۲۰۲۲ بتول نومبردشتِ تنہائی – بتول نومبر ۲۰۲۲

دشتِ تنہائی – بتول نومبر ۲۰۲۲

زلفی بابا تھا تو چالیس پینتالیس برس کا مگر اپنے ظاہری حلیے سے پچاس ساٹھ کا دکھائی دیتا تھا ۔ قدرے سانولا رنگ ، تاڑ کا سا قد، دبلا پتلا جسم ، سر پر اکا دُکا بھورے بال جو ہر وقت بکھرے رہتے ۔ جنہیں سمیٹنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی ۔ اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کا عکاس تھا ۔ زرد رنگ کا لمبوترا سا کرتا ، دو رنگوں کے ڈبوں والی دھوتی ، لال اور سفید دھاریوں والا رومال جو کندھے پہ رکھا ہوتا اور بوقت ضرورت اسے صافے کے طور پر سر پر باندھ لیا جاتا ۔ اس کی شخصیت کو دیکھ کر اداسی ، ویرانی اور غربت کا احساس ہوتا ۔ ہم سوچتے شاید غریب آدمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جب وہ دس بارہ برس کا تھا تب وہ پہلی بار بڑی کوٹھی میں آیا تھا ۔ اس کا کوئی عزیز اسے بڑے ابا جی کی سر پرستی میں ان کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ وہ کون تھا ، کہاں سے آیا تھا اس کے کوئی اپنے تھے بھی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔مگر یہ راز صرف بڑے ابا جی جانتے تھے ۔ قسمت کا مارا زلفی پیدائشی ہیجڑا تھا ۔ اس کے ماں باپ اور اس کے گھر والوں نے معاشرے کی جاہلانہ فرسودہ روایت کے مطابق اسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا تھا ۔ یوں وہ زندگی کے ظلم و ستم سہنے اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے اپنوں سے دور ہو گیا تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہم جنس لوگوں کے پاس جاتا کسی ہمدرد نے اسے بڑے ابا جی کے آستانے پر لا پھینکا۔ اس امید پر کہ پڑھے لکھے لوگوں میں رہے گا تو بہتر زندگی گزار سکے گا ۔ بڑے ابا جی نے اس کے بھید کو ہمیشہ دوسروں سے پوشیدہ رکھا۔
جب ہم بچوں نے پہلی بار اسے دیکھا تو یہ ہمیںبھج کاگ جیسا دکھائی دیا ۔ وہ اپنے دونوں بازئوں کو پھیلا کر اور ہلا ہلا کر بات کرتا ہاتھوں کو آگے پیچھے نچاتا سامنے والا اپنے بچائو کے لیے اکڑوں بیٹھ جاتا کہ شاید اس کے اوپر حملہ ہونے والا ہے ۔ اس کے گلے کا سائونڈ سسٹم خراب تھا کبھی تو اس کے گلے سے پھٹی ہوئی آواز نکلتی اور کبھی ننھی سی آواز اس کی کمر کی طرح لچکنے لگتی ۔ سبھی اس کی ادائوں پر خوب قہقہے لگاتے مگر بڑے ابا جی کی عدم موجودگی میں کیونکہ انہیں اس کی دل آزاری کسی طور پر قبول نہ تھی۔
پچھلے کئی سالوں میں پورے گھر والوں کی چاکری کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے کافی ترقی کر لی تھی ۔ اب تک وہ بہت سے ہنر سیکھ چکا تھا ۔ وہ سمپورن خانساماں بننے کے ساتھ ساتھ وہ دیگیں پکانا بھی سیکھ رہا تھا بال کاٹنا ، رشتے کروانا بھی اسکے فرائض میں شامل تھا اب اس کی حیثیت پیر مغاںکی سی ہوگئی تھی۔
وہ ہر طرح کے کاموں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کی کوشش کرتا تاکہ گھر کے پڑھے لکھے لوگوں میں اس کی کوئی حیثیت بن سکے مگر جو عزت مرتبہ اور مقام اہل خانہ کو حاصل تھا وہ اسے نہیں مل سکتا تھا صرف بڑے ابا اور بڑی امی اس کے جذبات اور ضروریات کا خیال رکھتے ۔ باقی افراد سے وقتاً فوقتاً بات بے بات پہ بے عزتی کرواتا اور اپنے پیلے پیلے دانتوں سے کھسیانی سی ہنسی ہنستے رہنا یہ اس کے روز مرہ کے معمولات میں شامل تھا۔
بڑے ابا جی اور ان کے بچے ناصیہ فرسا قسم کے لوگ تھے مگر ان کی تیسری نسل کے جوانوں میں غرور تکبر اورخود پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ سب ان جوانوں کی تربیت کرنے میں قدرے ناکام دکھائی دیتے تھے ۔ نماز روزے کا اہتمام تو تھا مگر اخلاقی برائیاں عروج پر تھیں ۔ نوجوان نسل نماز سے بھی دور تھی رشتوں میں بھی مقابلے کی دوڑ لگی ہوئی تھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، پچھاڑنا ، دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ لگانا پھر بیچ میدان میں انہیں ڈسکس کرنا اور قہقہے لگانا بس یہی ان کے مشاغل تھے ۔
زلفی بابا کادل بہت کشادہ تھا ۔ وہ آہستہ آہستہ ان دل شکنیوں کا

عادی ہوچکا تھا ان دل آزاریوں کے باوجود وہ یہاں مقیم رہا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ کافی ڈھیٹ اور ہٹ دھرم بھی ہو گیا تھا اب تو وہ گھر کے تمام افراد کی نا پسندیدگی کی ہٹ لسٹ پر تھا۔
اس کی خصوصیات میں سادگی اور اکھڑ پن سر فہرست تھا ۔ رافی باجی کی منگنی کی تقریب میں بھی یہی ہؤا۔ ان دنوں سادگی کا دور دورہ تھا ۔ کھانے کے زیادہ لوازمات کا رواج نہیں تھا ۔ مٹن قورمہ ، پلائو اور زردہ بس یہی مینیو ہوتا تھا کسی کی بہت خاطر داری کرنا ہوتی تو چکن ، کوفتے اور شامی کباب کا اضافہ ہو جاتا ۔ سادہ سا سلاد اور رائتہ اس کھانے کوچار چاند لگا دیتا۔
منگنی کے موقع پر سمدھیوں کی خاطر داری بہت اچھی طرح ہونی چاہیے ۔ گھر کی خواتین کا یہ مشترکہ فیصلہ تھا ۔ وہ ہر وہ ڈش بنوانا چاہتی تھیں جس سے ان کی ناک اونچی نظر آئے۔
مگر زلفی با با نے صرف تین کھانے منتخب کیے تھے سب کے تمام فیصلے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ گھر کے بیک یارڈ میں کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگا۔
اس کے اس ضدی پن کی وجہ سے سبھی اس سے نالاں تھے ۔ خصوصاً اس واقعے کے بعد گھر کی خواتین تو اس سے بیزار ہی ہو گئی تھیں ۔ بڑے ابا جی کا چہیتا ہونے کی وجہ سے وہ من مانیاں کرتا پھر تا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کھانا پکانے کا معاوضہ کم لیتا ہے اسی لیے ان کا کافیورٹ ہے ۔ حالانکہ وہ کھانا پکانے میں ابھی خاص ماہر نہیں ہؤا تھا۔بس اندازے سے کھانے کبھی اچھے بن جاتے کبھی خراب کبھی پلائو میٹھا بن جاتا اور کھیر نمکین مگر ان کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی ۔
میں نے ایک روز بڑے ابا جی سے پوچھ ہی لیا کہ وہ اس کی اتنی بڑی بڑی غلطیوں کو کیسے در گزر کر دیتے ہیں کسی اور سے کھانا کیوں نہیں پکواتے کیا یہ اجرت کم لیتا ہے ۔ میرا سوال سن کر بڑے ابا جی مسکرائے اور گویا ہوئے میں اسے ماہر خانساماں ، اچھا حجامہ اور بہتر زندگی دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنی پوری زندگی آرام سے گزار سکے اور اسے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ان کے جواب کے بعد مجھے پتا چلا کہ زلفی با با کے لیے ہمارا گھر لیبارٹری کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم سب اس کے تجربوں کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔
گرمیوں کی دوپہریں اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں وہ گرمی کو کبھی بھی خاطر میں نہ لاتا ۔ کوٹھی کے بیک یارڈ میں پیپل کا درخت تھا یہی اس کا سائبان تھا ۔ دن کے دو بجے جب سب لوگ ٹھنڈے کمروں میں آرام کر رہے ہوتے جھلستی دھوپ چہروں کو جلائے دیتی ۔ کھڑکی سے باہر جھانکو تو پسینے چھوٹنے لگتے آنکھیں چدھیا جاتیں لیکن دو بجے زلفی تپتی دوپہر میں رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگتا ۔ بڑی امی جان اسے بارہا کہہ چکی تھیں کہ دیوار کے سائے والے حصے میں بیٹھ کر کام کرو سندک لگ جائے گی مگر وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔
وہ گرمی میں یوں کام کرتا جیسے وہ گرم موسم کا لطف اٹھا رہا ہو وہ منہ ہی منہ میں کچھ گنگناتا رہتا ۔ معلوم نہیں وہ کوئی گیت تھے یا اس کی زندگی کی نا مکمل خواہشات جنہیں وہ کھانا پکانے کے دوران خود کلامی کے انداز میں ادا کرتا رہتا اس دوران اگر کوئی اسے بلا لیتا تو وہ بہت برا مناتا ۔ دیگ کے کڑچھے کو اونچا کر آنے والے کو دور ہی سے روک دیتا اور آنے والا اس وزنی ہتھیار کو دیکھ کر قریب جانے کا حوصلہ ہار بیٹھتا ۔
جیسے جیسے کھانا تیاری کے قریب ہوتا اس کی چونچالی میں اضافہ ہوتا جاتا ۔وہ رقص کے انداز میں دیگوں کے گرد چکر لگاتا ماہرانہ انداز میں دیگوںکے ڈھکن اٹھاتا، کھانے کی خوشبو سونگھتا اور دادطلب نگاہوں سے اپنے ارد گرد کی دیواروں ، درختوں اور پرندوں کو دیکھتا جیسے انہیں کھانے کی خوشبو سے مسحور کرنا چاہتا ہو ۔اس کی زندگی کی خوشیاں اسی محور کے گرد گھوم رہی تھیں۔
بالوں کی درست کٹنگ کے لیے ابھی اسے بہت مہارت درکار تھی۔ سبھی اس سے کٹنگ کروانے سے گھبراتے تھے اس کا ایک ہی اسٹائل تھا اور وہ تھا پینڈو اسٹائل ۔ نوجوانوں کو کسی بات پر تنبیہہ کرنا ہوتی تو زلفی با با سے بال کٹوانے کی دھمکی دی جاتی جو کار گر ثابت ہوتی۔
شادی بیاہ کے کارڈ بانٹنے کے لیے بھی اس کی خدمات لی جاتیں وہ علی الصبح ہی تیاری پکڑ لیتا ۔ اسے بس کا کرایہ دے دیا جاتا اور وہ ہر دور

نزدیک کے عزیزو اقرباء کے گھر پہنچ کر کارڈ پہنچا دیتا شربت چائے ناشتہ کھانے سے اس کی تواضع کی جاتی کیونکہ اس کی خاطر مدارت نہ کرنا پورے خاندان میں بد نامی کا باعث بنتا ۔ خواتین اس سے اپنے عزیزوں کے گھریلو حالات معلوم کرتیں ان کے بچوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتیں اور باتوں باتوں میں رشتے کا پیغام بھی بھجوا دیتیں ۔ نذرانے کے طور پر کچھ روپے یا اناج دے دیا جاتا ۔ اس دوران کسی گھر میں روپہلی آنچل والی سے سامنا ہو جاتا تو دل مسوس کر رہ جاتا کہ میں تو تنہاہوں تنہا ہی رہوں گا ۔ میرے مقدر میں تو صرف تنہائی ہی ہے ۔
رافی باجی کی منگنی کی تقریب بخیرو خوبی ادا ہو گئی تھی ساتھ ہی شادی کی تیاریاں بھی شروع ہو گئیں ۔ دن رات خریداری کی جاتی ، بڑے ابا جی کے حکم کے مطابق ملازمین کے لیے بھی تین تین جوڑے خریدے گئے ۔ زلفی بابا نے حسب عادت تینوں جوڑے زرد رنگ کے پسند کیے۔
شادی کے کھانے پکوانے کے لیے باہر سے ماہر باورچی بلوائے گئے ۔ زلفی بابا سے یہ کہہ کر معذرت کرلی گئی کہ کھانا زیادہ ہے وہ اکیلا نہیں پکا پائے گا ۔ اسے سب باورچیوں کو چیک کرنے کی ڈیوٹی دے دی گئی۔
رافی خالہ کی شادی کے بعد ماموں وحید اور چاندی خالہ بھی بیاہی گئیں ۔ میں اب ہائی اسکول میں آگئی تھی ۔ بڑے ابا جی کی تیسری جنریشن میں میں سب سے چھوٹی تھی لڑکوں میں ارسل، شامی ، نوفل اور عزیز اپنی پڑھائیوں کے آخری سالوں میں تھے ۔ چھٹیوں میں جب یہ چہار ٹولہ گھروں کو لوٹتا تو خوب دھمکا چوکڑی مچتی ۔ نئی نسل نے جوانی کا کچھ زیادہ ہی خیر مقدم کیا تھا۔
ارسل تو ان سب سے خوبرو دکھائی دیتے تھے لمبا قد، گوری رنگت ، کندھوں تک سیاہ گھنگھریالی زلفیں ، با وقار چال ، گفتگو میں شستہ لب و لہجہ ، ذہانت و قابلیت سے مالا مال تھے ۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے تھے ۔ خاندان کی تمام خالائیں ، چچیاں ، پھپھیاں انہیں اپنا داماد بنانے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہؤا کہ بڑے ابا جی نے ان کی انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کی تیاری کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔
اور اب تو ارسل بھیا بھی ایک کامیاب بیورو کریٹ بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ یہ خواب بلا شبہ بہت دلکش تھے ۔ آپ کے علاقے کی ساری ریاستی مشینری آپ کے حکم کے تابع ہو جاتی ہے ۔ عالی شان رہائش نوابوں کے سے ٹھاٹ باٹ، باوردی ملازم ، شاندار گاڑیاں ، وی آئی پی پروٹو کول یہ سب بہت دلنشیں تھا مگر ارسل بھیا تو پہلے ہی ایسی زندگی گزار رہے تھے یہ خواب اگر کوئی غریب آدمی دیکھتا تو اس کی پوری زندگی تبدیل ہو سکتی تھی۔
مگر بڑے ابا تو غریب عوام کی بہتری کے لیے کچھ کر گزرنے کی آرزو رکھتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے ان کے خاندان کے کسی ایک فرد کو قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملے ۔ جو درد دل رکھتا ہو ، کسی پر ظلم کرنے والا نہ ہو انہیں ارسل بھیا کی شخصیت میں یہ سب دکھائی دیتا تھا۔
اب تو ارسل بھیا پر بڑے ابا جی کی خصوصی نظر کرم ہو گئی تھی وہ تمام دن وقتاً فوقتاً ان کے بارے میں معلومات لیتے رہتے انہوں نے ارسل کی اعلیٰ تعلیم کے بڑے بڑے خواب سجا رکھے تھے ۔ چھٹیوں پر آئے ارسل بھیا کی مخبری دن رات جاری تھی انہی دنوں بڑے ابا کو معلوم ہؤا کہ وہ تو ہر وقت لڑکیوں میں گھرے رہتے ہیں اور پڑھائی میں قطعاً توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان حور شمائلوں میں ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بڑے ابا جی نے فیصلہ کیا کہ ان کی لمبی سیاہ زلفوں کو کٹوا دیا جائے۔
زلفی بابا کو حکم دیا گیا کہ ارسل بھیا کی گھنی زلفوں کو تراشنے کی تیاری کرے جب انہیں معلوم ہؤا تو انہوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے زلفی بابا سے بال کٹوانے سے انکار کر دیا انہوں نے بہتیرا کہا کہ وہ کسی سیلون پر جا کر ابھی بال کٹوا آتے ہیں مگر بڑے ابا جی کے رعب و دبدبے کے آگے انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پھر زلفی بابا نے بھی اپنی اگلی پچھلی حسرتوں کا بدلہ ارسل بھیا کی خوبصورت زلفوں سے لیا اس کی آنکھیں اور ہاتھ بتا رہے تھے کہ دیکھا کیسا پچھاڑا میں نے تمہیںان کی زندگی کے بہت سے رنگ زلفی بابا کی بدرنگ حسرتوں کی نذر ہو گئے تھے ، وہ سر جھکائے زلفی کے سامنے بیٹھے تھے اور وہ اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے ان کے سرپرزگ زیگ بنا رہا تھا ان کے مرمریں بالوں کا جتنا بیڑہ غرق اس

دن ہؤا تھا اتنا پہلے کبھی نہ ہؤا تھا۔
کٹنگ کروانے کے بعد ارسل بھیا جب کمرے میں آئینے کے سامنے حاضر ہوئے تو ایک درد ناک چیخ سبھی نے ان کے کمرے سے بلند ہوتے ہوئے سنی ۔انہیں لگا آئینے میں کوئی بھج کاگ کھڑا ہے ۔ یہ زلفی بابا اتنا کمینہ اور گھنا ہو گا میں نے کبھی سوچا نہ تھاوہ بڑ بڑائے وہ کبھی طیش میں نہیں آئے تھے اگر کبھی آ بھی جاتے تو بھوت بن جاتے اور انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔ یہ جانے کون سے جنم کا بدلہ لیا ہے مجھ سے ۔ وہ رات پر ان پر بہت بھاری تھی وہ رہ رہ کر اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے اور اپنی سیاہ زلفوں کے کٹ جانے پر ان کا چہرہ غصے سے لال بھبھو کا ہو جاتا ۔ اس گھنے بابے کو تو میں چھوڑوں گا نہیں مگر بڑے ابا جی کا خیال آتے ہی تمام انتقامی منصوبے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے اور ان کے نصیحتی جملے کانوں میں گونجنے لگتے۔
’’ بیٹا یہ زلفی ایک دکھی اور محروم انسان ہے یہ ہمارے گھر کے لیے باعث رحمت ہے برسوں سے ہماری خدمت کررہا ہے ۔ ایسے لوگ جو نامکمل ہوں وہ جنتی ہوتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے ہماری آزمائش کے لیے بھیجا ہے ہمیں کبھی بھی ان کا دل نہیں دکھانا چاہیے‘‘۔
’’ مگر یہ خود چاہے دوسروں کے دل دکھاتے پھریں؟‘‘
وہ بے بس پرندے کی طرح پھڑ پھڑا کر رہ گئے ۔’’ میری ساری چھٹیاں برباد کر دیں اب میں اس حلیے میں کیسے سب کا سامنا کروں گا‘‘۔ارسل بھیا بڑ بڑائے۔
رات ت وہ کمرے میں بندرہے اگلی صبح منہ اندھیرے اپنا بیگ ہاتھوں میں تھامے یونیورسٹی کے ہوسٹل کی جانب روانہ ہوگئے ۔ گیٹ سے نکلتے ہی زلفی بابا سے مڈبھیڑ ہو گئی جو مسجد سے نماز پڑھ کر واپس آ رہا تھا ۔ زلفی بابا نے فاتحانہ انداز میںارسل کو دیکھاانہوں نے اس پیغام کو پڑھ لیا اور منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے دیکھنا زلفی بابا اب میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں ۔ چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔اور پھر ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ سر پر ٹوپی جماتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے ۔راج ہنس بنے ارسل بھیا کو بن باس مل گیا تھا ۔اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بڑی کوٹھی میں بہت رونق تھی ۔ سبھی خالائوں ، چچائوں ، پھپھیوں اور ماموئوں کے خاندان جمع تھے ارسل بھیا کا سبھی کو انتظار تھا پورے چھ ماہ بعد سب کی ملاقات ہونے جارہی تھی ۔ وہ جولائی کے آخری ہفتے میں آگئے تھے اب ان کے بال کافی بہتر ہو گئے تھے ، ان کے آنے سے چہل پہل میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔
اس روز خوب بارش ہوئی تھی ۔ برسات کا موسم اپنے ساتھ خوب رونقیں لے کر آیا تھا ۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا ۔ سبھی جوانوں کی چوگڑی ماموں امتیاز کے کمرے میں جمع تھی۔
ماموں امتیاز اکثر چھٹیوں میں شرارتی ٹولے کی اصلاح کے لیے ان کے خیالات جانتے رہتے تھے ۔ آج بھی ایسا ہی تھا ، فرد اور معاشرے کی بے رحمی پر بات ہو رہی تھی ۔ محروم لوگ زیر بحث تھے ۔ عالی شان گھروں میں رہنے والے بگڑے ہوئے آرام پسندوں کی بات کی جا رہی تھی ۔ افراد اور سوسائٹی کے بے رحم رویوں کی کہانیاں سنائی جا رہی تھیں ۔ کیا تعلیم انسان کو شعور سکھاتی ہے ، اسے اچھے برے کی تمیز آجاتی ہے ۔ کیا پڑھا لکھا انسان بھی اتنا ہی بے درد ہوتا ہے جتنا کہ ایک جاہل گنوار۔
کیا دنیا مکافات عمل ہے ؟ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔ دوسروں پر ظلم کرنے والے در اصل خودپر ظلم کر رہے ہوتے ہیں پھر بات دلوں کے ٹوٹنے کی ہونے لگی ۔ بلھے شاہ نے سچ کہا تھا …
مسجد ڈھا دے ، مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندے دا دل ناں ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
اگلا موضوع معافی تلافی کا تھا۔
اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کوپسند کرتا ہے دوسروں کو معاف کرنے سے آپ اللہ تعالیٰ کی گڈ بک میں آ جاتے ہیں ۔ آپ اللہ کے دوست بن جاتے ہیں ۔ اللہ آپ کا مدد گار بن جاتا ہے۔
شامی بھیا نے اکتاہٹ سے ماموں امتیاز کو دیکھا ۔ نہ جانے ان کا لیکچر کب ختم ہوگا ۔ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں ہم کون سا کسی پر ظلم کر رہے ہیں ۔ ہم بے ضرر سی مخلوق کسی کو دکھ دے ہی نہیں سکتے ۔ سبھی نے یقین سے کہا ۔اللہ کرے ایسا ہی ہو ماموں نے بظاہر خوشد لی سے کہا۔

انسانیت اور انسان سے محبت کے بہت سے سبق اکثر نوجوانوں کو جمع کر کے دیے جاتے مگر نئے نویلے جوانوں کو کون سمجھاتا ۔ ان کی انا تو پھن اٹھائے کھڑی رہتی ۔ ذرا سی بات ان کی خواہشات سے ٹکراتی تو وہ توپ کا گولہ بن کر دہشت پھیلانے لگتے۔
سب بچوں کی آمد کی خوشی میں بڑے ابا جی نے حسب رویت انواع و اقسام کے کھانے پکانے کا حکم صادرفرمایا تھا ۔ آج تو زلفی بابا دیگیں چڑھا کر اپنے فن کا لوہا منوانے پر مصر دکھائی دے رہا تھا تو دوسری جانب ارسل بھیا زلفی بابا سے انتقام لینے کے منصوبے بنا رہے تھے جس نے ان کی پچھلی چھٹیاں برباد کر دی تھیں ۔ اب بتا رہے تھے جس نے ان کی پچھلی چھٹیاں برباد کردی تھیں اب یہ ان کی انا کامسئلہ بن چکا تھا ، وہ اس میسنے بڈھے کو پچھاڑنا چاہتے تھے۔
ان دنوں گھر میں ایک نئے ملازم شرفو کا اضافہ ہو گیا تھا ۔ گوری رنگت تیکھے نین نقش والا لڑکاخواجہ سرا بنا پھر رہا تھا وہ با آسانی گھر کے اندر باہر آجا سکتا تھا۔
ارسل بھیا کے کمرے میں میٹنگ جاری تھی ۔ سبھی نوجوان لڑکے جمع تھے لڑکیوں کو آنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کمرے سے بلند و بالا قہقہوں کی آوازیں سنائی دیتیں تو کمرے سے باہر صحن میں کھلنے والی کھڑکی میں سے زلفی بابا گردن گھما کردیکھتا اور سر جھکا کر منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتا ہؤا اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے زلفی بابا کے بارے میں کوئی سکیم تیار ہو رہی ہے ۔ شمسی بھیا سب سے بڑے تھے وہ ان کے کسی بھی پلان میں شامل ہونا اپنی تضحیک سمجھتے تھے ویسے بھی اگر انہیں اس منصوبے کا علم ہو جاتا تو وہ اس پر عملدرآمد روک دیتے۔
شرفو کو اس روز چھٹی دے دی گئی تھی۔کوٹھی کے بیک یارڈ میں نمی باجی کے کمرے کا دروازے کھلتا تھا وہ ابھی اپنے سسرال سے نہیں آئی تھیں لہٰذا ان کا کمرہ خالی تھا۔شرفو کو آلہ کار بنایاگیا تھا وہ کسی بھی صورت میں اس پلان کا حصہ نہیں بننا چاہ رہا تھا مگر اس کے لیے اس کی مٹھی گرم کی گئی تھی پھر کھل جا سم سم کا اثر سبھی نے دیکھ لیا تھا۔
شرفو کو رافی خالہ کی شادی کا سرخ دوپٹہ اڑھا کر کمرے میں کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا۔
اگلا مرحلہ بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا ۔مجھے بھی ان کے ارادوں کی کچھ سن گن ہو گئی تھی ۔ مجھے بھی یہ سب کچھ اچھانہیں لگ رہا تھا مگر چہار کے ٹولے میں میری کون سنتا تھا ۔ شامی بھیا کو اطلاع پہنچانے کے لیے بمشکل تیار کیا گیا تھا میں ابھی تک سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔
زلفی بابا بڑے ابا جی کو کھانا تیار ہونے کی نویدسنا کر کمرے سے باہر آرہا تھا کہ شامی بھیا نے اسے جا لیا ۔ زلفی بابا آپ سے ایک کام ہے ادھر آئیے ۔ وہ انہیں ساتھ لے کر نمی باجی کے کمرے کے باہر برآمدے میں بیٹھ گئے اور پکا سا منہ بنا کربولے بابا جی آپ کو ہمارے گھروں میں کام کرتے ہوئے پچیس سال ہونے کو آئے ہیں آپ سبھی کے کام آتے ہیں مگر آپ کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ آپ کاگھر بھی بسنا چاہیے ۔ آپ کو دیکھنے والا بھی کوئی ہو آپ کے بھی بال بچے ہوں۔
زلفی بابانے حیرت اور پریشانی کے عالم میں شامی بھیا کو دیکھا جو آج خلاف توقع بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے ۔ جو بظاہر عاجز و مسکین صورت بنائے کھڑے تھے ۔ دنیا جہان کا درد ان کی آواز میں سمٹ آیا تھا ۔ وہ اس غریب بابا کے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار تھے ۔
ہم نے سوچا …وہ گلا کھنگارتے ہوئے بولے ہم نے سوچا…ہمیں ہی کچھ کرنا چاہیے ۔ ہم نے آپ کے لیے بہت حسین لڑکی ڈھونڈ لی ہے اگر آپ ہاں کریں گے تو ہم بڑے ابا جی سے کہہ کر آپ کی شادی اس سے کروادیں گے ۔
شامی بھیا نے بڑی محبت سے زلفی بابا کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کمرے کے اندر دھکیل دیا۔ بابا زلفی سکتے کی حالت میں اس نوجوان کو دیکھ رہا تھا ۔ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں کیا یہ مجھے جانتے نہیں ہیں اور شادی … ان کی آواز گھٹ کر رہ گئی ۔ وہ بولنا چاہتے تھے مگر بول نہ پائے ۔ یہ کیسا بیہودہ مذاق ہے ۔ کیا یہ واقعی لا علم ہیں؟
نمی باجی کے کمرے میں شرفو سرخ دوپٹہ اوڑھے گٹھڑی بنا بیٹھا

تھا بیڈ کے پیچھے باقی لڑکے چھپے تھے ۔ وہ ابھی کچھ سمجھ نہ پایا تھا کہ شرفو چھلانگ لگا کر بابا کے سامنے آکھڑا ہؤا اوردوپٹے کا کونا دانتوں میں دبا کر شرمانے لگا ۔ چاروں اور سے قہقہوں کی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا سبھی لڑکے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
زلفی بابا کو یوں لگا جیسے اس کا دل ابھی دھڑکنا بندہو جائے گا ذلت اور بے بسی کے احساس نے اس کی روح کو زخمی کر دیا تھا اسے لگا کسی نے اس کے وجود کو بیڑیوں میں جکڑ کر دوڑ لگانے کاحکم صادر کر دیا ہو ۔ وہ تو سمراٹ کی سی زندگی گزار رہا تھا ۔ اس کے رازیوں سب کے سامنے افشا ہو جائیں گے ، اسے یوں تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا اسے معلوم نہ تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیشہ اسے اپنی زبانوں سے زخمی کیا تھا بات بات پر اسکا مذاق اڑایا تھا ۔ اسے نیچا اور کمزور ثابت کر نے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا ۔ اس کی شکل اس کا لباس اس کی عادات ان کے لیے کسی تفریح سے کم نہ تھے اور آج تو یہ ہنسی مذاق کرنے اور ٹھٹھے لگانے والی قوم نے انتہا ہی کر دی تھی ۔ کسی محروم اور تنہا شخص کا یوں دل دکھایا جاتا ہے۔
کسی نے نہ دیکھا کہ زلفی بابا پر کیا بیت رہی ہے کافی دیر تک وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے ۔ وہ تو شروع سے ہی بے عزتی کروانے کا عادی تھا اس کے نزدیک عزت اور بے عزتی کے درمیان کچھ خاص فرق نہ تھا مگر یہ معاملہ ہی کچھ اور تھا جس نے اسے حواس باختہ کردیا تھا۔
وہ سکتے کی کیفیت میں کمرے سے باہر نکل گیا ۔ جب لڑکوں کی ہنسی رکی تو انہوں نے دیکھا بابا زلفی کمرے میں نہیں ہے تو ایک بار پھر قہقہے بلند ہوئے ۔ ارسل بھیا پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ دیکھا کیسا بدلہ لیا اسی بے دردی سے اس نے میرے بال کاٹے تھے اب پتا چلا بڈھے کو دردکیا ہوتا ہے ۔ ماموں امتیاز کے سکھائے ہوئے تمام اسباق ردی کی نذر ہو گئے تھے۔
شرفو کو باہر بھیج دیا گیا تھا کہ کہیں گھر کے بڑوں کو خبر نہ ہو جائے چہار ٹولہ جب کمرے سے باہر نکلا تو سرونٹ کوارٹر کی جانب سے گھٹی گھٹی آوازیں سنائی دیں ۔ یہ آوازیں کون نکال رہا ہے ارسل بھیا ابھی زلفی بابا کو لفظوں کی مار بھی مارنا چاہتے تھے وہ دوڑ کر آگے بڑھے جہاں زلفی بابا زمین پر آلتی پالتی مارے دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا ۔ اس کی گھٹی ہوئی چیخیں اب سارا جہان سن رہا تھا ، سبھی ساکت و جامد دروازے کے باہر کھڑے اس کی حالت غیر ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ زلفی بابا کو یوں لگا جیسے اس کے سارے سگے یک دم مر گئے ہوں ۔ اس نے انہیں کبھی یاد نہیں کیا تھا نہ ہی ان کی یاد میں آنسو بہائے تھے اس کے سارے اپنے تو اس گھر میں رہتے تھے آج انہوں نے اس کی ذات کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ۔ اس کے کان شائیں شائیں کر رہے تھے ۔ اس کی چیخیں اور زیادہ درد ناک ہوتی جارہی تھیں۔
چاروں لڑکوں کو اپنی فکر ہونے لگی ۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زلفی بابا کی طرف سے اتنا زبردست ری ایکشن آئے گا اگر بڑے ابا کو معلوم ہو گیا تو ان سب کی خیریت نہ تھی ۔
گڈی آپا اب کیا کریں وہ پریشانی کی حالت میں آپا کے پاس آگئے آپا بھی اس کھیل میں شامل تھیں انہوں نے رافی خالہ کا دوپٹہ انہیں لا کر دیا تھا ۔ ارسل بھیا کارنگ زرد پڑ چکا تھا انہیں ایک ایک کر کے ماموں امتیاز کے سبق یاد آ رہے تھے مگر انہوں نے ہونہہ کہہ کر سر جھٹک دیا ۔ یہ کون سا ظلم ہم نے کردیاہے بس ایک مذاق ہی تو تھا۔
اگر یہ مر گیا تو … اس سے آگے وہ نہ سوچ سکے ’’ نہیں مرتا ‘‘ گڈی آپا بے دردی سے بولیں ایسے لوگ بڑے سخت جان ہوتے ہیں بڑے سے بڑے صدمے کو بہادری سے سہہ لیتے ہیں بہت بڑا جگرا ہوتا ہے ان کا ، شرفو سے کہو اسے پانی پلائے اور کھانا کھلائے۔ وہ ہدایات جاری کر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
مگر شرفو تو بڑی بیگم صاحبہ سے ڈانٹ کھا رہا تھا کیونکہ وہ پچھلے تین گھنٹوں سے غائب تھا۔
اب زلفی بابا کے پاس کون جائے ؟ ارسل بھیا نہ تو ندامت دکھ اور تکلیف سے چور چور ہو رہے تھے اور نہ ہی کوئی ایسی بات تھی کہ زلفی بابا کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں تھی اورنہ ہی وہ ان سے معافی مانگنا چاہ

رہے تھے بلکہ وہ تو یہ سوچ رہے تھے کہ زلفی بابا کا اگلا رد عمل کیا ہوگا ۔ ان کی شکایت بڑے ابا جی تک پہنچے گی یا نہیں۔
دو تین گھنٹے اسی طرح گزر گئے تھے ۔ اب بابا کی دل دہلادینے والی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں ۔ شامی بھیا نے آہستگی سے بابا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔اس کا سامان ادھر ادھربکھرا پڑا تھا مگر بابا وہاں نہیں تھا وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
اس نے ان چند گھنٹوں میں دیکھ لیا تھا کہ اس گھر کے مکینوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اس کی آہ و بکا کسی کے دل کو نہ چیر سکی تھی ۔ کسی نے اس کے دل کے ٹوٹنے کی آواز نہیں سنی تھی ۔ کوئی آنکھ اس کے لیے پرنم نہیں تھی ۔ یہ پتھر کے لوگ تھے یہ اپنے اپنے بتوں میں جی رہے تھے انہیں صرف اپنی فکر تھی کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ہمیں کیا چاہیے اور کیا نہیں چاہیے ۔ اس نے اپنی زندگی کے پچیس تیس سال ان کی چاکری میں گزار دیے تھے ، ان کی خوشیوں اور غموں میں آگے بڑھ کر حصہ لیتا رہا تھا جس کا اسے ایسی ذلت کی صورت میں صلہ ملا تھا ۔ ان نوجوانوں کو اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا انہوں نے اسے اس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔
اس چہار ٹولے کو اس بات کی خبر تک نہ تھی کہ وہ کسی بے کس محروم انسان کی دل شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ ان کی دلگی کسی کی موت یا پاگل پن کا سبب بھی بن سکتی تھی ۔ ہر لمحے کسی ایڈونچر کی تلاش میں رہنے والے کسی کے دل کے درد کوکیسے جان سکتے تھے ۔
زلفی بابا جاچکا تھا پیپل کا درخت تنہا ہو گیا تھا اس کی تنہائی کا ساتھی اسے اور اس گھر کے مکینوں کو چھوڑ چکا تھا۔چہار ٹولے نے سکھ کا سانس لیا اس دن کے بعد کسی نے بھی زلفی بابا کو نہیں دیکھا تھا۔ کیا کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، اللہ ٹوٹے دلوں کی ضرور سنتا ہے۔
ماہ وسال بہت تیزی سے گزر رہے تھے ۔ ارسل بھیا سی ایس ایس کر چکے تھے ۔ جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں ان کی تعیناتی اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ پر ہو ئی تھی بڑے ابا پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ آج ان کا بہت پرانا خواب پورا ہو گیا تھا ۔ شہر کے فائیو سٹار ہوٹل میں گرینڈ پارٹی دی گئی تھی ۔ عزیز و اقارب اور اکابرین شہرکو مدعو کیاگیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کا ایک فرد عوام کی خدمت کے لیے چن لیا گیا ہے ۔ یہ محض ان کا خام خیال تھا دلوں کو توڑنے والے عوام کی کیا خدمت کر سکتے تھے یہ وہ واحد راستہ تھا جس پر چل کر غرور اور تکبر کے پتلے غربا اور مجبور انسانوں کو اپنے قدموں تلے روند دیتے ہیں انسانیت کی تذلیل کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں ،چند گنے چنے لوگوں کو چھوڑ کر زیادہ تر آفیسرز کا یہی وطیرہ تھا ۔
اب توگھر والوں کو صرف اور صرف ارسل بھیا کی شادی کی فکر ہونے لگی تھی ۔ بہت سی لڑکیاں دیکھی گئیں ۔ خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک پری چہرے موجود تھے مگر انہیں کوئی پسند نہیں آ رہا تھا ۔ سبھی گھر والے رشتے کی بات چلا چلا کر تھک گئے مگر کہیں بھی بات نہیں بن رہی تھی۔
گوری رنگت اور نیلی آنکھوں والے مردانہ وجاہت کے پیکر ارسل بھیا کی ٹکر کی کوئی لڑکی نہیں مل رہی تھی۔
دن گزرتے گئے ، ماہ وسال بیت گئے اب تلاش بھی کم ہو گئی تھی ۔ سبھی اپنے اپنے کاموںمیں مصروف ہوگئے تھے ۔بڑے ابا ارسل کی شادی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے چل بسے بڑی کوٹھی ویران ہوگئی تھی ۔ کمروں کو تالے لگ گئے تھے ۔کوئی بیرون ملک سیٹ ہو گیا اور کوئی دوسرے شہروں میں جا بسا ۔ انہی دنوں ارسل بھیا کی پوسٹنگ اسی اپنے آبائی شہر میں ہو گئی انہوں نے سرکاری گھر میں رہنے کی بجائے اپنے آبائی گھر میں رہنا پسند کیا ۔ تالے کھلوائے گئے ، کمروں میں رنگ و روغن کروایا گیا مکینوں کے بغیر گھر بھر میں وحشت کا بسیرا تھا ۔ اداسیاں درو دیوار سے ٹپک رہی تھیں ۔ وہ وہاں تنہا ہی رہ رہے تھے۔
بہار کی آمد کے آتے ہی گرمی کے موسم کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے گرمیوں کے دنوں کا احساس، دھوپ کی تمازت، جھلسا دینے والی دھوپ سبھی کا دل گھبرانے لگتا ہے مگر بچوں کی چھٹیاں تو گرمی کے موسم میں ہی ہوتی ہیں ۔ اسی طرح میں بھی بچوں کو لے کر امی ابا کے گھر آگئی تھی ۔ میرے تینوں بچوں نے آبائی گھر دیکھنے کی فرمائش کر دی ۔ وہ مجھ سے بڑے ابا جی کے گھر کی ہزارہا کہانیاں سن چکے تھے ۔ جامن ، آم ، کینو، شہتوت اور پیپل کے درخت اپنے دامن میں بڑی کوٹھی کے مکینوں کی ان گنت داستانیں چھپائے بیٹھے تھے میرے بچے میرے بچپن کی یادوں کو

ان درو دیوار میں تلاش کر نا چاہتے تھے ۔ جب مجھے پتا چلا کہ ارسل بھیا وہاں رہائش پذیر ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور ہم نے بڑی کوٹھی جانے کا پروگرام بنا لیا۔
دو دن کے بعد ہم بڑی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہو رہے تھے ۔ ملازمین نے ہمارا استقبال کیا ۔ ہمیں چائے اور کھانے کا پوچھا ہمارے کمرے دکھائے گئے مگر ارسل بھیا کہیں دکھائی نہ دیے ۔
ارسل بھیا کہاں ہیں ؟ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
میں لمبی راہداریوں کو عبور کرتے ہوئے سارے گھر میں ان کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی ۔ صرف بیک یارڈ رہ گیا تھا ۔ میں نمی باجی کے کمرے سے ہوتی ہوئی پچھلے برآمدے میں پہنچ گئی ۔
پیپل کے چھتنار کے نیچے کوئی کھڑا تھا ۔ بسنتی کرتا پہنے صحن میں بکھری پیلی دھوپ کا دکھائی دے رہا تھا۔ کیا زلفی بابا واپس آگیا ہے میں نے حیرانی سے اسے دوبارہ دیکھا سورج کی چمچماتی کرنیں آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی میں نے اپنی آنکھوں کو زور زور سے ملا۔
میں دیوانہ وار چلتی ہوئی پیپل کے درخت کے پاس پہنچ گئی۔ مگر یہ تو ارسل بھیا تھے!
ان کی گوری رنگت پیلی پڑ گئی تھی سر پر کہیں کہیں بال دکھائی دے رہے تھے ۔ زلفی بابا کے کڑچھے کی بجائے ان کے ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی تھی اور دوسرے ہاتھ سے وہ حقے کی نلی کو منہ سے لگانے کی بجائے سگار تھامے ہوئے تھے۔
میرا دل زور زور سے چیخنے چلانے کو چاہ رہا تھا ، میں آنسوئوں کے دریا بہا دینا چاہتی تھی میں اتنے حسین ارسل بھیا کے دل کے تمام درد جان چکی تھی۔ کیااسی لیے ان کی شادی نہ ہو سکی تھی؟ کیا زلفی بابا کی آہیں ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی تھیں اوروہ تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے؟
کیا کسی محروم شخص کا دل دکھانا اتنا بڑا گناہ تھا ؟کیا انکاشمار بھی ان محروم لوگوں میں ہوگیا تھا جن کا وجود گھروں میں باعث برکت ہوتا ہے اور وہ جنتی ہوتے ہیں ؟ کیا دشت تنہائی ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا؟مجھے یوں لگا جیسے ارسل بھیا کے وجودکوبیڑیوں میں جکڑ دیا گیا ہے اب انہیں اس مکافات سے رہائی کیسے ملے گی؟ کاش زلفی بابا مل جائے اور اس سے معافی تلافی ہو سکے ۔ میرے دل سے دعا نکلی ۔ میں بلک بلک کر رونے لگی ۔ ارسل بھیا میرے بچوں کو لے کر کمرے کی جانب چل دیے۔
٭…٭…٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here