یوم حنین کا ایک واقعہ
ولید بن مسلم نے بیان کیا ہے، مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے ، ان سے ابوبکر الہذلی نے، ان سے ابن عباس کے غلام عکرمہ نے اور ان سے شیبہ بن عثمان نے روایت بیان کی۔ شیبہ کہتے تھے کہ میں نے یومِ حنین کے موقع پر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تنہا ہیں۔ مجھے اپنا باپ اور چچا یاد آئے۔ انھیں علیؓ اورحمزہؓ نے قتل کیا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ آج انتقام کا موقع ملا ہے۔
میں نے آپؐ کے دائیں جانب سے آپ ؐ کا رخ کیا۔جوں ہی میں قریب پہنچا تو آپؐ کے دائیں جانب عباسؓ کو دیکھا۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپؐ کے چچا ہیں۔ آپ کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت عباسؓ نے زرہ پہن رکھی تھی، جو چاندی کی طرح سفید تھی اور اس پر غبار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے بائیں جانب سے حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ قریب پہنچا تو آپ کے ساتھ ابوسفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو پایا۔ میں نے سوچا یہ آپؐ کا چچا زاد بھائی ہے، یہ آپ کا بے جگری سے دفاع کرے گا۔ میں پیچھے ہٹ آیا اور سوچا کہ پشت سے حملہ کروں۔ پیچھے سے آیا تو بس تلوار چلانے کی کسر تھی۔ میں نے تلوار اٹھانے کا ارادہ کیا تو اچانک میرے اور آپؐ کے درمیان آگ کے شعلے حائل ہو گئے۔ یہ شعلے اتنے سخت اور تیز تھے کہ بجلی کی طرح میری آنکھوں کو چکا چوند کر دیا۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ روشنی میری بینائی سے مجھے محروم ہی نہ کر دے۔ میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور الٹے پائوں پیچھے بھاگا۔
اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف التفات فرمایا اور کہا:’’اے شیبہ، اے شیبہ، میرے قریب آئو۔‘‘ پھر دعا مانگی۔’’اے اللہ شیبہ سے شیطان کو دور فرما دے۔‘‘
میںنے آپؐ کی جانب آنکھ اٹھائی۔ اس وقت آپؐ مجھے اپنی آنکھوں، کانوں اور جان سے زیادہ عزیز ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یا شبیہ قاتل الکفار۔ یعنی اے شیبہ کفار سے قتال کرو۔‘‘
پھر میں نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر مٹی لی اور دشمنوں کی طرف پھینک دی۔ وہ مٹی سارے دشمنوں کی آنکھوں میں پڑ گئی۔
ابو محذورہؓ موذن
امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ان سے روح بن عبادہ نے ، ان سے ابن جریح نے، ان سے عبدالعزیز بن عبدالملک ابن ابی محذورہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انھیں عبداللہ بن محیریز نے بتایا اور یہ عبداللہ یتیم تھے اور ابو محذورہؓ کی سرپرستی میں پلے بڑھے تھے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل انھوں نے حضرت ابو محذورہؓ سے کہا: ’’شام کے لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کیا بتائوں؟‘‘
حضرت ابو محذورہ ؓ نے اپنا واقعہ یوں بیان کیا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ حنین کی جانب نکلا۔ ہم راستے میں تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ حنین سے واپس آتا ہؤا راستے میں ملا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن نے اذان پڑھی۔ ہم نے کچھ فاصلے سے اذان کی آواز سنی۔ ہم راستے سے الگ ہو کر بیٹھ گئے تھے، ہم نے اذان سن کر اس کے الفاظ کو مذاق اور استہزا کے طور پر دہرانا شروع کر دیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری آواز سن لی۔ آپؐ نے کسی کو حکم دیا کہ ہمیں آپ کے سامنے حاضر کیا جائے۔ جب ہمیں آپؐ کے سامنے لایا گیا تو آپؐ نے فرمایا:’’تم میں سے کس کی آواز بلند تھی؟‘‘ یہ سن کر سب نے میری طرف اشارہ کر دیا اور وہ اس معاملے میں سچے تھے۔ آپؐ نے باقی سب کو جانے کی اجازت دے دی مگر مجھے پابند کر دیا ۔ پھر حکم دیا۔ ’’اٹھ اور اذان پڑھ۔‘‘
میں حکم سن کر اٹھا، اس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے زیادہ مجھے کسی چیز سے نفرت اور عداوت نہ تھی۔ جس چیز کا آپؐ نے مجھے حکم دیا تھا وہ بھی مجھے ازحد نا پسند تھی۔ بہرحال میں اٹھا اور آپؐ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ آپؐ نے مجھے اذان کے کلمات سکھائے اور فرمایا:’’اب بلند آواز سے کہنا شروع کر دے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ۔ اشہد ان محمد رسول اللہ۔ حیی علی الصلوٰۃ۔ حیی علی الفلاح ۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللہ۔
جب میں نے اذان مکمل کی تو آپؐ نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی مرحمت فرما دی جس میں کچھ چاندی تھی۔ اس کے بعد آپؐ نے میری پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا، پھر وہ میرے چہرے پر پھیرتے ہوئے میرے سینے تک لائے اور میرے پیٹ اور کلیجے پر پھیرا، پھر میری ناف تک آپؐ نے ہاتھ پھیرا۔ اس کے بعد آپؐ نے دعا فرمائی۔ ’’اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے اور تیرے اوپر اپنا فضل و کرم کرے۔‘‘
اب میری قلبی حالت بدل چکی تھی۔ میں نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلم مجھے مکہ میں موذن مقرر فرما دیجیے۔‘‘ آپؐ نے کہا:’’جائو میں نے تجھے حرمِ مکہ کا موذن مقرر کر دیا ہے۔‘‘
اب میرا دل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے یوں بھر گیا تھا کہ کائنات کی کوئی چیز مجھے آپؐ سے زیادہ محبوب نہ تھی۔ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ عامل مکہ حضرت عتاب بن اسید کے پاس آیا اور انھیں پورا واقعہ سنایا۔ چنانچہ اس وقت سے میں اذان کی ذمہ داری نبھا رہا ہوں۔‘‘ سنن البیہقی میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابو محذورہؓ کی اولاد، ان کے پوتے، اور پرپوتے سب مسجد حرام میں اذان دیا کرتے تھے۔
دشمن کے جاسوسوں پر ملائک کا حملہ
فتح مکہ کے بعد شعبان ۸ ھ میں غزوہ حنین وقوع پذیر ہؤا۔ اس میں قبیلہ بنی ہوازن سے سخت جنگ ہوئی۔ بنی ہوازن کے سردار مالک بن عوف نے حالات معلوم کرنے کے لیے اپنے جاسوس بھیجے۔ وہ اعضاء دریدہ اور مخبوط الحواس ہو کر واپس آئے۔ اس نے پوچھ:’’تمھیں کیا ہؤا؟‘‘ انھوں نے کہا:’’ہم نے سفید رنگ کے آدمی دیکھے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے۔ واللہ! ہم خود کو اس حال سے بچا نہیں سکے ہیں جو آپ دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ یہ دیکھ کر بھی باز نہ آیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قتال کے لیے اٹھ کھڑا ہؤا۔ جاسوسوں نے جو آدمی دیکھے تھے وہ دراصل فرشتے تھے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے:
’’پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔ اور ایسے لشکر اتارے جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔‘‘ (التوبہ ۲۶۰)
عدی بن حاتم کو رسولؐ اللہ کی پیشین گوئیاں
یہ ربیع الاول ۹ ہجری کا واقعہ ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عدیؓ سے مروی ہے کہ میں خدمت نبوی میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے آ کر فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے آدمی نے آ کر رہزنی کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا عدی: ’’تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ اگر تمھاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھ لو گے کہ ہودج نشین عورت حیرہ سے چل کر آئے گی، خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔ اور اگر تمھاری زندگی دراز ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ اور اگر تمھاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھو گے کہ آدمی چلو بھر کر سونا یا چاندی نکالے گا اور ایسے آدمی کو تلاش کرے گا جو اسے قبول کرلے تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا …‘‘
اسی روایت کے آخیر میں حضرت عدی کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہودج نشین عورت حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں۔ اور میں خود ان لوگوں میں تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی دراز ہوئی تو تم لوگ وہ چیز بھی دیکھ لو گے جو نبی ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ آدمی چلو بھر سونا یا چاندی نکالے گا۔
غزوئہ تبوک کے واقعات، ۹ ہجری
ابو خیثمہ ؓ کی آمد کی خبر
غزوئہ تبوک کے سفر میں ابو خیثمہ جیش سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ ایک دن انھوں نے آ کر دیکھا کہ ہر ایک نے پانی چھڑک کر اپنا اپنا چھپر ٹھنڈا کر دیا ہے اور اپنے خاوند کے لیے کھانے اور ٹھنڈے پانی کا انتظام کر رکھا ہے۔ یہ دیکھتے ہی ابو خیثمہ ؓ نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی اور دھوپ میں ہوں اور ابو خیثمہ ٹھنڈک اور سایے میں ہو، واللہ! یہ انصاف نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! میں ان میں سے کسی چھپر میں نہیں جائوں گا بلکہ میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جائوں گا۔‘‘ چنانچہ ان کا زادِ راہ تیار کر دیا گیا اور وہ اپنے اونٹ پر سوار ہو کر تبوک کی جانب آپؐ کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئے۔ مجاہدین نے دور سے دیکھا تو عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک سوار آ رہا ہے۔‘‘ فرمایا:’’ابو خیثمہ ہو گا۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! وہ واقعی ابو خیثمہ ہے۔‘‘ انھوں نے حاضر خدمت ہو کر اپنا واقعہ کہہ سنایا تو آپؐ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔
حضرت ابوذرؓ کے بارے میں پیشین گوئی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جانب محو سفر تھے۔ جب کوئی شخص پیچھے رہ جاتا اور آپؐ کو اس کا بتلایا جاتا تو فرماتے۔
’’اسے چھوڑ دو! اگر اس میں خیر ہے تو اسے اللہ تمھارے ساتھ ملا دے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ نے اس سے تمھیں بچا چھوڑا ہے۔‘‘
اسی دوران سیدنا ابوذرؓ کا اونٹ رک گیا۔ جب وہ کسی طور نہ چلا تو انھوں نے اسے وہیں چھوڑ دیا اور سامان پیٹھ پر لاد کر پیدل ہی حضوؐر کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ جب آپؐ نے کسی جگہ پڑائو ڈالا تو مجاہدین نے انھیں دیکھا اور عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک آدمی پیدل آ رہا ہے۔‘‘ فرمایا:’’کاش! ابوذر ہو۔‘‘ انھوں نے غور سے دیکھا تو کہا:’’واللہ! یہ واقعی ابوذر ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:
’’ابوذر پر اللہ تعالیٰ رحم کریں! یہ اکیلا چل رہا ہے، اکیلے ہی فوت ہو گا اور قبر سے بھی اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔‘‘
زمانہ گزرتا گیا اور ابوذؓر کو ربذہ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ جب ان کی موت کا وقت آیا تو بیوی اور غلام کے سوا ان کے پاس کوئی نہ تھا۔ انھوں نے وصیت میں کہا کہ مرنے کے بعد مجھے غسل دے کر اور کفن پہنا کر راستے میں رکھ دینا اور جب پہلے قافلے کا گزر ہو تو ان سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ابوذر ہے، اس کی تدفین میں ہماری مدد کرو۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ عبداللہ بن مسعودؓ ایک عراقی جماعت کے ساتھ عمرہ کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں پڑی میت نے انھیں چونکا دیا اور قریب تھا کہ ان کے اونٹ اسے روند ڈالیں، غلام نے اٹھ کر ان سے کہا:’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوذرؓ ہیں۔ ان کی تدفین میں ہماری مدد کرو۔‘‘ یہ سن کر ابن مسعودؓ رو پڑے اور کہا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ تم اکیلے ہی چلو گے، اکیلے ہی مرو گے اور اکیلے ہی اٹھو گے۔‘‘ چنانچہ ابن مسعودؓ نے اپنے ساتھیوں سمیت نیچے اتر کر انھیں مٹی میں دفن کر دیا۔ یہ بھی آپؐ کی نبوت کی ایک نشانی ہے۔
بارش اور تبوک کا چشمہ
تبوک کی جانب سفر کرتے ہوئے راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا۔ آپؐ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔
پھر جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپؐ نے فرمایا:’’کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جائو گے لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ یہاں تک کہ میں آجائوں۔‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دو آدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے؟ انھوں نے کہا جی ہاں! آپؐ نے ان دونوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا، فرمایا۔ پھر چشمے سے چلو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا یہاں تک کہ قدرے جمع ہو گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا چہرہ اور ہاتھ دھویا، اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرامؓ نے سیر ہو کر پانی پیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے معاذ! اگر تمھاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔‘‘
ناقۂ رسولؐ اور منافق
ابن اسحاق نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر تبوک کے واقعات لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ راستے میں کسی جگہ آپؐ کی اونٹنی گم ہو گئی۔ آپؐ کے صحابہ اونٹنی کی تلاش میں نکلے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مخلص صحابی حضرت عمارہ بن حزمؓ تھے۔ وہ بیعت عقبہ اور بدر میں شمولیت کے شرف سے سرفراز تھے۔ ان کے گروپ میں زید بن لصیت قینقاعی بھی تھا جو منافق تھا۔ حضرت عمارہؓ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور زید ان کی قیام گاہ میں تھا۔ اس نے قیام گاہ میں لوگوں سے کہا:’’کیا محمدؐ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ اللہ کا نبی ہے اور تمھیں آسمان کی خبریں سناتا ہے اور اسے یہ بھی پتا نہیں کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے؟‘‘
حضرت عمارہؓ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ آپؐ نے ان سے کہا: ’’ایک شخص نے یہ اور یہ باتیں کہی ہیں اور میں تو کہتا ہوں کہ بخدا مجھے وہی کچھ معلوم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ مجھے بتا دے۔ ابھی ابھی مجھے اللہ نے میری ناقہ کی خبر دی ہے۔ یہ اس وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ ایک درخت کے ساتھ نکیل اڑ گئی ہے اور وہیں کھڑی ہے۔ جائو اور وہاں سے اسے پکڑ کر لے آئو۔‘‘
صحابہ کرامؓ گئے اور اسی جگہ پر اونٹنی کو پایا۔ چنانچہ وہ اسے لے آئے۔ حضرت عمارہ بن حزامؓ اپنی قیام گاہ پر پہنچے تو لوگوں سے کہا:’’بخدا ابھی ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک بات کی ہے جو بڑی عجیب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ایک شخص نے یہ اور یہ بات کی ہے۔‘‘ قیام گاہ میں موجود لوگوں نے بتایا کہ یہ بات تو تھوڑی دیر قبل زید بن لصیت نے کہی تھی۔
حضرت عمارہؓ کو یہ سن کر سخت غصہ آیا۔ انھوں نے اسی وقت زید کو گردن سے پکڑا اور لوگوں کو پکار کر کہا:’’اللہ کے بندو میرے خیمے میں ایک ’’ہوشیار، چالاک‘‘ (خطرناک) آدمی تھا اور مجھے اس کی خبر ہی نہ تھی۔‘‘ پھر اسے مخاطب کرکے کہا:’’اے دشمن خدا میرے خیمے سے نکل جا اور میرے ساتھ کبھی نہ چلنا، نہ میرے قریب پھٹکنا۔‘‘
طعامِ بلالؓ
واقدی نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے یونس بن محمد نے یعقوب بن عمر بن قتادہ کے حوالے سے بیان کیا کہ بنی سعد بن ہذیم کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں ایک مقام پر تشریف فرما تھے۔ آپؐ کے ساتھ چھ ساتھی تھے اورآپ ساتویں تھے۔ میں وہاں پہنچا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا، میں بیٹھ گیا اور عرض کیا:’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔‘‘
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے فلاح پا لی ہے۔‘‘ پھر حضرت بلالؓ کو آواز دی اور فرمایا:’’بلال ہمیںکھانا کھلائو۔‘‘ حضرت بلالؓ نے زمین پر چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا اور ایک تھیلے میں سے کھجور، گھی اور پنیر کی بنی ہوئی پنجیری نکالی۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا:’’بسم اللہ کیجیے اور کھائیے۔‘‘ ہم سب نے کھانا کھایا اور سیر ہو گئے۔ میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ کھانا تو اتنا کم تھا کہ شروع میں میںنے سوچا کہ میں تنہا یہ کھا جائوں گا مگر یہ ہم سب کو کفایت کر گیا۔‘‘آپؐ نے فرمایا:’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘
میں اگلے دن پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا، میں ظہرانے میں بھی شرکت کرنا چاہتا تھا اور اس سے دو باتیں مقصود تھیں۔ ایک تو یہ کہ کھانا کھائوں اور دوسرے یہ کہ مزید اطمینان قلب اور یقین حاصل کروں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خصوصی برکات سے نوازا ہے۔ میں نے دیکھا کہ کھانے کا وقت ہؤا تو آپؐکے پاس دس افراد موجود تھے۔ آپؐ نے حضرت بلالؓ سے کہا:’’بلال کھانا لائو۔‘‘ چنانچہ حضرت بلالؓ نے دستر خوان بچھا دیا اور ایک تھیلی سے کھجوریں نکالنے لگے۔ وہ مٹھیاں بھر بھر کر کھجوریں دسترخوان پر ڈال رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:’’بلال کھلے دل سے کھجوریں یہاں نکال دو، عرش والے پر بھروسا رکھو اور یہ خوف دل میں نہ لائو کہ وہاں بخل سے کام لیا جائے گا۔‘‘
حضرت بلالؓ نے ساری کھجوریں ڈال دیں۔ میں نے اندازہ لگایاکہ وہ کھجوریں دو مد (تقریباً ڈیڑھ سیر) ہوں گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان کھجوروں کے اوپر رکھا اور فرمایا:’’بسم اللہ کرکے کھائیے۔‘‘ سب لوگوں نے خوب کھایا اور میں نے بھی ان کے ساتھ پیٹ بھر کر کھایا۔ میں خود کھجوریں کاشت کرتا تھا اور کھجوریں کھاتا بھی بہت تھا مگر مزید کھانے کی گنجائش نہ رہی۔ سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ دسترخوان پر کم و بیش اتنی ہی کھجوریں پڑی تھیں جتنی حضرت بلالؓ نے ڈالی تھیں، گویا ہم نے کچھ کھایا ہی نہ ہو۔
اگلے روز پھر میں نے ایسا ہی معاملہ دیکھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ سے کہا کھانا لائو۔ بلالؓ نے پچھلے دن والی کھجوریں دسترخوان پر پھیلا دیں۔ دس یا اس سے زیادہ افراد نے سیر ہو کر کھایا۔ یوں تین دن ایسا ہی ہوتا رہا۔
بنی سعد کا کنواں
واقدی نے کہا ہے کہ مجھے یونس بن محمد بن یعقوب بن عمر بن قتادہ نے محمود بن لبید کے حوالے سے یہ روایت سنائی کہ بنو سعد بن ہذیم کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تبوک کے مقام پر حاضر ہؤا۔ انھوں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی خدمت میں آئے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو اپنے ایک کنویں کے پاس چھوڑ آئے ہیں۔ اس کنویں میں پانی بہت قلیل ہے اور یہ شدید گرمیوں کا موسم ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم پانی کی تلاش میں ادھر ادھر منتشر ہو گئے تو ہم کسی مشکل میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے گرد و نواح میں ابھی تک اسلام زیادہ نہیں پھیل سکا۔ آپؐ ہمارے لیے دعا کریں کہ ہمارے کنویں میں پانی کی کثرت ہو جائے۔ اگر ہمیں سیرابی مل جائے تو آس پاس کا کوئی قبیلہ ہمارے مقابلے پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں مخالفین دین کا ہمارے مقابلے پر کوئی زور نہ چل سکے گا۔‘‘
آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’مجھے کچھ کنکریاں لا کر دو۔‘‘ انھوں نے آپؐ کو تین کنکریاں لا کر دیں۔ آپؐ نے ان کنکریوں کو ہاتھ میں لے کر ملا اور فرمایا:’’یہ کنکریاں لے جائو اور بسم اللہ پڑھ کر ایک ایک کنکری کنویں میں ڈالتے جانا۔‘‘
یہ کنکریاں لے کر وہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کنویں میں ڈال دیں۔ کنویں کا پانی جوش مارنے لگا۔ ان لوگوں نے اپنے آس پاس کے مشرکین کو وہاں سے نکال باہر کیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس پہنچے تو بنو سعد کے مسلمانوں کی کاوشوں سے پورا علاقہ اسلام سے روشناس ہو گیا اور اکثر لوگ مسلمان ہو گئے۔
نیل گائے کے شکار کی خبر
تبوک میں قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو چار سو بیس سواروں کا رسالہ دے کر دومۃ الجندل کے حاکم اکیدر کے پاس بھیجا اور فرمایا، تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے پائو گے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے۔ جب اتنے فاصلے پر رہ گئے کہ قلعہ صاف نظر آ رہا تھا تو اچانک ایک نیل گائے نکلی اور قلعہ کے دروازے پر سینگ رگڑنے لگی۔ اکیدر اس کے شکار کو نکلا۔ چاندنی رات تھی۔ حضرت خالدؓ اور ان کے سواروں نے اسے جا لیا اور گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا ۔ آپؐ نے اس کی جان بخشی کی اور دو ہزار اونٹ، آٹھ سو غلام، چار سو زرہیں اور چار سو نیزے دینے کی شرط پر مصالحت فرمائی۔ اس نے جزیہ بھی دینے کا اقرار کیا۔ چنانچہ آپؐ نے اس سے یحنہ سمیت دومہ، تبوک، ایلہ اور تیماء کے شرائط کے مطابق معاملہ طے کیا۔
ان حالات کو دیکھ کر وہ قبائل جواب تک رومیوں کے آلہ کار بنے ہوئے تھے، سمجھ گئے کہ اب اپنے ان پرانے سرپرستوں پر اعتماد کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے وہ بھی مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہو کر براہِ راست رومی سرحد سے جا ملیں اور رومیوں کے آلہ کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہو گیا۔
ہاتھ کی روشنی
تبوک سے واپسی کے سفر کے دوران تیز رفتاری کی وجہ سے بعض لوگوں کی سواریوں سے کچھ سامان گر پڑا۔ حضرت حمزہ بن عمرواسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ اس موقع پر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے) میری پانچوں انگلیاں ضوفشاں ہو گئیں، جن کی روشنی میں ہم نے اپنی چیزیں اکٹھی کیں حتیٰ کہ کوڑے اور رسی اور ان جیسی چیزوں کو بھی ہم نے دیکھا اور اٹھا لیا۔ ہمارے سامان میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی جو گری ہو اور ہم نے اسے پا نہ لیا ہو۔
شہید اسلام عروہ بن مسعودؓ
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے رمضان میں واپس مدینہ پہنچے۔ اسی ماہ میں بنو ثقیف کا وفد آپؐ کے پاس آیا۔ وہ تبوک میں آپؐ سے مل کر چلے گئے مگر ان میں سے ایک خوش قسمت انسان عروہ بن مسعود آپ کی مدینہ روانگی کے بعد آپ کے نقش قدم پر چلتا ہؤا آپ کی تلاش میں نکلا۔ وہ قدومِ مدینہ سے قبل ہی آپ سے آ ملا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو یہ ثقفی سردار مسلمان ہو گئے اور آپؐسے اجازت مانگی کی بنو ثقیف میںجا کر تبلیع کریں گے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ارادہ تو نیک ہے مگر تمھارے قبیلے کے لوگ تمھیں مار ڈالیں گے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ثقیف کی درشتی اور نخوتِ جاہلیہ کا علم تھا۔ حضرت عروہ بن مسعودؓ نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اپنی قوم کے درمیان ازحدمحبوب ہوں، وہ مجھ سے اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
ابن اسحاق مزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عروہؓ اپنی قوم کے درمیان بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کا حکم سنا اور مانا جاتا تھا۔ وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور اس امید پر کہ قوم میں ان کی عزت بھی ہے اور رعب بھی، اس لیے کوئی بھی ان کے حکم کی عدولی نہ کر سکے گا سب کو اسلام کی دعوت عام دے دی۔
قوم نے اس دعوت کو ٹھکرادیا۔ حضرت عروہؓ مسلسل یہ دعوت دیتے رہے۔ ایک بلند پہاڑی پر کھڑے ہو کر انھوں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا اور عام لوگوں کو شرک اور کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو نے کی دعوت دی۔ بنو ثقیف ہر جانب سے ان پر تیر برسانے لگے، جس سے وہ زخمی ہو گئے۔
جب زخمی ہو گئے تو ان سے پوچھا گیا:’’آپؓ اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ ان کے خاندان نے قاتل اور اس کے قبیلے سے انتقام لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میرے بدلے میں کسی کو مت قتل کرنا۔ یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا اور اس نے مجھے شہادت کے عظیم مرتبے پر اپنی خصوصی رحمت سے سرفراز کیا ہے۔ میری ایک ہی خواہش ہے کہ ان شہداء صحابہؓ کے پاس دفن کیا جائے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوئہ بنو ثقیف میں شامل ہوئے اور یہاں شہید ہوئے تھے۔‘‘ ایک روایت میں یہ بھی ہے شہادت سے قبل انھوں نے کہا :’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں ، انھوں نے مجھے اس شہادت کی خبر دی تھی۔‘‘
نجاشی کی موت، ۹ھ
امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے زہیر بن حرب سے، انھوں نے یعقوب بن ابراہیم سے، انھوں نے اپنے باپ ابراہیم سے، انھوں نے صالح سے اور انھوں نے شہاب سے سنا۔ ابن شہاب یہ روایت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور ابن المسیب کے حوالے سے بیان کیا کرتے تھے کہ ان دونوں کو حضرت ابوہریرہؓ نے بتایا کہ جس روز حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت واقع ہوئی اس روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس واقعے کی اطلاع دی اور فرمایا:’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو۔‘‘
موسیٰ بن عقبہ اپنی والدہ سے اور وہ ام کلثوم بنت ابی سلمہ سے روایت کرتی ہیں کہ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان سے کہا:’’میں نے ایک ریشمی حلہ اور کئی اوقیہ مِسک نجاشی کے لیے بطور ہدیہ بھیجا ہے مگر مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی فوت ہو گیا ہے اور میرا ہدیہ واپس آجائے گا۔ یہ ہدیہ واپس آگیا تو (حلہ) تیرا ہو گا۔
جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس کے مطابق نجاشی فوت ہو گیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہدیہ واپس آگیا۔ آنحضورؐ نے اپنی ہر بیوی کو ایک ایک اوقیہ مِسک دیا اور باقی ماندہ سارا مسک اور حلہ ام سلمہ کو دے دیا۔
قصواء- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی
قصواء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص اونٹنی تھی۔ یہ اونٹنی حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ہجرت سے چار سال قبل خریدی تھی اور ہجرت کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انھوں نے اسے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اسے حضرت ابوبکرصدیقؓ سے پوری قیمت دے کر خرید لیا، اس کے بعد یہ آپ کی وفات تک آپ کے پاس رہی۔
قصواء اور وحی الٰہی
اللہ تعالیٰ نے قصواء کو وہ قوت عطا کی تھی کہ وہ وحی کا بار برداشت کر سکے۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ یہ واحد سواری تھی جو وحی کا بار برداشت کرسکتی تھی۔ آپؐ اس پر سوار ہوتے اور اچانک آپ پروحی کا نزول شروع ہو جاتا۔ وحی کے نزول کے وقت آپؐ کا جسم اپنے وزن سے کئی گنا بھاری ہو جاتا،یہاں تک کہ اس کی تاثیر ارد گرد کی چیزوں پر بھی ہوتی تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے اور اچانک آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہو جاتا۔ اس کا اتنا بوجھ ہوتا کہ ہمیںایسا معلوم ہوتا کہ قصواء کی ہڈیاں چٹخ جائیں گی۔
وحی کے بوجھ کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اور روایت پیش خدمت ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت زید بن ثابتؓ کی ران پر سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے کہ اچانک وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ سیدنا زیدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم، قرآن کے بوجھ سے قریب تھا کہ میری ران کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔ میں سمجھا کہ آج کے بعد میں اپنے پیروں پر نہیں چل سکوں گا۔
قصواء کا غم
قصواء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیارہ سال رہی۔ اس پر آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ غزوئہ بدر تشریف لے گئے۔ صلح حدیبیہ اور عمرۃ قضا کے سفروں میں اس پر سوار ہوئے۔ فتح مکہ اور حجۃ الوداع میں بھی آپؐ کی شریک سفر رہی۔
آپؐ کی وفات جہاں تمام صحابہ کرام کے لیے عظیم صدمہ تھا وہاں قصواء کے لیے بھی یہ سانحہ کسی مصیبت سے کم نہ تھا۔ صحابہ کرام اس صدمہ سے نکل آئے مگر قصواء کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی برداشت نہ ہو سکی۔ شدتِ غم سے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہی۔ قصواء نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے رہتے تھے یہاں تک کہ صحابہ کرام نے اس کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ رسول اکرمؐ کے وصال کے بعد قصواء پر کوئی سوار نہ ہؤا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کا ایک سال بھی پورا نہیں ہؤا تھا کہ قصواء اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
سلمانؓ کا معاہدئہ آزادی
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلمان اپنے آقا کے ساتھ آزادی کے لیے شرائط طے کرکے معاہدہ کر لو۔‘‘ پس میں نے اس سے بات کی اور طے پایا کہ میں اس کے باغ میں کھجور کے تین سو درخت لگائوں گا اور چالیس اوقیہ سونا اسے دوں گا۔ اس کے بدلے وہ مجھے آزاد کر دے گا۔
معاہدہ آزادی لکھے جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے کہا:’’اپنے بھائی کی مدد کرو۔‘‘ چنانچہ صحابہؓ نے میری بھرپور مدد کی، کسی شخص نے کھجور کے تیس پودے دیے، کسی نے بیس، کسی نے پندرہ، کسی نے دس۔ ہر شخص نے اپنی قدرت و استطاعت کے مطابق میرے ساتھ تعاون کیا، یہاں تک کہ میرے پاس تین سو پودے جمع ہو گئے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ باغ میں جا کر گڑھے کھودوں۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ پودے زمین میں وہ خود اپنے دست مبارک سے لگائیں گے۔
میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے گڑھے کھودے۔ جب سارے گڑھے تیار ہو گئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ ہم پودے آپؐ کے ہاتھ میں تھماتے جاتے اور آپؐ انھیں زمین میں لگاتے جاتے تھے۔ آپؐ نے خود سارے پودے گاڑے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں سلمانؓ کی جان ہے، ان پودوں میں سے کوئی ایک بھی نہ سوکھا، نہ مرا۔ سارے پودے پلے بڑھے اور خوب پھل دیا۔
اب کھجوریں لگانے کی شرط پوری ہو گئی تھی مگر چالیس اوقیہ سونا دینا باقی تھا، وہ کہاں سے آئے گا۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ایک سریہ سے صحابہؓ لوٹے اور مرغی کے انڈے کے برابر سونے کی ایک ڈلی لائے۔ جب وہ سونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں پہنچا تو آپؐ نے میرے بارے میں پوچھا۔ میں حاضر ہؤا تو آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان! یہ سونا لے جائو اور اپنے آقا کو ادائیگی کرکے آزادی حاصل کر لو۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے پورا ہو گا؟‘‘ آپؐ نے اس کے اوپر اپنی زبان مبارک پھیری اور فرمایا:’’اسے لے جائو اور تول دینا یہ پورا ہو جائے گا۔‘‘
وہ ڈلی لے کر میں اپنے صاحب کے پاس گیا اور اسے سونا تول کر دیا اور یہ پورے چالیس اوقیہ ہؤا۔
نبوت کی قندیلیں
امام بخاری بیان کرتے ہیں (معاذ بن ہشام نے اپنے باپ سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی) کہ ایک اندھیری شب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابیؓ آپؐ کی مجلس سے اٹھ کر گئے۔ سخت تاریکی تھی مگر ان کے آگے آگے دو مشعلیں روشنی پھیلا رہی تھیں۔ جب دونوں الگ الگ ہوئے تو ہر ایک کے ساتھ ایک شمع رہ گئی۔ جس کی روشنی میں وہ اپنے گھروں تک پہنچ گئے۔
الاصابۃ کے مصنف نے ان دو صحابہؓ کے نام بیان کیے ہیں۔ ایک حضرت اسید بن حضیرؓ تھے اور دوسرے حضرت عبادہ بن بشرؓ۔ وہ کہتے ہیں کہ اندھیری شب میں ان میں سے ایک کا عصا روشن ہو گیا تھا اور جب ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو دوسرے صحابی کا عصا بھی روشنی پھیلانے لگا۔
ابو سلمہ نے حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک تاریک رات میں نماز عشاء کے لیے نکلے۔ آسمان پر تاریک بادل چھائے ہوئے تھے اور سخت اندھیرا تھا۔ اچانک بجلی چمکی اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بجلی کی روشنی میں حضرت قتادہ بن نعمانؓ کو دیکھا۔ آپ نے فرمایا:’’قتادہ‘‘۔ انھوں نے جواب دیا:’’ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں نے سوچا کہ اس تاریک رات میں بہت کم لوگ عشاء کی نماز میں حاضر ہوں گے تو میں نے چاہا کہ ضرور مسجد پہنچ جائوں۔‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نماز کے بعد جانے لگو تو مجھ سے مل کر جانا۔‘‘
چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر حضرت قتادہؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے انھیں کھجور کی ایک باریک سی چھڑی عطا فرمائی اور کہا:’’لو اسے پکڑ لو، یہ اندھیرے میں دس قدم تمھارے آگے اور دس قدم تمھارے پیچھے روشنی کرے گی۔‘‘
احد پہاڑ کا لرزنا
امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے محمد بن بشار سے، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے ۔ انھوں نے قتادہؓ سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالکؓ سے سنا کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ بھی تھے۔ آپؐ جب پہاڑ پر بیٹھے تو پہاڑ لرزنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا: اے احد ثابت قدم اور پر سکون ہو جا۔ بے شک تیرے اوپر ایک نبیؐ، ایک صدیقؓ اور دو شہید ہیں۔
مشک کا پانی
ایک مرتبہ نبی کریمؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے۔ کچھ دور جا کر لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور حضرت علیؓ اور ایک دوسرے صحابی کو بلایا اور فرمایا:’’جائو اور پانی تلاش کرو۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں گئے اور کچھ فاصلے پر انھوں نے ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر سوار تھی۔ اس نے اونٹ پر دو بڑی بڑی مشکیں پانی سے بھری ہوئی لاد رکھی تھیں۔ انھوں نے اس عورت سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:’’کل اس وقت میں چشمے سے چلی تھی۔‘‘ انھوں نے کہا:’’پھر ہمارے ساتھ آئو۔‘‘ وہ کہنے لگی۔’’کہاں؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔‘‘ وہ کہنے لگی:’’وہی شخص جسے صابی کہا جاتا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا۔’’ہاں تو ٹھیک سمجھ گئی ہے پس ہمارے ساتھ چل۔‘‘ پھر وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عورت کے ساتھ ہونے والی گفتگو بیان کی۔ آپؐ نے فرمایا:’’اس عورت کو اونٹ سے نیچے اتارو۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا اور دونوں مشکیزوں کا منہ کھول کر ان میں سے تھوڑا سا پانی برتن میں ڈالا اور مشکیزوں کا منہ بند کر دیا اور لوگوں کو آواز دی: ’’جس نے پانی پینا ہو آ کر پی لے اور جس نے برتن میں لینا ہو وہ برتن میں لے لے۔ پس جس نے چاہا پی لیا اور جس نے چاہا برتن میں لے لیا۔ آخر میں ایک برتن بھر کر اس شخص کو دیا جس نے جنابت کی شکایت کی تھی اور اسے فرمایا:’’جا اور اس پانی سے غسل کر لے۔‘‘
عمران مزید بیان کرتے ہیں کہ وہ خاتون کھڑی حیرت سے سب کچھ دیکھتی رہی۔ بخدا وہ ایسی مبہوت ہوئی کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس کے لیے کچھ کھجوریں، آٹا اور ستو جو تمھارے پاس ہے جمع کر دو۔‘‘ صحابہؓ نے کھانے پینے کا سامان جمع کیا اور اسے ایک کپڑے میں باندھ کر عورت کو اونٹ پر سوار کیا اور گٹھڑی اس کے آگے رکھ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو جانتی ہے ہم نے تمھارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانی پلایا ہے۔‘‘
جب وہ اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچی تو انھوں نے پوچھا کہ تو نے اتنی دیر کہاں کر دی؟ اس نے جواب دیا:’’عجیب و غریب واقعہ میں نے دیکھا ہے۔ راستے میں مجھے دو آدمی ملے جو مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے صابی کہا جاتا ہے۔‘‘ پھر اس نے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا:’’خدا کی قسم یا تو زمین اور آسمان کے درمیان اس سے بڑا جادوگر کوئی نہیں اور یا پھر وہ اللہ کا سچا رسول ہے۔‘‘
مسلمان جب اس علاقے میںمشرکین پر حملے کرتے تھے تو اس بستی کو جہاں وہ عورت رہتی تھی چھوڑ جاتے تھے۔ ایک دن اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا:’’یہ لوگ تمھارے گردونواح میں حملے کرتے ہیں مگر تمھیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بس بہتری اسی میں ہے کہ تم اسلام میں داخل ہو جائو۔‘‘ ان لوگوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔
شہید خاتون
یہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویم انصار یہ تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں اکثرجایا کرتے تھے اور انھیں شہیدہ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ جنگ بدر کے موقع پر انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دیجیے۔ میں زخمیوں کا علاج کروں گی۔شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت کا درجہ عطا فرما دے۔‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تجھے شہادت عطا فرمائے گا تو اپنے گھر میں آرام سے بیٹھی رہ، تو شہیدہ ہے۔‘‘
اس صحابیہؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی حکم دیا تھا کہ اپنے اہل خانہ اور قرب و جوار کی خواتین کو گھر میں نماز با جماعت پڑھایا کریں اور خود امامت کیا کریں۔ ان کا ایک موذن بھی تھا۔ ان کے ہاں ایک غلام اور ایک لونڈی تھی۔ انھوں نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ میری وفات کے بعد تم آزاد ہو۔ ان دونوں نے سازش کرکے اس صحابیہ کو قتل کر دیا اور پھر بھاگ گئے۔ یہ حضرت عمرؓ کا دورِ خلافت تھا۔ آپؓ نے قاتلوں کو پکڑ کر حاضر کرنے کا حکم دیا۔ وہ گرفتار کر کے لائے گئے اور انھیں سولی پر چڑھایا گیا۔ مدینہ میں یہ پہلی پھانسی تھی۔
حضرت عمرؓ نے ام ورقہ ؓکی شہادت پر کہا:’’آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ آئو شہیدہ کے ہاں حاضری دے آئیں۔‘‘
کٹا ہؤا بازو
خبیب بن اسافؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے ایک اور آدمی کے ساتھ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ کسی جنگ میں جا رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہو گئے ہیں؟‘‘ ہم نے نفی میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا:’’ہم مشرکین کے مقابلے پر مشرکین کی مدد نہیں چاہتے۔‘‘
اس پر ہم نے کہا کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہمیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لڑائی کے دوران دشمن کے ایک جنگجو نے میرے کندھے پر وار کیا۔ میرا بازو کٹ گیا۔
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ نے میرے بریدہ بازو میں لعاب لگایا اور اسے سی دیا۔ میرا بازو جڑ گیا اور میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ پھر میں نے اس دشمن کو قتل کیا جس نے میرے اوپر وار کرکے مجھے زخمی کیا تھا۔
کھجور کے درخت کی آہ و بکا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک انصاری صحابیہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس کے پاس ایک کاریگر غلام ہے جو لکڑی کا نہایت نفیس کام کر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ اجازت دیں تو اس سے ایک منبر بنوا دے، جس پر آپؐ تقاریر کے دوران بیٹھ جایا کریں۔ آپؐ نے فرمایا:’’جیسے تم چاہو۔‘‘
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس خاتون نے منبر بنوا کر بھجوا دیا۔ جب جمعہ کا دن ہؤا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کھجور کا وہ تنا جس کے پاس کھڑے ہو کر آپؐ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، رونے لگا۔ اس کی چیخ و پکار اتنی دردناک تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ فرطِ غم سے پھٹ جائے گا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترآئے اور اس تنے کو پکڑ لیا۔ پھر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ وہ چپ ہو گیا مگر اس طرح اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی جس طرح روتا ہؤا بچہ چپ کرنے سے پہلے ہچکیاں لیتا ہے۔
رسولؐ پاک کی با خبری
امام بخاریؒ، عبداللہ بن یوسف، مالک ، ابی الزناد، اعرج اور حضرت ابوہریرہؓ کے واسطوں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’کیا تم یہاں میرا قبلہ رو ہونا دیکھتے ہو۔ خدا کی قسم مجھ سے تمھارا خشوع و خضوع اور رکوع و سجود ہرگز مخفی نہیں ہوتا۔ اپنے پیچھے بھی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
امام بخاری نے یحییٰ بن صالح سے ، انھوں نے فلیح بن سلیمان سے، انھوں نے ہلال بن علی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
’’جس طرح میں تمھیں اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔ اسی طرح میں تمھیں نماز اور رکوع میں اپنے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
خوبصورت عمروؓ
ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن اخطبؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی جنگوں میں حصہ لیا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور خوبصورتی و جمال کے لیے دعافرمائی۔
حضرت عمروؓ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی اور وہ آخر وقت تک بہت حسین و جمیل رہے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی میں گنتی کے چند ایک بال سفید ہوئے، باقی بالکل سیاہ تھے۔
جابرؓ کے والد کا قرضہ
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبدان، جریر، مغیرہ، شعبی اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے واسطوں سے یہ روایت نقل کی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میرے والد حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن حرام جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے ذمے کچھ قرض تھا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ میرے والد کے قرض خواہوں سے قرض معاف کرا دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات کی مگر وہ قرض معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’جائو اور اپنی کھجوروں کو مختلف اقسام کے لحاظ سے الگ الگ کرکے ڈھیر لگا دو۔ اس کے بعد مجھے بلا لینا۔‘‘
میں نے آپؐ کے حکم کے مطابق کھجوروں کی درجہ وار ڈھیریاں لگا دیں اور آپؐ کو اطلاع کر دی۔ آپؐ تشریف لے آئے اور کھجوروں کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے کہا:’’قرض خواہوں کو تول کر دینا شروع کر دو۔‘‘
حضرت جابرؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے جملہ قرض خواہوں کو تول کر کھجوریں دیں اور سب کا قرض اتار دیا مگر کھجوروں کے ڈھیر پھر بھی یوں سالم پڑے تھے گویا ان میں کوئی کمی ہوئی ہی نہ تھی۔
طعامِ سفر
امام بخاریؒ ابو نعمان سے ، وہ معتمر بن سلیمان سے ، وہ اپنے والد سے اور وہ ابوعثمان سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے انھیں یہ واقعہ سنایا کہ ہم ایک سو تیس صحابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر گئے۔ ایک جگہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟
ایک شخص کے پاس تقریباً ایک صاع آٹا تھا۔ چنانچہ آٹا گوندھا گیا۔ اسی وقت ایک لمبا تڑنگا پراگندہ حال مشرک اپنے ریوڑ کے ساتھ نمودار ہؤا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا:’’یہ بکریاں فروخت کے لیے ہیں یا ہدیے کے لیے؟‘‘ اس نے کہا:’’فروخت کے لیے ہیں۔‘‘ آپؐ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ وہ ذبح کی گئی اور گوشت تیار ہو گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکری کا کلیجہ اور گردے بھونے جائیں۔ جب بھونے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس میں سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر دیے۔ جو لوگ موجود تھے انھیں ان کا حصہ دے دیا گیا اور جو غیر حاضر تھے ان کا حصہ ان کے لیے رکھ دیا گیا۔
باقی کا گوشٹ پکا کر پیالوں میں ڈالا گیا۔ دو پیالے ہم نے کھائے اور سب خوب سیر ہو گئے۔ دو پیالے بچ رہے جنھیں ہم نے اونٹ پر لاد لیا اور چل دیے۔
آپؐ کی دعا اور بارش کا نزول
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو عمیر نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓنے یہ حدیث بیان کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سخت قحط پڑا۔ ایک جمعہ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے۔ آپؐ نے خطبہ شروع کیا تو ایک دیہاتی کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا:’’مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور اہل و عیال بھوک سے بدحال ہیں۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بارش کی دعا فرمائیے۔‘‘
حضرت انسؓ کہتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ آسمان پر دور دور تک کہیں بادل کے کسی ٹکڑے کا نام و نشان نہ تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپؐ نے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ آسمان پر بڑے بڑے بادل چھا گئے۔ پھر آپؐ ابھی منبر سے نیچے نہیں اترے تھے کہ میں نے دیکھا، بارش برسنے لگی اور پانی آپؐ کی داڑھی سے قطروں کی صورت میں گرنے لگا۔ اس روز بھی بارش ہوئی اور اس کے بعد بھی اگلے کئی دنوں تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اگلا جمعہ آگیا۔
اس جمعہ کو وہی اعرابی یا شاید کوئی دوسرا دیہاتی کھڑا ہؤا اور اس نے کہا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر ، مکان گر گئے ہیں اور مال مویشی غرق ہو رہے ہیں۔ آپؐ ہمارے لیے دعا فرمائیں۔‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی:اللھم حوالینا ولا علینا۔ اے مولا ! ان بارشوں کو آس پاس کے خشک علاقوں پر برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا۔
پھر آپؐ نے بادلوں کی طرف جس جانب بھی اشارہ کیا وہ چھٹتے چلے گئے۔ مدینہ تالاب بن گیا تھا اور وادی میں مہینہ بھر پانی بہتا رہا۔ کسی بھی جانب سے کوئی آتا تو موسلادھار بارش کی خبر دیتا۔
چٹکی لینے والا
قیس بن ابی حازم نے یزید بن ابی شیبہ سے روایت بیان کی ہے کہ وہ (یزیدؓ) کہتے تھے:’’میں مدینہ کی ایک تنگ گلی میں سے گزر رہا تھا۔ میرے پاس سے ایک عورت گزری۔ میں نے اس کا دامن پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے پہلو میں چٹکی لی ۔‘‘ اگلے دن حضور اکرمؐ لوگوں سے اسلام کی بیعت لینے لگے۔ میں بھی بیعت کے لیے حاضر ہؤا۔ جب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو حضوؐر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا: ’’کیا تو وہی نہیں جس نے کل چٹکی لی تھی۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیعت قبول فرما لیجیے۔‘‘
’’خدا کی قسم میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
یہ سن کر آپؐ نے مجھے بیعت کا شرف بخشا۔
سمندر کا سفر کرنے والی
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن یوسف سے، وہ مالک سے، وہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہؓ سے اور وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ہاں جایا کرتے تھے اور وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرکے پیش کرتی تھیں (ام حرام حضرت عبادہ بن صامتؓ کی بیوی تھیں اور حضرت انسؓ کی خالہ تھیں)۔ ایک دن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے۔ انھوں نے کھانا کھلایا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال دیکھنے لگیں کہ کوئی جوں تو نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی دوران میں سو گئے۔ جب آپؐ کی آنکھ کھلی تو آپؐ ہنس رہے تھے۔
حضرت ام حرامؓ نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کس چیز پر ہنس رہے تھے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’مجھے میری امت کے کچھ جنگجو دکھائے گئے جو جہاد کی خاطر سمندر کی لہروں پر سوار تھے۔ جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھے ہیں۔‘‘ انھوں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے بھی دعا فرمائیے کہ میں ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لوں۔‘‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی پھر آپؐ کی آنکھ لگ گئی۔ اس مرتبہ بھی آپؐ نے نیند سے آنکھ کھولی تو ہنسنے لگے۔ انھوں نے پھر پوچھا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟‘‘ آپؐ نے پھر پہلے والی بات یعنی مجاہدین کا سمندری سفر پر روانہ ہونا بیان فرمایا۔ حضرت ام حرامؓ نے پھر درخواست کی کہ ان کے لیے اس جہاد میں شمولیت کی دعا فرمائیں۔ آپؐ نے کہا:’’تو ان مجاہدین کی اگلی صفوں میں ہے۔‘‘
حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ایک لشکر بحری بیڑے میں روانہ ہؤا۔ حضرت ام حرامؓ اس لشکر میں شامل تھیں۔ جب بیڑہ ایک بندرگاہ پر رکا اور فوجیں خشکی پر آئیں تو حضرت ام حرام ؓاپنی سواری سے گر پڑیں اور ان کی شہادت ہو گئی۔ ان کی قبر جزیرہ قبرص میں ہے۔
اہل صفہ کا دودھ
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت مجاہد کے حوالے سے بیان کی ہے، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں بھوک کی وجہ سے کئی مرتبہ نڈھال ہو کر زمین پر گر جایا کرتا تھا اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔‘‘ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے صحابہؓ کا گزر ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے۔ میں نے ان سے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے یہ سوال محض اس لیے کیا تھا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے جا کر کھانا کھلا دیتے۔ انھوں نے مجھے کھانے کی دعوت نہ دی (ان کے گھر میں بھی فاقہ تھا)۔
پھر حضرت عمرؓ کا وہاں سے گزر ہؤا۔ ان سے بھی میں نے ایک آیت کے بارے میں پوچھا۔ میرا اب بھی خیال یہی تھا کہ عمرؓ مجھے کھانا کھلا دیں گے۔ انھوں نے بھی دعوت نہ دی (ان کے ہاں بھی فاقہ ہی تھا)۔ اس کے بعد ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے اور مجھے دیکھ کر تبسم فرمایا۔ آپؐ سمجھ گئے کہ میرے دل میں کیا ہے اور میرا چہرہ کیا بتا رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے ابوہر‘‘ میں نے عرض کی:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘فرمایا:’’آئو میرے ساتھ آئو۔‘‘ میں آپؐ کے ساتھ چلا، آپؐ گھر میں داخل ہوئے، پھر مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ گھر میں دودھ سے بھرا ہؤا ایک پیالہ پڑا تھا (کوئی انصاری صحابی تحفہ دے گئے تھے)۔ آپؐ نے پوچھا: ’’یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘ آپؐ کے گھر والوں نے بتایا کہ فلاں مرد یا فلاں عورت نے ہدیہ بھیجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ابوہر‘‘ میں نے عرض کیا:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ فرمایا:’’اصحابِ صفہ کے پاس جائو اور ان سب کو بلا لائو۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے:’’اصحاب صفہ اسلام کے سپاہی اور اللہ کے مہمان تھے نہ ان کا کوئی گھر بار تھا، نہ اہل و عیال۔ نہ وہ دنیا کمانے کی فکر کرتے نہ مال کی ہوس رکھتے تھے۔ وہ طالبان علم اور مجاہدین فی سبیل اللہ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر صدقے کا مال آتا تو پورے کا پورا اصحابِ صفہ پر خرچ کر دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے اور اگر کہیں سے ہدیہ آجاتا تو اصحابِ صفہ کو بھی دیتے اور خود بھی اس میں سے حصہ لے لیا کرتے تھے۔
جب آپؐ نے مجھے حکم دیا تو میں اصحاب صفہ کو بلانے چلا تو گیا مگر مجھے یہ بات اچھی نہ لگی۔ میں نے سوچا کہ اس دودھ سے اصحابِ صفہ کا کیا بنے گا کیا ہی اچھا ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ دودھ پلا دیتے، میں تو سیر ہو جاتا۔ خیر سب اصحابِ صفہ آ کر بیٹھ گئے۔ آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کو ایک سرے سے پلانا شروع کر دوں۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ میری ہی ذمہ داری ہوتی تھی کہ تقسیم کروں۔ میں نے پلانا شروع کیا تو خیال آیا کہ یہ دودھ میری باری آنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ میں نے لوگوں کو باری باری دودھ پلایا۔ ہر ایک سیر ہو کر پیتا اور پھر دوسرے کی باری آتی۔ سبھی لوگ پی چکے تو میں پیالہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔
آپؐ نے پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر فرمایا: ’’اباہر‘‘ میں نے عرض کیا:’’لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘ آپؐ نے کہا:’’سبھی پی چکے اور اب میں اور تم رہ گئے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ؐ نے سچ فرمایا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:’’بیٹھ جا اور پی۔‘‘ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور دودھ پیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اور پی۔‘‘ میں نے اور پیا۔‘‘ آپ ؐ بار بار کہتے رہے:’’اور پی لو اور پی لو۔‘‘ میں نے بالآخر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، اب مزید گنجایش بالکل نہیں ہے۔‘‘
اس پر آپؐ نے فرمایا:’’لائو مجھے دے دو۔‘‘ میں نے پیالہ آپؐ کو دے دیا۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر پیالے میں بچا ہؤا دودھ پی لیا۔ گویا سب سے آخر میں آپؐ نے پیا۔
ام سلیم کا کپہ
حافظ ابو یعلیٰ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شیبان نے، ان سے محمد بن زیاد البرجمی نے، ان سے ابوطلال نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس ایک دودھ دینے والی بکری تھی۔ اس کے دودھ کو بلو کر وہ ایک ڈبے میں گھی جمع کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ ڈبہ بھر گیا۔ ان کے پاس ایک لڑکی تھی جسے انھوں نے حکم دیا کہ گھی کا کپہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے آئے تاکہ وہ اس سے روٹی کھا لیا کریں۔
وہ لڑکی کپہ لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئی اور عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ام سلیم نے بھیجا ہے۔‘‘ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ کپہ خالی کرکے لڑکی کو دے دیں۔‘‘ انھوں نے کپہ خالی کرکے دے دیا۔ لڑکی نے کپہ لا کر کھونٹی سے لٹکا دیا۔ ام سلیم جو کسی کام سے باہر گئی تھیں، واپس آئیں تو لڑکی سے پوچھا:’’کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ کپہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں دے آئو؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ہاں میں گھی دے آئی ہوں۔‘‘ ام سلیم نے کہا کہ کپے میں سے گھی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ لڑکی نے عرض کیا:’’آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جا کر تصدیق کر لیں۔‘‘
ام سلیم لڑکی کو ساتھ لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گئیں اور ان سے پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ لڑکی گھی دے گئی تھی اور ہم نے کپہ خالی کرکے اسے دے دیا تھا۔ اس پر ام سلیم نے عرض کیا: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو سچائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ وہ کپہ تو بھرا پڑا ہے اور اس میں سے گھی کے قطرے گر رہے ہیں۔‘‘
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ام سلیم تجھے اس پر کوئی تعجب ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو رزق دیا، اسی طرح تجھے بھی اپنی رحمت سے رزق عطا فرما دے، کھائو، پیو اور شکر ادا کرو۔‘‘
ام سلیم کہا کرتی تھیں:’’اس کپے میں سے ہم نے فلاں اور فلاں گھر پیالے بھر کے گھی بھیجا اور ہم خود بھی باقی ماندہ گھی سے دو ماہ تک روٹی کھاتے رہے۔‘‘
وابصہؓ اسدی کا واقعہ
امام احمد بن حنبلؒ نے بیان کیا ہے کہ ہم سے عفان نے، ان سے حماد بن سلمہ نے، ان سے زبیر بن عبدالسلام نے اور ان سے ایوب بن عبداللہ بن مکرز نے بیان کیا۔ ایوب کہتے تھے کہ وابصہؓ اسدی کے ساتھی یہ واقعہ وابصہؓ کی اپنی زبانی یوں سنایا کرتے تھے۔حضرت وابصہؓ نے کہا: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ میں نے آمد سے قبل ہی اپنے دل میں سوچ رکھا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور بدی کے بارے میں ہر سوال پوچھ کے رہوں گا تاکہ کوئی نیکی مجھ سے پوشیدہ نہ رہے اور کسی برائی کے بارے میں بے خبر نہ رہوں۔ میں پہنچا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد مسلمانوں کی ایک جماعت جمع تھی۔ وہ آپؐ سے سوال پوچھ رہے تھے۔ میں نے لوگوں کی گردنوں کے اوپر سے آگے بڑھنا چاہا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یوں گردنیں پھلانگنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا خدا کے لیے مجھے راستہ دے دو۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچنا چاہتا ہوں۔ آپؐ مجھے دنیا بھر کے انسانوں سے زیادہ محبوب اور عزیز ہیں۔‘‘
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت و محبت سے فرمایا: ’’وابصہ کو چھوڑ دو ، وابصہ میرے قریب آجائو۔‘‘ آپؐ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ فرمائی۔ لوگوں نے میرے لیے راستہ چھوڑ دیا اور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے جا بیٹھا۔ آپؐ نے فرمایا:’’کیا تم خود پوچھو گے یا میں بتا دوں کہ کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی بتا دیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:’’تم نیکی اور بدی کے بارے میں سوال پوچھنے آئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’جی ہاں۔‘‘
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں اکٹھی کرکے میرے سینے پر ٹھونکا دیا اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:’’اے وابصہؓ اپنے دل سے اور اپنے نفس سے پوچھ لیا کر۔ نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل مطمئن ہو جائے اور برائی وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور تجھے تردد میں مبتلا کر دے۔ یہی اصول پیش نظر رکھنا اگرچہ لوگ تجھے فتویٰ دیتے رہیں۔‘‘
مشکوک بکری
ابودائود نے بیان کیا ہے کہ ان سے محمد بن علاء نے، ان سے ابن ادریس نے، ان سے عاصم بن کلیب نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے کی نماز کے لیے نکلے۔ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ قبر کے کنارے کھڑے تھے اور گورکن سے فرما رہے تھے:’’پائوں کی جانب سے ذرا کھول دو اور سر کی جانب سے بھی ذرا کشادہ کر و۔‘‘
جنازہ او رتدفین کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ آئے تو ایک عورت کے قاصد نے اس کی طرف سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت طعام دی۔ آپؐ اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے کھانے میں ہاتھ ڈالا اور دوسرے حاضرین نے بھی ہاتھ بڑھائے۔ لوگ کھانے لگے۔ ہمارے بزرگوں نے دیکھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمہ منہ میں ڈالا اور اسے منہ میں پھیرانے لگے۔ پھر کہا:’’میں محسوس کرتا ہوں کہ اس بکری کا گوشت پکا لیا گیا ہے مگر اس کے مالک سے پوچھے بغیر یہ کام ہؤا ہے۔‘‘
اس عورت نے یہ سن کر کہلا بھیجا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کسی ہمسائے کو بقیع کی طرف بھیجا کہ ایک بکری خرید لائے مگر بکری نہ مل سکی۔ میں نے پھر اپنے ہمسائے کے ہاں پیغام بھیجا کہ وہ مجھے رقم لوٹا دے مگر ہمسایہ گھر پر نہ تھا۔ میں نے اس کی بیوی سے مطالبہ کیا تو اس نے یہ بکری بھیج دی جو ہمسائے نے اپنے لیے خریدی تھی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو۔‘‘
کنکریوں کا تسبیح پڑھنا
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سعید میں اس جستجو میں رہا کرتا تھا کہ آپؐ سے تنہائی میں ملاقات کیا کروں اور سوالات پوچھا کروں۔ میں نے ایک روز گرمیوں کے موسم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دوپہر کے وقت خادم سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ فلاں مقام پر تشریف لے گئے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تنہا بیٹھے تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ آپؐ پر وحی نازل ہو رہی ہے مگرمیں نے سلام کیا تو آپؐ نے جواب دیا اور مجھ سے پوچھا:’’تمھیں کون سی چیز یہاں لائی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت۔‘‘ آپؐ نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا تو میں آپؐ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ نہ میں نے کوئی سوال پوچھا نہ آپؐ نے مجھ سے کچھ فرمایا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تیز تیز چلتے ہوئے وہاں آ پہنچے اور سلام کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دینے کے بعد ان سے بھی وہی سوال پوچھا جو مجھ سے پوچھا تھا کہ کس غرض سے آئے ہو؟ انھوں نے بھی میری طرح یہی جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کھینچ لائی ہے۔ آپؐ نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ وہ آپؐ کے سامنے ایک منڈھیر پر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے انھیں اشارہ فرمایا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ جائیں، چنانچہ وہ میرے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓاور حضرت عثمانؓبھی آگئے اور ان سے بھی وہی سوال و جواب ہوئے، جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کلمہ کہا جس کی مجھے سمجھ نہ آئی۔ پھر آپ نے فرمایا:’’وہ تھوڑی ہی رہ جائیں گی، یا تھوڑی ہی رہ گئی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے ہاتھ میں کچھ کنکریاں اٹھائیں، وہ سات تھیں یا نو۔ آپؐ نے مٹھی بند کر لی اور کنکریوں نے تسبیح پڑھنا شروع کر دی۔ ہم نے ان سے اس طرح کی آواز سنی جس طرح شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی آواز ہے۔ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے بیٹھا تھا مگر آپؐ نے مجھے چھوڑ کر کنکریاں ابوبکرؓ کو دے دیں۔کنکریوں نے حضرت ابوبکرؓ کی مٹھی میں بھی ویسی ہی تسبیح پڑھی، جیسی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں پڑھ چکی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں لے لیں اور زمین پر پھینک دیں۔ وہ بالکل خاموش ہو گئیں۔ پھر آپؐ نے وہی کنکریاں حضرت عمرؓ کو دیں تو ان کی مٹھی میں بھی کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور ہم نے سنی۔ پھر ان سے کنکریاں لے کر دوبارہ زمین پر پھینک دیں، وہ پھر چپ ہو گئیں۔ آپؐ نے کنکریاں حضرت عثمانؓ کو دیں تو کنکریوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ میں بھی پہلے حضرات کی طرح تسبیح پڑھی۔ اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کنکریاں لے کر زمین پر پھینک دیں اور وہ پھر خاموش ہو گئیں۔
٭…٭…٭