سوچ
ام حمزہ
’’ یہ کباب تو لو بھئی اور یہ بتاؤ چائے چلے گی یا شربت‘‘۔سعدیہ نے مریم سے پوچھا۔
’’وقت تو چائے کا ہے مگر گرمی اتنی ہے کہ شربت ہی بنالو‘‘۔مریم نے جواب دیا۔
سعدیہ نے بیٹی سے شربت بنانے کے لیے کہا اور دونوں سہیلیاں آرام سے بیٹھ گئیں۔
سعدیہ اور مریم نے ساتھ ہی ماسٹرز کیا تھا۔پڑھائی کیا ختم ہوئی سب سہیلیوں کا ساتھ ہی چھوٹ گیا۔
بھلا ہو مریم کا جس نے ڈائری میں سب سہیلیوں کے نمبر نوٹ کر رکھے تھے اور مہینہ دو مہینہ میں بات کرلیتی تھی۔اس وقت نہ واٹس ایپ تھا اور نہ موبائل فون ۔بس لے دے کے ایک پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن ہوتی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ سب سہیلیوں کے رابطے کم اور پھر ختم ہوتے گئے اب صرف سعدیہ اور مریم ہی رابطے میں رہ گئیں اس کی وجہ مریم کی معاملہ فہمی اور سمجھداری تھی جب سعدیہ کسی مشکل میں پھنسی مریم کے مشورے سے وہ آسان ہو گئی۔
اب سعدیہ کا اصرار تھا کہ میرے گھر کا چکر لگاؤ اسی لیے آج دونوں سہیلیاں آرام سے آمنے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں
’’میرا فلیٹ ڈھونڈنے میں مشکل تو نہیں ہوئی‘‘ سعدیہ نے پوچھا۔
نہیں بھئی مین روڈ اور جانا پہچانا علاقہ…. آرام سے پہنچا دیا میرے میاں نے‘‘ مریم نے شربت پی کر گلاس رکھتےہوئے جواب دیا
’’کیا بات ہے سعدیہ تم اداس کیوں ہو‘‘مریم نے سعدیہ کی طرف بغور دیکھتےہوئے کہا۔
’’بس کیا بتاؤںالجھن سی الجھن ہے کس سے کہوں۔امی کے پاس جاتی ہوں ان کی دلجوئی کے لیے اپنے دکھڑے سنانے لگوں تو اورہی پریشان ہوجائیں گی‘‘ سعدیہ دھیمی آواز میں بولی۔
’’ارے ایسا کیاہوگیا ‘‘حیران ہونے کی باری اب مریم کی تھی۔
’’میرا فلیٹ تم نے دیکھ لیا ‘‘سعدیہ نے بولنے کی کوشش کی مگر مریم نے بات کاٹتے ہوئے کہا’’ہاں ہاں تمھارا فلیٹ بھی دیکھ لیا راستہ بھی آسانی سے مل گیا ‘‘مگر مسئلہ کیا ہے میری بہن۔
ایک گہری سانس بھر کر سعدیہ بولی ’’تو یہ کہ یہ میرا فلیٹ ہی میرا مسئلہ ہے۔تم نے دیکھا لیکیج سیپیج رنگ ادھڑا‘‘۔
’’ھممم……!یہ تو سب پہلے سے ہے اور عموماًہر فلیٹ میں ہوتا ہے اب کیاہؤا ‘‘۔ مریم اور کچھ کہتی مگر سعدیہ نے درمیان میں اپنی بات شروع کردی ۔
’’ہم فلیٹ بدل نہیں سکتے کہ کرائے سے بچے ہوئے ہیں علاقہ اچھا ہےسب سامان سہولت سے مل جاتا ہےمگر پرانا فلیٹ، پرانے ڈھب کا فرنیچر ،گندی دیواریں۔میں گھبرا رہی ہوں آنے والے وقت سے بچی بڑی ہو رہی ہے ان حالات میں اچھا رشتہ کیسے ملے گالوگ کیسے کیسے گھر کی سجاوٹ اور آرائش کرتے ہیں یہاں تو ….. ‘‘سعدیہ کی آواز رندھ گئی۔
’’اوہواب سمجھی!‘‘مریم نے بغور سعدیہ کو دیکھا اور دھیرے سے بات شروع کی’’ اپنے حالات پر تو تم نے خوب غور کیا اب میری بات توجہ سے سنو۔تم پرانے فرنیچر کو نئے سرے سے بدل نہیں سکتیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
’’مہنگے پردے قالین یہ سب تمھارے لیے ممکن نہیں ہے‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
’’مہنگائی کے سبب رہائش بدلنا بھی ممکن نہیں‘‘ ۔
’’نہیں‘‘
’’اچھاپریشان ہونے سے پریشانی ٹل جائے گی؟نہیں نا….لیکن تدبیر کرنے سے اور دعا کرنے سے ضرور ٹل جائےگی ۔ دیکھو سب سے اہم بات یہ کہ جس اللہ نے ہمیں بنایا اور جس حال میں رکھا اس سے وہ بے خبر نہیں۔تم اس کیفیت میں جاکر دیکھو سوچووہ مجھے دیکھ رہاہے خود بخود سکون آنے لگتا ہے‘‘۔
’’یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں‘‘مریم کہنے لگی۔
’’ارے بھئی ایک سرے سے سب نہ سہی کچھ کام تو ہو سکتےہیں نا۔ فرنیچر پالش کرا سکتی ہو۔رکھنے کی ترتیب بدل لو جو زیادہ خراب ہے اسے نکال دوگھر کا پینٹ بھی سارا نہیں تھوڑا تھوڑا کر کے کراتی رہوبجٹ کے حساب سے‘‘۔
مریم کا ذہن جیسے کھلنے لگا’’ ہاں کچھ کام تو ہو سکتے ہیں‘‘۔اب سعدیہ مسکرانے لگی اور کہا ۔
’’دعا مانگا کرو کہ شوہر کی حلال کمائی تمھیں پوری پڑ جائےنہ حرام روپے کی طرف دھیان جائے اور نہ نوکری کے لیے نکلنا پڑے…. کیا کہتی ہو؟‘‘
سعدیہ بہت مشکور نظر آرہی تھی ۔’’میں اسی لیے دل کی با ت ہمیشہ تم سے کہتی ہوںتم سے بات کرنے کی بعد میں کبھی مایوس نہیںہوتی‘‘ مریم نے دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا جس نے یہ بھرم قائم رکھا۔
’’میرے شوہر کے آنے کا وقت ہورہا ہے ایک دو ضروری باتیں اور سنو۔رات سونے سے پہلے لازمی ان تمام نعمتوں کا شکر کرو جو میسر ہیں گھر شوہر بچے رشتے دار‘‘۔
’’ہاں یہ توہےکتنے لوگ ذاتی گھر اور اولاد کے لیے ترستے ہیں‘‘مریم اب اطمینان سے بولی۔
’’اب میری سہیلی سمجھ گئی نا‘‘سعدیہ ہنسی ’’اور سنو ذرا کاٹھ کباڑ کم کرو جن چیزوں کی ضرورت پورے سال نہیں پڑتی ان سب کو نکال باہر کرو فالتو ڈبے بوتلیں زائد کپڑے جوتے سب کم کردو اس سے گنجائش بھی نکلے گی اور صفائی کا تاثر بھی پڑے گا۔کیا خیال ہے‘‘۔
’’بالکل بالکل…. ‘‘
’’ارے رے ایک بات تو رہ گئی ‘‘مریم جاتے جاتے پلٹی ۔
’’ہاں وہ کیا؟‘‘
’’لوگوں سے میل جول بڑھاؤ خاص طو پر جن کی مالی حیثیت کم ہےجب لوگوں کے حالات دیکھو گی تو خودبخود اپنی نعمتوں کا احساس ہوگا‘‘۔
اتنے میں دروازے کی گھنٹی بج گئی مریم تو رخصت ہو گئی مگر سعدیہ کو مثبت سوچ دے گئی۔
٭ ٭ ٭
لال رنگ
عائشہ فیض۔کراچی
زین اور ماریہ اپنے امی ابو کے ساتھ چھوٹے سے خوبصورت گھر میں رہتے تھے۔ گھر کے چاروں طرف زیتون کے باغ تھے۔ دونوں بھائی بہن اپنے پیسٹل اور سکیچ بک لے کر باغ میں ،آم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر تصویریں بناتے ۔کبھی نیلا آسمان کبھی اڑتے پرندے ….ان دونوں کو ہی مصوری کا بے حد شوق تھا۔
ایسے ہی ہنسی خوشی دن گزر رہے تھے کہ اچانک دشمنوں نے ان کے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کردیا اور اب آئے دن حملوں کی خبریں آنے لگیں۔ دشمن مسلمانوں کے قبلہ اول پر مشتمل ان کی سرزمین کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ان کی والدہ کئی ماہ سے ان دونوں بہن بھائیوں کو گھر سے باہر جانے نہیں دے رہی تھیں۔آج کافی دن بعد حالات تھوڑے بہتر ہوئے تھے۔ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ یہ خاموشی کسی بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے،لیکن ان دونوں نے مل کر ان سے تھوڑی دیر کے لیے باغ میں جانے کی اجازت لے لی ۔
بہت عرصے بعد وہ دونوں باغ میں آئے تھے۔پہلے انہوں نے تھوڑا کھیلا پھر اپنے پیسٹل اور سکیچ بک نکال کر بیٹھ گئے۔وہ ہمیشہ اپنی تصویریں مکمل کر کے ہی گھر جاتے تھے آج کا کام کبھی بھی کل پر نہ چھوڑتے۔ ماریہ خوبصورت سا گھر بنانے لگی جو بالکل اس کے اپنے گھر جیسا تھا اور زین نے امی، ابو، ماریہ اور اپنی ڈرائنگ بنائی تھی۔اب وہ دونوں اپنی بنائی ہوئی ڈرائنگ میں رنگ بھر رہے تھے۔
ماریہ نے زین کو کہا:زین جلدی کرو امی نے تھوڑی دیر کی ہی اجازت دی تھی۔
میں نے کبھی اپنی تصویر آدھی ادھوری چھوڑی ہے؟ بس یہ رنگ رہ گیا ہے، زین نے لال رنگ ڈبی سے نکالتے ہوئے کہا۔
ابھی جملہ مکمل ہی ہؤا تھا کہ بزدل دشمن کی طرف سے پھینکا گیا میزائل قریب ہی آکر گرا۔ان کا گھر تباہ ہوگیا تھا۔ وہ دونوں زور سے اچھلتے ہوئے دور جا گرے، پیسٹل ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئے مگرصفحہ لال رنگ سے بھر گیا تھا۔زین نے اپنی بنائی ہوئی آخری تصویر ادھوری نہیں چھوڑی تھی!
٭ ٭ ٭
پچھتاوا
ہادیہ جنید گابا
آج اس کے سوئم کو پانچ دن ہو گئے تھے۔
نلوں میں پانی کا قطرہ دور دور تک بھی نہیں تھا،ٹنکیاں سوکھ گئیں تھیں۔سب ہی بوند بوند کو ترس گئے تھے،سارا ہی شہر پانی کی کمی کا شکار تھا،اب تو زبانیں بھی خشک ہو گئی تھیں مگر کیا کرتے،بے شک ہم ہی ظالم تھے۔
’’بس کردو بجلی۔پانی بند کردو۔اتنے سے برتنوں کے لیے اتنا تیز نل کھولا ہو&ٔا ہے‘‘۔بجلی کے کانوں میں اس کے الفاظ گونجے۔
بجلی اس کے گھر کی پرانی ملازمہ تھی،اتنی پرانی کہ اب اسے گھر کے فرد کی حیثیت حاصل تھی۔بجلی جانتی تھی کہ وہ پانی کی کس قدر قدردان ہے،جب کسی کو اس کو تنگ کرنا ہوتا تو اس کے سامنے خوب پانی ضائع کرتا،اور وہ بس ایک شکایتی نظر ڈال کر خاموش ہو جاتی۔خوبیوں والی تھی اس لیے اس کے حاسد بھی بہت تھے ،اس کو محض تنگ کرنے کے لیے گھر میں بچوں کو پانی والی بندوقیں دی جاتیں،بجلی پرانی ملازمہ تھی،سب کی سوچ پڑھ سکتی تھی۔
آج وہ لوگ بھی پانی کو ترس رہے تھے۔
گاڑیوں کو دھونے کے لیے نل کھلا دیکھ کر نجانے کیوں اس کو صحرائے تھریاد آتا۔”جتنا پانی گاڑی کو دھونے میں میں ضائع ہؤا ہے،اتنے میں کتنوں کی پیاس بجھ جائے‘‘وہ اکثر کہا کرتی۔
’’جب پانی بہتا ہے،باجی کا طبیعت خراب ہو جاتا ہے‘‘۔
ملازموں کے اس کے بارے میں الفاظ تھے۔
آج وہ لوگ بھی پانی کو ترس رہے تھے۔
لیک ہوتے نلکوں کو لیک ہونے سے بچانے کے لیے وہ کتنی رسّیاں ڈوریاں باندھتی،لوگ اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔بجلی بھی ہنس دیتی،آج وہی نلکے خشک ہو کے سب کا مذاق اُڑا رہے تھے۔
’’پانی خدا کی نعمت ہے،اس کو ضائع کرنا کفرانِ نعمت ہے،پانی زندگی ہے،اس کو ضائع مت کرو‘‘۔
اس کی معصوم سی تنبیہ ہؤا کرتی۔
اس نے پانی کو بچانے سے تعلق رکھنے والی ساری ذمّہ داریاں خود ہی اپنے ذمّے لے لی تھیں۔وہ پانی بچاتی نہیں تھی،بس اس کو ضائع ہونے سے بچاتی تھی،اس کا فریزر ٹھنڈے پانی کی بوتلوں سے بھرا رہتا،باہر جاتے ہوئے وہ گرمی میں کھڑے مزدوروں کو،کسی مکّئی والے کو وہ بوتل تھما دیتی۔”شاید یہی نیکی میری بخشش کا ذریعہ بن جائے‘‘ یہ اس کی سوچ تھی۔
’’تم لوگ نل کھول کے بھول کیوں جاتے ہو؟‘‘
ایک دن درمیانی آواز میں اس نے کام والیوں کو ڈانٹا۔اس کے سامنے نلکے بند کردیے گئے۔مگر اس کے جاتے ہی بجلی نے باقی ماسیوں سے کہا۔
’’اتنا پانی بچانے کا شوق ہے،شاید یہ سارا پانی اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائے گی‘‘۔
اور آج اس کے سوئم کو پانچ دن ہو گئے تھے۔میّت میں آنے والے افراد نے پانی پیا مگر سوئم ہوتے ہی پانی کی پریشانی بڑھتے بڑھتے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے گئی۔شاید بجلی کے الفاظ قبول ہو گئے تھے۔وہ واقعی سارا پانی اپنے ساتھ قبر میں لے گئی تھی۔٭
٭٭