ستمبر ۲۰۲۴بتول.....چند یادیں - محمداظہارالحق؎۱

بتول…..چند یادیں – محمداظہارالحق؎۱

ایک قریبی عزیزہ نے فرمائش کی ہے کہ’’ بتول ‘‘ کے لیے کچھ لکھوں ! سوچا تویادوں کی ایک لہر اٹھی جوسیلاب میں تبدیل ہو گئی ۔بہت کچھ یاد آگیا۔کیوں نہ قارئین کے ساتھ یادیں ہی بانٹی جائیں ۔ شعر تو کثرت استعمال سے پامال ہوچکا ہے مگرصورت حال پرمنطبق خوب ہورہا ہے ۔
تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائی سینہ را
گاہی گاہی باز خواں این قصہ پارینہ را
یعنی سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا ہے توپرانی حکایتیںدہراتےرہا کرو!
’’بتول‘‘سےتعلق برسوں پر نہیں ،دہائیوںپرپھیلا ہؤا ہے ۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں اورمیری بڑی بہن سکول میں پڑھتے تھے ۔ والد گرامی مرحوم چونکہ شاعر اورنثر نگار تھے اورچونکہ فارسی اورعربی ادب سے ان کا تعلق آبائی ، بلکہ ،خاندانی تھا اس لیے ملک کے تمام معروف رسالے اور جریدے ہمارے گھر آتے تھے ۔ماہِ نو اورچٹان کی تو مجلد فائلیں اب بھی شاید موجود ہوں ! ماہر القادری کا ’’ فاران‘‘ بھی آتا تھا۔ بھارت سے ماہنامہ’’ تجلی‘‘ باقاعدگی سے آتا تھا ۔
والد گرامی مرحوم دیو بندی مدارس سے فارغ التحصیل تھے مگروسیع المشرب تھے ۔ کمال کی برداشت رکھتے تھے ۔ہمیشہ اپنی اولاد اور اپنے شاگردوں کو بھی برداشت اوروسیع المشربی کا درس دیا ۔ مولانا مودودی سے ان کا رشتہ محبت کا تھا ۔ ایک بارفارسی کے ایک سرکاری کورس کے لیے انہیں چند ہفتے لاہور میں قیام کرنا پڑا ۔ ان دنوں مولانا مودودی مرحوم ایک مسجد میں درس دیا کرتے تھے ۔ والد گرامی مرحوم ہمیں بتایا کرتے تھے کہ وہ بھی درس میں شرکت کرنے گئے ۔ مولانا تشریف لائے اورجوتے اتارے تووالد گرامی مرحوم نے ان کے جوتے اٹھا لیے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا ۔ ’’یہ آپ نے کیا تکلیف کی‘‘۔
جماعت اسلامی کے تمام پرچے ہمارے ہاں آتے تھے ۔ یہ ایوب خان کا آمرانہ دورتھا ۔ والد گرامی مرحوم گورنمنٹ کے ہائی سکول میں تدریس پرمامورتھے ۔ جماعت پر سختی کا زمانہ تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد گرامی مرحوم اوران کے رفقا جماعت اسلامی کا لٹریچر گھر کی دیواروں میں چُن کر رکھتے تھے ۔ ترجمان القرآن،ایشیا،بتول اوردیگرجریدےاس لٹریچر میں شامل تھے ۔ ایک ماہنامہ بچوں کے لیے بھی تھا ۔ اس کانام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا ۔
بڑی بہن ’’ ام احتشام‘‘ کےنام سے بتول میں لکھتی بھی رہیں ! ’’ایشیا‘‘کے مدیرنصر اللہ خان عزیز سےوالد گرامی کے ذاتی تعلقات تھے ۔ ’’ ایشیا‘‘ کا ایک باقاعدہ فیچر طرحی مشاعرہ بھی تھا ۔ ہر ہفتے ایک مصرع طرح دیا جاتا تھا جس پر شعرا طبع آزمائی کرتے جو ایشیا میں شائع ہوئی ۔ایک بار مصرعِ طرح یہ دیا گیا ۔
مدد کے لیے آئویا غوثِ اعظم !
والد گرامی نے اس پر یہ اشعار کہے :
ہمارا فقط ہے خدا غوثِ اعظم
نہیں کوئی جس کے سوا غوث اعظم
جھکیں جس کے دربار پرجن وانساں
وہ خلاقِ ارض وسما غوث اعظم
خدا کے سوا کون فریاد رس ہے
وہی ہے سمیع الدعا غوث اعظم
جوہر وقت سنتا ہے سب کی دعائیں
وہی سب کا حاجت روا غوث اعظم
جو معبود ہے انبیا اولیا کا
وہ مسجودِ شاہ و گدا غوث اعظم
رگِ زندگی سے جو نزدیک تر ہے
وہ بے مثل سب کاخدا غوث اعظم
نہیں ہے جومحتاج ہر گز کسی کا
وہ محتاج کا آسرا غوث اعظم
مسلماں سمجھتا نہیں ہے کسی کو
کبھی بھی خدا کے سوا غوث اعظم
مناسب نہیں ہم کہیں غیرحق کو
’’مدد کے لیے آئو یا غوثِ اعظم ‘‘
خدا غوث اعظم ہےسب کا بلا شک
خدا ہی کو اپنا بنا غوثِ اعظم
خدا ہی مددگار ہے ہر کسی کا
وہی دافعِ ہر بلا غوثِ اعظم !
مصائب میں بس اس خدا کو پکارو
وہ غفارِ جرم و خطا غوث اعظم
خدا ہی کا فرماں ہےجاری جہاں میں
وہ مختارِ روزِ جزا غوث اعظم
وہ قیوم و دانا …..خدا وندِ عالم
سزاوارِ شانِ بقا غوث اعظم
جو سب کے سفینے کنارے لگائے
وہی سب کامشکل کشا غوث اعظم
ظہور اُس خدا سے مدد مانگیے گا
نہیں کوئی جس کے سوا غوث اعظم
یہ اشعار ایشیا میں شائع ہوئے تو رد عمل میں چھ خطوط شائع ہوئے۔ان میں ایک کسی غلام حبیب صاحب کا تھا جو تلہ گنگ سے تھے۔ ان کاا عتراض عالمانہ تھا ۔ والدِ گرامی نے اس کا مد لل اورتفصیلی جواب لکھا کہ لغوی اعتبار سے غوث کا کیا معنی ہے ، اس کا مادہ کیا ہے اور کیوں ’’غوث اعظم ‘‘ کے لفظ کا اطلاق غیر اللہ پرنہیں ہو سکتا ! یہ جواب بھی ایشیا میں شائع ہؤا۔ اس کے بعد ایک بارجب والد گرامی ملک نصر اللہ خان عزیز کے دفتر گئے توملک صاحب نے اپنے سٹاف سے یہ کہہ کر ملوایا کہ ’’ یہ ہیں حافظ محمد ظہورالحق ظہور، غوثِ اعظم والے ‘‘!
اب یہ مجھے نہیں یاد کہ’’ بتول‘‘ میں والد گرامی کی شاعری شائع ہوتی رہی یا نہیں ! بہر حال ’’بتول‘‘ کی مجلد فائلیں ہمارے گھرمیں موجود تھیں ! نیّر بانواُس زمانے میں ایڈیٹر تھیں ۔ یہ وہ دورتھا جب جماعت اسلامی میں اردو کے صف اول کے ادیب اورشاعرموجود تھے ۔ مصباح الاسلام فاروقی ،پرو فیسر عبد الحمید صدیقی، خلیل حامدی، ملک نصراللہ خان عزیز ، ملک غلام علی ، نعیم صدیقی اوربہت سے دوسرے!
خلیل حامدی صاحب کی تصنیف’’ عالم اسلام اوراس کے افکار و مسائل‘‘ سے میں نے سی ایس ایس کے امتحان کے لیے بھی استفادہ کیا ۔ ایک بار ہمارے گھربھی تشریف لائے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ والدِ گرامی مرحوم، مولانا مودودی کی تصانیف کا فارسی میں ترجمہ کریں ۔مگر والد صاحب کی صحت تب اس بھاری ذمہ داری کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی خلیل حامدی صاحب کی وفات ایک ٹریکٹرٹرالی کی ٹکر سے ٹریفک حادثے میں ہوئی۔میں نے ٹریفک کی صورتِ حال پرجب بھی کالم لکھا اورڈمپروں ، ٹریکٹر ٹرالیوں اور ٹرک مافیا کی چیرہ دستیوں پر ماتم کیا تو خلیل حامدی صاحب کی افسوس ناک موت کا ذکر ضرورکیا !
نعیم صدیقی کمال کے شاعر تھے ۔ اردو ادب کے نقادوںنے انہیں صرف اس لیے نظر انداز کیا کہ وہ ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ تھے ۔ میں نے ان کا شعری مجموعہ کالج کی لائبریری سے ایشو کرایا اورپڑھا ۔ان کے کچھ اشعارآج بھی یاد ہیں۔مثلاً
یہ بے گناہوں کے لہو کے داغ تونہیں کہیں
چلو قبول! سرخیٔ حنا ہے اورکچھ نہیں
اور
یہ لا الٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے توجانتے
ان کی ایک با کمال نظم ہے جس کے دومصرے یوں ہیں ڪ۔
ۜآہ یہ ماں کہ ہے بچوں کےلیےایک چڑیل
عزمِ جمہور کے نتھنے میں ہے خطرے کی نکیل
ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں تھی جواُس زمانے میں جماعت اسلامی میں نظرآتی تھی ۔ افسوس!اس کہکشاں کے اوجھل ہونے سے ایسا مہیب خلا پیدا ہؤا جو آج تک پُر نہ ہو سکا ! اُس زمانے میں مولانا مودودی کی شان میں شورش کاشمیری نے ایک نظم کہی جس میں اس کہکشاں کا ذکرتھا ۔اس نظم کے کچھ اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں :
اے مرے ملک کی اسلامی جماعت کے امیر
کیا لکھوں کون سی خوبی تری تصویرمیںہے
جذبۂ شوق ترے دیدہ و دل کی دولتِ
روحِ اسلام یقیناً تری تحریر میں ہے
عہد ِ ماضی کی حرارت ترے سینے میں نہاں
قرنِ اوّل کی جسارت تری تقریر میں ہے
میں نے ’’تفہیم‘‘ کے اوراق پہ محسوس کیا
ایک سیلابِ معانی تری تفسیر میں ہے
تو نے جو کچھ بھی لکھا ٹھیک لکھا خوب لکھا
کاٹ ایسی کسی خنجرمیں نہ شمشیر میں ہے
تو نے اک حلقۂ اربابِ قلم باندھا ہے
جو ترے حُسنِ کمالاتِ کی زنجیرمیں ہے
تفہیم القرآن کا جوسیٹ والد گرامی نے خریدا ، وہ اولین ایڈیشنوں میں سے ایک تھا ۔ بعد میں میں نے اپنے بچوں کوایک ایک سیٹ لے کردیا ۔سوائے بڑی بیٹی کے جسےمولانا اصلاحی کی ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا سیٹ تحفے میں دیا ۔ مولانا مودودی کی تصانیف سکول کے زمانے میں پڑھنا شروع کیں اوریہ سلسلہ کالج تک جاری رہا ۔ کچھ تصانیف ان کی ہمارے آبائی کتب خانے میں موجود تھیں یعنی دادا جان نے خریدی تھیں جیسے ’’تنقیحات‘‘ اور تفہیمات ! کالج سے یونیورسٹی آتے آتے ان کی تمام تصانیف پڑھ چکا تھا ۔
مولانا مودودی کو پہلی بار ڈھاکہ میں دیکھاجب میںڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر تھے۔ چوہدری رحمت الٰہی کو بھی وہیں دیکھا ۔مولانا کو آخری بار اسلام آباد میں دیکھا ۔ سیکٹرجی سکس کے ایک گھر میں ان کے ساتھ سوال وجواب کی نشست تھی۔ غالباًی1974-75کا زمانہ تھا ۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران پروفیسر غلام اعظم صاحب سے بھی ملاقات رہتی تھی ۔ جب جمعیت کے کارکن عبد المالک کو شہید کیا گیا تومیں یونیورسٹی میں تھا ۔ میری عبد المالک شہید سے اچھی گپ شپ تھی ۔ اس کی شہادت پر پروفیسر غلام اعظم صاحب نے ایک زبردست جذباتی اورماتمی تقریر کی تھی ۔ تب میں بنگلہ سمجھ لیتا تھا ۔ بعد میں آئوٹ آف پریکٹس ہونے کی وجہ سے بھول گیا ۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول سروس اکادمی لاہور میں زیر تربیت تھا توکئی بار پروفیسر عبد الحمید صدیقی صاحب کی خدمت میں حاضری دی ۔ ترجمان القرآن کے’’ اشارات‘‘ وہی لکھا کرتے تھے ۔وہ ہرروز گوجرانوالہ سے آتے اور پنجاب پبلک لائبریری میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے ۔ ایک بار ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ میں نے کوئی ’’ خطرناک ‘‘ بات کردی ،اس پر انہوں نے انگریزی میں متنبہ کیا کہ احتیاط سے بات کرو کیونکہ سرکاری مخبرموجود ہیں! جہاں تک یاد پڑتا ہے اُن دنوں وہ حدیث کی کسی کتاب کوانگریزی قالب میں ڈھال رہے تھے ۔
سول سروس ٹریننگ کا کچھ عرصہ کراچی میں تھا۔ وہاں پہنچ کر اولین فرصت میں مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملا ۔ ان کی صحت اچھی نہیں تھی اورمالی مشکلات کا شکار تھے ۔ انہوں نے گھر کی چھت پرمرغیاںپال رکھی تھیں۔ میرے ذہن میں اُس وقت سوال اُبھر ا کہ جماعت نے اُن کی مددکیوں نہ کی ؟ Jewish conspiracy ان کی معرکہ آرا تصنیف تھی۔
مولانا مودودی کی وفات کے بعد جماعت کے ساتھ پہلے والا قلبی اورذہنی تعلق نہ رہا ۔ اس کے بہت سے اسباب تھے اور ہیں جن پر بات کرنے کا یہ موقع نہیں، مگرمولانا مودودی کے ساتھ جوذہنی اورقلبی ارادات اورعقیدت تھی، آج بھی جوں کی توں موجود ہے ۔ان کی تصانیف تمام کی تمام شاہکار ہیں مگردوکتابیں خاص کرمیری پسندیدہ ہیں۔ سنت کی آئینی حیثیت اورخلافت و ملوکیت ! اسی طر ح خلیل حامدی ، پروفیسر عبد الحمید صدیقی ،ملک نصر اللہ خان عزیز، پروفیسر غلام اعظم ملک غلام علی اورنعیم صدیقی جیسے زعما اور سکالر آج بھی دل پرحکومت کر رہےہیں میں ان بڑے لوگوں کواپنے اساتذہ کا درجہ دیتا ہوں ۔یہ ہماری تہذیبی اورادبی تاریخ کا اثاثہ ہیں !
یہاں ایک اور دلچسپ بات یاد آگئی ! میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے ( اقتصادیات) پاس کرکے فروری 1970 میں مغربی پاکستان واپس آیا ۔ اسی سال نومبر میں سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ گیا ۔ تحریری امتحان کا رزلٹ 1971ء میں آیا ۔ پھر انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت سی ایس ایس امتحان صرف تین شہروں میں لیا جاتا تھا ۔ لندن ، کراچی اور لاہور! آج تو ہرنوجوان باریش ہے۔داڑھی فیشن کا حصہ بھی ہے مگر 71-1970 میں داڑھی کا رواج نوجوانوں میں نہ ہونے کے برابرتھا الا ماشاء اللہ ! میں جب گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں 1967ء میں بی اے کا طالب علم تھا توپورےکالج میں ہم باریش طلبہ دوتین سے زیادہ نہ تھے۔ سی ایس ایس کے انٹرویو کے دن آئے تومعلوم ہؤا کہ کراچی اورلاہوریعنی امتحان کے دونوں مراکز میں میں واحد باریش امیدوارتھا ! میں نے داڑھی کبھی منڈائی نہ تھی ۔ اپنا رجحان بھی تھا اور گھر کا ماحول بھی اس کام میں مُمدِ تھا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ داڑھی کے ساتھ کامیابی کا کوئی امکان نہیں اس لیے انٹرویوکے لیے جانے سے پہلے شیوکر لو۔یاد رہے کہ سی ایس ایس کے انٹرویو کے تین سونمبر ہوتے ہیں ! میں نے داڑھی صاف کرانے سے انکار کردیا ۔میری دلیل یہ تھی کہ اگر بغیرداڑھی کے انٹرویو دینے سے کامیابی کی گارنٹی ہو تب توداڑھی صاف کرالی جائے ۔ مگرداڑھی بھی منڈا دی جائے اور کامیابی بھی نہ ہو تو خود اعتمادی پر کاری ضرب لگے گی ! بہرطور ،داڑھی اور سوٹ ٹائی کے ساتھ میں انٹرویوکے لیے حاضرہؤا ۔ جیسا کہ توقع تھی ، انٹرویوداڑھی سے آغاز ہؤا ۔ پانچ چھ جغادری قسم کے بیورو کریٹ انٹرویو بورڈ میں تشریف فرما تھے۔انٹرویو، جوانگریزی میں تھا ، کچھ اس طرح شروع ہؤا ۔
’’ کیا آپ جماعت اسلامی سے ہیں ؟‘‘
’’ نہیں جناب!‘‘
’’ کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے ؟‘‘
’’ نہیں جناب!‘‘
’’ کیا آپ کے والد صاحب جماعت اسلامی سے ہیں ؟‘‘
’’ نہیں! جناب ! وہ توسرکاری ملازم ہیں ان کا کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں!‘‘
’’ تو پھر آپ نے داڑھی کیوںرکھی ہوئی ہے ؟‘‘
’’جناب ! داڑھی توویت نام کے لیڈر اورجنگِ آزادی کے ہیرو ہوچی منہ نے بھی رکھی ہوئی ہے ! کیا وہ بھی جماعت اسلامی یا تبلیغی جماعت سے ہیں؟‘‘
اس جواب سے بڑے صاحب تھوڑے سےڈائون بھی ہوئے اورناراض بھی، چنانچہ انٹرویو کا باقی حصہ بھی سرد ماحول میں ہؤا!
اصل بات جو اس ضمن میں بتانا چاہتا ہوں اورہے۔ انٹرویو کے دوران کہا گیا ’’ مولانا مودودی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟‘‘
حُسن اتفاق دیکھیے کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے شریف الدین پیر زادہ کی تصنیف Evolution of pakistanپڑھی تھی۔ پیرزادہ صاحب نے لکھا تھا کہ مولانا مودودی نے دو قومی نظریہ کی حمایت کی تھی ۔ مولانا مودودی کی تصنیف ’’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ بھی میں نے پڑھی ہوئی تھی ۔ میں نے جواب دیا کہ میرا جماعت سے توکوئی تعلق نہیں مگرشریف الدین پیر زادہ نے اپنی فلاں تصنیف میںگواہی دی ہے کہ مولانا مودودی نے دو قومی نظریے کی حمایت کی تھی اوراس سلسلے میں مضامین بھی لکھے تھے اور پیرزادہ صاحب کا بھی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
مجھے انٹرویومیں بہت کم نمبردیے گئے حالانکہ میں (کم ازکم اُن دنوں!) انگریزی بھی بہت اچھی بولتا تھا۔ مگر تحریری امتحان میں نمبربہت اچھے تھے اس لیے انٹرویو بورڈ کے معاندانہ رویے کے باوجود survive کر گیا اورسروس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا !
یادوں کا سمندر بے کنار ہے ! مگر کہیں نہ کہیں تک قلم روکنا پڑتا ہے ! سو مناسب یہی ہے کہ میں بھی اسی پر قناعت کروں اورقارئین بھی !!٭
٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here