بتولرمضان المبارک کیسے گزاریں -بتول اپریل ۲۰۲۱

رمضان المبارک کیسے گزاریں -بتول اپریل ۲۰۲۱

اس قیمتی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے عملی نکات پر مبنی رہنمائی

رمضان روزوں کا مہینہ ہے ۔روزے کی فرضیت اور مقصدیت سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں ہم سب کو آگاہ کردیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ءکے پیرووں پر فرض کیےگئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘(البقرہ: 183)۔یعنی روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا اور اس کا مقصدتقویٰ کا حصول ہے ۔ اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہونے کے لیےیہاں اس ماہ کی چند خصوصیات اور کرنے کے کچھ کاموں کا ذکر مختصراً کیا جارہا ہے ۔
استقبالِ رمضان
تقویٰ کے حصول ، اللہ کی رضا پانے ، اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کرنے کے لیےضروری ہے کہ ہم رمضان کو بہترین انداز میں گزاریں ۔اس کے لیے ہمیں بہترین منصوبہ بندی اور تیاری کرنی چاہیے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے گھر آنے والے کسی بہت خاص مہمان کی آمد سے پہلے تیاری کرتے ہیں۔ رمضان ہمارے گھر آنے والے تمام مہمانوں سے زیادہ معززاور بابرکت ہے لہٰذا اس کا استقبال بھی شاندار انداز سے کرنا ہے۔ منصوبہ بندی کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ اپنے فرائض، عبادات، معاملات، دفتری اور گھریلو کام کاج ، دعوتی پروگرام اور نیند و آرام کا مناسب تناسب رکھا جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور وقت اعلیٰ درجے کے کاموں میں صرف ہو۔
کرنے کے کام:
رمضان کی تیاری کا آغاز ماہِ شعبان میں کریں۔ رمضان میں کرنے کا سب سے اہم کام اپنی ذاتی اصلاح ہے۔ لہٰذا اپنے مقاصد کا تعین کریں اور انہیں لکھ لیں ۔ ان مقاصد کے حصول کے لیےاپنے یومیہ اہداف بھی لکھیں ۔ ان مقاصد میں سب سے زیادہ اہمیت اپنے فرائض کو دیں، مباح کامو ں کو کم سے کم کریں اور ایسے کاموں سے بچیں جو اللہ کی ناراضگی کے ہیں۔اپنے یومیہ اہداف کا روزانہ جائزہ لیتے رہیں تاکہ اگر کسی ہدف کو پورا کرنے میں آپ ناکام ہورہے ہوں تو اس پر قابو پانے کے لیےاگلے دن کا لائحہ عمل بنا سکیں۔
اپنے گھر کی صفائی ستھرائی خوب اچھے سے کر لیں ۔ صفائی کرتے ہوئے کوشش کریں کہ پرانے کپڑے، جوتے، برتن اور استعمال کی چیزیں جنہیں آپ نے پچھلے ایک سال میں استعمال نہیں کیا یا جن کی اب آپ کو ضرورت نہیں ہے تو ایسی تمام چیزیں گھر سے نکالیں یعنی کسی ضرورت مند کو دینے کے لیےعلیحدہ رکھ لیں۔ اس طرح آپ کا گھر حقیقت میں صاف ہو گا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں دوسروں کو دینے سے خوب اجر ملے گا کیونکہ ہوسکتا ہے جو چیزیں آپ کے گھر میں بےکار پڑی ہیں وہ دوسرو ں کے لیے بہت ضروری ہوں۔
گھر کے ساتھ ساتھ دل کی صفائی بھی ضروری ہے۔ دوسروں کو معاف کریں اور بدگمانی، نفرت، حسد ، بغض ، چغلی، غیبت اور غصے جیسی منفی باتوں کو دل سے نکال دیں۔
اپنی تمام شاپنگ حتیٰ کہ عید کے دن کی شاپنگ، رشتہ داروں کے لیےتحفہ وتحائف اور مہینے بھر کا سامان سب خرید کر رکھ لیں تاکہ روزے میں شاپنگ میں وقت ضائع نہ ہو۔ زکوٰہ، صدقات اور فطرانہ وغیرہ کا حساب لگا کر رقم علیحدہ کر لیں ۔ اپنے گھر والوں کو اس منصوبہ بندی میں شامل کریں اس طرح مل جل کر نیکیوں کے کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
1۔ شَھرُ الصِّیَام یعنی روزوں کا مہینہ
کیونکہ روزہ اس ماہ کی خاص عبادت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ:
’’سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے‘‘ (البقرہ:185)۔ حدیث میں بھی اس کی فرضیت بتائی گئی ہے۔ آپ ؐ کا فرمان ہے، ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج بیت اللہ کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘(مسلم)۔ اس فرض کو پورا کرنے کے لیےاللہ نے اپنے بندوں پر بڑا کرم فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ،’’ گنتی کے چند دن، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے، اور ان پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا ، پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لیےبہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو‘‘(البقرہ: 183)۔یعنی روزے کی ترغیب دلائی جارہی ہے مگر اگر کوئی بیماری یا سفر کی مجبوری کے تحت اس ماہ میں روزے نہ رکھ سکے تو وہ بعد میں گنتی پوری کرسکتا ہے۔
روزہ فرض عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے بے شمار فائدے اور اجرو ثواب کمانے کا ذریعہ ہے۔ مثلاً روزہ جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے ۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے آپ ؐ سے ایسے عمل کے بارے میں سوال کیا جو انہیں جنت میں داخل کرے تو آپ ؐ نے فرمایا، ’’ تم روزے کو لازم پکڑلو کہ اس کی مانند کوئی چیز نہیں‘‘ (نسائی)۔ اس کے علاوہ یہ کہ اللہ تعالیٰ روزےداروں کو قیامت کے دن اس قدر عزت و اکرام سے نوازے گا کہ انہیں جنت میں ایک خصوصی دروازے سے داخل کرے گا۔ حدیث میں ہے۔ ’’ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ روزے رکھنے والے کہاں ہیں ؟ چنانچہ جو شخص روزہ رکھنے والوں میں شامل ہو گا وہ اس میں داخل ہوجائے گا اور جو اس میں داخل ہو گیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی‘‘(ابنِ ماجہ)۔ اسی طرح روزہ آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ فرمانِ رسول ؐ ہے ، ’’ جو شخص اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے گا اللہ اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت پر رکھے گا‘‘ (مسلم)۔ اور یہ کہ روزے کی جزا اللہ تعالیٰ خود دیں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’ ابنِ آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں سوائے روزے کے، بےشک وہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘( بخاری)۔ یعنی اللہ نے اس مخفی عبادت کا اجر بھی مخفی ہی رکھا ہے۔
کرنے کےکام:
اس ماہِ مبارک میں کوشش ہونی چاہئے کہ ایسے روزے رکھے جائیں کہ اللہ کو پسند آجائیں ۔
٭ امام ابنِ الجوزی ؒ کے مطابق روزے کے تین درجے ہیں اور ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب سے اعلیٰ درجے کا روزہ رکھیں۔ پہلے درجے کا روزہ ، ’’عام روزہ‘‘ کہلاتا ہے۔ جس میں انسان خود کو کھانے پینے اور شہوت سے روکے۔ دوسرے درجے کا روزہ ’’ خاص روزہ ‘‘کہلاتا ہے۔ جس میں انسان اپنے ہاتھ، پاؤں ، آنکھ ،کان اور نظر یعنی تمام اعضاء کو گناہ کے کاموں سے بچائے اور سب سے اعلیٰ درجے کا روزہ ’’ خاص الخاص روزہ‘‘ کہلاتا ہے جس میں انسان اپنے دل کو برے اور بے کار خیالات اور اللہ سے دور کرنے والے افکار سے پاک رکھے اور اس کی یاد کے سوا ہر چیز سے بچے(منھاج القاصدین: ص 77)۔
٭ روزے کی نیت کو اللہ کے لیے خالص کریں اور اس میں کوئی تصنع یا دکھاوا نہ ہو۔ کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ نہ چھوڑا جائے۔
2۔ شَھرُ القُرآن یعنی قرآن کا مہینہ
قرآن جو اللہ کا کلام ہے اور تمام انسانیت کی رہنمائی کے لیےآیا ہے، اسی بابرکت مہینے میں نازل ہوا ۔ سورہ البقرہ میں ارشادہوتا ہے، شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْـهُـدٰى وَالْفُرْقَانِ:
’’ رمضان وہ مہینہ ہےجس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘ (185:2)۔جس رات میں قرآن نازل ہوا اللہ نے اسے بابرکت رات کہا ہے، ’’بےشک ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتاراکیونکہ ہم ہی خبردار کرنے والے ہیں‘‘( الدخان: 3)۔سورہ القدر میں اس رات کو لیلۃ القدر یعنی انتہائی سعادت کی رات کہا گیا اور اس رات کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی،
لَيْلَـةُ الْقَدْرِ خَيْـرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ:
’’ لیلۃالقدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘( القدر:3)۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنا یوں تو ہر وقت ہی باعثِ سعادت ہے لیکن اس ماہ میں خصوصاً اس کی بڑی تلقین ملتی ہے ۔ خود نبی ؐ رمضان میں حضرت جبرائیلؑ کو قرآن سناتے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ ’’ اور رمضان میں ہر رات جبرائیل ؑ آپ ؐ سے ملاقات کرتے اور آپ ؐ رمضان گزرنے تک انہیں قرآن سناتے‘‘(بخاری)۔ ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ ہر سال جبرائیل ؑ کوایک بار قرآن (نازل شدہ حصہ ) سناتے اور آخری سال آپ ؐنے دوبار سنایا(بخاری)۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو اللہ نے ایسی تجارت کی خوشخبری دی ہے جس میں کوئی نقصان نہیں ۔فرمایا، ’’ بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور پوشیدہ اور ظاہر اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے انہیں دیا ہے وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں کہ اس میں خسارہ نہیں‘‘(فاطر:29)۔
اس کے علاوہ قیام اللیل میں قرآن کا پڑھنا اور سننا (مثلاً نمازِ تراویح میں) باعثِ شفاعت ہے۔ ابنِ عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا، ’’ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیےسفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور اپنی خواہش( پوری کرنے )سے روکے رکھا لہٰذا اس کے بارے میں میری سفاش قبول فرما۔ قرآن کہے گا میرے رب میں نے اس بندے کو سونے سے روکے رکھا(قیام کے لیے) لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرماچنانچہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی(مسند احمد)۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تلاوت رات کو کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ آپ ہر رات جبرائیل ؑ کوقرآن سناتے آپ ؐ نے رمضان کے آخری عشرے کی تین راتوں میں طویل قرآت کے ساتھ تراویح کی جماعت کرائی‘‘ ( بخاری)۔
کرنے کے کام:
رمضان میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اس کے ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ہیں اور رمضان میں یہ ثواب مزید بڑھ جاتا ہے ۔ قرآن کا کچھ حصہ حفظ کرنے کی کوشش کریں اگر آپ حافظ ہیں تو اس کی دہرائی کریں۔ اس کے علاوہ اس کا ترجمہ جاننے اور اسے سمجھنےکے لیےدورہ قرآن اٹینڈ کریں یا آن لائن سنیں۔
٭ اپنے گھروالوں اور ارد گرد کے لوگوں کو بھی قرآن کی تلاوت کرنے، اسے حفظ کرنے ، اس کا ترجمہ جاننے اور اس پر غورو فکر کی تلقین کریں تاکہ وہ بھی خوب اجر سمیٹیں۔
3۔ شَھرُ ُالصَّبر یعنی صبر کا مہینہ
صبر سے مراد ہے رکنا، خود کو تھامنا۔ یوں تو عام حالاٖت میں بھی غلط رویے سے خود کو روکنا ضروری ہے لیکن روزے کی حالت میں کچھ پسندیدہ اور حلال کام مثلاً کھانا پینا بھی ایک مقرر وقت یعنی فجر سے مغرب تک منع ہیں اور خاص طور پر ناپسندیدہ واقعات یا ناخوشگوار حالا ت میں فوری منفی ردِ عمل سے بچنااور لڑائی جھگڑے سےپرہیز کرنا لازم ہے۔ نبی کریم ؐ نے اس موقعے پر خود پر کنٹرول کرنے کا بہترین نسخہ بتایا ہے، فرمایا، ’’ روزہ ایک ڈھال ہے ۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور و شغب کرے، اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑنے کی کوشش کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ (بخاری)۔یعنی میں تم سے لڑائی نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی میں کوئی جھگڑا چاہتا ہوں۔دوسروں سے لڑنا، غصہ کرنا، گالم گلوچ یا بدتمیزی کرنا عام حالات میں بھی ناپسندیدہ افعال ہیں لیکن روزے میں ان سے بچنا اس لیے خاص طور پر منع کیا گیا ہے کہ یہ روزے کو برباد کرنے والے کام ہیں اور ہرروزے دار کو ان سے خاص طور پر بچنے، ان پر قابو پانے اور ایسے حالات میں صبر کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ روزے کی حالت میں انسان کو غصہ جلدی آ جاتا ہے اور یہی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اپنے غصہ پر قابو پالے اور صبر و تحمل سے کام لے۔اگرچہ ایسے حالات میں صبر مشکل کام ہوتا ہے لیکن اگر انسان فوری طور پر اس کا اجر اپنے ذہن میں لے آئے تو یقیناً ایسا کرنا آسان ہو جائے گا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ کہہ دو کہ اے میرے بندوں جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو، جنہوں نے اس دنیا میں نیکیاں کی ان کے لیے بھلائیا ں ہیں اور اللہ کی زمین کشادہ ہے، صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘ (الزمر:10) مزید فرمایا ’’آج میں نے انہیں ان کے صبر کرنے پر بدلہ دے دیا اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں ‘‘(المومنون:111)۔ روزے میں اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ چیزوں سے بچنا ہی اہم ہے۔اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے صابر بندوں کا اجر اپنی جنّت میں رکھا ہے، فرمایا ،’’اور ان کے صبر کی وجہ سے ان کا بدلہ جنّت او ر حریر (ریشم)ہوگا ‘‘ (الدھر:12)۔
کرنے کےکام:
جب روزے میں بھوک اور پیاس کی شدت سے تنگی محسوس ہو، اپنے من پسند کھانوں کو سامنے دیکھ کر دل میں زرا سا خیال بھی گزرے کہ خود کو روکنا مشکل ہے تو اور زیادہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کا احساس کرنا چاہئے جن کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ کہ بھوک کے عالم میں وہ کس طرح زندگی بسر کرتے ہوں گے۔ اور نہ صرف یہ کہ رمضان بلکہ اس کے بعد بھی ایسے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے کھانے میں سے ان کا حصہ نکالنا چاہئے۔
٭اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان اور غصے پر کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے ۔ پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری زبان سے کسی کو بھی تکلیف نہ پہنچے، نہ ہماری زبان غلط بیانی کرے، نہ غیبت اور نہ چغل خوری۔ اور اگر کسی اور کو ایسا کرتے دیکھیں تو اسے بھی محبت اور نرمی سے منع کریں ۔ کسی بھی اور عادت کی طرح صبر کی عادت بھی ایک دم ہی نہیں پڑ جاتی بلکہ اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا پڑتا ہے اور اگر اس قسم کی کوشش کو روزانہ کی روٹین میں شامل کیا جائے تو مشکل حالات/ غصے میں بھی ایسا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اور خود کو یاد دہانی کراتے رہیں کہ آپ نے خود بھی صبر کا دامن تھامے رہنا ہے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرنی ہے لیکن حکمت کے ساتھ یعنی وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْر
’’ اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (العصر: 3)۔
٭ اس کے ساتھ ساتھ آپ صبر کر نے کی دعا بھی کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ کو صبر عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ؐنے فرمایا ، اور جو صبر کی کوشش کرے ، اللہ اسے صبر عطا کرتا ہے، صبر سے بہتر اور وسیع چیز کسی کو نہیں ملیں(بخاری)۔ ایک ماہ کی یہ پریکٹس انسان میں اس مثبت عادت کو پیدا کرنے میں معاون ہوں گی اورپھر یہ اعلیٰ خوبی اس کے کردار کا حصہ بن جائےگی ۔ انشااللہ
4۔شَھرُالدُّعاء (یعنی دعا کا مہینہ)
رمضان میں کثرت سے دعائیں مانگنی چاہئیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ رمضان اور روزوں کا ذکر کرنے کے فورا ًبعد دعا مانگنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ يَرْشُدُوْنَ:
’’اور جب میرے بندے میرے بارے میں آ پ ؐسے سوال کریں تو کہہ دیں کہ میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارے، پس چاہیے کہ وہ میری بات مان لیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پا ئیں‘‘ (البقرہ : 186) ۔
احادیث میں اس ماہِ مبارک میں دعا ئیں مانگنے کی تاکید ملتی ہے کیونکہ اس ماہ میں دعا کی قبولیت کے مواقع کافی ہوتے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ؐ نےفرمایا، ’’بےشک ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ ہر دن اور رات میں (لوگوں کو دوزخ سے) آزاد کرتے ہیں اور (رمضان کے) ہر دن اور رات میں ہر مسلمان کے لیےایک ایسی دعا ہے جسے قبولیت سے نوازا جاتا ہے‘‘ (صحیح الترغیب و الترھیب: 1002)۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے دار کی دعا قبول کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا، ’’تین آدمیوں کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی۔ باپ، روزہ دار اورمسافر کی‘‘ ( البیھقی ) ۔
اسی طرح سحری اور افطارکے وقت خوب دعائیں مانگیں کیونکہ وہ رد نہ ہوں گی۔ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا، ’’ بے شک روزہ دار کے لیے اِفطار کے وَقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جا تی‘‘( ابنِ ماجہ)۔ ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی، عادل حکمران، روزہ دار افطاری کے وقت، اور اللہ تعالی مظلوم کی دعا کو بادلوں سے بھی بلند فرماتا ہے، اس کے سامنے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مجھے میری عزت کی قسم! میں تمہاری ضرور مدد کروں گا چاہے کچھ دیر کے بعد‘‘( ترمذی) ۔
کرنے کے کام:
رمضان کے گنتی کے چند دن ہیں لہذا ان میں اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خوب خوب دعائیں مانگیں ۔ سحری کے وقت خاص طور پر استغفار کی کثرت کریں ۔ افطارکے آخری قیمتی لمحات کو دوسرے کاموں میں ضائع نہ کریں۔ افطار سے 10 منٹ پہلے تمام ضروری کام ختم کر کے سب گھر والےیکسوئی سے خوب دعائیں مانگیں ۔
٭ دعائیں مانگنے کے ساتھ ساتھ قرآنی اور مسنون دعاؤں کو عربی زبان میں یاد کریں اور سجدوں میں مانگیں۔ ساتھ ہی ساتھ ترجمہ بھی معلوم ہو، تاکہ دل کی حضوری کے ساتھ دعائیں مانگ سکیں کیونکہ غافل دل کی دعا قبول نہیں کی جاتی۔
٭ اس رمضان کوشش کریں کہ دعائیں دینے والے بھی بنیں ۔ یہ ایک بہت ہی اچھی عادت ہے لیکن آج کل تقریبا ً ختم ہوتی جارہی ہے یا یوں کہیں کہ ناپید ہو گئی ہے۔ اپنے بچوں سے یا چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کی ابتدا کریں اور پھر رفتہ رفتہ اپنے ساتھیوں اور یہاں تک کہ اپنے بڑوں کو بھی دعا دینے کےکلچر کو عام کریں۔
٭ اللہ کا ذکر کثرت سے کریں۔ ذکر میں تسبیح، تحمید، تکبیر اور تہلیل سب شامل ہیں ۔ شعوری طور پر اللہ کو ایسے یاد کریں۔ جیسا کہ سورہ آل عمران میں ہے، کہ ’’ جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘‘(البقرہ: 191)۔
5-شَھرُالغفران (یعنی بخشش کا مہینہ)
قرآن مجید میں روزہ دار مرد اور روزہ دار عورت کے لیےبخشش کی نوید ہے۔وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصَّآئِمَاتِ۔۔۔ اَعَدَّ اللّـٰهُ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّّاَجْرًا عَظِيْمًا:
’’اور روزہ رکھنے والے مرداور روزہ رکھنے والی عورتیں ۔ اللہ نے ان کے لیےبخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ‘‘ (الاحزاب: 35)۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کا روزہ اور رات کا قیام انسان کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ فرمانِ رسول ؐ ہے کہ، ’’ جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دلیے جائیں گے‘‘(بخاری)۔ ایک اور جگہ آپ ؐ نے فرمایا، ’’ ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیان ہونے والے گناہوں کو مٹا دیتا ہے جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے‘‘ (مسلم)۔رمضان میں جس شخص کی بخشش نہ ہو تو وہ بڑا ہی بدنصیب ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ؐ منبر پر چڑھے تو فرمایا ’’آمین ، آمین، آمین‘‘ پھر فرمایا’’ میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور کہا اے محمد ؐ اللہ اسے اپنی رحمتِ ربانی سے دور کرے جس نے رمضان پایا پھر وہ مر گیااور اس کی بخشش نہیں ہوئی حتیٰ کہ وہ جہنم میں داخل کردیا گیا، آپ کے لیے آمین، میں نے کہا آمین‘‘(طبرانی)۔
سحری میں جلدی اٹھ کر استغفار کریں کیونکہ یہ اللہ کے خاص بندوں کی صفت بتائی گئی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ، وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ:
’’اور وہ سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں‘‘(الذ ّ ارِیٰت: 18)۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا ،’’اللہ تعالیٰ ہر رات کو آدھی رات یا ایک تہائی رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخش دوں ۔ یہاں تک کہ طلوع فجر ہو جاتی ہے‘‘( سنن الدارمی: 1478) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اور اس کے علاوہ بھی وقتِ سحر دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیےکہ اس ماہِ مبارک میں اپنی بخشش سے محروم نہ رہیں ۔
کرنے کے کام:
اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر ان کا اعتراف کریں اور گڑگڑا کر اپنے رب سے اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیےاور تمام مسلمانوں کے لیےبخشش کی دعا مانگیں۔ خاص طور پر سحری میں جلدی اٹھ جائیں اور بخشش مانگیں ۔ سحری کے دوران کام کاج کرتے ہوئے مسلسل استغفار کرتے رہیں ۔ دن بھر میں ستر سے سو مرتبہ استغفا ر کریں۔
6۔ شَھرُ المُوَّاساۃِ (یعنی باہمی ہمدردی کا مہینہ)
رمضان ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور بہترین اخلاق کے اظہار کا مہینہ ہے۔ احادیث میں اچھے اخلاق کی بہت تلقین ملتی ہے۔ آپ ؐ کا فرمان ہے ’’مومن اچھے اخلاق کے ساتھ اس شخص کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو قیام کرتا ہو‘‘ ( ابو داؤد)۔ سوچیے جب عام دنوں میں اچھے اخلاق کی یہ فضیلت ہے تو نیکیوں کے اس ماہ میں کیا فضیلت ہوگی۔ اس ماہ میں خاص طور پر دوسروں سے نرمی کا برتاؤ کرنے ، غم خواری کرنے اور اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ؐکا ارشاد ہے، ’’بہترین عمل مومن کو خوش کرنا، اس کا قرض ادا کرنا، اس کی ضرورت پوری کرنا اور اس سے کوئی تکلیف اور سختی دور کرنا ہے‘‘(شعب الایمان) ۔ ایک مومن کا کمال درجے کا ایمان یہ ہے کہ وہ اپنے لیے جو کچھ پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا ’’کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ اپنے بھائی کے لیےوہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے ۔ ( متفق علیہ)۔
کرنے کے کام:
رمضان میں اپنا، اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور آس پاس والوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کی خدمت کریں سب سے ہمدردی اور نرمی کا معاملہ کریں ۔جس قدر ہوسکے اپنے مال سے ضرورت مندوں کی مدد کریں ۔ اگر زکوٰۃ کی ادائیگی رہتی ہے تو اسے ادا کریں ۔
7۔ شَھرُ الصَّدَقَۃِ یعنی( صدقہ و خیرات کا مہینہ)
صدقے کی بڑی فضیلت ہمیں احادیث سے ملتی ہے۔ ماہِ رمضان میں نبی ؐکی سخاوت عروج پر ہوتی۔ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی خوب خوب صدقہ کرنا چاہیے۔ یوں تو ہر نیکی صدقہ ہے لیکن رمضان میں انسان اپنے مال سے بھی دوسروں کی مدد کرے۔ کیونکہ صدقے سے مال کم نہیں ہوتا۔فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والاہے۔ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے‘‘(البقرہ: 261-262)۔ایک اور جگہ فرمایا، ’’اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں ۔ اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے‘‘ (المنافقون :10 -11)۔
کرنے کے کام:
روزانہ صدقہ ضرور کریں۔نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لیں۔ اگر مال دینے کی استظاعت نہیں تو دوسروں کی خدمت کریں اور ان کی ضروریات پوری کریں ۔
8۔شَھرُ الرَّحمَۃِ وَ اَلبَرَکَۃِ (یعنی رحمت و برکت کا مہینہ)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے۔ شیاطین اس ماہ میں قید کر دیے جاتے ہیں تاکہ بندوں کے لیےنیکی کے کام کرنا آسان ہو جائے ۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروزے کھول دیے جاتے ہیں‘‘ (مسلم)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ تحقیق تمہارے پاس رمضان آیا ہے یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں ۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔ اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس کی بھلائی سے محروم رہا تحقیق وہ محروم ہی رہا‘‘( مسند احمد)۔
اس ماہ میں کھانے پینے میں بھی برکت اور اجر ہے۔ بندہ مومن کے لیےسحری کھانے میں برکت ہے اور یہ سنت ہے۔آپ ؐ نے فرمایا ’’ سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘ (بخاری)۔ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ؐ نے رمضان میں سحری کے لیےبلایا اور فرمایا’’آؤ مبارک کھانا کھالو‘‘(ابو داؤد)۔ اسی طرح افطار کا وقت بابرکت ہے کہ یہ دعائوں کی قبولیت کا وقت ہے اور روزےدار کے لیےاس میں خوشیاں ہیں۔ حدیث میں ہے، ’’ روزےدار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے تو خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہوگا‘‘( بخاری)۔
کرنے کے کام:
اللہ کی رحمت پانے کے لیےہر اچھے کام میں سبقت لےجانے کی کوشش کریں۔ اس دعا کو کثرت سے مانگیں۔
يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث
’’ اے ہمیشہ زندہ رہنےوالے! اے ہرچیز کو قائم رکھنے والے! تیری رحمت کے طفیل مدد مانگتا ہوں‘‘۔
٭سحری کا اہتمام کریں اور متوازن غذا لیں۔ کھجور بہترین سحری ہے۔ افطار میں جلدی کریں۔ متوازن غذا لیں اوراگر ممکن ہو تو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل کریں۔
9۔ شَھرُالقِیَام (یعنی راتوں کےقیام کا مہینہ)
یوں تو قیام اللیل کبھی بھی کیا جاسکتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس ماہِ مقدس میں اس کا اسپیشل اہتمام کرتی ہے۔ چاہے وہ نمازِ تراویح کی صورت میں ہو، نوافل اور تلاوتِ قرآن ہو یا ذکر کی کثرت ہو۔ یہ گنتی کی چند راتیں آپ کو نصیب ہوئی ہیں ان سے خوب فائدہ اٹھائیں ۔
آخری عشرہ: اس ماہ کا آخری عشرہ بہت فضیلت والا ہے۔ سنت سے ثابت ہے کہ آپ ؐ اس عشرے میں خوب عبادت کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی خاص ترغیب دلاتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ ؐ (عبادت کے لیے) کمربستہ ہو جاتے، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی جگاتے‘‘ (بخاری)۔ اسی عشرے میں شبِ قدر ہے جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ،
وَماَ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ،لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ:
’’اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر،شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر‘‘(القدر: 2-3)۔یعنی اس ایک رات میں کیا گیا نیک عمل ہزار ماہ کے عمل سے بہتر ہے۔ اس رات میں جبرائیل ؑ اور کثیر تعداد میں فرشتے خیر وبرکت اور رحمت کے ساتھ اترتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا ، ’’ بلاشبہ اس رات کو زمین میں فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘( مسند احمد)۔ اس رات میں گناہ بخش دلیے جاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ؐے فرمایا ، ’’ جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے شبِ قدر کا قیام کرتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کردلیے جاتے ہیں‘‘ (بخاری)۔ اسی طرح حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ’’ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اگر میں شبِ قدر پالوں تو اس میں کیا کہوں ؟ آپ ؐ نے فرمایا ، کہو ‘‘
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی:
’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور تو معافی کو پسند کرتا ہے پس مجھ کو معاف فرمادے‘‘(ترمذی)۔
کرنے کے کام:
راتوں کو قیام کریں ۔ آخری عشرے میں خوب عبادت کریں۔ اس کی طاق راتوں میں خاص طور پر شبِ قدر کو تلاش کریں اور اپنی بخشش کی دعائیں مانگیں۔نمازِ تراویح اور رات کو تلاوتِ قرآن کا خوب اہتمام کریں۔ آیات کے ترجمے کو سمجھنے اور ان پر غورو فکر کرنے کا یہ بہترین وقت ہے جب آپ کو دوسرے کاموں سے فراغت ہو تی ہے۔ یہ قرآنی آیات اور دعاؤں کو حفظ کرنے کا بہترین وقت ہے۔
٭اس کے علاوہ تقویٰ کے حصول کے لیے ا گر استطاعت ہو تو عمرہ بھی ادا کرنا چاہیے کیونکہ آپ ؐ نے فرمایا ’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کی مانند ہے‘‘ (طبرانی)۔ اگر گھریلو اور معاشی ذمہ داریاں اجازت دیں تو رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کریں اور یکسو ہو کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی غرض سے مسجد میں رہتے ہوئے عبادت کریں ۔ نبیؐ کی یہ سنت رہی ہے کہ آپ ؐہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے لیکن وفات کے سال آپ ؐنے بیس دن کا اعتکاف فرمایا(بخاری)۔
عید الفطر
رمضان کے اختتام اور شوال کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر منائی جاتی ہے جو مسلمانوں کے لیےخوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہے۔ یہ کھانے پینے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا دن ہے۔ اس دن روزہ رکھنا منع ہے۔ صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری نہیں۔ عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے۔ تاکہ روزہ دار کے لیےلغو اور بےہودہ اقوال اور افعال سے پاکیزگی ہوجائے اور مسکینوں کو کھانے کو مل جائے۔ چنانچہ جس نے اسے نماز(عید) سے پہلے پہلے ادا کیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا(ابو داؤد)۔
کرنے کے کام:
عید کے دن کی سنتوں پر عمل کریں مثلاً مسواک کرنا، غسل کرنا، بہترین لباس پہننا، خوشبو لگانا، نماز کےلیے جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز خصوصاً کھجور کھانا اور عید گاہ جاتے ہوئے کثرت سے تکبیرات کہنا ۔
آخر میں یہ کہ رمضان کے مہینے کو ’’ ٹریننگ کا مہینہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے آغاز سے پہلے ہی یعنی شعبان میں اپنے لیے کچھ ٹارگٹ سیٹ کرلیں اور ان کی تیاری بھی کرلیں۔ مثلاً اگر آپ نے قرآنی اور مسنون دعائیں یاد کرنے کا ہدف رکھا ہے تو ایسی کتب یا کارڈخرید لیں جن میں دعاؤں کا ترجمہ بھی موجود ہو۔ اپنے گھر والوں یا کسی ساتھی کو اپنے ساتھ شامل کر لیں ۔اس طرح مل جل کر کام کرنے سے نہ صرف یہ کہ آپ کا حوصلہ بڑھے گا بلکہ آپ کے لیے آسانی ہوگی اور ثابت قدمی بھی آئے گی۔ علاوہ ازیں کچھ دوسری عادات اپنانے کو اس ماہ ہدف بنائیں اور رمضان کے آخر میں اپنا جائزہ بھی لیں کہ آپ ان میں سےکون سے اہداف حاصل کرسکے تاکہ آپ ان کی اگلے گیارہ ماہ کے لیے مشق کر سکیں اور وہ آپ کی ذات کا حصہ بن جائیں۔جو اہداف حاصل نہ کیے گئے ہوں تو دیکھیں کہ انہیں حاصل کرنے میں کیا رکارٹیں آئیں اور کیسے انہیں آئندہ دور کیا جاسکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں اس ماہ کی شکل میں ایک زبردست موقع فراہم کر دیا ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح اس ماہِ مبارک سے فیضیاب ہوں اور اپنی ذات میں بہترین تبدیلی لاسکیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو بہترین رمضان گزارنےکی توفیق دے اور ہم سب کو بخش دے اور ہم سے راضی ہو جائے ۔آمین۔
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here