۲۰۲۲ بتول اگستغزل - بتول اگست ۲۰۲۲

غزل – بتول اگست ۲۰۲۲

وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں
کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں
نہ سوال تھا ، نہ جواب تھا ، نہ نگاہ میں کوئی بات ہی
تھی جو دل کی دل ہی میں رہ گئی جو کہا تو اس نے سُنا نہیں
یہ وہی نویدِ بہار ہے جو تری نظر کا حجاب تھی
جو ہے رائیگاں تری جستجو یہ مری نظر کی خطا نہیں
یہ ہے اور بات بچھڑ کے تم کسی اور سمت چلے گئے
کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے ہم یہ خیال دل سے گیا نہیں
یہ گئے دنوں کا ہے تذکرہ کہ جوکہہ دیا سو وہ کر دیا
ہے روش یہ دورِ جدید کی جوکہا کبھی وہ کیا نہیں
یہ جہاں ہے عالمِ کشمکش کہیںدار ہے کہیں تاج ہے
جو فرازِ دار سے ڈر گیا اسے تاج و تخت ملا نہیں
میں بھٹک کے آپ ہی راہ سے ترے پیچھے پیچھے تھی چل پڑی
مرے راہبر نہ ہو بد گماں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
بڑی ابتلا کا یہ دور ہے بڑے چارہ گرہیں قدم قدم
ہیں زباں پہ لاکھ فسوں مگر کوئی ان میں ردِّ بلا نہیں
جو عزیز ہوتی یہ زندگی کبھی چلتے راہ نہ عشق کی !
مرے مہرباں ، مرا امتحاں ، یہ بجا نہیں ، یہ روا نہیں
اسے ان کا لطف و کرم کہیں کہ ادائے جَور کا نام دیں
وہ بلا کے دُور بٹھال دیں کوئی اس سے بڑھ کے سزا نہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here