This Content Is Only For Subscribers
ہماری زندگی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔روز کوئی نہ کوئی کہانی سامنے آتی ہے۔اور بحیثیت معالج توہم کئی واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں۔ آج مجھے بھی ایک کہانی یاد آ گئی۔
نومولود مریم کی کہانی
یہ ہے تو کہانی لیکن اصلی اور حقیقی ہے۔ میں جب سعودی عرب میں نئی نئی آئی تو میرے پاس ایک خاتون بلکہ لڑکی آئی جس کا پہلا حمل تھا۔ وہ کسی اور ہسپتال میں چیک اپ کرا رہی تھی۔ ہمارے پاس حمل کے آٹھویں مہینے میں آئی۔ جب میں نے اس کا الٹراساؤنڈ کیا تو اس میں کچھ چیزیں نارمل نہیں تھیں۔ آنے والا بچہ جوایک لڑکی تھی اس کی جلد کے نیچے، اور پیٹ میں پانی تھا۔ خاتون کو تفصیلی الٹراساؤنڈ کے لیے بھجوایا۔ انہوں نے بھی یہی رپورٹ دی اور ساتھ یہ بتایا کہ انڈے دانی میں پانی کی بہت بڑی تھیلی ہے۔ یہ سب تفصیلات اچھے پیشہ ورانہ انداز میں ،پہلے ماں کو اور پھر دونوں یعنی ماں اور باپ کو بتائی گئیں۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، انہیں اپنی ہونے والی بچی کے بارے میں اس تشخیص پر یقین کرنے میں اور اسے سمجھنے میں کچھ وقت لگا، اور کچھ سیشن کرنے پڑے۔ یہ سب انہیں بالکل ناقابل یقین لگ رہا تھا۔وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ پیدائش سے پہلے ہی ان کے بچے کے یہ مسائل ہیں۔ یہ صورتحال زیادہ مشکل اس لیے بھی تھی کہ یہ ان کا پہلا بچہ تھا، اور تشخیص اس وقت ہوئی جب پیدائش کا عمل قریب تھا۔ بچوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس بھی انہیں کاؤنسلنگ کے لیے بھیجا۔ حمل آگے کیسے چلے گا، پیدائش کا طریقہ کیا ہو گا، اور کب پیدائش کی جائے گی، ان سب پر تفصیل کے ساتھ بات ہوئی۔
حمل کے پینتیس ویں ہفتے میں وہ لڑکی رات کے وقت ہسپتال کی ایمرجنسی میں آئی۔ بچے کے پانی کی تھیلی پھٹ گئی تھی۔ اس دن میں آن کال نہیں تھی، میری کولیگ کنسلٹنٹ آن کال تھی۔ اس نے آدھی رات کو اس کا آپریشن کیا اور بچی کی پیدائش ہو گئی۔ آپریشن کے بعد بچی کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا۔ ماں الحمدللّٰہ بالکل خیریت کے ساتھ تیسرے دن گھر چلی گئی۔ بچی آئی سی یو ہی میں رہی۔اپنی آسانی کے لیے ہم اس کا نام مریم رکھ لیتے ہیں۔
بچوں کے ماہر ڈاکٹر سے ہمارا رابطہ رہا۔ انہوں نے بتایا کہ بچی کا حیض والا راستہ قدرتی طور پر نہیں بن سکا۔ وہ مکمل طور پر بند ہے۔ انڈے دانی والی پانی کی تھیلی اتنی بڑی تھی کہ اس نے نومولود کے چھوٹے سے پیٹ کو پوری طرح گھیرا ہؤا تھا۔ اس وجہ سے بچی کے سب اعضا پر دباؤ پڑ رہا تھا اور انہیں کام کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ڈاکٹر روزانہ اس پانی کو نکالتا تھا تا کہ دیگر اعضا پر دباؤ کم ہو سکے، کیونکہ پانی دوبارہ بن جاتا تھا۔ یہ سب اس وقت تک کرنا تھا جب تک بچی کی سرجری کی باری نہ آ جاتی۔
اللہ کا شکر ہے کہ تقریباً دو مہینے کے بعد بچی کا آپریشن ہو گیا۔ بچوں کے سرجن نے انڈے دانی والی پانی کی تھیلی نکال دی۔ بچی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بھی جڑی ہوئی تھیں، ان کا آپریشن اس کے بڑے ہونے کے بعد کرنے کا فیصلہ ہؤا۔ حیض کا راستہ بنانے کا فیصلہ دس سے گیارہ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد ہؤا، تاکہ بچی بڑی بھی ہو جائے اور اس طویل آپریشن اور بیہوشی کو نسبتاً آسانی سے برداشت کر سکے۔ دوسرا پہلو اس کا یہ تھا کہ اس وقت بچی کی نشو نما ہو چکی ہو گی، اس لیے بنایا جانے والا راستہ اس کی آئندہ زندگی کے لیے زیادہ مناسب سائز کا ہو گا۔
دو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مریم کو ایک اور بہن دی۔ اس کی پیدائش بھی آپریشن کے ذریعے ہوئی، لیکن بچی بالکل نارمل تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مریم بھی بڑی ہوتی گئی، اس کا اسکول شروع ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے تیسری بہن دی۔ آخری بار جب ہماری اور اس کی
ملاقات ہوئی تو وہ آٹھ برس کی تھی اور بالکل تندرست تھی۔ اس کی انگلیوں کے کچھ آپریشن ہو گئے تھے اور وہ الگ الگ کر دی گئی تھیں۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔ اب تک امید ہے اس کا آخری آپریشن بھی ہو چکا ہو گا۔
نکاح و طلاق کا کلچر
کچھ دن پہلے ہم طلاق اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ وطن عزیز میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ طلاق کو بےحد برا سمجھا جاتا ہے، اور یہی کہا جاتا ہے کہ حلال کاموں میں طلاق سب سے ادنیٰ کام ہے۔ جس لڑکی کو طلاق ہو جائے، اس کی زندگی ایک طرح سے ختم ہو جاتی ہے۔ بڑی عمر کی عورت تو طلاق کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ایسا نہیں ہے کہ سب اسی طرح ہے لیکن عمومی حالات ایسے ہی ہیں۔ یقیناً کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوں گی۔ اس لیے والدین حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ لڑکی کا گھر بسا رہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سارے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جہاں انتہائی صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مار پیٹ سے لے کر ذہنی تشدد اور جلا کر مار دینے کے واقعات سے لے کر بیویوں کو قتل کر دینے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔ طلاق یا خلع کی کوشش کرنا بھی ایک جان جو کھوں کا کام ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا عدالتی نظام ہے جس میں کیس لمبی مدت تک چلتے ہیں۔ اور اگر تنگ کرنا مقصود ہو تو کیس کو لٹکانا وکلا کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ عدالت میں پیشی پر بھی خواتین سے ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور کردار کشی کی جاتی ہے کہ برداشت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے گھبرا کر بھی بہت سے خاندان اس گورکھ دھندے سے بچنے کی اور صلح کی کوشش کرتے ہیں، جس کا نتیجہ بعض اوقات خواتین کے حق میں اچھا نہیں نکلتا ۔
یہ تو ہمیں علم تھا کہ سعودی عرب میں طلاق نہ تو اتنی ناپسندیدہ ہے اور نہ ہی اتنی مشکل۔ لیکن مزید تفصیلات بھی ہم نے اپنی کولیگز سے حاصل کیں۔ ہماری کئی ایسی مریضہ تھیں جنہوں نے طلاق لی اور دوسری شادی کی۔ اور دونوں شادیوں کے دوران ہمارے پاس آئیں۔ کئی بار ہسٹری لیتے ہوئے مریضہ سے جب شادی کی مدت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بالکل نارمل انداز میں بتایا کہ میں طلاق یافتہ ہوں۔ اس میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں۔ بڑی عمر میں بھی طلاق ہوتی ہے۔ عدالت کا نظام بہت مضبوط ہے، اور کیسز کا فیصلہ وقت پر کر دیا جاتا ہے۔ طلاق کے فیصلے میں عورت کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے کردار پر الزام لگانے تک جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جج کے پوچھنے پر عورت صرف اتنا بھی کہہ دے کہ وہ اس شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی کیونکہ یہ اس کو پسند نہیں ہے تو طلاق ہو جاتی ہے۔ عورتیں بھی طلاق کے بعد زندگی کو جاری رکھتی ہیں اور اکثر کی دوسری شادی بھی ہو جاتی ہے۔
یہاں پر شادی سے پہلے منگنی کو “خطوبہ” کہا جاتا ہے، جس میں نکاح کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ دونوں خاندان مع دلہا دلہن کے ایک دوسرے سے مل لیں تاکہ کوئی خرابی ہو تو اس کا بروقت علم ہو جائے اور اس رشتے کو ختم کر دیا جائے۔طلاق کو ایک معاہدے کی طرح لیا جاتا ہے، اور جب طلاق ہو جاتی ہے تو اس کے بعد ایک دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا نہ ہی اس کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ہماری کولیگ نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ اس کی ایک مریضہ کوئی آپریشن کرانا چاہ رہی تھی۔ اس نے کلینک میں بیٹھے بیٹھے اپنے شوہر کو فون کیا۔ وہ عمر رسیدہ تھا۔ مریضہ نے آپریشن کا پوچھا، لیکن شوہر نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ خاتون نے فون پر ہی کہا کہ اچھا ٹھیک ہے، پھر مجھے طلاق دے دو۔ خاوند نے پھر انکار کر دیا۔ آپریشن تو نہ ہؤا لیکن طلاق بھی نہ ہوئی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں پر طلاق بہت عام ہو۔ حکومت بھی طلاق کو روکنے کی کوشش کرتی ہے اور معاشرہ بھی بلاوجہ طلاق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن طلاق کو نہ تو مشکل بنایا گیا ہے اور نہ ہی اسے سماجی عیب سمجھا جاتا ہے۔ عورت طلاق کے بعد بھی زندہ رہتی ہے، شادی بھی کرتی ہے اور معاشرے میں اپنا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ برعکس ہمارے معاشرے کے جہاں ہر طلاق کا الزام صرف عورت پر آتا ہے۔
بیرونی سفر اور ویزے
سعودی عرب سے دوسرے ملکوں کا سفر کرنا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ ویزوں کا حصول، پروازوں کے جدول اور دیگر سفری ضروریات بڑی آسانی سے پوری ہو جاتی ہیں۔ ہم نے سعودی عرب سے پہلا سفر
پاکستان کے علاوہ ملیشیا کا کیا دو ہزار بارہ میں۔ ہماری ایک کانفرنس تھی، جس میں ہمیں پیپر پڑھنا تھا۔ تعلیمی چھٹی ہسپتال نے تنخواہ کے ساتھ دے دی۔ ویزہ کے لیے ہم نے آن لائن درخواست دی اور سفارت خانے کے کہنے پر پاسپورٹ ڈاک سے بھیج دیا۔ اطلاع کے مطابق ایک ہفتے تک پاسپورٹ ہمیں واپس ملنا تھا۔ لیکن تیسرے دن ہی ہمیں ای میل آ گئی کہ آپ کا پاسپورٹ واپس روانہ کر دیا گیا ہے۔
ہمارے شوہر پاکستان میں تھے اور انہیں ہماری پرواز سے تین دن پہلے آنا تھا۔ ہمیں یہ خبر مل چکی تھی کہ بحرین سے ملیشیا کا ویزا چند گھنٹوں میں مل جاتا ہے۔ بحرین کے لیے ویزا on arrival تھا۔ سعودی عرب واپسی کے ایک دن بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ ویزا کے لیے جائیں گے۔جس دن ویزا کے لیے جانا تھا، ہمارے شوہر صبح چھ بجے گھر سے بحرین کے لیے روانہ ہوئے۔ بحرین جانے کے لیے آدھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں ایک پل پار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہمارا شہر بحرین کے بالکل پاس تھا۔ صبح صبح وہ بحرین کے ملیشیا سفارت خانے میں پہنچ گئے جو ابھی نہیں کھلا تھا۔ سفارت خانہ نو بجے کھلنا تھا۔ وہ انتظار کرنے لگے۔ سفارت خانہ کھلنے پر انہوں نے اپنا پاسپورٹ جمع کرایا، ویزا کی درخواست دی۔ عملے نے کہا کہ آپ بارہ بجے آ کر اپنا پاسپورٹ وصول کر لیں۔ یہ بارہ بجے گئے اور ویزا سمیت اپنا پاسپورٹ لے کر دو بجے تک گھر واپس پہنچ چکے تھے۔ وطن عزیز میں ہم اتنا خطرہ ہر گز نہ مول لیتے۔ بہت سے اگر اور مگر ہمارے ذہن میں گردش کرتے رہتےاور کئی خدشات گھیرے رکھتے۔ کام کو لٹکانے کے مسائل اپنی جگہ پر اور بہت سی دفتری کارروائیاں بھی اپنی جگہ پر ۔ ان سب سے گزر کر ہم کہیں ویزے کے حصول تک پہنچتے جو یقیناً ایک دن میں نہ ملتا۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭