ہمارا گھر ضلع ہشیار پورمیں برنالہ گائوں میں تھا ۔ یہ گائوں تحصیل دسوعہ میںتھا ۔ وہاں کئی گائوں کے ناموں کے ساتھ برنالہ کا لفظ لگا ہوتا تھا۔برنالہ کا مطلب ہے نالہ کے کنارے تو نالہ ( پانی کی ندی) کے ساتھ ساتھ واقع کئی گائوں کا نام برنالہ تھا ۔
ہمارے گائوں میں ایک بڑا تالاب تھا جو بارش کے پانی سے بھر ا رہتا تھا ۔ اُس سے مویشی پانی پیا کرتے تھے ۔ ہم اس میں نہا یا بھی کرتے تھے ۔ گائوں کی عورتیں وہاں کپڑے دھونے بھی آیا کرتی تھیں ۔ میری عمر اُس وقت کوئی دس سال تھی لیکن مجھے سب کچھ اچھی طرح یاد ہے ۔ گائوں میں ہندو، سکھ ، مسلمان سب آپس میں پیار محبت اور سلوک کے ساتھ رہتے تھے ۔ آپس میں اچھی دوستیاں اور اچھے تعلقات تھے ۔ ہم اکثر ہندوئوں کے تہوار دیوالی اور دسہرہ دیکھنے جایا کرتے تھے اور ہندو ہماری عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے ۔
اتنا اچھا ماحول تھا کہ گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جاتے تھے اور رات کو ہم مکانوں کی چھتوں پربڑے مزے سے سوجایا کرتے تھے ۔ دکانیں زیادہ ترہندوئوں کی تھیں اورمسلمان اکثرکھیتی باڑی کرتے تھے ۔
گائوں کے باہر کچھ لوگ خیموں میں بھی رہتے تھے ۔ ان کی عورتیں ہمارے گھروں میں کام کرتی تھیں ۔ گنے کے رس سے گُڑ بنایا جاتا تھا جوہم بڑے شوق سے کھڑے ہو کر دیکھا کرتے تھے ۔ ہرگائوں کی طرح ہمارے گائوں میں بھی ایک تیلی ہوتا تھا جس سے سرسوں کا خالص تیل مل جاتا تھا ۔ جولاہے بھی تھے جو کھڈیوں پرکپڑا تیارکرتے تھے اور ایک لوہار کی دکان بھی تھی۔
میں اُس وقت گائوں کے پرائمری سکول میں پڑھتا تھا ۔سکول کے صحن میں برگد کا ایک بڑا سا سایہ دار درخت ہوتاتھا جس کی گھنی چھائوں میں ہماری کلاسز ہوتی تھیں ۔اگر کسی دن بارش ہوجاتی تو نمبردار کی حویلی میں سکول لگتا تھا ۔
گائوں کے باہرایک پہاڑی پرہندوئوں کا مندرتھا ، ہم اکثروہاں مندر دیکھنے چلے جایا کرتے تھے ۔ گائوں میں مسلمان کی دومساجد بھی تھیں۔
یہاں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ۔ایک ہندوانکل ہربدھ کے دن پرشاد لے کرمندر جایا کرتے تھے ۔ انہوں نے مٹھائی کا ڈبہ اپنے بائیسکل کے پیچھے کیریئر میں رکھا ہوتا تھا ۔ جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے توہم شرارت سے ان کے مٹھائی کے ڈبے کو ہاتھ لگا دیا کرتے وہ غصے ہوکرہمیں برُا بھلا کہتے کہ تم نے میری پرشاد کوبھرشٹ (ناپاک) کردیا ہے، اورڈبہ وہیں پھینک کر چلے جاتے ، ہم سب مزے لے لے کر مٹھائی کھاتے پھر وہ نیا ڈبہ لے کر چھپتے چھپاتے مندرجاتے لیکن شام کوہمارے گھر ہماری شکایت لے کر آجاتے اور ہماری شامت آتی۔ لیکن اگلے بدھ ہم پھر وہی حرکت کرتے ۔
گائوں کے قریب ہی ایک جنگل تھا کچھ لوگ وہاں خیمے لگا کررہتے تھے اورگائوں میں آکرکھیل تماشے دکھاتے تھے ۔ میرے دادا جان اکثرکشمیر چلے جایا کرتے جوکہ وہاں سے زیادہ دورنہیں تھا ۔ وہاں سے وہ لکڑیاں اورپھل خرید کر لاتے تھے ۔ کشمیرکا سیب اتنا خوشبودارہوتا تھا کہ جونہی دادا جان پھل لے کرگھر میں داخل ہوتے سارا گھرسیبوں کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اٹھتا ۔ وہ سیب خوش ذائقہ بھی ہوتے تھے۔کشمیرکے علاقے میں زعفران بھی اگتا تھا جوکہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔
گائوں کی زندگی بہت سادہ تھی ۔بجلی نہیں تھی رات کو لالٹین جلایا کرتے تھے ۔ قریبی قصبہ مکسیریاں میں ہندوئوں کی بڑی بڑی دکانیں تھیں جہاں سے ہم سودا سلف لے کرآتے ۔ہمارے گائوں کے قریب ہی ایک خوبصورت آبشاربھی تھی ،وہاں ہم اکثر گرمیوں کی دوپہرگزارنے چلے جایا کرتے ۔بڑا ٹھنڈا اورمیٹھا پانی ہوتا تھا ۔
بڑی پر سکون زندگی گز ررہی تھی کہ اچانک حالات نے کروٹ بدلنا شروع کردی ۔ آزادی کی تحریک زوروں پر تھی ۔ مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد وطن کا مطالبہ کردیا ۔ہندو چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو، اس طرح تعلقات میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں ۔ہندوئوں ، سکھوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف جذبات پروان چڑھنے لگے ۔ کچھ ان کے لیڈر بھی ان کوبھڑکا رہے تھے ۔ مسلمانوں کانعرہ تھا ’’ بن کے رہے گا پاکستان ‘‘ اس طرح مخالفانہ جذبات بڑھنے لگے، اب ہندو ہم سے کھچے کھچے رہنے لگے ۔صاف نظر آ رہا تھا کہ تقسیم کے وقت حالات اورخراب ہوجائیں گے ۔
بالآخر 14 اگست 1947 کومسلمانوں کا آزاد وطن پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پرنمو دارہوگیا ۔حالات اوربھی خراب ہو گئے اب ہروقت خطرہ رہتا تھا کہ مسلمانوں کے محلوں اور گھروں پر حملے کیے جائیں گے ۔جوکبھی گہرے دوست تھے اب دشمن جاں بن گئے ۔ اب یہ اعلان کردیا گیا کہ مسلمان یہ گائوں چھوڑ دیں اور اپنے پاکستان چلے جائیں کیونکہ یہاں ان کے جان ومال کو خطرہ ہے۔
سوہم بھی دلوں پرپتھررکھ کے اپنے پیارے گھروں سے نکلے ، سامان وغیرہ سب وہیں چھوڑا ۔ کچھ چھکڑے تھے جن پر صرف ضروری سامان رکھ لیا ۔ خواتین اوربچے چھکڑوں پرسوارہوگئے ، مرد حضرات ساتھ پیدل چلنے لگے ۔
گھربار چھوڑنے کا دکھ توبہت تھا کہ جس گائوں میں ہمارے آبائواجداد نے زندگیاں گزاریں جہاں ان کی قبریں ہیں ہم سب کچھ وہاں چھوڑ کر نکلنے پر مجبور ہو گئے ۔
اب ہم قصبہ دسوعہ میں کیمپوں میں آگئے ،وہاں کچھ دن رکے اب توکسمپرسی کا عالم تھا ، روکھی سوکھی جومیسرہوتی کھا لیتے ،پینے کا صاف پانی بھی مشکل سے میسر آتا کبھی جوہڑوں کا پانی پینا پڑتا جس سے بچے بیمار ہو گئے ۔پھر اس قصبہ سے نکلے اور آگے روانہ ہوئے اب ہماری منزل امرتسر تھی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے چچا محمد علی بیلوں کے لیے چارہ لینے سکھوں کے پاس گئے انہوں نے کم چارہ دیا ۔ جب چچا نے احتجاج کیا تو ایک سکھ نے تلوار کا وارکر کے چچا کا بازو کاٹ دیا ۔ خون بہت ضائع ہوگیا اورصبح ہوتے ہوتےچچا کا انتقال ہوگیا ہمیں بے حد افسوس ہؤا چچا کووہیں چھپ کے دفن کیا ۔ آزادی کی خاطرقربانیاں تو دینا پڑتی ہیں ۔
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اب ہمارا قافلہ امرتسر کی طرف رواں دواں تھا ۔ راستے میں کئی جگہ مسلمانوں کی لاشیں زمین پرپڑی دیکھیں تو دل دہل گیا ۔ہمارے قافلے پربھی کچھ حملے ہوئے لیکن ہمارے مردوں کے للکارنے پروہ بھاگ جاتے ، راستے میں کئی خواتین بھی دم توڑ گئیں ،کچھ بچے بھی جان کی بازی ہارگئے ۔یہ سب آزادی کے شہید تھے اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے ( آمین )۔
بالآخر ہماراقافلہ امرتسرپہنچ گیا ۔ خوش قسمتی سے وہاں پاکستانی بلوچ رجمنٹ کے سپاہی موجود تھے جنہوں نے قافلوں کی حفاظت کو یقینی بنایا اور اللہ اللہ کر کے بلوچ رجمنٹ کی حفاظت میں ہم لاہور پہنچ گئے ۔ہم نے آزاد وطن کی سرزمین پہ سجدہ شکرادا کیا۔
لاہور میں پناہ گزینوں کا ایک بہت بڑا کیمپ تھا جس میں ہمیں رکھا گیا ۔ وہاں خیموں کا شہرآباد تھا ۔ اچھا انتظام تھا کھانا ، پینا بھی آرام سے مل جاتا تھا ۔ وہاں مہاجرین ایک دوسرے سے اپنا دکھ درد بانٹ رہے تھے ۔ سبھی اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے کر یہاں پہنچے تھے ۔
کچھ دن اس کیمپ میں گزارے مجھے یاد ہے ایک دن قائد اعظم ہمارے کیمپ میں تشریف لائے تو فضا پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی ۔ قائد اعظم کے آنے سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے ۔
لاہور کیمپ سے نکل کرہم لائل پور ( فیصل آباد ) پہنچے ۔وہاں مہاجرین کو زمینیں مل رہی تھیں ۔لیکن ہمیں بتایا گیا کہ اگرہم ضلع جھنگ چلے جائیں تو دگنی زمین ملے گی سو ہم شاہ جیونہ ( ضلع جھنگ) پہنچے ۔وہاں ہمیں دومربع زمین الاٹ کردی گئی۔
زمین بڑی زرخیز تھی ۔ سو ہم جلد ہی آسودہ حال ہو گئے اورشاہ جیونہ میں ہم نے ایک کنال قطعہ زمین پراپنا بڑا گھر بنا لیا ۔ ہم تین بھائی اور ایک بہن تھے ۔ ہمارے والد صاحب سکول ٹیچرتھے ، انہیں شاہ جیونہ کے سکول میں ملازمت مل گئی ۔ ہم بھائیوں نے شاہ جیونہ کے سکول جھنگ کے گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا ۔ میں اورمیرا بھائی اشرف بی ایڈ کر کے محکمہ تعلیم میں جاب کرنے لگے ۔ بھائی اکرم واہ فیکٹری میں ملازم ہو گئے۔ بڑی بہن کی شادی بھی ایک خوشحال گھرانے میں ہو گئی اوروہ بیاہ کر رحیم یار خان چلی گئیں۔
یہ ہماری کہانی کہ کس طرح ہم اپنا آبائی وطن چھوڑ کر آزاد وطن پاکستان میں آکر بس گئے ۔ اگرچہ ہمیں اپنا آبائی گائوں آج تک یاد آتا ہے لیکن آزادی کے لیے قربانیاں تو دینا پڑتی ہیں ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکرادا کرتے ہیں کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہؤا ۔ اللہ تعالیٰ اسے تا قیامت قائم دائم رکھے اورخوشحالیوں سے سرفراز فرمائے ( آمین )۔
٭٭٭