقائق سے وہ بات سچ ثابت ہوئی جو قرآن میں آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کی گئی۔
تخلیق کائنات کے بارے میں قرآن کا بیان
ایک وقت تھا جب یہ زمین و آسمان موجود نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اس شکل میں پیدا کرنے کا فیصلہ کیا اور چھ دنوں میں یہ کام مکمل ہو گیا۔ اس سارے عمل تخلیق کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے مختصراً اس طرح بیان فرمائی:
’’کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ کیا وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (الانبیائ۳۰)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔(الانبیائ۳۳)
رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جڑا ہؤا ہونا اور فتق کے معنی جدا کرنے اور پھاڑنے کے ہیں۔ اس سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ابتدائی طور پر پوری کائنات ایک تودے (Mass)کی شکل میں تھی۔ بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے زمین، آسمان اور دوسرے اجرامِ فلکی ، کہکشائیں جدا جدا دنیائوں کی شکل میں بنا دی گئیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس وقت علم فلکیات بہت ابتدائی شکل میں تھا۔ اور اس بات کو پوری طرح سمجھنا مشکل تھا۔ اس کے بعد اس علم نے ترقی کی تو سائنس دانوں نے بہت غوروخوض کے بعد یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات اپنی اس موجودہ صورت میں تخلیق پانے سے پہلے مادے کے ایک بہت وسیع و عریض تودے کی شکل میں تھی پھر ایک عظیم دھماکا (Big Bang)وقوع پذیر ہؤا اور اس تودے سے یہ زمین و آسمان، اور تمام اجرامِ فلکی اور کہکشائیں وجود میں آئیں اور ہر ستارہ و سیارہ بکھر کر اپنی اپنی جگہ پہنچ گیا اور سب اپنے اپنے مخصوص مداروں میں گردش کرنے لگے۔ پہلے یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ سورج ساکن ہے اور زمین سمیت دس سیارے اس کے گرد گردش کر رہے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہؤا کہ سورج سمیت سارا نظام شمسی متحرک ہے۔
قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق اور فتق اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا۔ موجودہ زمانے میں طبیعات، حیاتیات اور علم الافلاک کی جدید معلومات نے ہمیں حقیقی مفہوم کے زیادہ قریب کر دیا ہے اور موجودہ زمانے کا انسان ان آیات کو بالکل اپنی جدید معلومات کے مطابق پاتا ہے۔
ان جدید معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ ، ’’ہماری اس کائنات کا ایک حتمی نقطۂ آغاز ہے ۔ ایک دور تھا جب کچھ بھی نہیں تھا یہاں تک کہ خلا (Space)کا بھی کوئی وجود نہیں تھا پھر چودہ ارب سال پہلے ایک لمحہ ایسا آیا کہ کوئی چیز تخلیق ہوئی۔ اس کو سائنس کی زبان میںSingularityکہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی گرم اور کثیف مادہ تھا۔ اس کی تخلیق سے پہلے نا خلا کا وجود تھا نا وقت کا، نہ مادے کا اور نا ہی توانائی کا۔ یہ سب چیزیں Big Bangکے عمل کے ذریعے اس مادے (Singularity) سے برآمد ہوئیں۔ اگر خلا کا وجود بھی نہیں تھا تو یہ مادہ کہاں وجود میں آیا؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ مادہ کہاں سے آیا۔ کیوں آیا اور اس ساری کائنات کا محل وقوع کیا ہے۔ جو ہمیں معلوم ہے وہ بس یہ ہے کہ اب ہم اس کائنات کا حصہ ہیں او راس کے اندر موجود ہیں۔ ایک وقت تھا نہ کائنات کا وجود تھا اور نہ ہی ہمارا‘‘۔
Big Bangتھیوری پر بحث کرتے ہوئے ایک سائنس دان مزید لکھتا ہے:
’’اس تھیوری پر کوئی بھی بحث اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک یہ نہ پوچھا جائے کہ پھر خدا کے متعلق کیا تصور ہے۔یہ اس لیے ہے کہ Cosmogonyیعنی کائنات کی تخلیق کی ابتدا کا علم ایک ایسا موضوع ہے جہاں سائنس اور دین کا علم آپس میں ملتے نظر آتے ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الفطری عمل تھا جو عام معمولات سے ہٹ کر وقوع پذیر ہؤا۔ اس حقیقت سے خود بخود یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس کائنات کے باہر کوئی ایسی عظیم تخلیق کار قوت موجود ہے جو اس کائنات کی تخلیق کے آغاز کا سبب بنی… کیا وہی خدا ہے؟‘‘
کائنات وسعت پذیر ہے
کائنات کی تخلیق کے بارے میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر توجہ دلائی گئی اور یہ بات خاص طور سے کہی گئی کہ اس کا خالق صرف اور صرف اللہ وحدہ‘ لاشریک ہے۔ لیکن سورۃ الذاریات میں یہ بات ایک مختلف انداز سے یوں فرمائی گئی:
’’آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کو وسعت دے رہے ہیں اور زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں‘‘۔
(الذاریات۴۷،۴۸)
قرآن میں جہاں زمین اور آسمان کا ذکر آتا ہے اس سے مراد پوری کائنات(Universe) ہوتی ہے۔ مذکورہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات خود اپنی قوت اور زور سے پیدا کی ہے اور اسی میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن پہلی آیت میں جو لفظ ’’موسعون‘‘ استعمال ہؤا ہے، یہ ایک نئی بات ہے جو یہاں کہی گئی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں یوں لکھا ہے:
’’اصل الفاظ ہیں’وانا لموسعون‘۔ موسع کے معنی طاقت اور قدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں او روسیع کرنے والے کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے زور سے بنایا ہے اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی۔پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آگیا کہ ہم تمھیں دوبارہ پیدا نہ کر سکیں گے؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ اس میں مسلسل توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادئہ خلق سے عاجزکیوں سمجھ رکھا ہے؟‘‘
قدیم زمانے سے مفسرین نے موسع کا مطلب طاقت اور مقدرت رکھنے والا ہی لیا ہے۔ وسعت دینے کا ترجمہ پہلی مرتبہ تفہیم القرآن میں یا سعودی عرب سے شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے قرآن کریم میں مولانا صلاح الدین یوسف کے تفسیری حواشی میں میری نظر سے گزرا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو گی کہ کائنات کے وسعت پذیر ہونے کے امکان کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی ہو گی۔ لیکن اب علوم فلکیات کے ماہرین نے یہ بات دریافت کی ہے کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور پھیلائو (Expansion)کا یہ عمل کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس بارے میں اس وقت سائنسی معلومات کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:
’’تاروں بھری رات میں آسمان پر نظر ڈالیں تو کائنات کی ایک پر سکون اور ساکت تصویر سامنے آتی ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ۱۹۲۹ء میں Edwin Hubbleکی یہ انقلاب انگیز دریافت لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث بنی کہ اصل میں کائنات انتہائی تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔ Hubbleکے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ آسمان پر نظر آنے والے Milky Way(شارع ابیض) سے باہر جو کہکشائیں ہیں وہ تیزی سے ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی دور ہونے کی رفتار ہماری زمین سے ان کے فاصلے کے تناسب سے ہے۔ یعنی جو کہکشاں ہم سے جتنی دور ہے اتنی ہی زیادہ تیز رفتاری سے وہ ہم سے مزید دور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مشاہدے سے اس نے فوراً یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات کی تاریخ میں ضرور ایک دور ایسا تھا جب پوری کائنات ایک نقطے پر مجتمع تھی اور پھر ایک ایسا لمحہ آیا کہ کائنات کی تخلیق اسی نقطے کے پھیلائو(Big Bang)سے وقوع پذیر ہوئی اور وہی پھیلائو اب تک جاری ہے‘‘۔
اس وقت امریکہ کے خلائی ریسرچ کے ادارے NASAکے دو خلائی سٹیشنوں پر نصب دوربین (Hubble Space Telescopeاور Spitzer Space Telescope)، Hubbleکی دریافت پر مزید تحقیق میں مصروف ہیں اور کائنات کی توسیع کی رفتار کی پیمائش کر رہی ہیں۔ اس تحقیق کا ایک مقصد یہ معلوم کرنا بھی ہے کہ کیا کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی یا ایک دن یہ توسیع رک جائے گی اور پھر الٹا عمل شروع ہو گا اور سب کچھ منہدم (Collapse)ہو جائے گا (یعنی قیامت آجائے گی)۔
۱۹۹۶ء میں ایک اور مشاہدہ سائنس دانوں کی حیرت کا باعث بنا اس سے پہلے ہمیشہ یہی سمجھا جاتا رہا کہ کیونکہ مادہ کشش ثقل کا باعث بنتا ہے اور یہ کشش اجسام کو اپنی جانب کھینچتی ہے اس لیے کائنات کی توسیع کی رفتار بتدریج کم ہونے کی توقع کی جا تی تھی۔ لیکن انتہائی دور دراز کہکشائوں کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ یہ رفتار بتدریج بڑھ رہی ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو نہ تو مادے کی طرح ہے اور نہ ہی عام توانائی جیسی، جو ان دور دراز کہکشائوں کو مزید تیز رفتاری سے کائنات کے مرکز سے دور کرتی جا رہی ہے۔ اسے سائنس دانوں نے ’’تاریک توانائی‘‘ (Dark Energy)کا نام دیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ تاریک ہے بلکہ صرف اس لیے کہ یہ انسان کی سمجھ سے باہر کوئی قوت ہے جس پر انسانی عقل کوئی روشنی نہیں ڈال سکتی۔ (اسی کی خبر انالموسعون میں دی گئی ہے)۔
زمین کو جاندار مخلوق کے لیے وضع (Design)کیا گیا
ہماری زمین ایک نظام شمسی کا حصہ ہے جس میں ایک سورج کے گرد ہماری زمین سمیت دس اجرامِ فلکی اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں اور یہ نظام شمسی ایک وسیع کہکشاں کے ایک کونے میں پڑا ہؤا ہے جس میں اس جیسے اربوں نظام شمسی موجود ہیں اور ایسی اربوں کھربوں کہکشائیں مل کر Milky Wayبنا ہے۔ لیکن اس Milky Wayسے باہر بھی کہکشائیں موجود ہیں۔ اس طرح اس کائنات میں موجود اجرامِ فلکی جو ہمیں ستاروں اور سیاروں کی شکل میں نظر آتے ہیں کی تعداد لامحدود (Infinite)ہے۔ ہماری زمین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس پر ایسے موسمی حالات اور اسباب موجود ہیں کہ یہاں جاندار مخلوق زندہ رہ سکتی ہے اور نشوونما پا سکتی ہے۔ یہ بات قرآن کریم میں اس طرح فرمائی گئی۔
’’زمین کو ہم نے زندہ مخلوقات کے لیے وضع (Design) کیا‘‘۔ (الرحمن۱۰)
اس وقت تک سائنس دانوں نے ہمارے اس نظامِ شمسی میں موجود اور اس سے ماورا جن اجرامِ فلکی کا مطالعہ کیا ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے قرب و جوار میں کوئی بھی سیارہ زمین جیسی خصوصیات کا حامل نہیں ہے جہاں کوئی جاندار مخلوق زندہ رہ سکے اور کائنات کے مطالعے سے اب تک جو اشارے ملے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ ہماری زمین کی طرح کی کوئی اور زمینوں کے وجود کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن قرآن کریم میں دو مقامات پر ہمیں یہ خبر دی گئی ہے کہ بالکل ایسی ہی زمینیں کائنات میں اور بھی موجود ہیں، متعلقہ آیات درج ذیل ہیں:
’’اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں وہ جب چاہے انھیں اکٹھا کر سکتا ہے‘‘۔ (الشوریٰ ۲۹)
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جا رہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔ (الطلاق۱۲)
ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں اور یہ کہ ہماری زمین کی طرح کی اور زمینیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں، یعنی ایسی زمینیں جن کو جاندار مخلوقات کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر آسمان میں جو بے شمارے ستارے اور سیارے نظر آتے ہیں ان میں سے بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں۔
قدیم مفسرین میں سے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ایسے مفسر ہیں جنھوں نے اس دور میں حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے۔
بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی یہ تفسیر اس طرح نقل کی ہے کہ (اس کائنات میں ہماری زمین کی طرح کی اور بھی زمینیں ہیں)’’ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمھارے نبیؐ جیسا، اور آدم ہے تمھارے آدمؑ جیسا اور نوح ہے تمھارے نوحؑ جیسا اور ابراہیم ہے تمھارے ابراہیم ؑ جیسا‘‘ یعنی ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوحؑ اور ابراہیم ؑ ممتاز ہیں۔
آج اس زمانے میں سائنس دان اگرچہ اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے کیونکہ جن قریبی سیاروں سے انھیں معلومات حاصل ہوتی ہیں وہاں زمین جیسی جاندار مخلوق کہیں موجود نہیں ہے لیکن وہ اس امکان کو رد بھی نہیں کر سکتے کہ اتنی وسیع کائنات میں زمین کی طرح کے اور اجرامِ فلکی بھی موجود ہیں جہاں ایسی ہی دنیائیں موجود ہیں۔ ۲۶ جولائی ۱۹۶۷ء کو اکانومسٹ لندن میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق مشہور ادارے Rand Corporation نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں میں واقع ہے صرف اس کے اندر تقریباً ساٹھ کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو۔
قیامت کی خبر
قرآن میں سینکڑوں مقامات پر قیامت کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کائنات جس میں ہم رہ رہے ہیں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ ایک دن یہ سارا نظام لپیٹ دیا جائے گا، یہ زمین، سورج، چاند، ستارے آسمان سب درہم برہم ہو جائیں گے اور اس کے بعد ایک نئی کائنات تخلیق کی جائے گی جو اس موجودہ کائنات سے مختلف ہو گی۔ اس کی خبر قرآن میں اس طرح دی گئی ہے۔
’’جس دن اس زمین سے بدل دی جائے گی اور زمین اور بدل دیے جائیں گے آسمان، اور سب اللہ واحد القہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے‘‘۔ (ابراہیم ۴۸)
جدید علم کائنات (Cosmology)کے مطابق کائنات کی تخلیق جو Big Bangسے شروع ہوئی، اس کے بعد سے یہ کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے لیکن Expansionیا وسعت کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہے گا اور اس کا انجام Big Crunchکی صورت میں ظاہر ہو گا جب سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا اور یہ واقعہ بغیر کسی پیشگی انتباہ (Warning)کے پیش آئے گا جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی؟ کہو! اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے، اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا آسمانوں اور زمین پر وہ بڑا سخت وقت ہو گا اور وہ تم پر اچانک آجائے گا‘‘۔(اعراف۱۸۷)
کائنات کی دوبارہ تخلیق کے بارے میں علم کائنات کے سائنس دانوں کا نظریہ وہی ہے جو اوپر سورہ ابراہیم کی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں Big Crunchکے بعد Big Bangکی طرح کا ایک اور واقعہ رونما ہو گا جس کے نتیجے میں نئی کائنات وجود میں آئے گی، نئی زمین ہو گی نئے آسمان ہوں گے۔
٭…٭…٭