قبالا کی مسجد میں
تقریباً ساڑھے پانچ بجے کے قریب پارک سے اس ارادے سے نکلے کہ کچھ کھانے پینے کی جگہوں کو دریافت کر کے دوپہر اور رات کا کھانا جمع کیا جا سکے۔
دور سے اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی جو کہ بہت جلد ہمارے قریب آگئی کیونکہ ہم اتفاق سے مسجد کے راستے پر تھے۔ پونے چھےبجے عصر کی اذان ہو رہی تھی ۔بڑی سی مسجد خوبصورت طرز تعمیر اور وسیع احاطہ ۔پورے ٹرپ میں آج پہلی بار کسی مسجد میں جانے کا موقع مل رہا تھا اوپر والے حصے میں خواتین کے لیے انتظام تھا۔ ہمارے ساتھ دو خواتین اور تھیں جو نماز پڑھ رہی تھیں دو چھوٹی بچیاں کھیل رہی تھیں ۔نماز کے بعد تعارف حاصل کیا ،سلام کیا تو بڑی عمر کی خاتون نے انگریزی انگریزی کہہ کر نوجوان خاتون کی طرف اشارہ کیا مطلب کہ انگریزی میں بات کرنی ہے تو ان سے کر سکتے ہیں۔ ہم اس خوبصورت آذری لڑکی کی طرف متوجہ ہو گئے جو خالص قبالا سے تعلق رکھتی تھی اور گبالا کے گاؤں سے بیاہ کر شہر آئی تھی۔ دو چھوٹی پیاری سی بچیوں کی ماں اور قبالا کے ایک اسکول میں انگریزی کی ٹیچر۔
انگریزی سمجھنے والی خاتون کیا ملی حلق میں اٹکے سوالوں کا گولا تڑ تڑ تڑ گولیوں کی صورت میں برآمد ہونے لگا۔
یہاں کے مسلمانوں کا یورپی طرز زندگی، دینی علم کی کمی ،مساجد کی صورتحال، نماز ،قرآن جیسے بنیادی امور سے غفلت حتیٰ کہ نئی نسل میں بھی قرآنی تعلیم دلانے میں غفلت بڑی افسوسناک صورتحال وہ پیاری سی لڑکی اپنی قوم کی حالت دکھے دل سے بتا رہی تھی ۔خیر ہم تو مسجد دیکھ کر ہی خوش تھے کہ الحمدللہ مسجد تو ہے ورنہ نمازی تو ہمارے یہاں بھی نہیں ہوتے لیکن یہاں مساجد بھی نہیں ہوتیں۔
رات کا کھاناقبالا کہ ایک خوبصورت ہوٹل سوئیوگ بلاگ میں کھایا ہر طرف آبشاروں سے بہتا ہؤا پانی درمیان میں کھانے کے کیبن اگرچہ مناظر بڑے رنگین لیکن کھانے انتہائی سادہ۔ دنیا میں آپ کہیں بھی چلے جائیں جو پاکستانی کھانوں کا مزہ ہے وہ کہیں نہیں ملے گا۔
رات میں باربی کیو کا پروگرام بن گیا ۔قریبی مارکیٹ سے جا کر گوشت مرغی اور باربی کیو کے لیے ضروری سامان خرید کر لایا گیا اور اب لڑکے بالے کوئلے دہکانے اور انگیٹھی گرم کرنے میں سرگرم ہو گئے اور ہم گوشت میں مصالحہ لگانے میں ۔دن بھر چپہ چپہ چھانا ہو اور رات میں باربی کیو کرنا پڑ جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر خاص و عام کن حالات سے دوچار ہوگا۔ بچوں بڑوں کے آف آن ہوتے موڈز کے ساتھ بالآخر رات کے دو بجے فارغ ہوئے۔ یہ قبالا میں ہماری آخری رات تھی لہٰذا اسے یادگار بنانا مقصود تھا۔
اگلے دن ہمیں یہاں کے دو مشہور مقامات آبشار یدی گوزل واٹر فال اور نور لیک nour lakeکی سیر کرنا تھی۔ نور لیک پہاڑوں کے ساتھ ایک بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی جھیل ہے۔ یہ تقریبا ًاسی طرح کی جھیل ہے جیسے کہ ہمارے پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہیں بس فرق یہ ہے کہ جھیل کے کنارے پختہ لکڑی کا فرش بنا کر اور اس کے ساتھ وسیع باغ بنا کر ایک خوبصورت سیاحتی مقام کی شکل دے دی گئی ہے۔یہاں کی دکانوں سے آذری جیولری اور سووینیرز کی خریداری کی ،جام کی بوتلیں خریدیں ،جھیل کنارے بیٹھ کر قہوہ پیا ،کشتی کی سواری سے لطف اندوز ہوئے اور پھر آگے کا قصد کیا۔ایک دولہا دلہن اپنے فوٹوگرافر کے ہمراہ راہداریوں میں کھڑے بیٹھے مختلف پوز لے کر تصویریں کھینچوا رہے تھے۔
اب ہمیں آبشار کے لیے نکلنا تھا۔ اگرچہ یہ جگہ دور نہ تھی لیکن کافی دور گاڑی کو روک کر اوپر پہاڑ پر چڑھنا تھا ۔بہت ساری اور لا تعداد سیڑھیاں اور اوپر بہت اوپر پہاڑ کے پیچھے چھپی آبشار…. چڑھتے گئے چڑھتے گئے ۔سب لوگ تھک تھک کر جگہ جگہ بیٹھ رہے تھے پھر ہمت کرکے اوپر چڑھتے آخر کار مطلوبہ مقام پر پہنچ گئے۔
سبحان اللہ! پہاڑ کی بلندیوں سے تیزی سے گرتا ہؤا آبشار کا صاف ستھرا شفاف ٹھنڈا میٹھا پانی پتھریلی زمین پر گر کر آگے جا رہا تھا۔ لوگ سنبھل سنبھل کر پتھروں پر پیر جما کر کھڑے تھے اور تصویریں بنا رہے تھے لیکن حیرت کی بات تھی کہ کوئی بھی پانی میں نہیں نہا رہا تھا ۔اب سمجھ آیا کہ لوگ اتنا تیار ہو کر یہاں صرف قدرتی مناظر میں سیلفیاں لینے آ رہے تھے۔ لیکن ہماری رگوں میں تو پاکستانی خون دوڑ رہا تھا لہٰذا آبشار گرنے کے مقام کے قریب ہی ایک پتھر پر سنبھل کر بیٹھ گئے اور پیر نیچے بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیے اور خود بھی گیلے ہوتے گئے۔ شروع میں بچے ہمیں کہے جائیں کہ امی نہ جائیں اتنے قریب …. خطرناک ہوگا ،پھسل بھی سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن جب ہم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے تو وہ بھی سمجھ گئے کہ یہ تو پرانی کھلاڑی لگتی ہیں۔ ایک ایک کر کے سب آ کر بیٹھتے چلے گئے ۔جی تو بھرنا نہ تھا لیکن جب اتنا وقت گزار لیا کہ اوپر چڑھ کر آنے کی قیمت وصول ہوتی نظر آگئی تو پھر واپسی کا قصد کیا۔ آج ہمیں باکو کے لیے روانہ ہونا تھا ۔لہٰذا واپسی کا سفر شروع کیا تاکہ دن کی روشنی میں ہی لمبا فاصلہ طے کرلیا جائے۔
اب کےہمارا قیام ایک گنجان آباد علاقے میں موجود ہوٹل میں تھا۔ صرف پہلی اور دوسری منزل پر ہوٹل کے کمرے تھے جبکہ باقی اوپر کی منازل رہائشی تھی۔ اس طرح ایک کمپاؤنڈ کی صورت میں چاروں طرف بلند قامت رہائشی فلیٹس تھے اور درمیان میں بینچیں جھولے لگے ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے کمرے کی کھڑکی فلیٹس کے اندر کے کمپاؤنڈ کی طرف کھلتی تھی ۔ڈھلتی شام میں بچے، بوڑھے، جوان ،خواتین اور مرد اپنی اپنی ٹولیوں میں کمپاؤنڈ میں نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر خواتین تھیں جو بچوں کو لے کر آئی ہوئی تھی ہمارا دل کر رہا تھا کہ ہم بھی ان کے درمیان جا کر بیٹھ جائیں لیکن سارے دن کی تھکن سے جسم چور تھا لہٰذا آرام کا ارادہ کیا کیونکہ اگلے دن ہمیں واپسی کا سفر بھی کرنا تھا ۔
صبح کا ناشتہ ہوٹل کی طرف سے تھا لیکن بوفے نہ تھا بلکہ ٹرے میں رکھ کر کمروں میں بھجوایا گیا۔ بوائل اور فرائیڈ انڈے دو تین قسم کی فریش جام ،چیز ، وہی بن نما بریڈ اور کیتلی بھر قہوہ ….سب نے ناشتے سے خوب انصاف کیا کہ یہ باکو میں ہمارا آخری قیام اور طعام تھا۔
ناشتے کے بعد جب توانائی بحال ہوئی تو ہمارا خیال پھر کھڑکی سے نظر آنے والے کمپاؤنڈ کی طرف چلا گیا ۔پردہ ہٹا کر دیکھا تو بڑی عمر کی خواتین ایک ٹولی کی صورت میں بیٹھی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھال رہی تھیں۔ کچھ جھولوں پر ان کے شوق پورے کروا رہی تھیں۔ دل میں خیال آیا کیوں نہ جا کر ان سے کچھ بات چیت کی جائے۔ جانے کی تیاری تو ساری مکمل کر ہی لی تھی۔ سامان وغیرہ پیک تھا ایک بچے کو ساتھ لیا کہ ہمارے ساتھ آ جائے اور بلڈنگ کے درمیان میں موجود گیٹ سے اندر کمپاؤنڈ میں داخل ہو گئے۔ گاڑیوں کی پارکنگ فلیٹس کے رہائشیوں کے لیے زیر زمین بنائی گئی تھی ۔اس وقت لوگوں کی تعداد شام کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ہمت کر کے ہم نے ایک خاتون کو ٹارگٹ کیا جو دو بچوں کو لے کر ٹہل رہی تھیں ۔سلام کے تبادلے کے بعد وہ ہمیں اجنبی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ۔ہم نے ہمت مجتمع کی اور کہا کہ’’میں پاکستانی ہوں‘‘۔
’’تو میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں‘‘ سرد سا جواب آیا۔
’’ میں آپ سے آذربائجان اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں‘‘۔ بڑی مشکل سے منہ سے نکلا ۔
’’میرےپاس ٹائم نہیں میں مصروف ہوں‘‘۔آخری جواب اور ہم لاجواب الٹے پیروں خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ بیٹے صاحب کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ایسے موقعوں پر بچے امی سے زیادہ اپنی انسلٹ محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔
لامان سے ملاقات
باہرآ کر اوپر کمرے میں جانے کا دل نہ چاہ رہا تھا ،یوں ہی آس پاس کا جائزہ لیتے رہے ۔پھر خواہش نے سر اٹھایا دل نے سرگوشی کی ضروری تو نہیں کہ سب ایسی ہی ہوں۔ دوسری طرف بھی کچھ خواتین تھیں ایک ٹرائی اور کر لینے میں کیا حرج ہے۔ ہم نے ہمت کر کے پھر قدم اندر کی طرف بڑھا دیے….اکیلے بالکل ۔
اب کے ہمارا رخ بڑی عمر کی خواتین کے اس گروپ کی طرف تھا جو چھوٹے بچوں کو سنبھال رہی تھیں۔ ہمارے خیال میں یہ ان کی نانیاں دادیاں تھیں اور ان کی مائیں جاب پر تھیں۔ قریب جا کر سلام وغیرہ کیا۔ خلاف توقع اچھا رویہ سامنے آیا، وہی گرم جوشی اور محبت کا اظہار جسے ہم نے اپنے پورے ٹرپ میں محسوس کیا تھا اور جس کی وجہ سے ہم اب تک مایوس نہ ہوئے تھے ۔خواتین نے ہمیں بٹھا لیا ۔یہ انگریزی نہ جانتی تھیں بہت کم بات سمجھتی تھیں لیکن پاکستان کا نام سن کر گرم جوشی کا اظہار کرنے لگیں۔ اپنا تعارف بھی بتانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اتنے میں ایک 14 سالہ بچی قریب آئی انہوں نے کہا یہ انگریزی اچھی جانتی ہے ۔شرٹ ٹراؤزر میں ملبوس پیاری سی بچی بہت خوش اخلاق ،ادب اور تہذیب سے آراستہ۔
کتنی دیر ہم آپس میں باتیں کرتے رہے ،ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ، زیادہ تر ہمیں ہی وہ سب جاننا تھا جو ہمارے دماغ میں چل رہا تھا ۔لامان نے بتایا کہ ساری خواتین ان کی بے بی سٹرز ہیں ۔گرینڈ پیرنٹس اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور وہ لوگ ویک اینڈ پر ان سے ملنے جاتے ہیں ،امی ابو جاب کرتے ہیں ۔آج کل اسکولوں کی چھٹیاں ہیں اس لیے تمام بچے اپنے بےبی سٹرز کے ساتھ کمپاؤنڈ میں نظر آرہے ہیں ۔ان کے اسکولوں میں فرینچ ،انگریزی اور آذری زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، قرآن کی تعلیم جو لوگ ضروری سمجھتے ہیں وہی اپنے بچوں کو دلاتے ہیں۔ لامان بھی قرآن پڑھنا جانتی ہے لیکن پورا نہیں۔ لیکن اسے دینی تعلیم حاصل کرنا بہت پسند ہے وہ مذہب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتی ہے اور یہ کہ وہ بڑے ہو کر انٹرپریٹر بننا چاہتی ہے۔ اس نے کہا یہاں سب لوگ مسلمان ہیں صرف آنے والے سیاح ہی غیر مسلم ہوتے ہیں باقی ہم سب الحمدللہ مسلمان ہیں۔ یہاں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے لوگ بھی بڑی تعداد میں رہ رہے ہیں ۔ایک اور بچے کو خواتین نے متعارف کروایا ،تقریباً آٹھ سال عمر ہوگی ،بھورے بال بھویں اور پلکیں بھی بھوری۔شکل و صورت سے آذری نہیں لگتا تھا۔ خواتین نے کہا یہ انگریزی بہت اچھی بولتا ہے ۔اس سے تعارف لیا تو اس نے کہا کہ وہ اٹلی سے یہاں آیا ہے، والدہ جاب پر ہیں اور وہ یہاں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔اسی طرح ایک رشین خاتون بھی تھی جنہوں نے حجاب سے اپنا سر کور کر رکھا تھا۔ ایک خوبصورت رنگین دنیا !سبحان اللہ طرح طرح کے لوگ لیکن خوبصورت دل کے مالک۔ وہ وضع قطع سے مسلمان لگتے نہ تھے لیکن ان کے پاس ایک نیک دل اور سلیم فطرت موجود تھی۔ لامان سے مل کر تو نئی نسل کی طرف سے بھی ایک امید پیدا ہوئی کہ زمین تو نرم ہی ہے بس بیج ڈالنے کی دیر ہے ،اللہ ان تمام مسلمان ریاستوں میں موجود مسلمانوں تک صحیح دین کا علم پہنچانے کے ذرائع پیدا کر دے۔
لامان سے جدا ہوتے وقت دل سے دعا نکلی۔ آنکھیں نم تھیں، میں نے کہا ہم آئندہ بھی رابطے میں رہیں گے۔ ایک دوسرے کا نمبر لے لیتے ہیں۔ وہ بچی تھی اس کی بے بی سٹرنے اسے اس کی ماں کا نمبر دینے سے منع کر دیا ۔ظاہر ہے اجنبیوں کو دینا بھی نہیں چاہیے اس لیے ہم نے کہا کہ ہمارا نمبر لے لو ۔پرس میں ہاتھ ڈالا تو کاغذ نہ تھا قلم ہاتھ میں آگیا ،اس نے فورا ًاپنی کلائی آگے کر دی کہ اپنا نمبر یہاں لکھ دیں ۔’’ہم نے نام اور نمبر اس کی کلائی پر لکھ کر اسے ہدایت کی کہ ہاتھ دھونے سے پہلے محفوظ کر لینا وہ مسکرا دی‘‘ یقیناً۔
اس دفعہ خارجی دروازے کی طرف واپسی بوجھل قدموں کے ساتھ تھی مڑ مڑ کر ان پیارے لوگوں کو ہاتھ ہلا رہے تھے اور وہ بھی، گویا کوئی پرانا ساتھی ان سے جدا ہو رہا ہو۔ قدم بوجھل لیکن دل خوشی اور طمانیت سے لبریز۔ روانگی کا وقت ہو چلا تھا شوہر اور بچے گاڑی میں سامان رکھ رہے تھے لہٰذا سیدھا آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔
فلائی دبئی حسب معمول پھر لیٹ تھی اس لیے باکو ایئرپورٹ گھومنے کا موقع مل گیا۔ یہاں اگر باکو کے حیدر علیوف ایئرپورٹ کے بارے میں چند جملے نہ لکھے جائیں تو سخت زیادتی ہوگی عمارت نسبتاً چھوٹی ہے لیکن بہت تیکنیک سے بنائی گئی ہے ۔تمام ایئر لائنز کے کاؤنٹر باہر ہی بنے ہوئے ہیں جہاں سے سامان کا وزن وغیرہ کروا کر جہاز میں بھیج دیا جاتا ہے اوپر کی منزل پر بورڈنگ لاؤنج، ڈیوٹی فری، کیفے، واش رومز، نماز کا مخصوص حصہ وغیرہ بنے ہوئےہیں ۔
اجنبی خاتون کا سوال
ہوائی اڈوں پر واش رومز میں ایسے نلکے لگے ہوتے ہیں جن میں ہاتھ قریب لے جانے پر پانی خود بخود آنا شروع ہو جاتا ہے اور ہاتھ نیچے کرنے پر بند ہو جاتا ہے، یہ طریقہ پانی کے بےجا استعمال کو روکنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں کو پہلی بار اس طریقے سے واسطہ پڑتا ہے وہ تھوڑا پریشان ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بھارتی خاتون ہمارے برابر والے واش بیسن پرنل کھولنے کی جگہ تلاش کر رہی تھی۔ ہم نے فورا ًمدد کی اور اردو میں انہیں بتایا کہ آپ اس طریقے سے ہاتھ قریب لے جا کر مطلوبہ مقصد حاصل کر سکتی ہیں۔
اب وہ حیرانی سے ہماری طرف متوجہ تھیں۔ ہم سمجھ گئے فورا ًان کی حیرانی دور کرتے ہوئےکہا’’پاکستانی ہوں پاکستان سے ہوں،اردو زبان ہے اس لیے آپ کو ہندی میں سمجھنے کی مشکل نہیں ہوئی‘‘ ۔
اپنی زبان میں گفتگو سن کر خوش ہو گئیں اور پھر انہوں نے ایک عجیب سا سوال کر ڈالا کہنے لگیں،’’آپ سے کچھ پوچھوں تو برا تو نہیں مانیں گی‘‘ ہم نے جتنے خوش اخلاقی کے درس پڑھ رکھے تھے سب اپنی حسیات میں جمع کیے اور پر اعتماد انداز میں جواب دیا،’’ جی جی ضرور‘‘ حالانکہ دل میں سخت اندیشہ لاحق تھا کہ اگر یہ انہوں نے پوچھ لیا کہ کیا یہ مسلمان ملک ہے اور یہ سب مسلمان ہیں تو ہم کیا جواب دیں گے۔ بہرحال انہیں بھی اندازہ تھا کہ اپنے مذہب کی بھی لاج رکھنی ہے اور جو پوچھنا ہے اس طرح پوچھنا ہے کہ کسی ہندو کا کوئی برا امیج مخاطب پر نہ پڑ جائے۔ خیر الفاظ کو بہت ناپتے تولتے جب انہوں نے سوال کیا تو وہ پردے کے متعلق تھا کہ کچھ لوگ پورا منہ چھپاتے ہیں کچھ نہیں چھپاتے اور کچھ تو اتنے سخت ہوتے ہیں کہ کھانا بھی نقاب کے اندر سے کھاتے ہیں تو کیا یہ سب الگ الگ فرقے ہیں مسلمانوں کے۔
میں ان کے سوال پر حیران تھی کہ ایک عام انسان ایک باحجاب خاتون کا کس کس طرح مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ خوشی بھی ہوئی کہ انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا اور اللہ نے ان کی ایک الجھن کو دور کرنے کا مجھے موقع دیا۔ سچ ہے کہ دین کتابوں سے نہیں کردار و عمل سے پھیلتا ہے ہر مسلمان خود چلتا پھرتا اسلام کا پیغام ہے ہم سب کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مختصر سی ملاقات نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا۔
آذربائجان کا سفر خیر و عافیت سے پایا تکمیل کو پہنچا ان ارادوں کے ساتھ کہ اگلی بار کسی اور نئی جگہ کی سیاحت کی جائے گی ۔البتہ آذری سوغات میں دیگر چیزوں کے علاوہ گھٹنے اور کمر کے درد بھی ساتھ لائے جو یقینا ًوقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائیں گے لیکن اس حسین اور دل نشین سفر کی یادیں ہمیشہ ہماری یادوں میں محفوظ رہیں گی ۔
(ختم شد)
ہم ایسی تحریریں شائع نہیںکرتے!
٭…جن میںآیات، احادیث اور اقوال کے حوالے موجود نہیں ہوتے۔
٭…جن کامواد ہمارے کالموں کے مطابق نہیں ہوتا۔
٭…جن میں املا اور گرائمر غلط ہوتی ہے۔
٭…جن کی لکھائی پھیکی، خراب اور شکستہ ہوتی ہے۔
٭…جو صفحے کے دونوں جانب لکھی گئی ہوتی ہیں۔
٭…جوہمارے کالم کی مطلوبہ طوالت سے زیادہ ہوتی ہیں۔
٭…شاعری ہے تو شعری پیمانوں کے مطابق نہیں ہوتی۔
٭…لکھنے والے کا اصل نام، مکمل پتہ اور فون نمبر موجود نہیں ہوتا۔
’’بتول‘‘آپ کا اپنا رسالہ ہے۔ اس کا معیار
برقرار رکھنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیجیے۔