منیرہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔بڑی بیٹی ایمن سلیم ، اس سے دو سال چھوٹا طاہر سلیم پھر انعم سلیم۔
کہنے کو دونوں بیٹیوں میں ساڑھے تین سال کا فرق تھا مگر عادتوں اور مزاج میں مشرق مغرب کا فاصلہ۔
بڑی والی ایک نرم سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے رکھتی، ملنسار اور بامروت ، تو چھوٹی والی موڈی،بات بات پر بدکنے والی…… موڈ اچھا ہے تو سات پرائے بھی اپنے ہوجاتے اور اگر مزاج برہم ہے تو اپنے بھی سوا نیزے پر ٹنگے رہتے۔
ایک کو مٹر پلائو میں مٹرپسند تھے اور چن چن کر چاولوں میں سے مٹر نکال کے کھاتی تو دوسری کو مٹر کی شکل سے بھی نفرت تھی ۔وہ بھی چاولوں میں سے چن چن کے مٹر نکالتی مگر پھینکنے کے لیے۔
ایک کو بن سنور کے رہنے کا شوق تھا تو دوسری کو اول جلول حلیہ میں رہنا اچھا لگتا ۔
ایک گھر میں سب کے کام بھاگ بھا گ کے کرتی تو دوسری سب کو بھگاے رکھتی۔ یہی حال پہننے اوڑھنے میں تھا ۔ایک فیشن کے مطابق چلتی دوسری سدا ایک ہی لمبی قمیص اور کھلے پاجامے میںایک کا نام گھر والوں نے راج ہنس اور دوسری کا جل ککڑی رکھا ہوا تھا۔
منیرہ نے دونوں کی تربیت پر بہت دھیان دیا ۔زمانے کی اونچ نیچ بھی سمجھاتی رہتیں۔جو جو ہنر سکھلا سکتی تھیں اپنے طور پر سکھانے کا اہتمام بھی کیا۔ اسی دن رات کے چکروں میں ایمن کا رشتہ پھوپھو ماریہ کی طرف ان کے بیٹے محسن علی سے طے پاگیا۔
شادی کے بعد ایمن سندھ کے شہر لاڑکانہ میں رہائش پذیر تھی ۔شادی کے بعد بہت جلد وہ ایک ذمہ دار بہو کی حیثیت سے جانی جانے لگی ۔
صبح سب کو ناشتہ کرواکے وہ دوپہر کے کھانے کا مینیو پھوپھو سے ڈسکس کرتی ۔سبزی پیاز لہسن دھنیہ پودینہ کی ٹوکری ان کے آگے رکھتی ۔باورچی خانے کا پھیلاوا سمیٹتی اور اوپر دو گھنٹے کے لیے اپنے کمرہ میں چلی جاتی کمر سیدھی کرنے کے لیے ۔بستر پر لیٹتی، ماں کا فون نمبر ملاتی تسلی سے ان سے بات چیت کرتی ۔سسرال کی اگر کوئی تازہ ترین خبر دینے والی ہوتی اپنی ماں اور بہن کو سنا کے کال کاٹتی تو اگلے چوبیس گھنٹوں کے لیے مطمئن ہوجاتی۔میکہ کی طرف سے اب اسے بھی بے فکری ہوتی اور منیرہ کو بھی پہلوٹھی کی بیٹی سے بات کرنے کا نشہ پورا ہوجاتا۔بقول اس کے سسر کے ایمن کی بھی بیٹری چارج ہوجاتی اور ایمن کی ماں کی بھی۔
سال دو سال یہی روٹین رہی۔ اللہ نے اسے ایک بیٹے کی ماں اور منیرہ کو نانی بنا دیا۔ زچگی کے لیے ایمن ماں کی طرف شورکوٹ آئی ہوئیتھی تو قدرت نے انعم کا رشتہ بھی طے کرنے کا عندیہ دے دیا ۔ایمن کا چھلہ ہونے سے پہلے ہی منگنی کی بجاے نکاح اور رخصتی فائنل ہوگئی۔
رشتہ ویسے تو جاننے والوں کے توسط سے آیا تھا مگر لوگ ذات برادری کے اجنبی تھے…..ٹھیٹھ سرائیکی۔سب نے اپنے طور پر تسلی کی دلاسا دلایا اور سرائیکی قوم کی روایات کے عین مطابق چاند کی چودھویں رات چاندنی میں نہائی انعم سسرال رخصت ہوگئی۔
بہت شاندار بڑے سارےگھر میں باقاعدہ پورا پورشن انعم کے لیے تھا ۔رات گئے تک ایمن بہن کو نئ زندگی اور من ماری کے طریقے بمع اہمیت کے سمجھاتی رہی ۔انعم نے کچھ باتوں کو سنا دل میں جگہ دی اور کچھ کو کانوں میں ڈالنے کی بھی زحمت نہ کی۔انعم کا دولہا جنید مامون ،اچھی شخصیت اور شائستہ اطوار کا دکھائی دے رہا تھا ۔
گو ایمن کا بیٹا ڈیڑھ ماہ کا تھا مگر بہن کی حساس طبیعت کے پیش نظر انعم کی بڑی بن کے اس کے ساتھ جانے کا سوچا۔ بچے کو اپنی ماں کے سپرد کرکے صبح سویرے ناشتہ کے فوری بعد وہ ملتان روانہ ہوگئی ۔ڈیڑھ ماہ کے بچے کو اپنے سے جدا کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
بہن کے چہرہ پر اطمینان دیکھ کر اسے خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ولیمہ رات میں تھا ۔میکے کی طرف سے انعم کی ددھیال ننھیال سب موجود تھے۔
دلہن بن کے انعم پر خوب روپ آیا تھا ۔منیرہ نے نوٹ کیا جیسے انعم کچھ پریشان سی ہے ۔پوچھنے کا موقع تھا نہ مناسب محسوس ہؤا ویسے بھی دونوں کو انہوں نے ساتھ ہی لے کے جانا تھا تو اتنا سا صبر کرنا ہی مناسب تھا۔
گھر پہنچتے ہی ماں کو کچن میں لے جا کے انعم نے سسکی بھری۔منیرہ کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسکی ۔
’’ کیا ہوا انعم؟‘‘ انہوں نے ہراساں ہو کے پوچھا ۔
’’ امی آپ نے مجھے جہاں بھیجا ہے مجھے تو ان کی زبان کی سمجھ ہی نہیں آتی‘‘۔
منیرہ کے چہرہ پر نادیدہ سی مسکراہٹ آئی۔اُف…..وہکیا سمجھ رہی تھیں ! دلار سے بیٹی سے کہا۔
’’ آہستہ آہستہ سب سیکھ جائو گی…..ایمن بھی تو اندرون سندھ گئ ہے سارے طور طریقے سندھیو ں والے ہیں اس کی سسرال کے ۔سندھی سے تو آسان ہی ہے سرائیکی‘‘انہوں نے سمجھایا۔
اگلے دن دولہا دولہن دوپہر کے کھانے کے بعد روانہ ہوئےتو منیرہ نے انعم کی سسرال کے لیے بھی کھانا پیک کر کے بھجوایا۔دونوں کو روانہ کرنے کے بعد انہوں نے شادی کا پھیلاوا سمیٹا ۔بہت دنوں کی تھکاوٹ جمع تھی پتہ نہیں چیزیں سمیٹتے سمیٹتے کیسے ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ کتنی دیر تک سوتی رہیں ۔ایک آدھ مرتبہ کروٹ لیتے ہوئے آنکھ کھلی مگر نیند کے غلبہ سے پھر دنیا و ما فیہا سے بے خبر سو جاتیں۔
سوتے میں کچھ عجیب تیز سی کان پھاڑنے والی آواز سنائی دی۔مکمل جاگنے میں کچھ لمحے لگے مگر وہ فون کی بیپ جاری رہی۔ نیند سے بوجھل آواز میں انہوں نے سلام کیا ۔
’’وعلیکم السلام امی جان آپ کیسی ہیں‘‘ انعم کی آواز سے وہ چاق و چوبند ہوئیں اور ٹانگیں بستر سے نیچے لٹکائیں ۔
’’ کیسی ہو انعم ؟ ‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں مگر امی …..‘‘انعم نے روکھے لہجہ میں بات ادھوری چھوڑی۔
منیرہ چوکنی ہوئی پوچھا کچھ نہیں کہ لاڈو خود ہی سلسلہ کلام جوڑے گی ۔
’’امی آپ نے جو کھانا دیا تھا ناں وہ آنٹی نے سارے کا سارا تزئین آپی کو دے دیا ہے گھر والوں کے لیے نہیں رکھا‘‘ بلی تھیلے سے باہر آئی تو منیرہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی ۔کیا کہے اور کیا نہ کہے۔ پھر ذرا مستحکم لہجہ میں بولی ۔
’’ تم نے تو کھا لیا تھا یہاں پر ۔یہ کھانا تمہارے لیے تھوڑا ہی تھا …..گھر والوں کے لیے تھا۔ اب ان کی مرضی جو چاہیں کریں جس کو چاہیں دیں‘‘۔
’’لیکن میرا ملائی بوٹی کو بہت جی چاہ رہا تھا…..آنٹی نے سارا کچھ ہی دے دیا ‘‘ انعم بدستور ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی۔
’’ بیٹے اب تمہاری شادی ہوگئی ہے تو سمجھ دار بھی بن جائو ۔حد ہوگئ بھلا یہ کوئی بات ہے تمہیں تو خوشی ہونی چاہیے کہ تمہارے میکہ کا پکوان تمہاری نند کی سسرال میں پہنچ گیا ۔سب اسے پسند کریں گے تو تمہیں ہی خوشی ہوگی ناں‘‘ انہوں نے کچھ نرم اور کچھ گرم لہجہ میں اسے سمجھایا اور کال بند کرکے کمرہ سے نکلیں تو رات کے دس بج رہے تھے
نیند تو کسی حد تک پوری ہو ہی چکی تھی نماز کے بعد نئے سرے سے کاموں میں جت گئیں سارا وقت ہاتھوں سے کام کرتی رہیں مگر دل و دماغ پر عجیب سی کیفیت طاری تھی ۔انعم شاید چھوٹی ہونے کی وجہ سے یا شائد مزاج ہی ناسمجھی والا ہے…..کیا بنے گا ۔بہت بچپنا ہے اس میں۔ ماں ہونے کے ناطے فکر مند تھیں مصیبت یہ تھی کہ کھل کے بات بھی اس سے نہیں کر سکتی تھیں فطری جھجھک سی آڑے آرہی تھی ۔
خیری صلا اب ایمن سےکہوں گی وہ رابطہ رکھےاور سسرال میں رہنے کی باریکیاں گوش گزار کرتی رہے ۔بہت سوچنے کے بعد اپنے آپ کو مطمئن کیا ۔
اگلے دن ایمن کی روانگی تھی ۔بچے کی پیدائش سے تین ہفتے قبل آئی اور بہن کی شادی کی وجہ سے دو ماہ مزید رکنا پڑا ۔اب اس کو وداع کرنا تھا اور خوب اہتمام سے کرنا تھا ۔ان کو مصروفیت میں انعم یاد تھی نہ اس کی پریشانیاں وہ تو لینڈ لائن کی تیز چیختی چنگھاڑتی آواز نے ان کو اصلی زندگی میں لا کھڑا کیا ۔اللہ خیر لینڈ لائن پر تو اب بھولے سے بھی کوئی فون نہیں کرتا ۔
وہ حیرانی سے لینڈ لائن کے چونگے کو منہ سے لگا کے سلام دعا ہی بھول گئیں ۔
’’ امی جان آپ کہاں تھیں میں بہت دیر سے آپ کو سیل فون پر کال کر رہی ہوں آپ کا نمبر اٹینڈ نہیں ہورہا‘‘انعم کی آواز کچھ بوجھل سی تھی۔
’’میں بس رات سے مصروف ہوں ایمن جا رہی ہے تو اس کی تیاری کروا رہی تھی ۔خیریت ہے ؟ ‘‘انہوں نے کلاک کی طرف منہ کیا۔ گیارہ بج کے دس منٹ ہوے تھے۔
’’امی جان…..‘انعم پھسک کر رو دی ’’امی جان میرے سر میں درد ہورہا ہے بہت زیادہ ‘‘۔
’’ تو پینا ڈول لے لو…..میں نے تمہارے ہینڈ بیگ میں دو پتے رکھے تھے ‘‘ منیرہ نے بتایا
’’پینا ڈول کس سےلوں ؟‘‘ انعم پھٹ پڑی ۔
’’کیوں؟ کیا تمہاری سسرال میں چائے نہیں بنتی؟‘‘ منیرہ نے تفکر سے پوچھا۔
’’ چائے تو بنتی ہے مگر یہ لوگ چھان کے نہیں پیتے، ان کے گھر میں چھلنی ہے ہی نہیں…..امی جان میں نے دو دن سے چائے نہیں پی‘‘انعم پھر گھٹ کے رونے لگی ۔
منیرہ کے دل کو کچھ ہؤا مگر ابھی تو بیٹی کی ازدواجی زندگی کی شروعات تھی ،بہت حکمت کی ضرورت تھی۔انہوں نے بہت پیار سے اسے سمجھا یا تسلی دی بہت جلد حالات درست ہونے کا دلاسہ دیا اور ساتھ میں مشورہ بھی کہ چائے کپ میں ڈال کے دس بیس سیکنڈ پتی کو نیچے ہونے دیا کروپتی جب نیچے بیٹھ جائے تو چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر لیا کرواس سے پتی منہ میں نہیں جاتی۔ دکھیا بلکہ چائے کی رسیا بیٹی کو دینے کے لیے بس یہی حل ان کے پاس تھا۔
اچھا جی کہہ کے انعم نے فون کال بند کردی تو وہ پھر سے ایمن کی تیاری میں لگ گئیں۔ایمن بچے کے ساتھ چلی گئی ۔بڑا صاحبزادہ پہلے ہی ہاسٹل میں تھا ۔ایکدم سے گھر سونا ہوگیا ۔
وہ بولائی سی چکراتی پھر رہی تھیں …..انعم کو انیس بیس سال سینے سے لگائے رکھا اب وہ کیا گئی دل ہی ویران کرگئی ۔اس کی وارڈروب کھولی بہت دیر اس کی چیزیں دیکھتی رہیں پھر غیر ارادی طور پر اس کا نمبر ملا لیا ۔
’’السلام علیکم امی جان !میں آپ کوکال کرنےکےلیےابھی کمرےمیں آئی تھی اچھاہواآپ نےہی کرلیا…..امی جان آپ نے آج کیا کھانا بنایا ہے ؟‘‘ انعم بچوں کی طرح مچل کے بولی ۔
’’دال چاول اور آلو کے کٹلس…..‘منیرہ کو سمجھ میں نہ آیا کہ انعم نے یہ سوال کیوں کیا ہے ۔
’’امی جان مجھے بھی کھانا ہے دال چاول…..یہاں پتہ نہیں کیسے عجیب و غریب کھانے بنتے ہیں ۔اب دوپہر کے کھانے میں آنٹی نے گوبھی گوشت بنایا ہے شوربے والا…..مجھے نہیں کھانا شوربے والا گوبھی کا سالن‘‘ انعم نے ابکائی لی
’’اوہو تم فضول باتیں کر کے مجھے مت پریشان کرو۔دیوار کے ساتھ بھی دیوار ملی ہو سسرال کی تو طور طریقے فرق ہی ہوتے ہیں۔ کبھی ایمن نے شکایت کی؟اس کے ہاں تو گاجریں بینگن اور بھنڈی تک پتلے شوربے والی بنتی ہے‘‘ ۔
انہوں نے انعم کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی۔اپنی اور ادھر ادھر کی پندرہ مثالیں دے کے بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کرکے خداحافظ کہا۔
کچھ دیر کے بعد انہیں ندامت سی ہوئی
یہ میں نے کیوں کہا کہ میرا سر مت کھائو…..جو بھی ہے بچی کے شروع کے دن ہیں آہستہ آہستہ سب سمجھ جائےگی مگر ماں ہونے کے ناطے مجھے انعم سے سخت لہجہ میں بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ایک تو سسرال بالکل اجنبی پھر زبان لب و لہجہ کا فرق۔
انہیں افسوس سا ہؤا اور انعم کو کال کی نرم لہجے میں پیار سے سسرال کی نزاکتیں سمجھائیں اور آئندہ سسرال کی شکایت فون پر کرنے سے سختی سے منع کردیا ۔
’’ مگر کیوں امی؟‘‘ انعم پریشان ہوئی۔
’’میری جان تم میسج کردیا کرو ۔تم نے محاورہ نہیں سنا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ۔تمہاری اگر کوئی بات تمہاری ساس نند یا کسی اور فرد نے سن لی تو نا جانے وہ کیا سمجھیں ‘‘۔
’’اچھا امی جان!‘‘ا نعم کوشکرہےجلدبات سمجھ میں آگئی اورہنستےمسکراتےکال ختم ہوگئی۔
رات تک وہ مطمئن رہیں ۔دل کی انعم بہت اچھی ہے، انہوں نے اس کی خوبی یاد کی اور رات بارہ بجے موبائل سائلنٹ پر لگاتے ہوئے سکرین پر نظر ڈالی ۔
انعم کی کال آرہی تھی۔انہوں نے اللہ خیر اللہ خیر کرتے ہوئے اٹینڈ کی مگر دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔
انہوں نے دوبارہ کال ملائی پھر پہلے والا معاملہ ہؤا اور ساتھ ہی میسج کی بیپ سنائی دی۔
’’امی می می می می ‘‘ کے بعد ایک آنسو والی اموجی دکھائی دی۔ان کا دل مٹھی میں آگیا۔ سوئے ہوئے میاں کو انہوں نے نیند سے بیدار کیا۔چند سیکنڈ میں دو میسج اور موصول ہوئےاوہ میرے خدایا ‘‘۔ انہوں نے دھڑ دھڑ کرتے دل پر قابو پایا ۔
بیس بائیس اموجیز فل رونے دھونے والی۔اگلے میسج میں سرخ رنگ کےدل کے ٹکڑے ۔چار آٹھ دس نہیں چالیس پچاس دو حصوں میں تقسیم ہؤا دل …..ان کے دل پر چھریاں ہی چل گئیں۔
وہ کانپتے ہاتھوں سے نمبر ملاتیں بہت بےدردی سے کال فوری کاٹ دی جاتی اور پھر موبائل پاورڈ اوف ہوگیا ۔آخری میسج بہت پراسرار تھا ۔
’’اف ف ف ف ف…..‘‘
کسی نے منیرہ کا جیسے دونوں ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیا ہو کسی اور سے بات کرنا مناسب نہیں تھا ۔انہی چکروں میں وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔
وہ رات ان کی زندگی کی بہت مشکل رات تھی۔ بیٹی کے سکھ کے لیے کبھی اللہ کے حضور جھولی پھیلا دیتیں اور کبھی اس کے سکون کے لیے سجدہ ریز ہوجاتیں۔وہ رات قیامت کی رات تھی جو دکھ اور اذیت کے انگاروں پر گزاری ۔خدا خدا کر کے صبح ہوئی زہر مار کرکے چائے کے ساتھ ایک دو بسکٹ لیے ۔آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھا، سوجی آنکھیں اور سرخ ناک ۔
بیٹی کا نمبر ملایا۔
وہی کمپیوٹرریکارڈنگ…..نمبر سے رابطہ ممکن نہیں…..دل تھا کہ وسوسوں سے لبریز ۔دس دفعہ ملانے پر وہی جواب ۔ہزار سوچیں دماغ میں آکے انہیں دہشت زدہ کر جاتیں۔
پھر انہوں نے بسم الله پڑھ کے داماد کا نمبر ملایا ۔
زندگی میں داماد کو پہلی فون کال اور کن حالات میں…..وہ کرلائیں۔
خلاف توقع پہلی گھنٹی پر فون کال اٹینڈ ہوئی ۔ حال چال پوچھ کر دھڑکتے دل سے انعم کا پوچھا۔اس نے فوراً کہا ’’لیجیے بات کر لیں‘‘۔
’’جی امی جان کیسی ہیں آ پ ؟‘‘ انعم کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی ۔ ’’ خیریت صبح ہی فون کھڑکادیا ‘‘۔
’’تم خیریت سے ہو رات کیا ہؤا تھا ؟‘‘انہوں نے مبہم سا فقرہ بولا۔ ’’ رات ؟ رات ہم مال گئے تھے۔ میں نے اپنی پسند کی شاپنگ کی ،آنٹی انکل سب نے گفٹ لے کے دیے…..اور …..‘‘وہ قہقہہ لگا کے ہنسی’’انہوں نے چاےکی چھلنیاں لے کے دیں ۔پوری تین عدد!‘‘
’’اور سب کے سا منے میرے کان کھینچے کہ میں نے اتنی معمولی سی بات آپ کو کیوں بتائی ‘‘وہ ہنستے ہوئے بولی ۔
’’لیکن رات تمہاری کال آرہی تھی بار بار‘‘منیرہ نے پھر بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’ اچھا؟اوہ…..میرا موبائل تزئین آپی کے چھوٹے بیٹے کے پاس تھا، بعد میں ہم ان کی طرف چلے گئے تھے۔وہ گونگلو سا بہت شرارتی بچہ ہے۔ اس نے موبائل کہیں گمادیا تھا، ملا نہیں دیر ہورہی تھی۔ آج یہ جا کے لے آئیں گے‘‘ انعم ماں کی کیفیت سے قطعی بے خبر بولے جارہی تھی۔
’’بیٹے آئندہ دھیان رکھنا موبائل کسی بچے کو نہ دینا ‘‘ منیرہ نے سوا گز لمبی سانس سینے سے خارج کی اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ کے کمر اس سے لگائی۔
اب ہنسی کی پھوار ان کے لبوں پر تھی ۔
٭_٭_٭