فیصل نے گھر میں قدم رکھا تو ایک لمحے کو حیران سے رہ گئے ۔ صدر دروازہ چوپٹ کھلاپڑا تھا، اجنبی اور نامانوس لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی ۔’’ کون لوگ ہیں یہ …؟ اس گھر میں کیا کر رہے ہیں …؟ ڈیڈی کہاں ہیں …؟ دل بہت زور سے دھڑکا ! شرفو اور گھر کے دیگر ملازم کہاں چلے گئے …؟‘‘وہ اپنے ہی سوالوں میںالجھے کھڑے تھے کہ شرفو کی آواز کان کی سماعتوں سے ٹکرائی!
’’ ارے بھیا آپ آگئے…! صاحب اور ہم تو کب سے انتظار کررہے تھے آپ کا …! آئیے ہم کمرہ کھولتے ہیں …!‘‘ کہتے ہوئے شرفو نے اپنی واسکٹ کی جیب سے چابی نکال کر گیسٹ روم کا تالا کھولا ۔ فیصل نے کمرے میں قدم رکھا تو قدرے سکون کی سانس لی ۔ ڈرائیور ان کا سامان اندر لا کر رکھ چکا تھا …!
’’ آپ کا انتظار کرتے کرتے ابھی کچھ دیر پہلے ہی گئے ہیں پروفیسر صاحب !‘‘
’’ کہاں گئے ہیں ڈیڈی؟‘‘
’’ محلے کے کوئی آدمی لوگ بلانے آئے تھے صاحب کو ، بتا رہے تھے کوئی میٹنگ ہے …!‘‘ پانی کا گلاس فیصل کی طرف بڑھاتے ہوئے شرفو نے بتایا …!
’’ ڈیڈی کب سے محلے کے مسائل میں دلچسپی لینے لگے…؟ ‘‘ فیصل نے مسکراتے ہوئے شرفو سے پوچھا۔
’’بھیا! بڑی بیگم صاحبہ کے گزر جانے کے بعد صاحب بہوت بدل گئے ہیں !‘‘
’’ اچھا ! ‘‘ فیصل نے ایک لمبی سانس چھوڑی …! وہ تو بچپن سے یہی دیکھتے آئے تھے کہ ڈیڈی نے ہمیشہ خود کو گھر سے یونیورسٹی تک ہی محدود رکھا تھا ۔ رشتوں کے نام پر بھی اکیلے ہی تھے ، نہ بہن نہ بھائی ۔ کچھ دور پرے کے عزیز تھے بھی تو ان سے دور ہی کی علیک سلیک تھی ۔دوستی کا حلقہ بھی وسیع نہ تھا ، یونیورسٹی میں بھی دوچار ساتھی ہی ایسے تھے جن سے کچھ بے تکلفی تھی …!
چائے ناشتے سے فارغ ہو کر فیصل گیسٹ روم سے نکل کر ڈرائنگ روم کی طرف آئے، اندر داخل ہوئے تو یہاں کا بدلہ ہؤا نظارہ دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا ۔ ان کے تصور میں تو وہی خوبصورت فرنیچر سے آراستہ ہال نما ڈرائنگ روم آباد تھا جس کی تزئین میں ممی بے حد دلچسپی لیا کرتی تھیں ۔ خوبصورت نقاشی کا وہ سہار نپوری صوفہ بھی اب یہاں نظر نہیں آ رہا تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے ممی ہمیشہ جذباتی ہوجایا کرتی تھیں‘‘۔’’یہ صوفہ میرے اباکی نشانی ہے ، بڑے ارمانوں سے بنوایا تھا انہوں نے میرے جہیز کے لیے ۔ جیتے جی اسے اپنی نظروں سے دور نہیں کروں گی ‘‘۔ فیصل نے ایک سرد آہ بھری۔ اب نہ ممی تھیں نہ ان کے ابا کی نشانی وہ صوفہ تھا ، نہ ہی دیگر آرائش سامان تھا وہ سجا سجایا ڈرائنگ روم اب ایک کلاس روم بنا ہؤا تھا ۔ سامنے کی دیوار پر ایک تختہ سیاہ نسب تھا ۔ پورے ہال میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے تپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ گزرے وقت اور ممی سے جڑی یادوں کا ایک ہجوم تھا جو فیصل کوافسردہ کر رہا تھا۔
لابی میں قدم رکھا تو یہاں کا منظر بھی بدلا ہؤا تھا ۔ فیصل سوچنے لگے کہ گھر میں ممی کی سب سے پسندیدہ جگہ یہ کشادہ لابی ہی ہؤا کرتی تھی ۔ باورچی خانے سے ملحق ہونے کی وجہ سے دن میں وہ زیادہ تر یہیں بیٹھ کر نوکروں کو ہدایات جاری کرتی تھیں ۔ نواڑ سے بنی ایک مسہری ممی نے خاص طور پر ڈلوائی تھی ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ بیڈ روم کے بجائے یہیں پر آرا م کرتی تھیں ۔ مسہری کے سرہانے کی طرف ایک چھوٹی سی گول میز رکھی ہوتی تھی جس پر ان کا مراد آبادی پاندان ، ہرے پانوں کی ڈلیا ، سروتا اور خاصدان رکھا ہوتا تھا مگر اب وہاں کچھ بھی نہ تھا ۔ ’’ ان ساری اشیاء میں ممی کے لمس کی خوشبو پنہاں تھی ۔ وہ ہوتیں تو ان بے جان اشیاء کا ہونا نہ ہونا شاید اتنا دلگیر نہ کرتا مجھے ‘‘۔اک دل گرفتہ احساس نے فیصل کو جکڑ لیا ۔ لابی میں اب فرشی دری بچھی ہوئی تھی ، بچے اور بچیاں لمبی نیچی تپائیوں پر قرآن اور سپارے رکھے بآواز بلند پڑھنے میں مصروف تھے ۔ مسہری کی جگہ پر ایک قالین بچھا کر مولوی صاحب کی نشست بنا دی گئی تھی۔ مولوی صاحب موجود تھے اور ایک ایک بچے کو بلا کر قرآن کا سبق دے رہے تھے ۔ فیصل نے ان کو سلام کیا لیکن فیصل کے سلام اور مولوی صاحب کے جواب دونوں میں شناسائی کا کوئی تاثر نہ ابھرا ۔ مولوی صاحب دوبارہ بچوں کی طرف متوجہ ہو گئے ، فیصل بھاری دل لیے واپس گیسٹ روم میں آکر بیڈ پر گر گئے اور شرفو کو آواز دی۔
’’ جی بھیا ! آپ بلائے ہم کو ؟‘‘
’’ ہاں شرفو ! میں بہت تھک گیا ہوں اور سونا چاہتا ہوں ، ڈیڈی آجائیں تو مجھے جگا دینا اور اب مجھے لنچ نہیں کرنا ہے …‘‘
’’ جی بھیا ! ٹھیک ہے ‘‘۔
مغرب کی اذان سے فیصل کی آنکھ کھلی ، کمرے سے باہر آئے تو اطراف میں پھیلے ہلکے سرمئی اندھیرے نے اک عجیب سی اداسی ان کے اندر بھر دی ۔’’ کیا ڈیڈی نہیں آئے ابھی تک …؟‘‘
’’ بھیا ! صاحب کا فون آیا تھا ، کسی کی موت ہو گئی ہے اورصاحب لوگ کو میٹنگ سے ادھر ہی جانا ہے ،اب تو صاحب عشاء کی نماز کے بعد ہی آئیں گے ‘‘۔ پروفیسر صاحب عشاء کی نماز کے بعد ہی لوٹے اور گھر میں داخل ہوتے ہی فیصل کا پوچھا ۔ فیصل کے کان شاید آہٹ پر ہی لگے تھے ، ایک جست میں کمرے سے باہر آکر ڈیڈی کے گلے لگ گئے ۔ بہت دیر تک ان کے لمس کی خوشبو اپنے اندر اتار نے کے بعد جب الگ ہوئے تو مسکرا کر ڈیڈی کو اوپر سے نیچے تک دیکھا ۔ چہرے پرخوبصورتی سے تراشی ہوئی سفید داڑھی ، آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ ، کلائی پر چوکور کالے ڈائل کی خوبصورت گھڑی اور سفید کرتا پاجامہ زیب تن کیے ہوئے وہ اتنے پر وقار لگ رہے تھے کہ فیصل تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ،’’ ماشاء اللہ …! ڈیڈی آپ بہت ڈیشنگ لگ رہے ہیں اس لباس میں ‘‘۔ پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر فیصل کو گلے لگا کر ان کا ماتھا چوم لیا۔
رات کو دوران گفتگو پروفیسر صاحب نے پہلے بہو اور پوتے کی خیریت دریافت کی پھر فیصل سے پوچھا ،’’ بیٹے ! امریکہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ہے یا واپس اپنے وطن آنا چاہو گے ؟‘‘ کچھ خاموش لمحے دونوں کے بیچ چپ چاپ سرک گئے۔ فیصل سوچ رہے تھے کہ بات اگر صرف ان کی اپنی ہوتی تو یہ ایک لمحے کا جواب تھا کہ ’’ مجھے وطن ہی واپس آنا ہے ، آپ کے ساتھ رہنا ہے ‘‘۔ لیکن احتیاطاً وہ اپنی اس خواہش کو دل میں دبا گئے ۔’’ ڈیڈی جب تک نازیہ کی جاب ہے وہیں رہنا ہوگا ، اس کے علاوہ نبیل کا بھی مسئلہ ہے ، وہ وہیں پلا بڑھا اور وہیں تعلیم حاصل کی ہے ، میرا خیال ہے یہاں ایڈجسٹ ہونا اب اس کے لیے بہت مشکل ہوگا …! مگر مجھے آپ کی فکر رہتی ہے ڈیڈی ! میں اس عمر میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ، اس مسئلے کا حل اب یہی ہے کہ آپ امریکہ چلیں اور ہمارے ساتھ رہیں ۔ مجھے بھی تو اپنی خدمت کا موقع دیں …!‘‘
پروفیسر صاحب نے ایک فخریہ نگاہ بیٹے پر ڈالی اور مسکرا کر بولے…
’’ بیٹے ! تم میری بالکل فکر نہ کرو ، اکیلا نہیں ہوں میں ، میرے پاس شرفو ہے نا ، اور سب سے بڑھ کر اب یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن سے ہر وقت چہل پہل رہتی ہے ۔ اب میں ان سب کو چھوڑ کراگر کہیں جائوں گا تو رب کے بلاوے پر ہی جائوں گا …! اس سے پہلے کہ اس کا بلاوہ آجائے کچھ فیصلے کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ پھر انہوںنے تفصیل سے فیصل کو بتایا کہ ’’ میں نے غریب بچوں کی ابتدائی تعلیم کی غرض سے کوٹھی میں ایک درسگاہ کھولی ہے اور ارادہ رکھتا ہوں کہ یہ کوٹھی در سگاہ کے نام کردی جائے۔ چونکہ یہ کوٹھی اور اس سے لگا ہؤا یہ زمینی رقبہ ہمارے جد کی وراثت میں ہمیں ملا ہے لہٰذا میرے بعد تم اس کے وارث ہوتے ہو۔ اگر تم میرے اس فیصلے پر دل سے خوش ہو تو بسم اللہ ! ورنہ کئی اور بندوبست کرلیں گے ‘‘۔
’’ ڈیڈی ! یہ کوٹھی ہی کیا میرا وجود بھی آپ ہی کی ملکیت ہے ، آپ کے ہوتے ہوئے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں ۔ آپ جس طرح چاہیں اس جائیداد کا استعمال کریں …!‘‘
پروفیسر صاحب فیصل کی باتوں سے پر سکون ہو گئے ۔ پھر فیصل نے ان فون کالز کے بارے میں بھی کوئی ذکرنہیں کیا جس کی وجہ سے نازیہ نے انہیں زبردستی وطن بھیجا تھا ۔ دراصل امریکہ میں فیصل کو کسی انجان شخص نے فون پر یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے آبائی شہر میں ان کی رہائشی کوٹھی جس کی قیمت اب کئی کروڑ روپے ہے ، گلی محلے کے بچوں کی ملکیت بننے جا رہی ہے مگر فیصل نے اس شخص کی بات پر زیادہ توجہ نہ دی تھی اور یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ ’’ میںڈیڈی سے ان کی کسی بھی ملکیت کو لے کر باز پرس کرنے کا حق نہیں رکھتا ہوں ‘‘۔فیصل کا ٹکا سا جواب سن کر فون کالر بالکل بھی مایوس نہیں ہؤا بلکہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا تھا …’’ ڈاکٹر صاحب آپ بھلے ہی اپنے والد سے باز پرس نہ کریںلیکن اپنی آنکھیں اور کان ضرور کھلے رکھیں ۔ دراصل پروفیسر صاحب کچھ لوگوں کی باتوں میں آکر کوٹھی میں ایک درسگاہ کھول چکے ہیں اوراب وہی لوگ پروفیسر صاحب سے اس کوٹھی کو درسگاہ کے نام رجسٹری کروانا چاہ رہے ہیں او روہ کروا بھی لیں گے ، بڑے چالاک لوگ ہیں ۔ اگر ایک بار رجسٹری ہو گئی تو آپ کے ہاتھ کٹ جائیں گے ، بعد میں آپ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائیں گے ‘‘۔
’’ تو کیا حرج ہے اس میں ، اگر کوٹھی در سگاہ کو دے دی جائے…؟ ڈیڈی مالک ہیں ، ان کی چیز ہے وہ اس کسی کو تحفۃً یا قیمتاً دینے کا حق رکھتے ہیں ۔ میں ان کی اولاد ہوں، ان کا باپ نہیںاور ڈیڈی کا فیصلہ اگر یہی ہے تو مجھے بخوشی منظور ہے ‘‘۔
وہ شخص بھی بلا کا ڈھیٹ تھا ، فیصل کا دو ٹوک جواب سن کر بھی ڈٹا رہا، لہجے میں زمانے بھرکی ہمدردی سمو کر بولا …’’ڈاکٹر صاحب! یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ حقیقی وارثوں کے ہوتے کروڑوں کی جائیداد غیروں کی ہو جائے …!‘‘ فون کرنے والے شخص کے منہ سے بار بار ’’ کروڑوں‘‘ کی بات سن کر بھی فیصل کے دل میں کسی قسم کا لالچ نہیں آیا تھا …!
ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پھر اسی شخص کا فون آیا ’’ ڈاکٹر صاحب! آپ سمجھ نہیں رہے ہیں ، ملک سے باہر ہوتے ہیں ،اس لیے اندازہ نہیں ہے آپ کو ادھر انڈیا میں پراپرٹی کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں ، میں نے تو ازراہِ ہمدردی آپ کو حالات سے آگاہ کیا تھا سو میرا فرض پورا ہو ٔا اور پراپرٹی کی خریدو فروخت کاکوئی ارادہ ہو تو مجھ ناچیز کو اسی نمبر پر یاد کر لیں ، بندہ حاضر ہو جائے گا …!‘‘ فیصل نے اس بار بھی نہ فون کالر کی باتوں پر بہت زیادہ توجہ دی اور نہ گھر میں بیوی اور بیٹے کو ہی بتاناانہوںنے ضروری سمجھا …!
اس کے بعد بھی وہ شخص چپ نہیں بیٹھا اورایک دو ماہ کے وقفے سے فون کر کے وہی سب دہراتا رہا ۔ آخر کار فیصل نے توجہ سے اس کی بات سنی بھی اور گھر میں اپنی بیوی نازیہ سے ذکر بھی کر ڈالا ۔ کروڑوں کی بات سن کر نازیہ تشویش میں مبتلا ہو گئی۔ اس نے ان فون کالز کو سنجیدگی سے لیا اور ضد پکڑ لی کہ ’’ انڈیا جا کر دیکھو تو سہی کہ معاملہ کیا ہے ؟ آخر پچھلے دو تین ماہ سے ایک شخص لگا تار تمہیں کیوں فون کر رہا ہے ؟‘‘ فیصل نے جب نازیہ کی بات پر کوئی توجہ نہ دی تب نازیہ نے مصلحت سے کام لیا اور شوہر کو سمجھایا ’’ چلو جائیداد نہ سہی ، ڈیڈی کو تو دیکھو جا کر ، ممی کے گزر جانے کے بعد کیسی تنہائی محسوس کرتے ہوں گے …! چار سال ہو گئے نہ ہم لوگ ہی جا سکے نہ ڈیڈی ہی آئے ‘‘۔ ہنھ… ’’بڑی فکر ہے ڈیڈی کی ‘‘۔ وہ دل ہی دل میں نازیہ کے مصلحت پسندرویے پر ہنسے لیکن وہ خود بھی ڈیڈی سے ملنے کو بے تاب تھے ، سو چلے گئے ۔ نازیہ بھی خوش ہو گئی۔
یہاں آکر فیصل نے دیکھا کہ ڈیڈی کی زندگی تو یکسر بدل گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا کہ پروفیسر صاحب راتوں رات اتنے پر سکون اور مطمئن ہو گئے تھے جیسے وہ اب نظر آ رہے تھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا ان پر کہ بیگم کے گزر جانے کے بعد تنہائی کے ناگ نے انہیں خوب خوب ڈسا تھا ، کوئی اپنا اس وقت ان کے پاس نہیں تھا جو ان کو سنبھال لیتا۔ صدمے اور تنہائی نے مل کر ان کے اندر جوتوڑ پھوڑ مچائی تھی اس سے وہ بالکل نڈھال ہو گئے تھے ۔ ایسے وقت میں ملازم شرفو ہی تھا جس نے ایک اولاد کی طرح پروفیسر صاحب کو نہ صرف جذباتی سہارا دیا بلکہ ان کی خدمت اور فرمانبرداری کو اپنا ایمان بنا لیا۔رفتہ رفتہ پروفیسر صاحب نے خود کو سنبھالا اور معبود کی پناہ میں اپنا سکون تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ صرف جمعہ کی نماز پڑھ کر ہفتہ بھر کے لیے فارغ ہو جانے والے پروفیسر صاحب اب پانچوں وقت کی نماز با جماعت ادا کرنے لگے ۔ جن پڑوسیوں سے آمنا سامنا ہو جانے پر اجنبی لہجے کے ایک رسمی سے سلام کی گنجائش ہی نکال پاتے تھے ، اب خوشدلی سے سلام کے جواب کے ساتھ خیر خیریت بھی پوچھنے لگے ۔ رفتہ رفتہ اجنبیت کی وہ فضا بھی ختم ہو گئی جس کے زیراثر ایک عرصے سے وہ زندگی گزارتے آئے تھے ۔ مسجد کے امام صاحب اور ساتھ میں نمازادا کرنے والوں سے بھی گفت و شنید ہو نے لگی۔
بے تکلفی کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک دن محلے کے ایک بزرگ شخص جو روزانہ ساتھ میںنماز ادا کرتے تھے ، پروفیسر صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’’ پروفیسر صاحب اگر اللہ نے آپ کو استطاعت دی ہے اور آپ اپنی تمام خانگی ذمہ داریاں بھی پوری کر چکے ہیں تو اب اپنا وقت اور جمع جتھا کار علم میں خرچ کرنے کا سوچیں ۔ آپ کی اتنی بڑی کوٹھی خالی پڑی ہے ، اس میں آپ ایک مدرسہ کھول لیں اورہمارے سب کے گھروں میں جو ملازم ، ماسیاں ، مالی ، چوکیدار، خاکروب وغیرہ روزانہ کام کرنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں ، ان کے چھوٹے بچے سڑکوں پر یوں ہی آوارہ گھومتے پھرتے ہیں ، آپ ان کی ابتدائی تعلیم کا بندو بست کر دیں لیکن یہ صرف مجھ خاکسار کی ایک تجویز ہے جناب ، فیصلہ تو بہر حال آپ کو ہی کرنا ہے …!
بات پروفیسر صاحب کے دل کو لگی، کچھ دن سوچا اور خوب غور و فکر کے بعد حتمی فیصلہ کرلیا ۔ ایک ماہ کے اندر کوٹھی در سگاہ میں تبدیل ہوگئی ۔ عصری تعلیم کے لیے پروفیسر صاحب نے یونیورسٹی کے کچھ طلباء سے رابطہ کیا اور ان کی خدمات یہ کہہ کر حاصل کر لیں کہ ’’ جب تک ہم کل وقتی اساتذہ کا بندو بست کریں آپ اپنا کچھ وقت اس در سگاہ کو عنایت کر دیں اور اپنی سہولت کے مطابق یہاں آکربچوں کو عصری تعلیم دے دیا کریں ۔ مسجد کے امام صاحب کو معقول معاوضے اور ناشتے کھانے کی سہولت کے ساتھ بچوں کو قرآن پڑھانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ پروفیسر صاحب کے اس اقدام کی خبر جب ان کے دیگر دوستوں اور شاگردوں تک پہنچی تو سب نے بڑھ چڑھ کر اس کار علم میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ وہ لوگ جو اپنی ملازمتوں سے سبکدوش ہو چکے تھے اور خانگی ذمہ داریوں سے بھی آزاد تھے ، پروفیسر صاحب سے آ ملے اور در سگاہ کے لیے دامے درمے سخنے اپنی خدمات پیش کرنے کا یقین دلایا۔
قرآن پڑھانے کا وقت صبح آٹھ بجے سے شروع ہو کر ظہر سے ایک گھنٹے پہلے ختم ہو جاتا ، مولانا صاحب کا ناشتہ اور ظہرانہ کوٹھی میں ہی طے کر دیا گیا تھا ۔ گنجلی ہوئی میلی اوڑھنیوںسے سروں کوڈھانپے بچیاں اور جالی دار گول ٹوپیاں لگائے ملگجے کرتے پاجامے پہنے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے قاعدے سپارے بغل میں دبائے اپنی مائوں کے ساتھ بے دھڑک اندر آجاتے ۔ آنکھیں گھما گھما کر حیرت سے کوٹھی کو تکتے ، کھسر پھسر باتیں کرتے اور مولانا کی ڈانٹ کھا کر ہی اپنی جگہوں پر بیٹھ کر بآواز بلند اپنا سبق دہراتے ۔ عصری تعلیم کے لیے یونیورسٹی کے کچھ طلباء معقول معاوضے پر اردو ، ہندی، انگریزی اور ریاضی پڑھانے کے لیے اپنی سہولت کے مطابق وقت نکال کر آنے لگے ۔ یہ سکول جانے والے بچے تو تھے نہیں جو ان کے وقت کا مسئلہ ہوتا ۔صبح آٹھ بجے سے تعلیم کا یہ سلسلہ شروع ہو جاتا اور پڑھنے اور پڑھانے والے اپنی اپنی سہولت کے مطابق حاضر ہو جاتے …!
ادھر کافی دنوں سے کئی تعمیری بلڈرز کی نظر پروفیسر صاحب کی کوٹھی پر تھی ۔ وہ ہفتہ پندرہ دن میں پروفیسر صاحب کو مشورہ دینے چلے آتے ، اپنی زبان میں طرح طرح سے سمجھاتے ’’ آپ اکیلے ہیں اتنی بڑی کوٹھی کو سنبھالنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ویسے بھی آج کل بزرگوں کے لیے اکیلا رہنا خطرے سے خالی نہیں ۔ آپ ہمارے ساتھ ایگریمنٹ کر لیں ہم اس پر اپارٹمنٹ بنا لیں گے ۔ آپ چاہیں تو زمین کی ساری قیمت یک مشت لے لیں یا کسی طرح کی قرارداد بھی کر سکتے ہیں ۔ مثلاً اس بلڈنگ میں دو یا تین فلیٹ جتنے آپ رکھنا چاہیں، سہولت کے مطابق اپنی مرضی کے فلور پر لے سکتے ہیں ‘‘۔ سارے بلڈرز ایک ہی زبان بولتے تھے اور سارا حساب یوں سمجھاتے تھے جیسے اس میں فائدہ پروفیسر صاحب کا ہی ہو اور وہ تو بس مدد کرنے چلے آئے ہیں ۔ پروفیسر صاحب خاموشی سے ان کی پیشکش سنتے اور دھیمے لہجے میں صاف انکار کر دیتے ۔ روز روز آنے والے ایسے اشخاص سے تنگ آکر آخر کار پروفیسر صاحب نے صاف لفظوںمیں ان کو بتادیا کہ ’’ آپ صاحبان اپنا وقت ضائع نہ کریں ، میں اس کوٹھی کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیںرکھتا ہوں ۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس میں درسگاہ کھل چکی ہے اور اب یہ کوٹھی در سگاہ کی ہی ہے ‘‘ ۔ پروفیسر صاحب کے صاف انکار اور مضبوط ارادے سے کئی بلڈرز کے خواب ٹوٹ گئے مگر کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے ہمت نہ ہاری اور بالا ہی بالا امریکہ میں بیٹھے پروفیسر صاحب کے بیٹے ڈاکٹر فیصل سے رابطہ قائم کرلیا۔
انڈیا آکر فیصل نے جو صورت حال دیکھی تو ان کے اندر ایک اطمینان سا اتر آیا ۔ ان کے دل میں تو پہلے بھی کسی طرح کا لالچ نہیں تھا لہٰذا ڈیڈی کے اس فیصلے میں اپنی تائید اور خوشی دونوں شامل کر دیں ۔ اللہ نے انہیں ہر طرح سے نوازا تھا ، مالی طور پر بھی آسودہ تھے ۔ ایک ہی بیٹا تھا جو خود بھی بر سر روز گار تھا اب ، اور جو کچھ ان کا یا نازیہ کا تھا وہ سب اس کا ہی تھا۔ نہ ہی اس کو شاید کبھی انڈیا آکر رہنا بسنا تھا تو وہ کس کے لیے اس مال و متاع کا لالچ کرتے بلکہ اب تو ان کے دل میں بھی یہ خواہش جاگ اٹھی کہ وہ خود بھی بیٹے کی شادی اور بیوی کے ریٹائرمنٹ کے بعد ہمیشہ کے لیے انڈیا واپس آکر ڈیڈی کے اس تعلیمی مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
ایک ماہ کا عرصہ ڈیڈی کے ساتھ گزار کر فیصل واپس امریکہ پہنچے تو بیگم نے ڈیڈی کی خیریت سے پہلے کوٹھی کے بارے میں سوال کیا ۔ فیصل اس صورت حال کے لیے پہلے سے تیار تھے کیونکہ وہ نازیہ کے مزاج سے بخوبی واقف تھے ۔ انہوں نے بڑے رسان سے نازیہ کو سمجھایا کہ ’’ ڈیڈی نے غریب بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے کوٹھی میں ایک درسگاہ کھول دی ہے اور اب وہ اسی درسگاہ کے نام پر کوٹھی کو وقف کرنے کا رادہ رکھتے ہیں حالانکہ انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مجھے کوئی اعتراض تونہیں ، بھلا مجھے کیا اعتراض ہوتا…؟ سچ پوچھو تو مجھے بھی اچھا لگا ڈیڈی کا یہ اقدام۔ ویسے بھی اب بہت سارے لوگ جڑ گئے ہیں اس تعلیمی سلسلے سے ۔ ڈیڈی کو ایک مصروفیت بھی مل گئی ہے ، ہر وقت چہل پہل رہتی ہے وہاں ۔ تمہاری ریٹائر منٹ اور بیٹے کی شادی کے بعد ہم لوگ بھی وہیں چل کر رہیں گے اور ڈیڈی کے اس تعلیمی مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
فیصل کی باتیں سن کر نازیہ ایک دم غصے میں آگئی ۔ تیوریاں چڑھا کر بولی ’ ’تو اس لیے بھیجاتھا تمہیں انڈیا کہ باپ کے فلاحی کاموں کا فصیدہ پڑھتے ہوئے لوٹو ۔ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا …؟ آج کل لوگ اپنی اولادوں کے لیے کس کس طریقے سے پیسہ کماتے ہیں اور ایک تم ہو کہ باپ کے غلط فیصلے کی مخالفت کرنے کی بجائے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہو اور تو اور اپنا مستقبل بھی اس چھوٹے سے شہر میں دیکھ رہے ہو اور تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ نوکری سے سبکدوشی کے بعد میں انڈیا جا کر بسنے والی ہوں …؟ ہاں اگر تمہیں اپنے باپ کے ساتھ رہنے کی خواہش ہے تو تم اکیلے جانا ، بلکہ بہتر ہوگا کہ ابھی چلے جائو ، میں تو اپنے بیٹے کے ساتھ یہیں رہوں گی ، کان کھول کر سن لو …!‘‘
نازیہ کے تلخ لہجے اور مادیت پرستی پر فیصل کو بہت افسوس ہؤا۔ آج تک وہ من مانی کرتی آئی تھی ، فیصل نے اس کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیا تھا ۔ اس وقت اس کے ایسے تیور دیکھ کر انہوں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا اور سوچ لیا کہ اب وہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے ۔ خوا مخواہ بد مزگی پیدا ہو گئی آپس میں ۔ لیکن دل میں یہ تہیہ بھی کرلیا کہ وہ امریکہ میں مستقل سکونت ہر گز اختیار نہیں کریں گے ۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اب نازیہ کے دماغ میں ہر وقت کروڑوں کی رقم بجتی رہتی اور فیصل انڈیا جا کر ڈیڈی کے ساتھ رہنے کی اپنی دلی خواہش کو پروان چڑھاتے رہے ۔ بظاہر دونوں پر سکون تھے لیکن اندر اندر دونوں اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں سوچتے رہتے تھے ۔ نازیہ اس کروڑوں کی جائیداد کو لے کر اتنی بے چین تھی کہ اس نے ایک دن چپکے سے فیصل کے فون سے اس بلڈرز کا نمبر نکال کر اس سے رابطہ بھی قائم کرلیا۔
کبھی کبھی زندگی اپنے فیصلے اتنے غیر متوقع اور اچانک کرتی ہے کہ انسان کے سارے منصوبے ، ساری خواہشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ فیصل کو انڈیا سے واپس آئے ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہؤا تھا کہ ایک دن گھر آتے وقت ان کی کار حادثے کا شکار ہو گئی ، سر میں شدید چوٹ آنے کی وجہ سے فیصل موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
پروفیسر صاحب کو بڑھاپے میں اولاد کا غم ایسا لگا کہ بستر پکڑ لیا ۔ بہو اور پوتے سے ایک بار ملنے کی خواہش نے دل میں بار بار سر اٹھایا ، شرفو سے فون کروائے لیکن ان لوگوں نے کوئی سدھ نہ لی ۔ پورا محلہ پروفیسر صاحب کے لیے حاضر تھا لیکن جن کو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں تھے ۔ بیٹے کی بے وقت موت کے صدمے سے نڈھال پروفیسر صاحب کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی ۔ ایسے میں دوست احباب ان سے یہ کہتے ہوئے بھی ہچکچا رہے تھے کہ احتیاطاً ہی سہی پروفیسر صاحب کوٹھی وقف کرنے کے بارے میں اپنی کوئی وصیت وغیرہ لکھوا دیں لیکن یہ بہت ضروری تھا اس لیے پروفیسر صاحب کے ایک دیرینہ دوست نے یہ ذمہ داری لے لی اور طے ہؤا کہ کل صبح وکیل اور گواہوں کی موجودگی میں یہ کام کرلیا جائے گا ۔ رات کو سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ شرفو اور مولوی صاحب ان کے پاس تھے لیکن کوئی نہ جان سکا کہ رات کے کس پہر پروفیسر صاحب مالک حقیقی سے جا ملے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔
تدفین کے بعد شرفو نے فون کر کے پروفیسر صاحب کے گزر جانے کی اطلاع ان کے پوتے اور بہو کو دے دی ۔ شاید وہ لوگ اسی انتظار میں تھے، ایک ہفتہ نہ لگا اور ماں بیٹا انڈیا پہنچ گئے ۔پرسہ دینے والوں کی آمد و رفت ذرا کم ہوئی تو نازیہ بیگم نے اسی بلڈر کو فون کر کے بلا بھیجا اورکوٹھی فروخت کرنے کا رادہ ظاہر کیا۔ بلڈر نے بھی کچی گولیاں نہیںکھیلی تھیں ، بڑے رسان سے نازیہ بیگم کو سمجھایا ’’ میڈم سب سے پہلے آپ کا بیٹا عدالت سے وراثت کا سرٹیفیکٹ حاصل کر لے ۔ پروفیسر صاحب کے قانون وارث ہونے کی صورت میں ہی آپ لوگ ان کی کوئی بھی جائیداد فروخت کر سکتے ہیں ۔ دیکھیں جی میں ہر کام قانون کے دائرے میں اور ایمانداری سے کرتا ہوں ۔ سب معاملات بالکل صاف ہونا چاہئیں ۔ رقم آپ جیسے چاہیں ویسے لے لیں ۔ ٹیکس وغیرہ سے بچنا ہو اس کا بھی طریقہ ہے میرے پاس ‘‘۔ بلڈر نے ایک شاطرانہ مسکراہٹ اچھالی اور کہنے لگا ’ ’ میرا خیال ہے کہ کچھ رقم آپ اپنے اکائونٹ میں ڈلوا لیں ۔ ضرورت سمجھیں تو ایک یا دو فلیٹ بھی لے سکتی ہیں آپ ۔ کبھی کبھار آنے جانے کے لیے وطن میں اپنا ٹھکانہ بھی ہونا ضروری ہے‘‘۔
پروفیسر صاحب کے دوستوں ، شاگردوں اور ملنے جلنے والوں کو جب نازیہ کا ارادہ معلوم ہؤا تو سب نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ مولوی صاحب نے بھی درخواست کی ’’ بی بی ابھی آپ یہ کوٹھی فروخت نہ کریںاور پروفیسر صاحب کے اس اقدام کا احترام کریں جو انہوں نے غریب بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اٹھایا تھا ۔ آپ ماشاء اللہ صاحب حیثیت ہیں اورفی الوقت آپ کا قیام بھی یہاں نہیں ہے ، بی بی علم پھیلانا بھی صدقہ جاریہ ہے اور سب سے بڑی بات فیصل میاں کی خواہش یہی تھی کہ کوٹھی مدرسے کو دے دی جائے ‘‘۔ لیکن نازیہ نے کسی کی نہ سنی کوٹھی کا سودا طے کر دیا ۔ بلڈر نے مدرسے کو نوٹس بھیجا کہ ’’ ایک ماہ کے اندر کوٹھی خالی کردی جائے ، ایک ماہ کے بعد بلڈنگ منہدم کردی جائے گی ‘‘۔ مدرسہ کہاں منتقل ہوتا…؟ معاونین میں سے کوئی بھی اتنا صاحب حیثیت نہیں تھا کہ اپنے بل بوتے پر فوری طور پر مدرسے کے لیے کوئی جگہ مہیا کر دیتا ، سودر سگاہ پر تالا پڑ گیا ۔ حالات کے پیش نظر پڑھنے اور پڑھانے والے ادھر اُدھر بکھر گئے ۔ اساتذہ بھی وہیں لوٹ گئے جہاں سے آئے تھے ۔ سب سے زیادہ در بدری شرفو کی ہوئی ، ساری زندگی اس کوٹھی کے مکینوں کے نام کردی تھی ۔ کوئی گھر ٹھکانہ اگر تھا اس کا تو وہ یہی کوٹھی تھی ۔ نازیہ کا سر درویہ دیکھ کر وہ بھی ایک رات چپکے سے کہیں چلا گیا…!
کوٹھی منہدم کرکے دو برس کی مدت میں پانچ منزلہ عمارت تیار ہو گئی۔ خوبصورت فلیٹس بنا کر مالکان کے حوالے کر دیے گئے ۔ نازیہ نے بلڈر سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اس بلڈنگ کا نام اس کی ساس یعنی فیصل کی ماں کے نام پر رکھا جائے ۔ بلڈر نے وعدہ نبھاتے ہوئے بلڈنگ پر ’’ صفیہ ہومز‘‘ کا بورڈ آویزاں کردیا ۔ بورڈ کے ٹھیک اوپر خوبصورت اور تیز روشنی بکھیرنے والی لائٹس لگی ہیں جن کی چکا چوند میں علم کا بجھا ہؤا چراغ اب دکھائی نہیں دیتا ۔ دولت کی دیوی نے چوکیداروں ، خاکروبوں اور ماسیوں کے بچوں کی زندگیوں میں پھر سے اندھیرا بھر دیا ۔ اب ماسیاں اور ملازم گھروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے پہلے ہی کی طرح کوٹھیوں کے باہر سڑکوں پر شور مچاتے ، گالیاں بکتے پھرتے ہیں۔
(فنون141)٭
افشاں ملک ( علی گڑھ، بھارت)