’’سو سوری یوسف میری آنکھ ہی نہیں کھلی‘‘نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولھے کا برنر آن کیا۔
’’رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو۔ میں نے انڈا ابال کر کھا لیا ہے اور چائے میں کالج میں پی لوں گا۔ تمہاری تمام رات حارث کی وجہ سے بے آرامی میں کٹی ہے، ابھی وہ سو رہا ہے سو تم بھی تھوڑی نیند لے لو‘‘ ۔
میں نے نمرہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ مجھے کالج سے دیر ہو رہی تھی کہ ہر منگل کو میرے پہلے دو پیریڈ ہوا کرتے ہیں ۔
میری اور نمرہ کی شادی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ چار سال کی ہانیہ اور اب تین ماہ کا حارث۔ یہ شادی محبت کی شادی ہی سمجھیے کہ کزن کی شادی پر نمرہ کو دیکھا اور دو مہینے کی چَیٹ اور ایک آدھ ملاقات کے بعد زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا۔ ہماری اچھی گزر رہی ہے، نرم گرم حالات تو ازدواجی زندگی کے پیکج میں شامل ہیں کہ شادی گلابوں کی سیج جو ٹھہری۔ جی جناب گلابوں کے ساتھ منسلک کانٹوں کو بھی ذہن میں رکھیے کہ ایسی ہی مہکتی اور چبھتی ہوئی ہوتی ہے ازدواجی زندگی۔ میں خاصی حد تک سیلف میڈ ہوں کہ میرا خاندان پشتوں سے حلوائی ہے، جہاں بس میٹرک تک کی ہی تعلیم ضروری کہ پھر سنبھالنی ہے گلک کی ذمہ داری۔ اس سے آگے کی تعلیم کو وقت اور پیسے کا زیاں گنا جاتا ہے۔ گو کہ اب ہم لوگ ایک سولہ بائی دس فٹ کی دکان سے اٹھ کر ملک کے تقریباً ہر بڑے شاپنگ مَول میں موجود ہیں اور ہمارے خاندان کے نوخیز نہال ایم ٹی وی اور دوبئی یاترا کی بدولت انگریزی بھی بولنے لگے ہیں مگر سب اوپری سطح تک، ذرا سا کھرچو تو اندر سے وہی روکڑو روکڑو صدا جاری و ساری۔
میں اپنے خاندان کا واحد پوسٹ گریجویٹ ہوں ۔ خواب تو میرے سی ایس ایس کے تھے مگر پیلے اسکول کی بدولت میری انگریزی کمزور تھی۔ اس میں وہ کونوینٹ والی پختگی اور اعتماد نہیں تھا ۔گو میں نے اپنے آپ پر بہت محنت کی اور اپنا اندرون بیرون بدلنے کی حتی المقدور کوشش بھی، پر تمام تر کوششوں کے باوجود میں نہ سرخاب بنا نہ بگلا ، بس کچھ ہی اوپر اٹھ سکا۔ خیر میری سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ میں مقامی کالج میں معاشیات پڑھا رہا ہوں، بھئی اب خون میں دوڑتے روکڑو روکڑو (پیسہ) کا اثر کہیں نہ کہیں تو ظاہر ہونا تھا بھلے معاشیات کے مضمون کی صورت ہی سہی۔
اب اسے خدا کی کرنی کہوں یا اپنی خوش سماعتی کہ نابکار دل آیا بھی تو اہل زبان پر۔ نمرہ بلاشبہ خوش شکل تھی مگر مجھے اسیر اس کے انداز گفتگو اور سخن فہمی نے کیا تھا۔ اردو مجھے ہمیشہ ہی بہت پرکشش لگا کرتی ہے اور نمرہ کے منہ سے تو گویا پھول جھڑتے تھے ،جیسے فراز کی غزل:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
ایسی آراستہ پیراستہ اور برجستہ گفتگو کہ خاکسار بس بندہِ بےدام ہی ہو گیا۔ اب آپ سے کیا پردہ !چوتھی جماعت میں میرا پہلا اور آخری کرش بھی میری اردو کی استانی مس شمشاد ہی تھیں۔ میرے بزرگوں نے زور تو بہت مارا کہ میں خاندان ہی میں کہیں بندھ جاؤں کہ میرے گھر کی کچھ لڑکیاں ڈگری یافتہ تھیں۔ ابا کا مجھے اپنی بھتیجی جمیلہ سے بیاہنے کا پورا پورا ارادہ تھا اور با خدا وہ عفیفہ تھی بھی شکیلہ ،پر بھلا اتھرے دل کو کب کوئی مائی کا لعل لگام ڈال سکا ہے ، سو جو اس دل نے ٹھانی وہ کر گزرا کہ وہ نمرہ کے استھان پر سر نہوڑاچکا تھا۔ اس سے پہلے کہ ابا اور کاکا مجھ پر جمیلہ سے شادی کرنے کے لیے دباؤ بڑھاتے، میں نے نمرہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس گستاخی پر گھر بدر کر دیا گیا۔ نمرہ کے گھر والوں کو منانا بھی ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے جتنا ہی مشقت طلب تھا پر بیٹی کی رضا مندی کے آگے انہیں بھی مجبوراً راضی ہونا پڑا۔ میری شادی پر میری جانب سے مارے باندھے صرف میری امی اور بڑے بھائی شریک ہوئے تھے۔
شادی سے پہلے میں نے بورڈ آفس کے پاس کرائے پر فلیٹ لیا کہ وہاں سے پریمیئر کالج نزدیک پڑتا تھا ۔ اب تو ماشاءاللہ سے میں صاحبِ کار بھی ہوں ورنہ وہ دور بھی تھا جب ہونڈا 70 پر نمرہ اور میں کراچی چھانا کرتے تھے۔ امی چار چھےمہینے پر میرے گھر چکر لگا لیتی ہیں اور لاکھ منع کرنے کے باوجود میرے بینک اکاؤنٹ میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ رقم ڈالتی رہتی ہیں۔ واقعی ماؤں کی محبتوں کا نہ تو مول ہے اور نہ ہی کوئی تول۔
اب اپنی سسرال میں، میں کھلے دل اور بازوؤں سے ویلکم ہوں مگر میرے باپ کے گھر کے در مجھ پر ہنوز مقفل۔
خیر ،ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!
میرے شاگرد میرے پڑھانے کے طریقے سے خوش ہیں گو کہ میری شہرت قدرے سخت گیر استاد کی ہے۔ میں شاگردوں کو اپنا سو فیصد دیتا ہوں اس لیے اپنے طالبعلموں سے بھی سخت محنت کا متقاضی ہوں۔ میری اچھی ریٹنگ کی بنا پر پرنسپل بھی مجھ سے راضی باضی پر میرے کولیگ قدرے کبیدہ کہ میں لکیر کا فقیر نہیں اور پڑھانے میں جدیدیت کا قائل۔
راوی اب تک تو چین ہی چین لکھ رہا تھا مگربی کام کا جو نیابیچ آیا ہے وہ کچھ زیادہ ہی منہ زور اور بےباک ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ یوں بدلا ہے کہ یقین کیجیے میں تو ششدر ہوں۔ ہم لوگوں کے اساتذہ کا کیا دبدبہ اور رعب ہؤا کرتا تھا۔ اگر ان سے کہیں راستے میں مڈبھیڑ ہو جاتی تو ہم یا تو یک دم مؤدب کھڑے ہو جاتے یا اگر رگڑائی کھنچائی کا خدشہ ہوتا تو خاموشی سے راستہ ہی بدل لیتے۔ پر اب میرے کچھ شاگرد تو ایسے بے ادب ہیں کہ میرے سامنے سگریٹ بجھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ تعلیمی ماحول کچھ اس تیزی سے بدلا ہے کہ اب کلاس کے لڑکے اور لڑکیوں کا اکٹھے آئس کریم پارلر یا پیزا ہٹ جانا گویا معمول ٹھہرا اور اس پہ روک ٹوک یا سرزنش کی گنجائش ہی نہیں۔ میں نے ایک دفعہ اس طور طریقے پر پرنسپل صاحب کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تو پرنسپل صاحب نے میرا کندھا دباتے ہوئے کہا کہ یوسف صاحب ہم صرف کالج کی چار دیواری کے اندر تک کے ذمہ دار ہیں۔
میرے اس سال کے تھرڈ ایر کے بیچ کی رشنا قادری اور فاران مغیث کی دوستی حد سے تجاوز کر رہی تھی۔ کینٹین اور کوریڈور تو چھوڑیے اسٹاف روم میں بھی یہی ذکر تھا۔ رسمی طور پر ایک بار پرنسپل نے انہیں آفس بلا کر سرزنش بھی کی مگر جناب کہاں، مانو صاحب زادے نے کندھے پر سے بیٹھی مکھی اڑائی اور محترمہ نے جز بز ہو کر پہلو بدل کر چوئنگم کا پٹاخہ بجا دیا ۔ بس اتنا ہی ردعمل تھا ان کا اس رسمی فہمائش پر۔
مجھے تو یقین کامل تھا کہ دونوں لیلیٰ مجنوں کی ایک دو پیپر میں سپلی ضرور آئے گی مگر ہوا اس کے عین برعکس۔ خیر یہاں کے تعلیمی بورڈ میں ایسا ہونا کوئی عجوبہ نہیں۔ تعلیمی سیکٹر کیا، کسی بھی شعبے میں قائد اعظم کو پہیہ لگا دو بس پھر کھل جا سم سم ۔ ہر در وا ہوتا چلا جائے گا اور ہر ناممکن ممکن۔ مجھے ابھی سے سوچ سوچ کر کوفت ہے یہ دونوں ابھی ایک سال اور میرے سر پر مسلط ہیں۔ باوجود ان دونوں کو ناپسند کرنے کے میں نے کبھی ان کے امتحانی پرچے یا اسائنمنٹ پر اپنا غصہ نہیں نکالا۔ میرے پاس ایک یہی تو فخر ہے کہ میں اپنے پیشے سے مخلص ہوں اور سو نا اتفاقی یا نا پسندیدگی کے باوجود بھی متعصب نہیں۔ میں اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ ہوں اور اسٹاف روم کی یاوہ گوئی سے سخت پرہیز کرتا ہوں۔ یوں بھی میرے پاس وقت کہاں، کالج سے چھٹی پر گھر اور پھر عصر سے رات تک دو دو اکیڈمیوں میں کلاسز لیتا ہوں کہ ہوشربا مہنگائی کے ہنومان کو بھینٹ تو چڑھانی ہی پڑتی ہے اور میرے پاس میرے دماغ کے عرق کے علاوہ ہے ہی کیا؟ اس عرق ریزی کے بدلے میں حاصل سکّوں سے کنبے کے لیے کچھ اضافی خوشیاں مول لیتا ہوں۔
یہ تماشا اسی صبح کا ہے جب مجھے کالج کے لیے دیر ہو رہی تھی اور نمرہ وقت پر اٹھ نہیں پائی تھی کہ تین چوتھائی رات تک حارث بے آرام رہا تھا۔
بظاہر وہ صبح بالکل دوسری صبحوں جیسی تھی۔ دھوپ کی تپش، موسم کا حبس، سڑکوں پہ بے ہنگم ٹریفک اور ہارن کا بےپناہ شور۔ راہ چلتوں کا پان کی پیک اگلنا، چنگچی اور موٹر سائیکلوں کا کٹ مارنا اور ہر گزرنے والے کا راہ چلتی یا سواری کے انتظار میں کھڑی عورت کا ایکسرے اتارنا۔ اسٹاف روم کی بھی ہمیشہ جیسی مسموم فضا تھی، سب کچھ بالکل گزشتہ صبحوں ہی جیسا تھا۔ طوفان سے پہلے آنے والا سکوت تو کہیں بھی نہیں تھا۔ ہاں رات کی بے آرامی کے سبب میرے سر میں شدید درد ضرور تھا سو میں نے اسٹاف روم میں بیٹھنے کے بجائے اپنی کلاس میں جانا بہتر سمجھا اور اسٹاف روم سے نکلتے ہوئے پیون مقبول کو چائے کلاس میں پہنچانے کی تاکید کرتا ہؤا کلاس کی جانب نکلتا چلا گیا۔ ابھی میں ٹھیک سے کرسی پر بیٹھ بھی نہیں پایا تھا کہ دھڑاک سے دروازہ کھلا ، رشنا قادری تن فن کرتی اندر آئی اور اپنا اسائنمنٹ میری میز پر پٹخ دیا اور چیخی کہ میرے نمبر کم کیوں ہیں۔
اس بدتمیزی پر تو میرا سر ہی گھوم گیا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے رشنا قادری؟‘‘میں نے درشتی سے پوچھا۔
’’طریقے وریقے کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ جب میرے پوائنٹس عطرت سے زیادہ ہیں تو پھر نمبر کیوں کم ہیں؟ سیدھی طرح سے میرے نمبر بڑھا دو‘‘وہ میرے کالر کو جھٹکتے ہوئے غرائی۔
میں سناٹے میں رہ گیا !!!
’’میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والا‘‘۔
میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کرسی کا سہارا لینے کی کوشش کی جو جھٹکے کے باعث پہلے ہی گر چکی تھی اور اس سے جھونک کھا کر میں بھی زمین بوس ہو چکا تھا ۔
’’کریں گے تو تمہارے اچھے بھی‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے شانے کے پاس سے اپنی قمیض ادھیڑ دی اور تیزی سے چیختے ہوئے میرے گال پر اپنے ناخنوں سے کھرونچے ڈال دیے۔
عین اسی وقت ایک بار پھردھڑاک سے دروازہ کھلا اور بے عزتی کے باعث میری دھندلاتی آنکھوں نے دروازے پہ بت بنے پیون مقبول کو دیکھا ۔پھر کچھ لڑکے تھےجن میں فاران سب سے آگے تھا ، انہوں نے اسے دھکا دے کر راستے سے ہٹایا اور مجھے گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیا۔ میرے ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا اور میری شرٹ لیرو لیر تھی ۔ اچانک کمرے میں بہت سارے لیکچرار گھس آئے اور مجھے ان لڑکوں کے نرغے سے نکالا اور پھر یہ سارا قافلہ پرنسپل کے آفس پہنچا۔
پرنسپل نے مجھے کرسی پر بٹھا کر پانی دیا اور ابھی وہ فاران کو خاموش کرانے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ آفس میں پولیس دراتی چلی آئی۔اس وقت یہ بھی پتہ چلا کہ اسی دوران کسی نے اس واقعے کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی جو اب تک وائرل ہو چکی ہے۔ چالیس پینتالیس منٹوں کے اندر اتنا کچھ ہو چکا تھا کہ میری عقل ماؤف تھی اور میں کچھ بھی بولنے سے قاصر۔
پولیس مجھے تھانے لے جانے پر مصر اور پرنسپل کا اصرار کہ معاملہ یہیں حل ہو جائے۔ وہیں آفس میں مجھے پتہ چلا کہ رشنا قادری کے چچا تھانہ سنٹرل کے ایس پی ہیں۔ جب تھانے دار نے ایس پی صاحب کی کال پرنسپل صاحب کو دی تو پرنسپل صاحب بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور دیگر اساتذہ جو اب تک گھیرا لگائے تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، آفس سے کھسکنا شروع ہو گئے۔ مجھے جب پولیس وین میں بٹھانے لگی تو باہر میڈیا کا ہجوم تھا ۔کسی طالب علم نے پیپسی کی کھلی بوتل مجھ پر اچھال دی اور میں تر بتر ہو گیا۔ رات گئے تک مجھے تھانے میں بٹھا کر رکھا گیا پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی مگر مجھے جینے جوگے بھی کب چھوڑا گیا تھا۔
میں مجرموں کی طرح رات گئے گھر لوٹا۔ نمرہ نے مجھ سے کوئی سوال جواب نہیں کیا، اس پر گمبھیر خاموشی طاری تھی اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنی صفائی کیسے اور کیوں دوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میرا دماغ ماؤف تھا۔
کالج میں انکوائری کمیٹی جو تین افراد پر مشتمل تھی اس کیس کی تفتیش کر رہی تھی۔ ادھر میرے حالات بگڑتے جا رہے تھے اور مجھ سے اچھوتوں جیسا سلوک روا تھا اور میرا گلی بازار سے گزرنا محال۔ لوگ مجھے دیکھتے ہی کانا پھوسی کرنے لگتے اور کچھ تو باقاعدہ آوازیں کستے۔ مجھ سے تمام کلاسز لے لی گئی تھیں۔ میرا لیپ ٹاپ، اور کالج لوکر کمیٹی کی تحویل میں تھا۔ انکوائری کے سلسلے میں جب بھی کالج جانا ہوتا وہ وقت مجھ پر سکرات سے زیادہ سخت ہوتا کہ طالبات کی آنکھوں میں اپنے لیے تمسخر دیکھنا مرنے جیسا ہی ہے۔
وقت رینگ رینگ کر گزر رہا تھا اور میرے اپنے آہستہ آہستہ میرا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔ وہ دن میرے لیے قیامت کا دن تھا جب میں نے اپنے باپ کی طرف سے اخبار میں اپنا عاق نامہ پڑھا۔ اس سے بھی بڑا ظلم ابا نے یہ کیا کہ امی پر مجھ سے بات کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس بھری دنیا میں واحد امی تھیں جنہیں میری بےگناہی کا یقین تھا۔
میں نے نمرہ کو کئی دفعہ معاملہ وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بس کسی بت کی طرح سنتی اور مجھے ایسا محسوس ہوتا گویا میں کسی دیوار سے مخاطب ہوں۔ ایک دن میں انکوائری بھگتا کر گھر پہنچا تو خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا اور ایک کاغذ ڈائننگ ٹیبل پر گلاس کے نیچے دبا چلتے پنکھے کی ہوا سے ہلکے ہلکے پھڑپھڑا رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے اسے اٹھایا۔ القاب سے مستثنیٰ مختصر سی تحریر تھی کہ:
’’ابا کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، بچوں کو لےکر جا رہی ہوں۔ لوٹ کے آؤں گی یا نہیں میں بھی نہیں جانتی‘‘۔
میں تنہائی سے شکستہ اور نڈھال تھا اور اب مجھے انکوائری سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ میرا تمام وقت گھر کی چار دیواری میں مقید سگریٹ پھونکتے گزرتا ۔
گھر میں ہیں بس چھے ہی لوگ
چار دیواریں چھت اور میں
میں انتہائی ضروری سامان خوردونوش لینے کے لیے بمشکل تمام گھر سے نکلتا کہ لوگوں کی نظریں مجھے ادھیڑے دیتی تھیں اور میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی سزا کاٹ رہا تھا۔ میڈیا کے پاس اب صرف ایک ہی موضوع تھا ،چاہے وہ بے ہنگم مارننگ شوز ہوں یا رات کے گھٹیا ٹاک شوز، ہر جگہ بس ایک ہی راگ الاپا جا رہا تھا۔ میں کہ اس وقت دنیا کا تنہا ترین شخص تھا۔ دو مہینے کی صبر آزما مدت کے بعد انکوائری کمیٹی کا فیصلہ میرے حق میں آ گیا۔ رشنا اور فاران کو ریسٹیگیٹ کر دیا گیا اور مجھے کالج واپس بلا لیا گیا۔
مگر تب تک میرے لیے زمین اور آسمان بدل چکے تھے اور میں بجائے ایک سوشل انسان کے ایلین بن چکا تھا۔ میری بےگناہی پر یک سطری خبر کسی اخبار کے آخری صفحے پر بھی نہیں چھپی اور نہ ہی کسی ٹاک شو میں میری برأت کا تذکرہ تھا۔ میں نے انکوائری کمیٹی سے اپنی بےگناہی کا تحریری ثبوت مانگا جو مجھے نہیں دیا گیا۔ میں نے نمرہ کو کال کی مگر اس نے میرا نمبر بلاک کر دیا۔ میں نے دو مہینوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا تھا اور اب میرے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں ٹوٹ چکا تھا اور شدید ڈپریشن کا شکار بھی سو مجھے موت ہی واحد حل نظر آئی۔ جس اذیت میں، میں مبتلا تھا اس سے مجھے مکت صرف موت ہی کر سکتی تھی۔ رات شاید ایک بجے کے قریب میں نے ڈرائینگ روم کے پنکھے میں نمرہ کا دوپٹہ ڈال کر پھندا اپنے گلے میں ڈالا اور دیوار پر آویزاں بچوں کی تصویر پر نظر جمائے جمائے کرسی کو اپنے پیروں سے ٹھوکر لگانے ہی والا تھا کہ میں نے پھندا اپنے گلے سے نکال دیا۔
میں یہ کیا کرنے چلا تھا ؟ کیوں….کیوں؟
ہانیہ اور حارث اس کرب اور احساس زیاں کے ساتھ کیوں کر زندہ رہیں گے کہ ان کا باپ ایک مجرم تھا؟
میں ہانیہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ نہیں بنوں گا۔
آخر میرے بچے تا عمر محروم و شرمسار کیوں رہیں؟
میں غلط نہیں تو میں سزا کیوں جھیلوں؟
مجھے تو ویسے ہی تہی دست کر دیا گیا ہے۔ مجھے اپنے وقار اور بقا کے لیے اور اپنے بچوں کے بےخوف مستقبل کے لیے لڑنا ہو گا اور میں لڑوں گا۔ اس معاشرے اور اس کے سڑتے گلتے سسٹم سے میں آخری سانس تک لڑوں گا۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی میں نے اپنے اندر ایک توانائی محسوس کی اور عرصے بعد میری بھوک چمک اٹھی۔ میں تقریباً خالی ڈھنڈار پڑے فریزر سے ایک فروزن ڈبہ برآمد کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اب وہ شیشے کا ڈبہ مائیکرو ویو اون کی حدت سے تیزی سے جمود سے نمود کی طرف گامزن ہے۔ مجھے ہمیشہ سے باورچی خانے کی بتی بجھا کے مائیکرو ویو اون کی گھومتی پلیٹ دیکھنا اچھا لگتا ہے۔
ابھی میں اس نظارے سے حظ اٹھا ہی رہا تھا کہ دروازہ زور زور سے بجنے لگا ، ساتھ ہی ساتھ کوئی مجھے پکار رہا تھا۔
’’ یوسف صاحب، یوسف صاحب ‘‘۔
یہ آواز مجھے کچھ جانی پہچانی لگی۔سوچا دفع کرو مجھے کیا کوئی بھی ہو، دنیا نے کب میری سنی جو میں کسی کی پروا کروں، لیکن جب دروازہ بغیر کسی وقفے کے مسلسل ہی پیٹا جاتا رہا تو مجھے دروازہ کھولتے ہی بنی۔
دروازے پہ میرا پیون مقبول تھا۔
’’اس وقت مقبول !خیر تو ہے؟‘‘ میں نے اسے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے کہا۔
جیسے ہی مقبول نے لاؤنج میں پیر رکھا اور اس کی نظر ڈرائینگ روم میں پنکھے سے جھولتے پھندے پر پڑی، وہ گویا کرنٹ کھا کر پلٹا اور ’’نہیں سر نہیں‘‘ کہتا ہؤا مجھ سے لپٹ گیا۔
’’ارے نہیں بھئی اب بالکل بھی نہیں۔ ہاں آدھا گھنٹہ پہلے میں یہ ضرور کرنے والا تھا مگر اب نہیں‘‘۔
’’آؤ بیٹھو‘‘ میں نے کافی ٹیبل پر رکھی کرسی پر چڑھ کر پنکھے سے دوپٹہ کھولتے ہوئے اسے بیٹھنے کہا ۔ وہ ابھی تک سراسیمہ تھا۔
’’کچھ کھاؤ گے؟‘‘
میں نے ٹیبل پر گرم شدہ نہاری اور ڈبل روٹی رکھتے ہوئے پلیٹ اس کی طرف بڑھائی مگر اس نے پلیٹ لوٹاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔ دراصل وہ ابھی تک شَوک سے باہر نہیں آیا تھا سو میں نے اسے اس کے حال پہ چھوڑا اور ڈٹ کر کھانا کھایا۔ جانے آج کتنے دنوں بعد کھانے میں ذائقہ لگا تھااور طبیعت نے سیری محسوس کی تھی۔
کھانے کے بعد چائے کی شدید طلب محسوس ہوئی سو دو کپ چائے بنائی اور ایک کپ اس کے آگے رکھتے ہوئے پوچھا کہ اتنی رات گئے کیوں آئے ہو۔
اس کے چہرے پر خجالت ہویدا تھی ،اس نے کچھ جھجکتے اور کچھ ہکلاتے ہوئے کہا ۔
’’سر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے پہلی بار ہی سچ بول دینا چاہیے تھا مگر میں ڈر گیا تھا اس لیے میں نے کہہ دیا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا اور میں کچھ نہیں جانتا۔ سر میں جانتا ہوں کہ آپ بےگناہ ثابت ہو چکے ہیں اور اب میرے اس اقرار کی کوئی اہمیت نہیں مگر میں واقعی بہت شرمندہ ہوں اور ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگتا ہوں‘‘۔
میں ایک ٹک مقبول کو دیکھتا رہا اور مجھے اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں اپنی بےگناہی کی گواہی کے لیے ایک ایک شخص کے پاس گیا تھا مگر سب نے جیسے ہونٹ سی لیے تھے۔ میڈیا نے میرے خلاف اس قدر پروپیگنڈا کر دیا تھا کہ کوئی میری حمایت میں بولنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ چیخ چیخ کر اپنے کولیگ، دوستوں اور جاننے والوں سے پوچھوں ۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
میں نے گہری سانس لی اور کہنا شروع کیا۔
’’مقبول!وہ مجھ پر بےکسی کا ایسا سخت وقت تھا کہ نہ دن ڈھلتا تھا اور نہ ہی دل ٹھہرتا تھا۔ مجھ سے تو معاشرے نے جینےکا حق تک چھین لیا تھا اور میں بے جرم کی سزا کاٹ رہا تھا۔ باوجود بےگناہی ثابت ہو جانے کے معاشرہ مجھے قبول نہیں کر رہا تھا۔ مجھ پر بد کرداری کی مہر لگ چکی تھی اور یہ داغ میرے لاکھ جتن کے باوجود بھی دھلتا ہی نہ تھا۔ شدید مایوسی کے غلبے تلے آج میں مرنے پر آمادہ تھا بلکہ اپنے گلے میں پھندا ڈال چکا تھا کہ آخری لمحوں میں ہانیہ کی تصویر دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کو کس بات کی سزا دے رہا ہوں؟ میری موت تو ان کے لیے لامتناہی سوالات چھوڑ جائے گی اور شاید اس بات کا ثبوت بھی کہ ان کا باپ واقعی گناہ گار تھا۔ میرے بچے تمام عمر سر جھکا کر جئیں گے اور کل کہیں وہ بھی تنگ آ کر میرا راستہ نہ اپنا لیں اور میں اس خیال سے ہی لرز گیا۔میں نے طے کرلیا کہ نہیں، مجھے لڑنا ہو گا، اپنے لیے، اپنے رسوا کیے گئے نام اور وقار کے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور ان تمام اساتذہ کے لیے جو پڑھانا جانتے ہیں اور طالب علموں کو ان کا جائز حق دیتے ہیں۔ وہ اساتذہ جو کسی کی دھونس میں نہیں آتے، جو نہ جھکتے ہیں اور نہ ہی بکتے ہیں۔
جانتے ہو مقبول لوگ خودکشی بالکل بے آسرا ہو کر کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کے ہر فرد سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں تو ان لاچاروں کو خودکشی ہی میں نجات دکھتی ہے۔ مایوسی اور کرب کی انتہا دیکھو کہ درد سے رہائی انہیں اپنی زندگی ختم کرنے کی اذیت میں نظر آتی ہے۔ ایسے میں اگر ایک آدمی، فقط ایک آدمی ان کی پشت پر ہاتھ رکھ دے اور انہیں یہ یقین دلا دے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو کہانی کا انجام یکسر بدل جائے، سوچو دنیا کی اربوں کی آبادی میں صرف ایک شخص چاہیے ہوتا ہے…. صرف ایک مخلص ہمنوا انسان…. جو یقین اور دلاسہ دے اور پھوڑے بنے دل پر اعتبار کا مرہم رکھ دے۔ صرف ایک فرد واحد کے ہمدردانہ عمل سے زندگی کا دھارا بدل جائے اور بےکسی کی موت مرتی ہوئی زندگی پھر سے بحال ہو جائے۔
ہم لوگ کیا اتنے تہی دست ہیں مقبول کہ نا امیدوں کو امید کی ایک کرن یا یقین کا ایک جگنو بھی ان کی ہتھیلی پر نہ دھر سکیں؟ جانے انسانیت کہاں روپوش ہو گئی ہے!‘‘
اور مقبول ہچکیاں لے کر روتا رہا۔
مجھے اب کیا کرنا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری روشن صبح تو طلوع ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے مجھے اس بے انصافی کے خلاف وفاقی محتسب کو درخواست لکھنی ہے، پھر میڈیا کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنا ہے کیونکہ مجھے اپنا نام اور وقار واپس چاہیے پورے احترام و اکرام کے ساتھ۔
٭٭٭