اپنے وطن میں اجنبی
16دسمبر1971ء کو جب پاک فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے تو نتیجے میں ہم جنگی قیدی بن کر دو ہفتے تک اپنے ہی ملک میں قید رہے۔ مادر وطن ہمارے لیے اجنبی بن چکی تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انڈین فوج کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ پاک فوج کی حفاظت نہیںکرسکتی تھی۔ پاک فوج کا ہتھیار ڈالنا ان کے لیے بہت غیر یقینی تھا۔ وہ حیران اور ششد ر تھے کہ یہ سب کیسے ہوگیا کیونکہ ابھی دو دن پہلے 14دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر جنرل نیازی نے ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اعلان کیا تھاکہ ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے اور بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان کے قبضے کے لیے ہمارے سینوں پر سے گزرنا پڑے گا۔
بہرحال پاک فوج تو حکم کے مطابق ہتھیار ڈال چکی تھی اور اس وقت ہم جنگی قیدی بن چکے تھے۔ان میں پاکستان آرمی کے فوجی بھی تھے اور ان کے ساتھ مل کر مکتی باہنی سے لڑنے والے رضاکار بھی تھے۔ہمیں بھارتی فوج کی طرف سے کہاگیاکہ تم لوگوں کواپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ مشرقی پاکستان میںجو اَب بنگلہ دیش تھا، ہم دو ہفتے تک رہے ۔ پھر بھارتی حکومت کو خیال آیا کہ ہمیں بھارت منتقل کردینا چاہیے ۔ غالباً ان کامقصد یا تو پاک فوج کی مزید تذلیل تھا یا پھر حکومت پاکستان سے ڈیل تھا۔ لہٰذا ہمیں ایک سمندری جہاز کے ذریعے کلکتہ منتقل کرنے کا فیصلہ ہؤا ۔
بدبودار سمندری جہاز میں
جہاز ضرورت سے زیادہ سپاہیوں سے بھر دیاگیا۔یہ جہاز پہلے بھی جنگ میں استعمال ہوچکاتھا۔ اس کی صفائی بہت ناقص تھی۔ کھچا کھچ بھر ے ہوئے انتہائی بدبودار جہاز میں مشکل سے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ہم سب قیدیوں کی اپنی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی، دو ہفتہ بغیر کسی سازوسامان کے گزار کر آئے تھے۔اوپر سے یہاں اس قدر تنگ جگہ میں ہمیں ٹھونس دیا گیا کہ حبس کی شدت کے باعث سانس لینا بھی دشوارہورہا تھا۔ دو دن اسی حالت میں بیٹھ کر بغیر کھائے پیے سفرطے کیا ۔ شکایت بھی کس سے کرتے! بھارتی فوج کے سامنے کچھ کہنا عذاب سے کم نہ تھا۔
ٹرین کا قید خانہ
جہاز جب کلکتہ پہنچا تو ہمیں جہاز سے اتار کر فوجی ٹرکوں میں لاد دیاگیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھاکہ ہمیں کہاں لے جایا جارہاہے؟ ہمارے ساتھ کیسا سلوک ہونے والا ہے اور کب تک ہونے والا ہے؟ سب بےخبر تھے۔ حکم ہؤاکہ دائیں بائیں نہیں دیکھنا سرنیچے کرکے بیٹھنا ہے۔ ٹرک کے ذریعے ہمیں سفر گاہ سے کلکتہ ریلوے اسٹیشن لایا گیا جہاں خار دار تاروں سے لپٹی ہوئی ٹرین ہماری منتظر تھی۔ ہمیں اس ٹرین میں بیٹھنے کو کہاگیا،پھر ہمیں اندر بٹھا کر دروازوں کو بھی خار دار تاروں سے باندھ دیا گیا ۔ ان کے انتظامات سے لگتا تھاکہ ہمیں کسی لمبے سفر پر لے جایا جارہاہے۔ انجانا راستہ ہو ،منزل کاتعین نہ ہو ، نہ کوئی رخت سفر ہو اورکوئی بھارت جیسے مکار ہندو بنیے کی قید میں ہو تو کچھ بھی ہونا بعید نہ تھا۔ اس وقت ہم سب کی سوچ یہ تھی کہ ایسی زندگی سے تو موت بہتر تھی۔
بدبودار کھانا
ہر قیدی کو کھانے کے لیے ایک پیکٹ دیاگیا۔ ساتھ پینے کے لیے کوئی پانی نہ تھا۔ پاکستانی جنگی قیدی بھوک وافلاس کے باعث نڈھال ہو چکے تھے۔ وہ کھانا بھی سب کو غنیمت لگا مگر ہؤا کیا؟ جب وہ پیکٹ کھولا گیا تو بدبوسے پورا ڈبہ متعفن ہوگیا۔ خدا جانے یہ کھانا کب بنا،کہاں بنا ، کب پیک ہوکر ہمارے پاس پہنچا ؟ سب کی کھانے کی تمنا اور بھوک رفو چکر ہوگئی بلکہ ان میں سے اکثر سپاہیوں کی طبیعت خراب ہوگئی۔ سوچا ٹرین کے ڈبے میں موجود پانی سے ہاتھ منہ دھو لیں مگر وہ پانی اتنا زنگ آلود اور خراب تھاکہ یہ حسرت بھی ادھوری رہ گئی اور عملاً اس بات کا شدت سے احساس ہواکہ ہم اب قیدی ہیں اور آزادی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے ۔ مگر جب ہم آزاد ہوتے ہیں تو شاید اس نعمت کو اس طرح محسوس نہیں کرتے۔ آج ہمارے آزاد ملک پاکستان میں سانس لینے والے جو اس کی قدر نہیںکرتے وہ کسی جنگی قیدی سے ملاقات ضرور کرلیں۔ بھارت سے بُرے سے بُرے برتاؤکی توقع کی جاسکتی تھی۔انسانیت نام کی کوئی چیز شاید ان کے نزدیک سے بھی نہ گزری تھی ۔ قیدیوں کی خاموشی خوفناک حد تک محسوس کی جاسکتی تھی۔ صرف نظریں ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کررہی تھیں۔
خار دار تار وں سے لپٹی ہوئی انتہائی سخت حفاظت میں یہ ٹرین رواں دوا ں تھی۔ کسی سٹیشن پر نہ رکی کہ مبادا ہمیں علم ہوجائے کہ ہم کہاں ہیں۔ ایک دن ،دو دن، تین دن…… ٹرین چلتی رہی اور قیدی اندر بھوکے پیاسے تڑپتے رہے۔ جانوروں کی طرح ٹرین میں بند قیدی کوئی مرے یا جیے ، بیماری کی شدت میں تڑپ رہاہو یا بے ہوش ہو، بھارتی فوجیوں کو اس کی کوئی پروا نہ تھی ۔ انہیں صرف ایک خوف تھاکہ پاک فوج راستے میں کہیں بغاوت نہ کردے۔ راستے میں دو یا تین جگہ بالکل غیر آباد علاقے میں ٹرین روکی گئی تو صرف سیکیورٹی چیک کرنے کے لیے۔ سب قیدی نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے ۔ بولنے یا حرکت کرنے کی ہمت ختم ہوچکی تھی۔ سفر آخرت کتنا خوفناک ہوتا ہے اس کاصحیح ادراک تو نہیں مگر یہ سفر بھی اس سے کم نہیں تھا۔ ایک اذیت تھی جو قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کررہی تھی۔
تقریباً تین دن کے سفر کے بعد ایک گنجان آباد علاقے میں ٹرین رکی ۔ یہ اتر پردیش کا اسٹیشن میرٹھ تھا جس کا نام نمایاں جگہ پر لکھا ہؤاتھا۔وہاں تازہ دم بھارتی فوجیوں نے ہمیں نیم مردہ حالت میں کھینچ کھینچ کر ٹرین سے اتارا اور ٹرکوں پر لاد دیا ۔
ایک کپ چائے
میرٹھ اسٹیشن سے ہمیں ٹرک کے ذریعے میرٹھ کینٹ پہنچایا گیا جہاں پہنچ کر اکثر قیدی انتہائی تشویش ناک حالت میں تھے یہاں تک کہ بات کرنے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوچکے تھے۔ بھارتی فوجی یہی چاہتے تھے کہ قیدیوں کا سفر اس طرح گزرے کہ انہیں قیدیوں کی طرف سے سیکیورٹی کاکوئی مسئلہ نہ ہو۔ دشمن کی قید کتنی دردناک اور کتنی اذیت ناک ہوتی ہے اور آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، ہر گزرتے لمحے میں اس کااحساس شدید سے شدید تر ہو رہاتھا۔
اکثر قیدی بے جان اور نڈھال حالت میں جہاں بٹھایاگیا وہیں پڑے ہوئے تھے اور یہ بے بسی کی ایسی تصویر تھی جو بیان سے باہر ہے۔ آج بھی کبھی وہ لمحات سوچتا ہوںتو کانپ جاتا ہوں۔ کچھ دیر بعد سب کو ایک حیران کن سرپرائز ملا۔ سب فوجیوں کو ایک ایک پیالی گرم چائے دی گئی جو ایک پاکستانی باورچی نے تیار کی تھی۔ یہ ایک کپ چائے سب کے لیے آب حیات ثابت ہوئی۔ وہ چائے کی پیالی پی کر گویا سب زندگی میں واپس آگئے اور ایک دوسرے سے حال احوال پوچھنے لگے۔ کون کہاں سے آیا ہے تب معلوم ہؤا ۔
میرٹھ کی فوجی بیرکیں
بنگلہ دیش سے 5یا6روز پہلے شروع ہونے والا سفر کلکتہ سے ہوتاہؤامیرٹھ پر ختم ہؤا۔ میرٹھ کی فوجی بیرکیں چاروں طرف سے اونچی پختہ دیواروں اور خار دار تاروں سے جکڑ ی ہوئی تھیں ۔ ہر بیرک کو دوسری بیرک سے اس طرح خار دار تاروں سے الگ کیاگیاتھا کہ قیدی آپس میں میل ملاقات نہ کرلیں۔ بس دور سے آوازیں دے کر سلام دعا ہوجاتی ۔
بیرکوںکے چاروں کونوں میں سکیورٹی ٹاور بنے ہوئے تھے جہاں ہر دم سیکیورٹی نگرانی پر موجود ہوتی۔ یہ سب دیکھ کر اندازہ ہؤاکہ بھارت نے پاکستانی قیدیوں کو لمبے عرصے تک قید کرنے کامنصوبہ بنایا گیاہے۔ یہ کوئی عارضی کیمپ نہ تھے۔ بعد میں ہمیں پاکستانی قیدیوں کی تعداد کااندازہ ہؤا کہ وہ کئی ہزار ہیں جو ہمارے اردگرد بیرکوں میں موجود ہیں۔
میرٹھ کینٹ کی روشن تاریخ
قسمت ہمیں اس میرٹھ کینٹ میں لے آئی تھی جو مسلمانوں کی جنگ آزادی سے وابستہ ہے۔ 1857ء میں یہاں سے مسلمان سپاہیوں نے انگریزی فوج کے ظلم و جبر سے تنگ آکر جنگِ آزادی کی ابتدا کی تھی۔ ہندو بنیاا نگریزوں کے ساتھ تھا۔ مسلمان فوجیوں نے دونوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت برچھیوں اور تلواروں کے علاوہ کچھ نہ تھا اور انگریز جدید توپ اور گولوں سے لیس تھے۔ بہت سے فوجی مسلمان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
میرٹھ کینٹ کے درو دیوار 1857ء میں انگریز کے ظلم اور مسلمان فوجیوں کی شہادتوں کی گواہی دے رہے تھے۔ ان بیرکوں میں موجود تمام فوجی قیدیوں کے سامنے تاریخ کے وہ اوراق کھل گئے تھے جب اسی جگہ پر مسلمانوں پر انگریزوں کے ظلم کی داستانیں رقم ہوئی تھیں۔ ہم نے اپنے انہی ہرے ہوتے ہوئے زخموں کے ساتھ وہاں دو سال کیسے گزارے اس کی تفصیل میں بعد میں بتائوں گا، مختصر یہ کہ ہم بہت کٹھن حالات اور ذہنی اور جسمانی اذیت میں دن گزار رہے تھے۔
رہائی کا پروانہ
اسی اذیت میں قید کے یہ دوسال گزرے یہاں تک کہ رہائی کی گھڑی آئی۔ ایک صبح لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہؤاکہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہوچکاہے اور عنقریب رہائی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اعلان ہوتے ہی میرٹھ کی تمام بیرکوں سے نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کی صدائیں گونجنے لگیں۔ بھارتی فوجیوں کے لیے یہ سب غیر متوقع تھا۔ وہ پریشان ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔ اضافی فوجی بھی بلا لیے ۔ پاکستانی فوجی اس اعلان اور پھر نعرہ تکبیر کے بعد اس طرح ہشاش بشاش ہوگئے کہ جیسے ان پر کوئی تکلیف گزری ہی نہیں۔
کیمپ کا ماحول بہت خوشگوار ہوگیا تھا ۔ دوستی اور محبت کے اظہار کی کیفیت قابل دید تھی۔ انہی حالات میں دو تین ہفتے اور گزر گئے اور بالآخر رہائی کا پروانہ آہی گیا۔ بھارتی قیدسے رہائی کا دن بڑاتاریخی دن تھا۔ یہ نومبر 1973 ء تھا ۔ صبح صبح سب تیار ہوئے ، حسب معمول نماز فجر ادا کرکے تلاوت کی ، ناشتہ کیا اور بھارتی فوج کی طرف سے بلاوے کے منتظر ہوگئے ۔ بالآخر وہ لمحہ آیاکہ ہم اپنی بیرکوں سے نکلے اور اپنی اپنی باری پر فوجی ٹرکوں میں بیٹھ گئے۔ ہر طرف فوجی ٹرک ہی ٹرک نظر آ رہے تھے جو پاکستانی جنگی قیدیوںکو لے کر واہگہ بارڈر کی طرف رواں دواں تھے۔ پاکستانی فوجی ٹرک میں کلمہ طیبہ کااس طرح ورد کررہے تھے، جیسے خانہ کعبہ جانے کے لیے حاجی احرام باندھے تلبیہ کا ورد کرتے ہیں۔
سرزمینِ پاک پر
ٹرک بالآخر واہگہ بارڈ ر پہنچے۔ عین سرحد پرپاکستان میں داخل ہونے سے پہلے سب فوجیوں کو ٹرکوں سے اتار کر قطاروں میں کھڑاکردیاگیا۔ ہلالِ احمرکے عملہ نے سب کا ریکارڈ چیک کیا۔ اب باری بار ی سب لوگ پیدل بھارت پاکستان سرحد پار کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونے لگے ۔ جیسے ہی ایک فوجی بارڈر کراس کرتا پاکستانی فوجی اس کو گلے لگاتے ،اور وہ خوشی سے زار و قطار روتا ہؤاسرحد پار کرتے ہی سجدہ ِشکر میں گر جاتا ۔ کافی دیر تک لوگ وہاں سجدے میں پڑے رہتے ، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وطن کی سلامتی کی دعا بھی مانگتے ۔ اب انہیں وطن کی قدر و قیمت کااندازہ ہوچکاتھا۔
استقبالیہ قطار ختم ہوتے ہی ایک بہت بڑے استقبالیہ کیمپ کاانتظام تھا جہاں فوجیوں کے اپنے عزیز و اقارب بھی ان کے بہت بےتابی سے منتظر تھے اور وہیں ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ کاانتظام بھی تھا۔ کیمپ میں داخلے پر وہاں ہر طرف ایسے مناظر تھے جن کولفظوں میںبیان کرناناممکن ہے۔ آنے والوں کو کہیں ان کے بھائی تو کہیں ماں باپ اورکہیں بچے ساتھ لپٹاتے زار و قطار رو رہے تھے۔بڑے دلگداز اور جذباتی مناظر تھے۔جن کے بغیر زندگی ادھوری تھی، آنکھیں جن کے انتظار میں پتھرا گئی تھیں اور دل جن کے بغیر کسی پل چین نہ لیتے تھے، آخر کار طویل اور صبر آزما انتظار کے بعدان سے آن ملے تھے۔
ہم آپ کے ساتھ ہیں!
میں بھی اپنی بار ی پر پاکستانی سرحد میں داخل ہؤااور آزاد فضا میں سانس لینے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ سجدہِ شکر بجالایا، نفل پڑھے اور استقبالیہ قطار سے ہوتاہؤا استقبالیہ کیمپ میں پہنچا ۔ پورا ماحول اپنائیت سے بھرا ہؤاتھا۔ ہر کوئی اپنی خوشی کا اظہار اپنے انداز سے کررہاتھا۔لوگ اپنے پیاروں کو پہچان کر ان سے گلے مل رہے تھے، ایک دوسرے کے آنسو پونچھ رہے تھے۔ میں ایک طرف کھڑا یہ سب منظر دیکھ رہاتھا اور اپنے خیالوں میں گم تھا۔ میں یہاں اجنبی تھا۔ میرا یہاں کوئی نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کے درمیان میں نے اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا ۔یہ سوچنا بھی میرے لیے محال تھاکہ کہاں جاؤں ، کس طرف قدم بڑھائوں ، اتنے میں مجھے تنہا دیکھ کر ایک فوجی میری طرف بڑھا اور میرا بازو تھام کر پوچھنے لگا، آپ کو لینے یہاں کوئی نہیں آیا؟
میری زبان جواب دینے سے قاصر تھی ، صرف آنکھوں سے دو قطرے آنسو نکلے ۔شاید وہ سمجھ چکا تھا۔ اس نے مجھے گلے سے لگایااور کہا، ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔
(جاری ہے)
سید ابو الحسن
٭٭٭