رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کے بہت سے روزمرہ کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات تبدیل ہو جاتے ہیں، عبادات کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں سرکاری محکموں میں دفتری اوقات کم کر دیے جاتے ہیں۔ ذاتی کاروبار کرنے والے بھی اپنے اوقت کار میں ردوبدل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کی دین کی طرف رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ نیکیوں کا اجر عام دنوں کی نسبت ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ نیکیوں کی بہار کا موسم ہے۔ ذیل میں رمضان کی برکت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسے کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اس مہینے میں خصوصی طور پر انجام دینے چاہئیں۔
اس مہینے کی مبارک ساعتوں میں زیادہ سے ز یادہ نفع حاصل کرنے کے لیے یہاں کچھ اعمال کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ امید ہے آپ انہیں مفید پائیں گے۔
تیاری اوراستقبالِ رمضان
انفرادی سطح پر تیاری کے لیے رمضان اور روزے کے بار ے میں قرآن و سنت کے احکام سے واقفیت حاصل کیجیے۔ مجموعۂ احادیث میں سے ’’کتاب الصوم‘‘ کو خاص طور سے دہرا لیجیے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر جتنا لٹریچر فراہم ہو سکے اس کا مطالعہ کیجیے۔ تکرار، تذکیر اور یاددہانی کا باعث ہوتی ہے۔
اجتماعی سطح پر استقبالِ رمضان کے عنوان سے ایسی نشستوں کااہتمام کیا جا سکتا ہے جن میں مل بیٹھ کر رمضان کی عظمت، پیغام و مقاصد اور اس کی برکات و فیوض کی یاد دہانی ہو اور ایسی فضا تیار ہو جائے کہ یکسوئی کے ساتھ عمل آسان ہو جائے۔
مسلسل یاد دہانی
اس مبارک مہینہ کے دوران ہر لمحہ اپنے نفس کو یہ یاددہانی کروائیے کہ اسے یہ لمحہ صرف اپنے ربّ کے لیے گزارنا ہے۔
ذکر
چوبیس گھنٹوں میں سے کچھ لمحات تنہا اپنے ربّ سے باتیں کرنے کے لیے ضرور نکالیے جن میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ربّ سے حسن عمل کی راہیں آسان کرنے کی التجائیں ہوں۔ کچھ مخصوص اوقات میں چند اذکار کے ورد کی پابندی کریں۔ مختلف اوقات اور حالات کی مسنون دُعائیں یاد کریں اور انہیں روزمرہ کے معمولات کا حصہ بنائیں۔ زبان سے ذکر کرتے ہوئے دل کو حاضر رکھیے تاکہ اس ذکر سے زیادہ نفع حاصل کیا جا سکے حتیٰ کہ اس ذِکر کی روح عمل میں سرایت کر جائے۔
دعا
دُعا میں کثرت رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے۔ دیگر دعائوں کے علاوہ ہر عشرہ کے لیے کوئی مخصوص دُعا ورد زبان رکھیے۔
پہلا عشرئہ رحمت ہے، اپنے ربّ کی رحمتوں میں اپنا حصہ محفوظ کر لیجیے۔
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن
’’اے میرے ربّ! میری بخشش فرما اور مجھ پر رحم کر۔ آپ ہی بہترین رحم کرنے والے ہیں‘‘۔
دوسرا عشرئہ مغفرت ہے، عجز و الحاح کے ساتھ اپنے ربّ سے مغفرت طلب کیجیے۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
’’میں اللہ (اپنے ربّ سے) ہر گناہ پر استغفار کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
تیسرا عشرہ ’’آگ‘‘ سے آزادی کا عشرہ ہے، آگ سے پناہ مانگیے۔
اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّار
’’اے اللہ! مجھے آگ سے بچا‘‘۔
قرآن سے تعلق
رمضان کا مہینہ دلوں کی صفائی، روح کی ترقی اور نفس کے تزکیہ کا مہینہ ہے۔ یوں تو اس مہینہ کی ساری عبادتیں روزہ، صدقہ، قیام اللیل، اعتکاف اسی لیے ہیں کہ دل ہر طرح کی کدورت اور گناہوں کے زنگ سے پاک صاف ہو جائے۔ مگر قرآن کی تلاوت اس زنگ اور گندگی کو دور کرنے میں سب سے مؤثر ہے۔
اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے:
’’یہ انسانی قلوب بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! پھر دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی اور جلا بخشنے والی چیز کیا ہے؟ فرمایا: کثرت سے موت کی یاد اور قرآن پاک کی تلاوت‘‘۔
قرآن کریم کی تلاوت و سماعت اس مہینہ کی خاص عبادت ہے بلکہ اصل کام ہی قرآن سننا، پڑھنا، سیکھنا، سکھانا اور اس پر عمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ سلف صالحین اس ماہ مبارک میں سب کچھ چھوڑ کر صرف قرآن کے ہو رہتے۔ قرآن پاک سے اپنا تعلق مضبوط کیجیے کہ یہی آپ کا سفارشی بن کر کھڑا ہوگا۔ کچھ وقت اس کی تلاوت کے لیے مخصوص کیجیے۔اس کی تجویددرست کیجیے، کچھ حصہ حفظ کیجیے، اس کے مفہوم اور معنی پر غور و تدبر کیجیے۔ کچھ وقت اس کے علم و فہم کے حصول کے اہتمام میں لگائیے اور کچھ وقت یہ علم دوسروں تک پہنچانے میں! قرآن کی ایک ایک آیت پر ایسا تدبر کیجیے، کہ وہ روح میں سرایت کر جائے اور عمل کا حصہ بن جائے۔ یہی نزول قرآن کا مقصود ہے۔ پھر ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ قرآن سینوں کے امراض کے لیے شفا بن جائے اور آخرت کے درجات کے تعین کی میزان!
قرآن فہمی
اس ماہِ مبارک میں کئی خاص پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے، ’’دورئہ قرآن‘‘ کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، آپ کے محلے، ادارے… جہاں کہیں بھی آپ کے لیے سہولت سے شرکت ممکن ہو کسی ایک پروگرام میں تو ضرور باقاعدگی سے شرکت کیجیے۔ ممکن ہو تو آپ خود ایسا کوئی پروگرام رکھیں، افراد کو شرکت کی دعوت دیں، ان تک قرآن کی بات پہنچائیں۔ خلوص نیت سے کی گئی یہ کوشش آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گی، انشاء اللہ۔ علم کی جستجو بندئہ مومن کے فرائض میں سے ہے۔ اللہ کی رضا کے معاملات سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے، معلوم نہ ہو تو جاننے والوں سے پوچھنے میں تاخیر نہ کیجیے۔
قرآن فہمی کی محفلیں ایسی عظیم الشان محفلیں ہیں کہ ان کے لیے خاص بشارتیں دی گئیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب بھی کچھ لوگ مل کر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کو ایک دوسرے سے سمجھتے ہیں تب (اللہ کی جانب سے) ان پر سکنیت نازل ہونے لگتی ہے۔ اللہ کی رحمت ان کو گھیر لیتی ہے۔ اور فرشتے ان کے اردگرد اکٹھے ہونے لگتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے مقرب (فرشتوں) میں کرتا ہے‘‘۔ (مسلم)
حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ:
’’یہ قرآن اللہ کا دستر خوان ہے پس اس سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ اٹھا لو۔ یہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ ہر طرف روشنی کر دینے والا نور ہے۔ یہ ہر مرض کی شفا ہے۔ ہر مسئلے کا علاج ہے۔ جو ا سے چمٹ رہے یہ اس کا سہارا اور نجات ہے۔ جو اس کے پیچھے ہو لیا وہ پار لگ کر رہے گا۔ نہ وہ کبھی بھٹکے گا کہ اسے شرمسار ہونا پڑے اور نہ وہ کسی ٹیڑھے پن کا شکار ہوگا کہ اسے سیدھا کرنا پڑے۔ اس قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔ بار بار پڑھے جانے کے باوجود یہ کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ اس کو خوب پڑھو، اللہ اس کا ایک ایک حرف پڑھنے پر تمہیں اجر دے گا۔ دیکھو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ’’الٓم‘‘ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف
ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف‘‘۔ (رواہ الحاکم)
رب کریم کی رحمت سے امید ہے کہ رمضان المبارک میں قرآن پڑھنے کا اجر عام دنوں سے ستر گنا تو ہوگا۔ اس سے بڑھ کر یہ وعدہ بھی ہے جیسا کہ حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے روز بندے کے سفارشی بن کر آئیں گے۔ روزہ کہے گا:
’’اے میرے ربّ! میں نے اسے کھانے پینے اور شہوت سے روک رکھا تھا۔ اب تو اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما‘‘۔ قرآن کہے گا: ’’میں نے راتوں کو اس کو نیند سے باز رکھا ،اب تو اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ؐفرماتے ہیں: ’’ دونوں کی سفارش ہی قبول ہو گی‘‘۔ (احمد، طبرانی، حاکم)
اللہ کرے کہ آنے والا رمضان ہمیں ان وعدوں کا مصداق پائے۔
مطالعہ سیرت
قرآن کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا جب تک سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہرا شغف نہ ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جان پہچان اور محبت بڑھانے کے لیے سیرت کی کوئی نہ کوئی کتاب ہمیشہ زیر مطالعہ رکھیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کی سیرتوں کا مطالعہ بھی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا قرینہ سیکھنے میں رہنما ہے۔ پاکیز ہ نفوس کے ساتھ صحبت و تعلق فکر و عمل کو پاکیزہ بنا دیتا ہے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں تطہیر افکار اور قوت عمل میں اضافہ کے لیے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرین امت کی سیرت کا مطالعہ اور گہرا شغف لازم ہے۔ یہ ایک لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین کی ہم نشینی کی سعادت ہے۔
افطار کا اہتمام
افطار کا وقت قبولیت دعا کے اوقات میں سے ہے۔ افطاری کی تیاری کا کام کچھ پہلے مکمل کر کے گھر والوں کے ساتھ ایک مختصر اجتماعی دعا کا اہتمام کیجیے۔ جس میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ ہو، ان پر اظہار تشکر ہو، اہل خانہ اس موقع کو ایک نئی دعا یاد کرنے اور دہرانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس کام میں شرکت جوش اور دلچسپی کا سبب ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
ابن ماجہ میں آپ ؐ کا یہ فرمان مروی ہے کہ:
ــ’’ روزہ دار کو روزہ افطار کرنے کے وقت ایک دعا کا حق دیا جاتا ہے جو ہر گز رد نہیں ہوتی‘‘۔
افطار میں بسیار خوری سے بچیں۔ بھوک رکھ کر کھانا، کھانے کی اہم ترین سنت ہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کھولتے تو نماز مغرب سے پہلے کچھ تازہ کھجوریں ہی لیتے۔ تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو عام کھجوریں لیتے۔ یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چھوٹے چھوٹے چند گھونٹ ہی لے لیتے‘‘۔
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر اس سے زیادہ افطار کا اہتمام شاید ہی کبھی ہؤا ہو۔افطار میں معمول تعجیل کا رہا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’میری امت بہت ہی اچھی رہے گی جب تک وہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہی‘‘۔ (رواہ احمد)
رب کریم کی بے انتہا کرم نوازی ہے کہ روزہ دار کے منہ کی ناخوشگوار بو اسے مشک کی مہک سے بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس منہ سے کی جانے والی دعائیں پھر اس کے ہاں شرف قبولیت سے کیسے محروم رہیں گی۔ اس منہ سے جب اس کو پکارا جائے گا اپنی عاجزی کا اظہار ہوگا اس کی کبریائی کا اعلان ہو گا تو اسے کیوں نہ پسند آئیں گے۔ وقت ِافطار مقبول گھڑیوں میں سے ہے۔ یہ قیمتی موقع کہیں افطاریوں کے تکلفات اور شورو شغب میں کھو نہ جائے۔
روزہ دار نے کھانا پینا چھوڑا کہ اس کے محبوب رب نے اس کو کھانے پینے سے رک جانے کا حکم دیا تھا۔ جونہی سورج مغربی افق میں روپوش ہؤا اب اسے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر مالک کا رزق کھائے۔وقت ِ افطار وقت ِ خوشی ہے۔جیسا کہ حضور اکرمؐ نے
فرمایا:
’’ روزہ دار کے نصیب میں دو خوشیاں ہیں۔ ایک اس کی وہ خوشی جب روزہ افطار کرتا ہے اور ایک اس کی وہ خوشی جب وہ روزہ لے کر اپنے رب کے پاس پہنچے گا اور اس سے ملاقات کرے گا‘‘۔
افطار کی یہ خوشی کھانے کی اجازت ملنے کی خوشی نہیں، انواع و اقسام کی لذتوں کی خوشی نہیں، یہ تو رب کی رضا کا مقصود پا لینے کی خوشی ہے۔چنانچہ عبداللہؓ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ کھول لیتے تو فرماتے:
’’ذَھَبَ الظمأ وابْتَلّت الْعُرُوْق وَثَبّت الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہ‘‘
’’پیاس بجھی، رگوں کو تراوت ملی اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی پکا‘‘۔ (ابودائود)
افطار کروانا
حضرت زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کسی روزہ دار کو افطار کروائے، اسے اس کے روزے جتنا ہی اجر مل جاتا ہے، جبکہ روزہ دار کا اپنا اجر بھی کم نہیں ہوتا‘‘۔ (الدارمی)
افطار کروانے کا یہ اجر اس شخص کو بھی ان شاء اللہ مل جائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی، ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔
دوسروں کو کھلانا اس مہینے کا ایک بہترین عمل ہے۔ رشتہ دار، پڑوسی، مساکین، فقرا، مجاہدین سب اس فہرست میں داخل ہیں جن کو افطار کروا کر اجر سمیٹا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری نہیں کہ بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کیا جائے۔ رمضان المبارک کی قیمتی ساعتوں کو بڑی دعوتوں میں محفل آرائی کی نذر کرنے سے بہتر ہے خاموشی سے کسی کے گھر افطار کا سامان پہنچا دیا جائے۔
قیام اللیل
اس کا کچھ نہ کچھ اہتمام تو سحری کے اہتمام کے ساتھ خودبخود ہو جاتا ہے۔ رات کے پہلے حصہ میں نماز تراویح ،سماعت قرآن کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ سحری کے لیے اٹھیے، تو دس پندرہ منٹ پہلے بیدار ہونے سے تہجد کی ادائیگی کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ وہ نفل نماز ہے جس پر اعلیٰ درجات و مقامات کی بشارت ہے۔ پھر یہ ایک ایسی گھڑی میں ادا کیے جا رہے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ زیریں آسمان پر نزول فرما کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں:۔
’’کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو نہ فقیر ہے نہ ظالم؟ صبح طلوع ہونے تک یہ صدا رہتی ہے‘‘۔ (مسلم)
فی الواقع آہ سحر گاہی سے آشنا ہونے والے کے لیے سحرخیزی گہری میٹھی نیند سے لذیذ تر ہوتی ہے۔
سحری
ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سحری کھانے میں برکت ہے۔ پس اسے ہرگز ترک نہ کرو۔ چاہے تم میں سے کوئی شخص پانی کا ایک گھونٹ ہی پیئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ملائکہ سحری کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں‘‘۔ (احمد)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مومن کے لیے کھجور کی سحری کیا ہی اچھی ہے‘‘۔
سحری کے آخر وقت تک کھاتے رہنے کی حدیث اوبر بیان ہو چکی ہے۔
لیلۃ القدر کی تلاش
اللہ کے رسولؐ نے لیلۃ القدر کا تعین نہیں کیا ، تاہم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کی ترغیب دی گئی ہے ۔آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ ساری رات جاگ کر تلاوت قرآن، دعا اور ذکر ممکن نہ ہو تو جس قدر ممکن ہو۔ یہ ضرور ہو کہ آپ کی طاق راتیں دوسری راتوں سے ممتاز نظر آئیں۔ اس مبارک رات کی خصوصی دعا کثرت سے مانگیے ،اور مانگنا محض زبان کا بے کیف ورد نہ ہو ،بلکہ تہہ دل سے نکلی ہوئی ایک التجا، ایک آرزو ہو۔
اَللّٰہُمْ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَاغَفُوْر
’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، اے بخشنے والے! مجھے معاف کر دے‘‘۔
اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا :
’’اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا‘‘۔(احمد،نسائی)
رب کریم کے اس احسان عظیم کے لیے یہ اظہار تشکر ہے جو قرآن کریم کی صورت میں انسانیت کو عطا ہؤا۔جس نے ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشن راستہ دکھادیا،انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی کہ اسے کامیاب مستقبل کے حصول کا گر بتا دیا جائے۔ ایک عظیم الشان نعمت کے حصول پر ایک رات شکر گزاری کے لیے وقف کردینا کوئی بڑی بات نہیں۔لیکن اس رات کی بھلائی سے محرومی فی الواقع بڑی محرومی ہے۔اللہ رب العزت کے عفو وکرم سے محرومی!ہر خیر سے محرومی!!۔
اعتکاف
آخری عشرہ میں اعتکاف ایک اہم عبادت ہے۔ اعتکاف محبوب کے ہمراہ خلوت کا نام ہے۔ یہ وہ لمحات ہیں جب بندہ دنیا کے ہر کام اور ہر دلچسپی سے کٹ کر خود کو صرف اپنے محبوب کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ اس خلوت کا لطف اٹھانے میں آپ بھی اپنا حصہ لیجیے۔ پورے عشرہ کا اعتکاف ممکن نہ ہو تو کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔ نفسانی قوتوں پر غلبہ پانے کے لیے یہ نہایت سہل اور کارگر نسخہ ہے۔
اصطلاحاً ’’اعتکاف‘‘ کے معنی ہیں ’’رب کریم کی رضا جوئی اور تقرب کے حصول کے لیے مسجد میں رکے رہنا۔
نبی کریم ؐ ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنینؓ بھی اعتکاف کا اہتمام کرتی رہیں۔
اعتکاف کے لیے کوئی وقت یا مدت متعین نہیں ہے۔ جس وقت اور جتنی مدت کے لیے کوئی چاہے اعتکاف کر سکتا ہے۔ تاہم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
’’نبی ؐرمضان کے آخری دس دنوں میں (ہر سال) اعتکاف فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ اپنے رب سے جا ملے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اعتکاف میں کرنے کے کام
نیت: بغیر اعتکاف کی نیت کے مسجد میںٹھہرنا اعتکاف نہیں کہلاتا۔ نیت ضروری ہے۔
مقام: سب تعلقات سے کٹ کر صرف اپنے رب سے لو لگانے کے لیے مسجد میں قیام کرنا ضروری ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اعتکاف کے لیے مسجد کی شرط صرف مرد کے لیے ہے۔ عورت اپنے گھر کی مسجد (جہاں وہ نماز ادا کرتی ہے) میں اعتکاف کرے گی۔ اگر اس نے اپنے گھر میں نماز کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں کر رکھی تو کوئی گوشہ متعین کر لے اور اسی میں اعتکاف کر لے۔
معتکف کے لیے جائز ہے کہ اپنے لیے ایک خاص جگہ متعین کر لے اور اس پر پردہ ڈال لے۔ تاکہ اسے تنہائی اور خلوت حاصل ہو۔ بشرطیکہ اس سے دوسروں کے لیے جگہ تنگ نہ ہوتی ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐ اعتکاف فرماتے تو اسطوانہ توبہ کے پاس آپؐ کا بستر ڈال دیا جاتا یا چارپائی رکھ دی جاتی۔ (ابن ماجہ)
مدت: نبی ؐ ہر سال دس دن کا اعتکاف فرماتے لیکن وفات کے سال آپؐ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ اگر کسی کو اعتکاف کے لیے دس دن میسر نہ آ سکیں تو جتنا وقت مل سکے اتنے وقت کا ہی اعتکاف کر لینا چاہیے۔
روزہ: جمہور آئمہ سلف کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے۔ نبی ؐ سے روزے کے بغیر اعتکاف ثابت نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
’’سنت یہ ہے… اور یہ کہ روزے کے بغیر اعتکاف نہیں‘‘۔
عورت حیض کی حالت میں اعتکاف نہیں کر سکتی لیکن استحاضہ کی
حالت میں کرسکتی ہے۔
اذکار: تمام آئمہ کا اتفاق ہے کہ دوران اعتکاف نفل نماز، تلاوت، ذکر الٰہی، حمد و تسبیح، استغفار اور درود شریف پڑھتے رہنا مستحب ہے۔ جمہور آئمہ (بشمول امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ) کے نزدیک حدیث اور فقہ کی کتابوں کا مطالعہ بھی مستحب ہے۔
گفتگو: دوران اعتکاف غیر ضروری گفتگو بحث مباحثہ اور ملاقات کرنا درست نہیں۔ تاہم اگر کوئی فرد ملنے آئے تو وہ اس سے بات چیت کر سکتا ہے۔ بلکہ الوداع کہنے کے لیے اپنے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکل سکتا ہے۔ اُم المومنین حضرت صفیہؓ سے روایت ہے کہ ’’نبی ؐ اعتکاف میں تھے کہ میں ایک رات آپؐ سے ملنے آئی۔ میں نے آپؐ سے بات چیت کی۔ پھر میں کھڑی ہوئی اور پلٹی تو آپؐ بھی مجھے الوداع کہنے کے لیے کھڑے ہوئے‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود)
جائے اعتکاف سے باہر نکلنا: اس پر اجماع ہے کہ ناگزیر انسانی ضروریات کے لیے مسجد سے باہر نکلنا یا اپنے گھر داخل ہونا جائز ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ
’’نبی ؐ جب معتکف ہوتے تو انسانی ضرورت کے سوا کسی دوسری غرض کے لیے گھر میں داخل نہ ہوتے تھے‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’نبی ؐ اعتکاف کے دوران میری طرف اپنا سر بڑھاتے اور میں سر دھوتی۔ مزید یہ کہ میں آپؐ کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھی‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود)
دوسری ضروریات جیسے مریض کی عیادت اور جنازہ میںشرکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ تاہم حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق:
’’نبیؐدوران اعتکاف مریض کے پاس سے گزرتے تو چلتے چلتے حال دریافت کر لیتے مگر رُک کر بات نہ کرتے‘‘۔ (ابودائود)
دوران اعتکاف تجارت یا کوئی دوسرا کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔
شوہر کی اجازت: عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ اعتکاف کرنا چاہیں تو اس کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لیں۔ اگر وہ اس کی اجازت کے بغیر اعتکاف کریں گی تو اسے روکنے کا اختیار ہے۔
اعتکاف کی قضا: اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر معتکف کسی وجہ سے اپنا اعتکاف پورا کیے بغیر چھوڑ دے تو اس کے ذمہ اس کی قضا ضروری ہے یا نہیں۔ امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک قضا واجب ہے۔ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک قضا واجب نہیں مستحب ہے۔
جوارح اور زبان کا روزہ
روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں۔ آنکھ کا بھی روزہ ہے، کان کا بھی روزہ ہے، زبان اور ہاتھ پائوں کا بھی روزہ ہے۔ ان کی نگرانی کیجیے۔ کان وہی کچھ سنیں جو ان کا ربّ سننا پسند کرتا ہے۔ آنکھ وہی کچھ دیکھے جس کے دیکھنے سے ربّ کریم کی نافرمانی کا شبہ نہ ہو۔ ہاتھ پائوں وہی کچھ کریں جو ان کے ربّ کو محبوب ہو۔ کم از کم کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے تو حرکت نہ کریں۔ زبان کی خاص طور سے حفاظت کی ضرورت ہے۔ فضول گوئی سے بچنے کا خاص اہتمام کیجیے۔ نبی ؐ کی ہدایت ہے:
’’روزہ دار بیہودہ اور فحش باتیں نہ کہے، شور و شغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ کرے یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری و مسلم)
ایک اور موقع پر آپؐ نے یوں وضاحت فرمائی:
’’روزہ کا مقصود محض کھانا پینا ترک کرنا نہیں بلکہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا چھوڑ دینا ہے‘‘۔ (بخاری)
یاد رکھیے! ہاتھ اور زبان سے دی گئی ایذا انسان کو اس روز ’’مفلس‘‘ کر دے گی، جب وہ سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ اس کی تمام نیکیاں ان دعوے داروں پر تقسیم کر دی جائیں گی ،جو اس کی ایذا کا نشانہ بنے۔ جن کے حقوق تلف کیے گئے۔ جن کی عزت پامال کی گئی۔ نیکیاں تقسیم ہونے کے بعد بھی دعوے ختم نہ ہوئے تو دعویٰ داروں کے گناہ اس پر لا ڈالے جائیں گے اور پھر انجام جہنم کی اتھاہ گہرائیوں کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ فیصلہ کر لیجیے کہ رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں:
۔ کسی سے چیخ چلاّ کر بات نہ کریں گے۔
۔ کسی سے لڑائی نہیں کریں گے۔
۔ کسی کے بارے میں کوئی بات نہیں کہیں گے، سامنے ہوں یا پیٹھ پیچھے، الا یہ کہ وہ بھلی بات ہو۔
۔ لغو اور لایعنی گفتگو نہیں کریں گے۔
فی الواقع زبان کی حفاظت سب سے مشکل کام ہے۔ اس کی حفاظت سے دوسرے تمام کام سدھر جاتے ہیں اور حفاظت نہ کرنے سے نیکیاں غارت ہو جاتی ہیں۔
نیکی کمانے کا مہینہ
رمضان ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ خیر خواہی کا مہینہ ہے۔ اپنے قریبی اعزا و اقارب کے حالات سے واقفیت حاصل کیجیے۔ جو مالی لحاظ سے تنگ دست ہوں ان کی مالی مدد کیجیے۔ جو جسمانی خدمت کے محتاج ہوں ان کی ہر ممکن خدمت کیجیے۔ اپنے ماتحتوں سے نرمی کا سلوک کیجیے، ان کے کام کا بوجھ ہلکا کیجیے۔
’’نیکی‘‘ آخرت کی کرنسی ہے۔ نیکی کے کسی کام کو معمولی نہ خیال کیجیے۔ ہر ’’نیکی‘‘ آپ کو اپنے ربّ سے قریب تر کرتی ہے اگرچہ یہ راستے سے ایک تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہو۔ اگرچہ یہ نفل نماز ہو، اگرچہ یہ ایک کھجور کا صدقہ ہو، اگرچہ یہ کسی کو مسکرا کر دیکھنا ہی ہو۔ کھانا کھلانا، مریضوں کا علاج، عیادت، صلہ رحمی، روزہ دار کا روزہ افطار کرانا سب نیکی کی مختلف جہتیں ہیں۔
ایفائے عہد، دیانت داری، اللہ کے دین کی اشاعت، حیا کا خیال و لحاظ، لڑنے والوں میں صلح کروانا۔ امت کی خدمت و اصلاح، اہل ایمان سے محبت، کفر سے نفرت، ہر لمحہ اپنے ربّ کی رضا کی تلاش، اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر۔ یہ سب نیکی اور تقویٰ کے مظاہر ہیں۔ روزہ کا مقصد ہی حصول تقویٰ ہے۔ قلب و نگاہ کو اللہ کی رضا کے تابع کر لینا، جسم و جوارح کو اللہ کی اطاعت میں لگا دینا، اس کی محبت میں سرشاری اور مستی کی سی کیفیت کا طاری ہو جانا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو روزہ سے اس مقصود کو پا لیتے ہیں۔
خرچ میں اعتدال
’’فضول خرچ‘‘ شیطان کے بھائی ہیں۔ اس مبارک مہینہ میں خرچ کے معاملہ میں ’’اعتدال‘‘ کی مشق کریں۔ بجلی، پانی، گیس،عید کی تیاری ،غرض گھر کے ہر طرح کے اخراجات میں میانہ روی اختیار کیجیے۔ احتیاط کیجیے،کہیں ذرا سی لاپرواہی، لغزش یا بچوں کی خوشی کی خاطر کیا گیا خرچ ،آپ کو شیطان کے بھائیوں کی صف میں کھڑا نہ کر دے۔ یاد رکھیے! آپ کی بچت میں اللہ کے دوسرے بندوں کا حق ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ
انفاق فی سبیل اللہ یوں تو ہر حال میں بڑی پسندیدہ عبادت ہے۔ لیکن رمضان المبارک میں تو اس کا اجر کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ نبیؐ اس مبارک ماہ کے دوران فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کی مانند ہو جایا کرتے۔ اللہ کے دین کی اقامت و اشاعت کے لیے، اقربا کے لیے، محتاجوں اور مسکینوں کے لیے، جتنا مال صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے نکال سکیں نکالیں۔
زکوٰۃ بھی ہو سکے تو اسی ماہ میں ادا کریں۔ ان مبارک ایام میں فلسطین، افغانستان اور دنیا کے دوسرے خطوں کے ان کروڑوں مصیبت زدہ مظلوم بہن بھائیوں کو یاد رکھیے ،جو اللہ کے دین کے لیے سینہ سپر ہیں اور باطل کے حضور جھکنے پر تیار نہیں۔
ناگوار امور پر چشم پوشی
ناگوار امور پر چشم پوشی… ہم میں سے کون اس کا محتاج نہیں…؟ صرف اللہ کے لیے اللہ کے بندوں کی جانب سے پیش آنے والے ناگوار اور تکلیف دہ امور پر صبر اور عفو و درگزر کا رویہ برائی کا بدلہ بہترین بھلائی سے دینا اللہ رب العزت کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کا ایک آسان گُر ہے۔اخلاص، اخوت و محبت، ہمدردی، ایثار، خدمت، صبر، شکر… یہ ماہِ مبارک اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج او رنشوونما کا عمدہ موقع ہے۔
باجماعت نماز
رمضان کامہینہ بھلائی کی جانب سبقت کے مواقع فراہم کرتا
ہے۔ دل خیر کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر کے مرد ’’مسجد‘‘ سے رشتہ کمزور کیے ہوئے ہیں تو ان کو یہ رشتہ استوار کرنے اور مضبوط بنانے کی ترغیب دیجیے۔ آخر ستائیس گنا اجر سے محروم رہنا کون گوارہ کر سکتا ہے؟ یہ نقصان گھر کے مردوں کا ہی نہیں ہم سب کا ہے۔ مل کر ہمت سے اپنے گھر والوں کو اس خسارہ سے بچائیے۔ اپنے بیٹوں کو ا بتدا ہی سے مسجد میں باجماعت نماز کا عادی بنائیے۔
لھو الحدیث سے اجتناب
رمضان کا مہینہ لہو الحدیث ہی نہیں ہر طرح کے لہو و لعب سے بچنے کی مشق کا مہینہ ہے… اس ماہ کی قیمتی ساعتیں سڑکوں اور بازاروں میں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے رمضان اور عید کی خریداری رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی کر لیجیے۔ حیا باختہ لٹریچر، مناظر، ماحول اور میڈیا کے اثرات سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کا خاص اہتمام کیجیے… ’’حیا‘‘ اسلامی معاشرت کی اہم علامت ہے۔ اپنے گھر اور اپنے ماحول میں اسے یقینی بنائیے۔
صدقہ فطر
صدقہ فطر دل کی رغبت اور پورے اہتمام کے ساتھ عید سے پہلے ہی ادا کر دیجیے تاکہ نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
صدقہ فطر کی حکمت ذیل کی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض فرمایا تاکہ روزہ دار فضول اور نازیبا قسم کی باتوں سے پاک ہو جائے اور مساکین کو کھانا میسر آجائے، جس نے اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کیا تو وہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقات میں سے ایک صدقہ ہے‘‘۔ (ابودائود، ابن ماجہ)
رزق حلال
رزق حلال کا اہتمام کیجیے۔ اپنے جسم کو شبہات سے بچائیے۔ حرام سے پلا ہؤا جسم آگ کا ایندھن ہے۔ اس جسم کی دُعا، نماز، روزہ، صدقات کچھ بھی شرفِ قبولیت نہیں پا سکتے۔ قرآن پاک کے جس رکوع میں رمضان کے روزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں آخری ہدایت یہ ہے:
’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقہ سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقع مل جائے‘‘۔ (البقرۃ ۱۸۸)
رمضان میں عمرہ
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا فضیلت کے کاموں میں سے ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کے برابر ہے‘‘۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ)
عمرہ بذات خود ایک بے حد پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:’’ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوںکے لیے کفارہ ہے‘‘۔ (مسلم ۳۲۸۹)
روزے کا ثمر
اسلام جس عبادت کا حکم دیتا ہے وہ ایسی بے ثمر نہیں کہ انسان کی ذات اور اس کے اردگرد معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لے آئے۔ عبادت تو ہے ہی شعور اور کردار میں تبدیلی لانے کے لیے۔ عبادت کا اپنا لطف تو ایک اضافی انعام ہے جو معبود کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔
ربّ کی رضا کے حصول میں بے چین بندہ وہ ہے جو اپنے مالک کو پہچان چکا ہے۔ مالک کی بندگی کا سلیقہ سیکھ چکا ہے۔ اپنی زندگی کے مقصد سے آشنا ہے اور آخرت کی تیاری میں دیوانہ وار مگن۔
اپنے رب کی محبت میں سرشار یہ بندہ جب روزہ رکھتا ہے تو اس سے لازماً نیکیاں پھوٹنی چاہئیں۔ برائی ختم ہونی چاہئے۔ انسان کی اپنی ذات میں، اس کے گھر میں اور اس کے معاشرہ میں نیکی کے یہ کام صرف
رمضان المبارک ہی میں کرنے والے نہیں۔یہ تربیتی مہینہ تو ان امور میں باقاعدگی پیدا کرنے کی تربیت کا مہینہ ہے۔ یاد رکھیے ضبط نفس کی یہ تربیت اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے جہاد کی تربیت کا ایک حصہ ہے۔
نبیؐکا ارشاد ہے :
’’ابن آدم اپنے ہر عمل کا بدلہ کئی کئی گنا پاتا ہے، ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بدلہ پالیتی ہے‘‘۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ’’سوائے روزے کے۔ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔بندہ اپنی لذت و لطف اور اپنا کھانا پینا میرے لیے چھوڑتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الصیام، حدیث ۱۹۴۵)
عبادت صیام کو بس یہی شرف کافی ہے اسے ’’میرے لیے‘‘ قرار دیا گیا ’’الصوم لی‘‘ کہا گیا ۔ کس قدر پیار اور اپنائیت ہے روزہ دار کے لیے! یہ اظہار محبت صرف بھوکا رہنے پر نہیں ہے ۔یہ پذیرائی تو عبدیت کی شان کی پذیرائی ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر یہ چند گھنٹے کاعمل ہی نہیں پوری زندگی بس اسی کی خاطر ہونا چاہیے۔
بڑی ہی محبت اور اپنائیت سے اس حقیقت کی یاد دہانی اس رکوع کے وسط میں کروائی گئی جس میں روزوں کی فرضیت کا حکم دیا گیا:
’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دیجیے کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات آپ انہیں سنا دیجیے) شاید کہ وہ راہ راست پا لیں‘‘۔ (البقرۃ۔ ۱۸۶)
اپنے رب کی پہچان، اس کے قرب کا احساس، یہی روزہ کی اصل ہے۔ یہی روح کی بالیدگی ہے۔ اعلیٰ ترین مقام!
سارا دن کھانے پینے اور لطف و لذت سے اجتناب کوئی ترک ِ دنیا کا مظاہرہ نہیں محبوب کی نگاہ التفات کی تلاش ہے۔ کسب آخرت کا عمل ہے۔ بندہ مومن محبوب کے اشارہ پر کھانے پینے کو چھوڑتا ہے اور اسی کے حکم پر کھاتا ہے۔اس کی پوری زندگی عبدیت کی یہی شان لیے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ربّ کے حضور اس روز حاضر ہو جائے جو ہمیشگی کا دن ہے۔ چنانچہ روزہ کے افطار اور اپنے ربّ سے ملاقات کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اس کی روزہ کھولنے کے وقت اور ایک خوشی اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت‘‘۔ (صحیح بخاری: حدیث ۱۹۴۵)
روزہ عجز و نیاز کا اظہار ہے۔ عبدیت کی ایک یاد دہانی!
اپنا جائزہ لیجیے۔ کیا ہم اپنی جان، اپنا مال، اپنا وقت، اپنی صلاحیتیں، اپنی خواہشات اللہ رب العزت کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ گزارے گئے اس ماہِ مبارک میں ہم نے اپنے عمل کو کس قدر بہتر بنایا۔ منسلک سوالنامہ کے ذریعہ اپنا احتساب کیجیے۔ ہم اس تربیتی دور سے کیا کچھ حصہ حاصل کر سکے۔ اگر آپ اس جائزہ سے مطمئن ہیں تو آپ کو مبارک ہو، ان شاء اللہ یہ روزے آپ کے حق میں سفارشی بن کر کھڑے ہوں گے۔ رب کریم ہم سب کے لیے قرآن اور روزہ کی سفارش مقدر فرمائے۔ (آمین!)
یاد رکھیے!!اگر ہم نے اس خیر و برکت کے عظیم مہینہ سے استفادہ میں کوتاہی کی تو یہ مہینہ اپنا فرض پورا کرنے میں غفلت نہیں کرے گا۔ یہ تو صرف ان لوگوں کو سعادت اور خیر و برکت سے نوازتا ہے جو اس کے طلب گار ہوں۔ رہے غافل تو ان کے حصہ میں شقاوت اور بدبختی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی نوازشیں اور عنایات تو دنیا و آخرت دونوں جگہ نفع بخش ہوں گی۔جائزہ یہ بھی لینا ہے کہ کہیں ہم ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کے بارے میں کہا گیا:
’’کتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا‘‘۔
ممکن ہے ایسا اس لیے ہو کہ اللہ کی رضا کے حصول کی نیت ہی نہ کی گئی ہو۔یااپنی عبادات میں تزکیہ نفس، اصلاحِ باطن اور سیرت کی پاکیزگی کو مقصود ہی نہ رکھا گیا ہویا جسم حرام غذا سے پرورش پا رہا ہو۔ اس لیے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’اللہ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے شکم میں حرام غذا ہو۔ بلکہ جسم کا جو گوشت حرام غذا سے بنا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا ہی مناسب ہے‘‘۔ (مسند احمد)
٭…٭…٭