ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – اجمل سراج

ہر شے کوئی ترکیب جدا اوڑھے ہوئے ہے
معلوم نہیں کون ہے کیا اوڑھے ہوئے ہے

ہر آن نئے رنگ میں ہوتی ہے نمودار
ہر لمحہ نئی ایک فضا اوڑھے ہوئے ہے

سورج ہے لپیٹے ہوئے خود اپنی شعاعیں
اور چاند بھی سورج کی ضیا اوڑھے ہوئے ہے

افسردہ و دل تنگ ہے حالات سے اپنے
اور چادرِ تسلیم و رضا اوڑھے ہوئے ہے

اندر نہ خدا ہے نہ کہیں خوف خدا کا
باہر سے مگر خوفِ خدا اوڑھے ہوئے ہے

اِس حبس کے عالم میں ہے یوں شاداں و فرحاں
تُو کون سے ساحل کی ہوا اوڑھے ہوئے ہے

اِس باغ میں کوئی بھی برہنہ نہیں اجملؔ
خوشبو بھی یہاں گُل کی قبا اوڑھے ہوئے ہے

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x