۲۰۲۳ بتول اکتوبرخفتگانِ خاک - یہی ہے رخت سفر میرکارواں کـے لیــے -...

خفتگانِ خاک – یہی ہے رخت سفر میرکارواں کـے لیــے – ثریا اسما

جماعتِ اسلامی حلقۂ خواتین کی گل سرسبد تو محترمہ حمیدہ بیگم مرحومہ تھیں مگر اُن کے ساتھ ساتھ ایک پورا گروہ جس سے لوگوں نے تربیت حاصل کی محترمہ بلقیس صوفی مرحومہ، محترمہ ام زبیر مرحومہ، محترمہ زبیدہ بلوچ مرحومہ،محترمہ بنت الاسلام مرحومہ اور محترمہ نیر بانو مرحومہ تھیں۔ موخر الذکر کا انتقال دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہؤا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنھوں نے اپنی ایمانی و اخلاقی کیفیات سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے پودے کو جسم و جاں کی تمام توانائیوں سے سینچ کر ایک تن آور درخت بنایا۔
تین چار سال پیشتر ترجمان القرآن کے خاص نمبر میں حمیرا مودودی صاحبہ کا ایک مضمون ’’ہمارے والدین شجر ہائے سایہ دار‘‘ شائع ہوا جسے بعد میں انھیںبتقاضہ وسعت دے کر ایک کتابچے کی شکل میں چھپوانا پڑا۔ میں نے بہت تعریف کی اور انھیں کہا کہ ایسے مضامین و واقعات ایک دو بتول کے لیے بھی لکھیے۔ کہنے لگیں۔
’’مرحوم والدین کے حالاتِ زندگی لکھنے کے لیے ماضی میں جانے کی ہمت اب مجھ میں نہیں رہی۔ بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، کاغذ بار بار آنسوئوں سے بھیگ بھیگ جاتے ہیں اور مجھے دوبارہ لکھنا پڑتاہے‘‘۔
بات اُن کی بالکل ٹھیک تھی اگرچہ میری وہ کیفیت تو نہیں مگر آپا جی نیر بانو بھی ہمارے لیے روحانی ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ ہماری تربیت ، کاموں میں سوچ بچار اور یکسوئی کے لیے ہمیں آگ سے دور اور جنت کے قریب کرنے کی فکر رہتی تھی۔ آٹھ نو سال میں جو انھیں قریب سے دیکھا تو دل محبت، قدر و عزت اور ان کی بے لوث خدمات کا قائل ہو گیا۔ دو ماہ پیشتراس مضمون کے لیے تمام خطوط اور ریکارڈ نکال کر پڑھنا شروع کیا تو کئی کئی گھنٹے گزر جاتے ۔ کئی سرکلرز سے محسوس کیا کہ واقعی مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ جتنے شعبوں میں وہ کام کرنا چاہتی تھیں الحمدللہ آج وہ تمام فعال ہو چکے ہیں۔ کئی دفعہ اُن کی محبت کی باتیں پڑھ کر دل اداس ہو جاتا۔ خوابوں میں بھی نظر آتیں۔ اُن کا بھاری بھرکم جسم مسکراتا چہرہ اور سفید گھنگریالے بال اس وقت بھی نگاہوں کے سامنے ہیں۔
جون ۱۹۸۰ء میں ہم لوگ منصورہ اپنا گھر بناکر شفٹ ہوئے ۔ ۱۹۸۱ء میں آپا نیّر بانو قیمّہ بنیں۔ منصورہ اکثر سیالکوٹ سے آنا پڑتا۔ پہلا پمفلٹ نما سرکلر ’’اصلاح و تربیت کا پروگرام‘‘ انھوں نے لکھ کر تقسیم کروایا۔ منصورہ آنے سے میں اپنے حلقوں سے دور ہو گئی۔ بچوں کے سکول کالج بھی دور ، ہر کام کے لیے فاصلے طویل، ہم مقصد جگہ ہونے کے باوجود کئی مسائل کا شکار، طبیعت پریشان سی رہتی۔ ایسے میں آپا جان کے پہلے ہی سرکلر نے جوش اور ولولے سے کام پر آمادہ کر دیا۔ اُن دنوں رپورٹس میں ایسے اعدادوشمار دینے کا رواج نہیں تھا۔ بلکہ مسائل و مشکلات کے ساتھ لکھ کر دی جاتی ۔ ایسے ہی میں نے اپنی دو صفحے کی رپورٹ میں مسائل و مشکلات کے ساتھ اصلاح و تربیت کے پروگرام سے مستفید ہونے کا ذکر بھی بہت شکریہ سے کیا۔ آپا جی نے پہلے ہی صوبائی ارکان کے اجتماع میں یہ رپورٹ سنوائی۔
آپا جان پڑھنے لکھنے کی رسیا تھیں (اُن کا بریف کیس ایک چھوٹا سا دفتر ہوتا تھا جس میں فائلوں کے علاوہ ہر قسم کی اسٹیشنری، مارکر حتیٰ کہ سوئی دھاگہ اور قینچی تک ہوتا) قیمّہ بننے سے یہ شغل اور بھی تیز ہو گیا۔ سیالکوٹ میں وہ بالکل تنہا تھیں جو کام آج کل کئی لوگوں کی معاونت سے ہوتا اس وقت وہ یہ تمام کام بالکل اکیلی خطوط کے سہارے کرتیں۔ ایک بالکل ابتدائی خط میں زہرہ آپا کو لکھتی ہیں (جس کی ایک نقل مجھے بھی بھیجی) ’’خواتین کی مصروفیات اور مجبوریوں کی وجہ سے ہمارا کام بہت زیادہ فعال اور باقاعدہ نہیں بن سکا۔ دراصل ابھی ہم تجرباتی دور سے گزر رہے ہیں۔ تجربے کریں گے تو راستے بنائیں گے۔ ابھی ہمارے ہاں زونل نظام شروع ہو گا۔ میرے سامنے ایک مقصد اور ضرورت ہے۔ ضرورت یہ کہ میرے پاس آفس نہیں، کام میں مدد دینے والی ٹیم قریب نہیں، مجھے بہت سے مددگار ہاتھ اور سوچنے والے دل و دماغ درکار ہیں۔ خواہ جسمانی طور پر وہ مجھ سے فاصلہ پر ہی ہوں۔‘‘
اس کے بعد سالانہ اجتماع ۱۹۸۳ء اپریل میں زونل نظام ملتان، راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ اور فیصل آباد پر مشتمل بن گیا اُس زمانے میں آپا جی زبیدہ بلوچ صوبہ پنجاب کی ناظمہ، زہرہ آپالاہور شہر کی اور ناچیز کو انھوں نے اپنی نائب منتخب کیا۔
آپا جان کے مسکراتے چہرے پر ناگواری کا تو … لیکن ناراضگی کا اظہار بہت ہی کم دیکھا۔ اجتماعی زندگی میں کئی ناگوار باتیں، بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہو جاتیں مگر آپا جان کی برداشت ، معاملہ فہمی، حسن ظن، خداخوفی، اسوئہ حسنہ اور مومنانہ شان سے معاملات کی گتھیوں کو ایسے سلجھاتیں کہ سب کے دل مطمئن ہو جاتے۔ اگر کبھی غصہ آجاتا تو چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو کر سنجیدگی آجاتی، آنکھیں نم ہو جاتیں، پہلے خاموش رہتیں پھر تھوڑی دیر رکنے کے بعدبڑی احتیاط سے دوبارہ بات شروع کرتیں۔ ایک دودفعہ کے سوا لب و لہجہ کبھی بلند ہوتا نہ سخت۔
آپا جان کے چھ سات سالہ دور میں تین اجتماعِ ارکان، ایک قران کانفرنس اور تین مرکزی شورائیں ہوئیں دو شوریٰ میں میں منتخب رکن تھی۔ لیکن کارروائی سب کی میں ہی لکھتی۔ کہا کرتیں ’’تم بہت اچھا لکھتی ہو اور مجھے تمھاری عادت ہو گئی ہے۔‘‘ کوئی اہم بات لکھوانے سے پیشتر سب کی بار بار رائے لیتیں پھر بڑے جچے تلے الفاظ میں کارروائی کے الفاظ کو Dictateکرواتیں۔ الفاظ کے چنائو پر بڑا ملکہ حاصل تھا۔ تلفظ صحیح کرنے میں بڑی ماہر تھیں۔ اس کارروائی کو سیالکوٹ جا کر پھر غور و فکر سے پڑھتیں اوراپنے قلم سے دوبارہ لکھ کر تبصرہ کرتیں لیکن مجال نہیں کہ کسی کا مشورہ یا رائے متاثر ہو۔ پھر تمام نوک پلک درست کرنے کے بعد وہ تبصرہ اُن کی طرف سے جاری ہوتا۔ الل ٹپ الفاظ بولنے یا لکھ دینے کی وہ قائل نہیں تھیں۔
اول روز سے کارکنان کے لیے ماہانہ نصاب مقرر تھا جو تین ماہ پر مشتمل ہوتا۔ یہ نصاب وہ بڑی محنت سے مولانا کے لٹریچر سے انتخاب کرتیں۔ بڑی مشکل کتابوں کے منتخب حصے۔ مثلاً اسلامی ریاست، مسلمانوں کا ماضی حال اور مستقبل۔ تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان۔ جیسی کتب ہوتیں جنھیںیہ کتابیں مشکل لگتیں اُن کے لیے دین حق اور اسلام کا سیاسی نظام وغیرہ پمفلٹ تھے۔ کہا جاتا کہ جو بڑی قیمتی کتابیں پڑھنا چاہیں مگر خرید نہ سکیں اُن کے لیے چند کتب بیت المال سے منگوا کر پڑھوا دیں۔ اس طرح نصاب میں قران پاک اور احادیث کا نصاب بھی بہت چنیدہ ہوتا۔
چھوٹی چھوٹی تحریریں اور پمفلٹ لکھتے رہنے کا، اور پھر اُنھیں چھپوانے کا بہت شوق تھا کئی چھوٹے پمفلٹ مثلاً غسل میت، بیاہ شادیوں کی رسومات، انتخابات میں حکمت عملی، میاں صاحب کی تقاریر، خرم صاحب کے مشورے نصاب کی مختلف چیزیں نہایت صاف ستھری اعلیٰ درجہ کی لکھی ہوئی آجاتیں کہ فلاں فلاں جگہ سے چھپوائیں۔ اسی طرح کا کوئی پمفلٹ تھا جس کی ذمہ داری عبدالوحید خان صاحب کو دی ہوئی تھی۔ اُس کے بارے میں مجھے لکھا :
’’آپ یہ کتابچہ چھاپنے کا آرڈر خان صاحب کو کر دیں۔
۱۔ کتابت عمدہ اورنفیس … روشنائی سیاہ
۲۔ پمفلٹ کا سائز … معیاری اور موزوں
۳۔ پروف ریڈنگ خود کریں یا مجھے بھجوا دیں
۴۔ طباعت جلد مکمل کرا دیں تو مہربانی ہو گی۔
۵۔ ٹائٹل آرٹ پیپر کا لگائیں۔رنگ کے چند نمونے ارسال ہیں اُن میں سے جو آسانی سے دستیاب ہو وہ لے لیں۔
اگر عمدہ اور بر وقت کیا تو آیندہ بھی کرائیں گے۔‘‘
یہ سارے وہی نکات ہیں جن کا ماہر تجربہ کار لوگ ہمیشہ تقاضا کرتے ہیں۔
کسی کارکن کا مسئلہ تھا اس کے بارے میں لکھا۔
’’آپ ذرا اس مسئلہ پر غور کرکے مجھے بھی بتائیں۔ میرا خیال تھا اس ناگواری کے معاملہ کو اب رفت گذشت ہو جانا چاہیے۔ ہم دعوتِ حق کا کام کرنے والوں کو اتنی تنگدلی زیبا نہیں۔ اللہ ستار العیوب اور غفار الذنوب ہے۔وہ تو قاتل و زانی کو بھی معافی کی نوید سناتا ہے اور بندے معمولی نوعیت کے اظہار و اختلاف کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ابدی بغض کی شکل میں دل میں پالتے ہیں اور تازہ رکھتے ہیں۔ اس طرح سے ایک فرد کے ذریعہ توسیع دعوت اور تحریک کو جو تقویت پہنچ سکتی تھی اس کے زیاں کا اندیشہ ہے۔ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا بہرحال ایک ناانصافی کو انصاف اور غلط رویے کو صحیح رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ میں خدا کے سامنے بری الذمہ ہوں۔‘‘
طبیعت ایک دفعہ خاصی خراب تھی۔ لکھتی ہیں کہ ’’گردن کے دو منکے ہلتے ہیں۔ گھٹنے میں بھی شدید درد ہے۔ بی پی بھی اکثر ہائی ہو جاتا ہے۔ آج کل مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ایسی ناقص صحت کے ساتھ اِس منصب کو سنبھالے رکھنا کیا ٹھیک ہے یا مناسب نہیں؟‘‘
میں نے اپنی صحت کے بارے میں کچھ لکھا ہو گا۔ جواب میں لکھتی ہیں:
’’عورت کی زندگی محنت، مشقت اور قربانیوں کی زندگی ہے۔ یہی عورت کی خوشبو اور پہچان ہے ۔ اللہ آپ کا ولی اور مددگار ہوا۔ اللّٰہ ولی المتقین۔ اس طرح جنت کے پاسپورٹ اور ٹکٹ کی قیمت بنتی ہے مگر صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
یاارحم الرحمین اشف انت الشانی لا شافی الا انت صبح شام اس دعا کا ورد کرتی رہو۔ اِس دعا کی شفا سے میرا کام چل رہا ہے۔‘‘
ایک بیٹے کی علالت پر دعا کے لیے لکھا۔ جواب ملا۔
خط ملا۔ بیٹے کی علالت نے بہت فکرمند کیا۔ ساتھ ہی صحت کی خبر ملی۔ یہ اولاد اللہ نے عجیب چیز بنائی ہے۔ ماں خود کتنی بھی بیماری ہو دل اس طرح بے چین اور بے سکون نہیں ہوتاجس طرح بچوں کی بیماری یا تکلیف سے بکھرنے لگتا ہے۔ آپ نے نام نہیں لکھا۔ اللہ اِس ماں کے چین اور دست و بازو کو ہمیشہ صحیح سلامت ، صحت مند اور چاق و چوبند رکھے اور ہمیشہ ہر دکھ بیماری، بلائے ناگہانی اور آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین‘‘۔
صائمہ اسما سے بہت محبت کرتیں۔ ایک خط میں لکھتی ہیں۔
’’سب سے پہلے مجھے ایک اظہارِ ندامت کر لینا چاہیے۔ آپ اور صائمہ کے لیے میرے پاس ایک چیز تھی وہ میں آپ کو دینا بھول گئی۔ ہم لوگ اپنے معاملات کو پس پشت رکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ضروری موقعے پر بھی ذاتی باتیں، ذاتی مسئلے اور ذاتی خوشی یاد نہیں رہتی۔ اب کس طرح بھیجوں وہ چیزیں‘‘۔
نعیم صدیقی صاحب کی کوئی تحریر چھپوانی تھی اس کے لیے لکھتی ہیں ’’اگر عزیزہ صائمہ پروف ریڈنگ کر دیں تو کیا کہنے آپ میری طرف سے صائمہ کو کہہ دیں۔ میں نے عبداللہ (مینجر ادارہ بتول) کو لکھ دیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی بھی پروف ریڈنگ کر سکتی ہیں آپ زہرہ بہن کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ عبداللہ کو میرا پیغام پہنچا دیں اور ’’عہد وفا‘‘ کی جلد کتابت کرا کے وہ بھی پرو ف ریڈنگ کے لیے صائمہ صاحبہ کے پاس پروف پہنچا دیے جائیں زہرہ بہن کے ذریعہ (یہ ۱۹۸۵ء کی باتیں ہیں جبکہ صائمہ اس وقت میٹرک کر رہی تھی ۔ نجانے انھیں صائمہ کے اندر یہ جراثیم کیسے نظر آ گئے)۔
صائمہ کے جسار ت والے مضمون کو سمیعہ نے بہت پسند کیا ہے اسے ضرور بتانا۔ اچھا ذہن اور اچھی تحریر خدا کی ایک برکت ہے وہ زورِ قلم اور زیادہ کرے۔ اُسے بہت سلام اور دعا دینا۔‘‘
میری رہائش ان سالوں میں منصورہ میں تھی اور انھیں بہت وقت منصورہ گزارنا پڑتا تھا اس لیے میرے گھریلو حالات سے کافی واقفیت تھی ۔ اُن دنوں میرے پاس بچپن سے آئی ہوئی ایک لڑکی مجیدہ تھی جو میرے گھر میں ایک ذمہ دار فرد کی طرح رہتی تھی۔ اُس کی شادی کی خبر میں نے خوشی اور فکر دونوں طرح کے جذبات سے دی۔ خط میں لکھتی ہیں۔
’’مجیدہ کی شادی کی خبر معلوم ہوئی۔ آپ سب کو مبارک ہو۔ اُس کی جدائی کا غم آپ بالکل اسی طرح محسوس کر رہی ہیں جیسے بیٹی کی جدائی کا غم برداشت کیا جاتا ہے۔ اور فرض کی ادائیگی کی خوشی اور اطمینان ہوتا ہے۔ مجیدہ بھی خداوند تعالیٰ کی ایک عطا تھی۔ اگر اللہ کو آرام پہنچانا منظور ہے تو کوئی اور مجیدہ عطا کر سکتا ہے۔ کچھ وقت انتظار اور تربیت میں ضرور لگے گا آپ دعا کریں۔ اللّٰہ مولکم وھو خیر النصرین۔ وہ ضرور کوئی مددگار مہیا کردے گا۔‘‘
کسی خاتون نے کوئی بات غلط فہمی کی بنا پر کہہ دی اور آپا جان تک بھی وہ بات پہنچ گئی۔ اس پر وہ بہت دل برداشتہ ہوئیں اور پھر مجھے لکھا۔
’’مجھے امید ہے اس وضاحت کے بعد آپ کا دل میری طرف سے مطمئن ہو گیا ہو گا۔ مجھے آپ سب بے حد عزیز ہیں اور اسی لیے آپ کو لکھا ہے کہ آپ کا دل میری طرف سے شک شبہ کی بنا پر غبار آلود نہ رہے۔ بلکہ جس نے یہ بات آپ سے لگائی ہے اس کا دل بھی صاف کیجیے۔ محبت کا تقاضا یہی ہے ۔ میں نام نہیں پوچھوں گی تاکہ کسی خاص فرد کے لیے میرے دل میں ملال پیدا نہ ہو۔ آخر ہم انسان ہیں کسی کمزور لمحہ میں نفس ہم پر حاوی آجاتا ہے۔ اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے کہ اے میرے رب مجھے لمحہ بھر کے لیے بھی نفس کے حوالے نہ کر۔ اللہ مجھے بہت زیادہ معاف کرے۔میرا کوئی غلط رویہ ہی ہو گا جو آپ سب کے دل شک شبہ میں مبتلا ہو گئے۔ ثریا آپ میری بیٹی کی جگہ ہیں میری بہت اچھی دوست ہیں۔ آپ اپنا دل میری طرف سے بالکل صاف ستھرا اور محبت سے بھرا ہوا رکھیے۔ اس سے زیادہ مجھے کسی بات کی طلب نہیں۔ والسلام‘‘
یہ چند واقعات اس لیے لکھے ہیں کہ معلوم ہو کہ ایک قیمہ کا اپنے کارکنوں کے ساتھ کیسا ماں والا کردار تھا۔
آپا جان کی زندگی میں اُن کا سب سے اہم کام منصورہ میں خواتین کے لیے مرکز بنانے کی بلڈنگ تھی۔ پہلی مرکزی شوریٰ (۱۹۸۲ء میں) یہ تجویز رکھی گئی اور آپا جان نے زونل نظام کے ساتھ ہی تعمیر مرکز فنڈ کی رسید بکس چھپوا لیں۔ ۱۹۸۳ء میں گیارہ سو روپے جمع ہو چکے تھے تو میرے ساتھ مشورہ شروع کر دیا کہ منصورہ بنک میں سود سے پاک بنکاری کا کھاتہ کھلوا لیا جائے۔ ۱۹۸۴ء میں جب یہ رقم دو لاکھ ہو گئی تو سب کے مشورے سے طے ہوا کہ حساب کتاب اور تمام لکھت پڑھت رسیدوں سے ہو گا ثریا کے ذریعہ رقم ڈاکٹر مقبول شاہد اور اُن کے ذریعہ مسعود خان صاحب کو ملے گی اور وہی تعمیر مرکز کے نگران ہوں گے۔ تمام رقم یکمشت نہیں بھیجی جائے گی بنک بھی اتنی رقوم سے گھبراتے ہیں۔ بس جیسے جیسے رقوم جمع ہوتی جائیں گی ارسال کرتے جائیں گے (چنانچہ۳۰ جولائی۱۹۸۵ تک آخری قسط دے کر کل رقم پانچ لاکھ ہو چکی تھی)۔
مرکز کے سنگ بنیاد کا موقع آیا تو لکھا کہ ۲۰، ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء کی تاریخیں مرکزی شوریٰ کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ بنیاد رکھنے کے وقت میں بھی دعا میں شریک ہوں ۔ شوریٰ کی تمام ممبران بھی آئی ہوں گی ان کو بھی خوش ہونے کا حق ہے بلکہ آپ اُن سے تاکیداً کہیے کہ ستمبر کی مندرجہ بالا تاریخوں میں یہ کام ہونا چاہیے۔
سنگ بنیاد کے وقت ایک چھوٹی سی تقریب دعا کر لی جائے۔ کچھ چائے مٹھائی ہو جائے۔ منصورہ کی خواتین اور ہمارے مرکزی اہمیت کے بھائی (اہم تو سارے ہی بھائی ہیں) مثلاً اشفاق مرزا صاحب، عبدالسلام خاں، عبدالوحید خاں صاحب اور منصورہ والے۔ آپ منصورہ میں ہیں یہ کام کروالیں ۔ چائے مٹھائی میری طرف سے ہو گی انتظام آپ سب کا۔
بالآخر ۲۲ ستمبر بروز ہفتہ صبح نو بجے میاں طفیل محمد صاحبؒ نے اپنے دست مبارک سے مرکز خواتین کا سنگ بنیاد رکھا۔ امیر جماعت کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب اور دیگر اکابرین جماعت بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ تقریباً پچاس خواتین تھیں جنھوں نے رو رو کر دعا کی۔
مرکز کا نقشہ آپا جان نے اپنی ضروریات کا مشورہ دے کر خود بنوایا اور پھر مسلسل با خبر رہیں کہ کیا بن رہا ہے۔ ایک موقع پر آرکیٹکٹ نے جالیاں بجائے کمروں کے دروازوں کے باہر، برآمدے کی محرابوں کے باہر لگانی شروع کر دیں جیسے ہی اُنھیں اطلاع ملی تو سخت خفگی کا خط آیا۔لکھتی ہیں:
’’برآمدوں کے محرابی دروازوں پر جالیاں لگانا اُن کی شان اور خوبصورتی کو داغ لگانے کے مترادف ہے اور زیادہ خرچ کا کام ہے۔ اتنے عظیم الشان دروازوں اور محرابوں کو جالیوں سے ڈھکنا بہت بھدالگے گا۔ یہ تو آرکیٹکٹ کی غفلت اور ناتجربہ کاری کی علامت ہے کہ بجائے کمروں پر جالی کے دروازے فٹ کرنے کے برآمدوں کو جالی کے غلافوں میں لپیٹ دیا جائے۔ برآمدوں پر جالی لگانے کی بات مجھ سے ہرگز نہیں ہوئی بالکل نہیں کہا گیا۔ مشورہ اور ذکر تک نہیں آیا نہ زبانی نہ تحریراً۔‘‘
بالکل باہر والے داخلی دروازے کی سٹپس اور جنگلے کے بارے میں تین دفعہ لکھنے کے بعد آخر میں لکھتی ہیں:
’’داخلہ کے قدمچوں کے دونوں طرف ریلنگ لگانے کے لیے مسلسل کہہ رہی ہوں ۔ اس کا پتہ نہیں چل رہا کہ لگوانے کا ارادہ ہے یا نہیں۔ جالی لگوانے کا کام تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا جو میرے نام پر لگنی شروع ہو گئی۔ دونوں طرف ریلنگ کے لیے کوئی جواب نہیں ملتا۔ اس لیے آپ خاص طور سے کہیے۔ کیا یہ فیشن کے خلاف ہے؟ مجبوروں، معذوروں کے خیال سے ہی عنایت کر دیں۔ فغانِ درویش بھی حق رکھتی ہے کہ اُسے سن لیا جائے۔‘‘
۲۵مارچ۱۹۸۹ کے ایک خط میں لکھتی ہیں:
’’کل مسعود خان صاحب کا خط آیا ہے انھوں نے عمارت مکمل ہونے کی خوشخبری دی ہے کہ ایک ہفتہ تک استعمال کے قابل ہو جائے گی۔ گرمی آ رہی ہے پنکھوں کی ضرورت ہو گی۔ کل ۱۷ پنکھے لگنے ہیں۔ فی الحال جتنے لگوانا چاہیں اُن کی قیمت ۶۶۰ روپے فی کس کے حساب سے بھیج دیں۔ کلائمکس کے پنکھے ہیں آپ مشورہ کرکے تعداد بتا دیں میرے خیال میں فی الحال ۵ لگوا لیں ۳۳۰۰ روپے خرچ آئے گا۔ یہ میری تجویز ہے۔ باقی آپ خود جگہ دیکھ کر فیصلہ کرلیں۔ شاید بنک میں اتنا روپیہ ہو ورنہ جتنی کمی رہ جائے وہ مجھ سے طلب کر سکتی ہیں۔ باقی کمی اللہ تعالیٰ خود مزید فنڈ سے پوری کر دے گا۔‘‘
مرکز کا نام تجویز کرنے کا موقع آیا تو لکھتی ہیں:
’’اللہ کا بڑا کرم ہے کہ خواتین کی عمارت تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔ اپنی سہولت کے لیے اس کا نام تجویز کیجیے۔ چند نام میرے ذہن میں آئے ہیں ان پر غور بھی کر لیں اور مشورہ بھی ہونا چاہیے۔ مثلاً ’’الحجاب‘‘، ’’حجاب منزل‘‘، ’’حجرات الخواتین‘‘، ’’مسکن العافیت‘‘ ’’قرۃ الحجاب‘‘ ۔
لیکن جب مشورہ ہوا اور کراچی کی طرف سے بھی نام آئے تو ’’المحصنٰت‘‘ ہی پسند کیا گیا۔
آخری خطوط میں سے ایک میں لکھا۔
’’چار لاکھ چالیس ہزار روپیہ حوالہ کر چکی ہوں۔ اب یہ ساٹھ ہزار کی قسط پہنچنے پر کل رقم پانچ لاکھ ہو جائے گی۔ مزید کے لیے بھی کوشش کرتی رہوں گی۔ مگر اب اتنی گرم جوشی سے جواب نہیں مل رہا۔ اس سال لوگوں نے انتخابات پر بھی کافی خرچ کیا ہے۔ شاید اگلے سال کچھ زیادہ اعانتیں مل جائیں۔ ویسے ثریا میں سوچتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا بڑاکرم ہے کہ یہ عمارت تعمیر ہو گئی ورنہ کسے امید تھی بارہ پندہ سال سے یہ معاملہ کٹھائی میں ٹھنڈا پڑا رہا تھا۔ خدا کو منظور تھا تو اس طرف سب کی توجہ ہو گئی اور عمارت بن گئی۔ باقی کی ٹیپ ٹاپ ، رنگ روغن ، فٹنگ وغیرہ بھی ان شاء اللہ ہو ہی جائے گی۔ اس کا بندوبست بھی اللہ ہی کرے گا۔ جس نے اتنا کچھ کرایا۔ ہاں عمارت کے اندر جانے کے لیے جو تین چار سٹیپ (قدمچے) ہیں اُن کے دونوں طرف جنگلا ضرور لگوا دیں۔ تاکہ اس کو پکڑ کر اس کے سہارے سارے کمزور بوڑھے لوگ اوپر چڑھ سکیں۔ یہ ضروری بات ہے۔‘‘
تعمیر مرکز کی تمام کہانی میں مسعود خان صاحب (اللہ تعالیٰ اُن کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے) بنوانے والے ہیں اور کوشش، ذمہ داری اور سرکھپائی تمام آپا جان کی ہے ۔ لیکن کہیں انھوں نے اس کا کریڈٹ نہیں لیا۔ تعلق باللہ کی بہترین مثال ہے۔ ام ایمان کی آپا جان کے بارے میں ایک تحریر ’’نیر تاباں‘‘ کے نام سے آئی ہے میں تڑپ اٹھی کہ مجھے یہ عنوان کیوں نہ سوجھا۔
آپا جان ۱۹۹۰ء کے لگ بھگ بیمار رہنا شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد اُنھوں نے اپنی ذہنی صحت کھو دی۔ میں بہت دفعہ ارادہ کے باوجود اُن سے نہ مل سکی۔ جنازے میں بھی سڑک خراب ہونے کے باعث لیٹ پہنچی۔ میرے ذہن میں اُن کا وہی خوبصورت مسکراتا ہوا نقشہ ہے۔
جماعت کے اندر جب اختلافات شروع ہوئے تو بڑی مستند بات سنی ہے کہا کرتی تھیں کہ میں آپا زبیدہ بلوچ کے ساتھ ہوں۔ جنت میں ہم دونوں اکٹھی ہوں گی۔
آپا جان دنیا سے چلی گئیں ہمیں بھی وہیں جانا ہے۔ میں نے ان کے بارے میں کہیں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا۔ ان کے خطوط کی تحریریں بھی من و عن ہیں۔
اللہ تعالیٰ اُنھیں جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے۔ آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here