میں اوسط سے بھی کہیں کم درجے والا ایک عام سا شہری کبھی نیم سرکاری ملازم ہؤا کرتا تھا۔ آج کل دس برس سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھ سے کسی صاحب نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں تو میں نے جواب میں کہا کہ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں، میرا جواب سن کر نہ جانے وہ کیوں کھلکھلا سے گئے۔ پہلے تو ان کا یہ کھلکھلانہ پن مجھے سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی خود ساختہ خانقاہ میں شرکت کی دعوت دی تو بات سمجھ میں آئی۔
بات یہ ہے کہ ہم نے انگریزی الفاظ کو جس تیزی کے ساتھ اپنا لیا ہے اور ہر آنے والے منٹوں اور سیکنڈوں میں اپناتے چلے جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ اردو ادب ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی خدمات کے جتنے بھی ذخائر ہیں سب کے سب ردی کی ٹوکری کی نذر ہو کر رہ جائیں گے۔ اول تو کتابیں پڑھنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن ثانیاً اگر کسی کے اندر کتابیں پڑھنے کے سودے نے اسے مضطرب بھی کردیا تو وہ ان کتابوں کو پڑھ تو شاید لے، لیکن کیا ان تحریروں کو سمجھ بھی سکے گا؟
کسی زمانے میں میرے پاس 76 ماڈل کی ایک کرولا کار ہوا کرتی تھی جس کو میں نے بہت خیال سے رکھا ہؤا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ نہایت ضعیفی میں بھی ’’لال لگام‘‘والی ’’بوڑھی گھوڑی‘‘سمجھی جاتی تھی۔ ایک دن بہت ہی عجیب سی بات ہوئی۔ میں سودا سلف لینے گھر کے قریب ایک عارضی سے بازار گیا۔ جونہی میں نے اپنی آخری ٹانگ بوڑھی گھوڑی سے کامیابی کے ساتھ باہر نکالی تو اپنی پشت پر ایک دوستانہ سی تھپکی محسوس کی۔ مڑ کر دیکھا تو کوئی بارہ تیرہ سال کے ایک گہرے سانولے رنگ کے بچے پر میری نظر پڑی۔ سبزی منڈی ہو، بس اسٹاپ ہوں، چوک چوراہے ہوں یا عام سے چھوٹے موٹے بازار، ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوئے بیشمار گداگر آپ کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ میرے دل میں فوری طور پر جو خیال گزرا وہ کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ بھی نہیں کہ میں اکثر رحم دل نہیں بنا ہوںگا۔ فریادی بھی سارے ایک جیسے نہیں ہؤا کرتے۔ اکثر کے چہروں پر نظر پڑتے ہی جانے کیوں دل پگھل سا جاتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔ کسی کی مدد کرنا کوئی گناہ بھی نہیں لیکن گلیوں، سگنلوں، بازاروں اور چوک چوراہوں پر کسی کو کچھ دینے کے بعد آپ جس عذاب میں گرفتا ہو جاتے ہیں وہ آپ کے دل میں خوشی بھرنے کی بجائے کچوکے لینے لگتا ہے۔ ادھر آپ نے کسی ایک پر مہربانی کی اْدھر نہ جانے زمین کتنے بھکاریوں کو اگلنا شروع کر دیتی ہے اور یوں آپ کا اپنی جان ہی نہیں، اجلے کپڑوں کو عجیب عجیب رنگوں والے داغوں اور بدبوؤںسے بجانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ پہلا اتفاق تھا کہ اس ہاتھ کے لمس سے مجھے ذرا بھی کوفت نہیں ہوئی بلکہ پہلی نظر میں نظر انداز کیے جانے والے بچے کو جب میں نے مڑ کر دوبارہ ذرا غور سے دیکھا تو احساس ہؤا کہ وہ سوال کے ساتھ جواب کا بھی منتظر ہے۔ میری بے اعتنائی پر اس نے ہلکے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، بابا جی، گاڑی دھودوں۔ اس کے یہ الفاظ سن کر میں اپنی تنگ نظری پر دل ہی دل میں شرمندہ سا ہؤا اور سر ہلاکر اسے گاڑی دھونے کی اجازت دے دی۔ میری رضامندی جان کر جیسے اس کا چہرہ کھل اٹھا ہو، اس نے جلدی سے کسی کو آواز دی تو اس جیسی ہی عمر اور ملتی جلتی شکل و صورت کا ایک اور بچہ بھیڑ کو چیرتا ہوا آیا جس کے ہاتھ میں پانی کی ایک بالٹی تھی۔
میں اپنی خریداری میں مصروف ضرور تھا لیکن سوچ رہا تھا کہ یہ بچے ان بچوں سے کس درجہ مختلف ہیں جو بنا محنت کیے یہ چاہتے ہیں کہ کوئی روپے دو روپے ان کے ہاتھ پر رکھ دے۔ مجھے خوب اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ بچے اسی بازار میں سبزی بیچنے والوں یا والیوں ہی کے ہوں گے کیونکہ بازار میں ان ہی کی سی شکل و صورت، لب و لہجوں اور زبان بولنے والے اپنی روٹی روزی کی تلاش میں اکثر اسی عارضی بازار میں آیا کرتے تھے۔
میں اپنی طلب کے مطابق چیزیں خرید نے کے بعد آیا تو گاڑی صاف ستھری حالت میں موجود تھی جس سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں تھا کہ بچوں نے کام بہت ذمے داری اور محنت سے کیا ہے۔ بچے آس پاس کہیں نظر نہیں آئے تو میں نے سوچا کچھ دیر انتظار ضرور کرنا چاہیے۔ یہ سوچ کر میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور خرید کیا ہؤا سامان اندر رکھنے کے بعد جوں ہی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا، بچے جیسے زمین نے اگل دیے ہوں۔ ان کے کھِلے ہوئے چہرے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں نے ان کی بتائی ہوئی اجرت سے کچھ سوا انھیں دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ اور بھی خوش ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ میں نے پوچھا کہ یہ دوسرا بچہ کون ہے جو بالکل اس کا ہم شکل اور ہم عمر لگ رہا تھا۔ بچے نے کہا ہم دونوں سگے بھائی ہیں اور جڑواں ہیں۔
اب میں جب بھی عارضی بازار جاتا اور گاڑی کھڑی کرنے کے بعد بازار سے لوٹ کر آتا تو گاڑی مجھے بالکل صاف ستھری حالت میں ملا کرتی۔ بچے میرے پاس آکر مجھے سلام کرتے اور اجرت وصول کرنے کے بعد شکریہ اداکرتے ہوئے چلے جاتے۔ ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد یہ بات تو میرے علم میں آگئی تھی کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ یہاں آتے ہیں جو اسی بازار میں سبزیاں فروخت کرتی ہیں۔ باپ کا کچھ عرصے قبل انتقال ہو گیا تھا، وہ بھی ریڑھی پر سبزیاں بیچا کرتا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد ان کی ماں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار تھے کہ ان کا گزارا ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہؤا کہ کہ وہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے البتہ شریف والدین کے بچے ضرور لگتے تھے۔ نہ تو بچوں نے کبھی یہ بتایا کہ ان کی والدہ بازار میں کہاں بیٹھا کرتی ہیں اور نہ ہی مجھے ایسی کوئی جستجو ہوئی۔
ایک دن جب میں واپس اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تو ان بچوں کو حسبِ سابق اپنا منتظر۔ میں نے مذاق میں کہا کہ آج تو پیسے میرے پاس نہیں ہیں۔ یہ سن کر دونوں بیک وقت بولے کہ بابا جی آپ یقین مانیں ہم صرف آپ کو دیکھنے اور ملنے کے لیے یہاں کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا کیوں، کہنے لگے بس آپ کو دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔ اب میں اس بات کا کیا جواب دیتا، جیب سے پیسے نکال کر ان کی جانب بڑھائے تو انھوں نے لینے میں ہچکچاہٹ دکھائی لیکن میرے اصرار پر پیسے لے لیے۔ ایک مرتبہ پھر احساس شرمندگی نے مجھے گھیر لیا اور میں نے سوچا کہ ان کے ساتھ مجھے ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایک مرتبہ میرا بڑا بیٹا اسی بازار میں کچھ اشیائے ضروریہ خریدنے گیا۔ واپس آیا تو بہت حیران تھا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ جب میں چیزیں خرید کر واپس آیا تو گاڑی چمچما رہی تھی۔ میں نے آس پاس نظر دوڑائی لیکن کوئی بھی ایسا فرد نظر نہیں آیا جس پر گاڑیاں صاف کرنے والے کا گمان ہو۔ میں نے کافی انتظار کیا کہ شاید کوئی آس پاس ہو تو گاڑی کی جانب آ جائے لیکن جب کوئی نہیں آیا تو میں مجبوراً گھر آ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کارنامہ ان ہی بچوں کا ہوگا مگر انھوں نے پیسے کیوں نہ لیے؟ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ خیر میں جب بھی جاؤں گا تو حساب برابر کر دوں گا۔
درمیان میں بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے میں تین ہفتوں تک بازار نہ جا سکا لیکن نہ جانے کیوں بازار سے غیر حاضری کے دوران وہ دونوں بچے مجھے یاد آتے رہے۔انسان تو پھر انسان ہے، گھر میں چرند پرند بھی پال لو تو ان سے بھی انسیت ہوجایا کرتی ہے۔ مصروفیت سے نجات ملی تو میں پھر بازار پہنچ گیا اور عام طور پر جہاں گاڑی کھڑی کیا کرتا تھا وہیں گاڑی پارک کی۔ سودا سلف خرید کر واپس آیا تو کار اسی طرح گرد و غبار سے اٹی ہوئی تھی جیسے گھر سے لایا تھا۔ ہؤا یوں تھا کہ ایک تو میں ضروری کام میں مصروف رہا تھا اور دوئم یہ کہ ان بچوں نے بھی میری عادت خراب کردی تھی ورنہ میں باقاعدگی کے ساتھ اپنی گاڑی صاف کیا کرتا تھا۔ میں اپنی گاڑی کو اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بچوں کی غیر موجودگی نے کسی حد تک مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ منہ سے بے ساختہ اللہ خیر کرے کا کلمہ نکلا اور دعاکی کہ وہ جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں۔
میں اپنے معمول پر آ چکا تھا اور معمول ہی کے مطابق بوڑھی گھوڑی کو لال لگام دیتا رہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اب اس بازار میں وہ بچے نظر آنا بند ہو گئے تھے۔
کبھی کبھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ سارے معمولاتِ زندگی بالکل درست سمت چل رہے ہوتے ہیں لیکن نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ایسا نہیں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہونے کے باوجود بھی اکثر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہوتی کہ اس سناٹے کا سبب کیا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سائیں سائیں کا سبب بھی معلوم ہوتا ہے لیکن کسی سے کہا نہیں جا سکتا مگر مجھے سائیں سائیں کا سبب بھی معلوم تھا اور میں اپنے گھر میں بیوی بچوں سے اس سائیں سائیں کا ذکر بھی کرتا رہتا تھا۔
ایک دو مرتبہ یہ خیال بھی آیا کہ میں نے ان بچوں سے اس اسٹال کے متعلق کیوں نہیں پوچھا جسے بقول ان کے، ان کی ماں لگایا کرتی تھی۔ اگر میں نے وہ اسٹال دیکھ لیا ہوتا تو بچوں کی غیر حاضری کی وجہ تو معلوم ہی ہو سکتی تھی۔
اب اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا اور میں از خود بھی معمول پر آچکا تھا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اب بازار میں گاڑی پارک کرتے ہوئے بہت کبھی وہ دو بچے یاد آتے تھے۔ میں میں حسب معمول بازار آتا، معمول کے مطابق خریداری کرتا اور واپسی کی راہ پکڑ تا۔
بہت دنوں بعد جیسے ہی میں نے اپنی گاڑی اپنی مخصوص جگہ پر پارک کی اور گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے کھڑکی پر ہاتھ رکھا، ایک منے سے ہاتھ نے میرے ہاتھ پر ہولے سے ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ان ہی دونوں میں سے ایک بچہ تھا جس کے چہرے پر ایسی خوشی لہرا رہی تھی جس کو میں کوئی پیارا سا نام دینے میں آج تک ناکام ہوں۔ سوچتا ہوں کہ جس مصور نے مونا لیزا کی مسکراہٹ کو امر کردیا تھا کاش آج وہ میری جگہ ہوتا تو یہ گلابوں کی طرح مہکتا، کھلتا ہؤا چہرہ اور اس پر بکھری ہوئی بے ساختہ مسکراہٹ امر ہو جاتی۔ وہ اتنا خوش تھا کہ اگر میں گاڑی سے باہر مل گیا ہوتا تو وہ میرے گلے سے چمٹ ہی جاتا۔ میں تو یہ سمجھا کہ وہ کافی مدت بعد ملنے پر اتنا خوش ہو رہا ہے اور فوراً یہ کہے گا کہ بابا جی آپ اجازت دیں تو میں آپ کی گاڑی صاف کردوں۔
میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ تمہارا دوسرا بھائی کہاں ہے لیکن جواب دینے کی بجائے وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک جانب لے جانے لگا۔ مجھے اس کا اس طرح لے جانا گو کہ میری مرضی کے خلاف تھا لیکن میں اس کی محبت کو بے رنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے بازار کے بیچوں بیچ ایک ٹھیلے پر لے گیا۔
ٹھیلے پر اس کا دوسرا بھائی موجود تھا جس نے بہت ہی گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ آلو اور پیاز سے بھرا یہ ٹھیلا دکھا کر وہ کہنے لگا، بابا جی اب ہم کاریں دھونے کی بجائے یہ کام کرنے لگے ہیں۔
میرا دل خوشی سے ناچنے لگا۔ اگر یہ بچے بازار کی بجائے مجھے گھر پر ملے ہوتے تو میں ان کا ماتھا ضرور چوم لیتا۔ میں نے فرط خوشی کے اس جذبے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہؤا۔
کہنے لگے کہ بابا جی، آپ جیسے لوگوں کی عنایت کی وجہ سے۔
میں نے کہا میں نے ایسی کونسی عنایت کردی۔
کہنے لگے کہ ہم نے زندگی میں سب سے پہلی گاڑی آپ ہی کی دھوئی تھی۔ پھر ہؤا یہ کہ ایک ایک دو دو گاڑیاں اور بھی ملنے لگیں۔ اس طرح ہمارا ہاتھ صاف ہوتا گیا۔ تب ہم نے سوچا کہ کارپارکنگ میں کیوں نہ یہ کام کیا جائے۔ شروع شروع میں تو وہاں پر پہلے سے موجود لوگوں نے ہمیں بہت پریشان کیا لیکن پھر معاملات طے پاتے چلے گئے۔ کیونکہ وہاں صبح سے شام تک بیسیوں کاریں آیا کرتی تھیں اور ہم دونوں نہایت ایمانداری اور محنت سے کام کیا کرتے تھے اس لیے جلد ہی آنے جانے والوں کا ہم پر اعتماد بڑھتا گیا اور یوں چند ہی ہفتوں میں ہمارے پاس کافی پیسے جمع ہو گئے۔ ابھی چند دن قبل ہم نے اپنی والدہ سے کہا کہ اب وہ آرام کریں اور گھر پر رہا کریں۔ پہلے تو وہ نہ مانیں لیکن جب ہم نے اپنے محلے میں پھیری لگا کر انھیں پیسہ کما کر دکھایا تو ان کا اعتماد بحال ہو گیا۔ ہم نے اپنی اماں سے کہا کہ بس وہ ہمیں اچھے اچھے کھانے پکا کر دیا کریں، بازار کا کھا کھا کر ہمارے پیٹ ہی خراب ہو کر رہ گئے ہیں۔
اتنا کہہ کر ان کی آنکھوں سے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔ میری آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں اور میں ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر یہ سوچتا ہؤا واپس گھر آ گیا کہ صرف اچھی تعلیم ہی انسان کو انسان نہیں بنایا کرتی بلکہ رزقِ حلال بھی ان پڑھ سے ان پڑھ انسان کو فرشتہ صفت بنا دیا کرتا ہے۔
٭٭٭