فارعہآپ نے پوچھا - نور اپریل ۲۰۲۱

آپ نے پوچھا – نور اپریل ۲۰۲۱

؁ٔآپ نے پوچھا
فارعہ
حسن عمر ۔نارووال
س: آپ خوش قسمت ہیں یا بد قسمت، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے ؟
ج: وقت ۔کبھی ہم ماضی کے وہ دن یاد کرکے ہنستے ہیں جب ہم سمجھتے تھے کہ ہم سے زیادہ ستم رسیدہ اورکوئی نہیں اور کبھی وہ لمحات یاد کر کے رو دیتے ہیں جب ہم سوچتے تھے کہ ہم سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں
٭…٭…٭
رضا سجاد ۔اسلام آباد
س: آپ کی نظر میں سب سے بڑی حماقت کیا ہے ؟
ج: یہ سوچناکہ ’ لوگ کیا سوچتے ہیں ‘ بھئی اگر یہ بھی ہم ہی سوچیں گے تو پھر لوگ کیا سوچیں گے؟
٭…٭…٭
فریحہ یوسف۔اوکاڑہ
س: چاہے کتنا ہی پھونک پھونک کرقدم اٹھائیں ، پھربھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔ آخر کیوں ؟
ج: زندگی کے امتحان میں بہت سے لوگ اس لیے بھی فیل ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر ایک کو پرچے میں مختلف سوال آتے ہیں ۔
٭…٭…٭
عظمیٰ فاروق۔ کراچی
س: کوئی نصیحت؟
ج: بے وقوفوں کے ساتھ کبھی بحث نہ کریں ۔ وہ آپ کو اپنی سطح تک کھینچ لاتے ہیں اور پھر تجربے کی بنا پر ہر ا دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
احمد ابراہیم ۔ ملتان
س: کیا یہ ممکن ہے کہ زندگی کے خوشگوار لمحات ہمیشہ یاد رہیں مگرنا خوشگوار لمحات بھول جائیں ؟
ج: کیوں نہیں ۔ اچھی یادوں کا اچارڈالیے اور سال ہا سال محفوظ رکھیے ۔بری یادوں کی چٹنی بنا ئیے اور دو دن میں ختم کرڈالیے۔
٭…٭…٭
صدف بلال ۔ سرگودھا
س: کیا چیز انسان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے ؟
ج: خود پسندی ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کوکسی قابل نہیں چھوڑتی۔
٭…٭…٭
عروسہ شاہ۔سکھر
س: آپی ، میں اکثرسوچوں میں گم رہتی ہوں ۔آپ بتاسکتی ہیں کہ میں کیا سوچتی ہوں ؟
ج: کسی کے دل کا بھید بتانا بڑا مشکل ہے ۔
’’ ایک شخص کافی دیر سے کھڑا ایکسنار کی دکان پر زیورات کو گھور رہا تھا ۔ سنار نے تنگ آکر پوچھا:’’ آخر آپ کوچاہیے کیا ؟‘‘ جواب ملا ’’ ایک عدد سنہری موقع ۔‘‘
٭…٭…٭
شہری جنگلات
سلیمان ملک
دن بہ دن بڑھتی ہوئی آلودگی زندگی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے ۔ ایک طرف توجنگلی اور آبی حیات ختم ہورہی ہے، دوسری طرف نت نئی بیماریاں انسان کوکھوکھلا کررہی ہیں اور یہ سب انسان کی اپنی کمائی ہے ۔کچرے کے ڈھیر ، صنعتی فضلہ، فیکٹریوں ، گاڑیوںکا دھواں ، پلاسٹک کے شاپر ، درختوں کی بے تحاشا کٹائی غرض انسان اپنے ہاتھوں اپنی موت کا بندوبست کررہا ہے ۔
حال یہ ہے کہ کراچی جو کبھی عروس البلاد اورروشنیوں کا شہرکہلاتا تھا ، اب اُسے کچرے کے ڈھیر سے تشبیہہ دی جا رہی ہے ۔ لاہور جو اپنی قدیم عمارتوں اوراہل علم و فن سے پہچانا جاتا تھا ، آج اس کی شہرت دنیا کے آلودہ ترین شہر کے حوالے سے ہے ۔ہر سال سردیوں میں اسموگ سے حادثات اورسانس کی بیماریوں کارونا رویا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کے لیے جہاں یہ ضروری ہے جکہ کچرے کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے ۔پلاسٹک کا استعمال بند یا کم از کم محدود کیا جائے۔ گاڑیوں کی دیکھ بھال کی جائے تاکہ دھواں کم سے کم نکلے فیکٹریوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں تاکہ ان کا فضلہ پانی کو آلودہ کرکے آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے ۔ وہاں زیادہ سے زیادہ درخت اورپودے لگانے کی بھی ضرورت ہے ۔ درخت ماحول کوصاف رکھنے کا بہترین قدرتی تحفہ ہیں ۔
یوں توایک بیج کوتن آوردرخت بننے میں طویل مدت لگتی ہیں ، مگر ایک جا پانی ماہر نباتات نے کئی سال کی تحقیق کے بعد ایساطریقہ دریافت کیا ہے جس سے یہ مدت دس گنا کم ہو گئی ہے ۔ پہلے جہاں 200سے300سال میں جنگل تشکیل پاتا تھا، اب دس سے بیس سال میں تیس گنا زیادہ گھنا جنگل بنانا ممکن ہوگیا ہے ، اس طریقہ کار کو سائنس دان کے نام پر ’ میاواکی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس طریقہ کارمیں مقامی پودوں کی مختلف قسموں کو قریب قریب لگایا جاتا ہے جس سے پودے کوصرف اوپر سے سورج کی روشنی ملتی ہے ۔
چناں چہ وہ اوپر کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں ۔ دن میں آٹھ گھنٹے کی دھوپ ضروری ہے ۔ پانی دان میں ایک دفعہ دینا ہوتا ہے ۔پہلے دو سال دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ فالتو جڑی بوٹیاں نہ پیدا ہوں ۔تین سال کے بعد دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہتی ۔
زمین کی زرخیزی کے لیے اس میں نا میاتی اجزا جیسے گوبر ، چاول ، گندم اور مکئی کا بھوسا ڈالتے ہیں جوپودے کی نشوونما کوتیز کرتے ہیں۔ مقامی پودے جوگھنے بھی ہوں ، یوں بکھیر کر لگائے جاتے ہیں کہ ایک ہی قسم کے پودے اکٹھے نہ لگیں بلکہ مختلف قسم کے پودے آس پاس ہوں۔ کم از کم دو سے اڑھائی فٹ اونچی پنیری لگانی چاہیے اوسطاً ایک مربع میٹرمیں تین سے پانچ پودے لگتے ہیں ۔ پودے لگانے کے بعد زمین پرگلی سڑی سبزیوں کی کھاد ڈال دی جاتی ہے تاکہ زمین کی نمی بخارات بن کرنہ اڑ جائے ۔شروع میں پودوں کولکڑی کا سہارا دینا چاہیے تاکہ وہ جھک نہ جائیں۔ کیمیکل کا اسپرے نہیں کرنا ۔ نہ پودھوںکوتراشنا ہے۔
اس طرح کے جنگل کو ’ شہری جنگلات‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ شہری آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔لاہور میں کئی مقامات پر یہ جنگل لگائے جا رہے ہیں اور اب سندھ کی ساحلی پٹی پر بھی لگانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ۔
یہ کرہ ٔ ارض ہمارا گھر ہے ۔اسے صاف، ستھرا اورپاکیزہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے ۔
٭…٭…٭
جامع مسجد شیخ زاید
ریان سہیل
گاڑی خراٹے بھرتی ابو ظہبی کی طرف رواں دواں تھی ۔پھپھا جان ہمیں جامع مسجد شیخ زاید کی چیدہ چیدہ خصوصیات بتا رہے تھے۔’’ یہ مسجد دنیا کی دس بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔متحدہ عرب امارات کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے ۔ یہ 1996ء میں بننا شروع ہوئی تھی اور 2007 میں تکمیل کوپہنچی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے منگوائے گئے سفید سنگ مر مر کی بنی یہ مسجد دور سے ایک چمکتا ہوا موتی معلوم ہوتی ہے ۔ اس پر دو ملین درہم لاگت آئی ہے ۔اس میں تقریباً اکتالیس ہزارنمازیوں کی گنجائش ہے۔‘‘مسجد دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا ۔ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مسجد کی پارکنگ میں رُکے ۔ بہت بڑی پارکنگ میں بے شمارگاڑیاں اوربسیں کھڑی تھیں ۔ نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والوں کے علاوہ سیاح بھی اس خوب صورت مسجد کو دیکھنے جوق در جوق آتے ہیں۔
ہم مسجد کی طرف بڑھے۔ راستے میں جگہ جگہ پھولوں کی قطعات اور فوارے لگے تھے ۔ مسجد کے ڈھیر سارے گنبدوں کی طرف اشارہ کر کے بابا نے کہا ’’ انہیں دیکھ کر تو ترکی کی مساجد یاد آتی ہیں ۔‘‘
’’ اوریہ محرابیں مسجد قرطبہ کی یاد دلاتی ہیں ۔‘‘ امی نے لقمہ دیا۔
’’ دراصل اس مسجد میں ترک ، مصری، مراکشی، اندلسی، ایرانی اور مغل ہر ایک کے فن تعمیر کی جھلک موجود ہے ۔‘‘ پھپھا جان نے وضاحت کی
بلا شبہ یہ بہت بڑی اور بہت خوب صورت مسجد تھی ۔ اس کا نقشہ ایک شامی ماہرتعمیرات نے بنایا ہے ۔یہ تقریباً بارہ ہیکڑ رقبے پرپھیلی ہوئی ہے ۔ چھوٹے بڑے مختلف جسامت کے بیاسی گنبد اورچارمینار ہیں ۔سب سے بڑے گنبد کا قطر106فٹ اورصحن سے اونچائی 279فٹ ہے ۔ جب کہ میناروں کی اونچائی 351فٹ ہے ۔سفید مر مر کے فرشوں پر اس طرح پھول پتے بنائے گئے ہیں کہ قالین کا گمان ہوتا ہے ۔دیواروں اورستونوں پربیل بوٹے کھود کر ان میں قیمتی جواہر بھر دیے گئے ہیں جو روشنی میں جھلملاتے نظر آتے ہیں۔
’’ تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے تھے کہ شاہی قلعہ ، شیش محل اور دوسری مغل عمارتوںمیں جواہرت سے پچی کاری اورکاشی کاری کی گئی تھی تو ان الفاظ کا خاک مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا پر آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔‘‘ آپا مسجد کی خوب صورتی سے بڑی متاثر نظر آ رہی تھی۔
مسجد ایک بڑے اوردوچھوٹے ہاتوں پرمشتمل ہے ۔ جس میں سے ایک خواتین کے لیے ہے ۔ ایک جگہ ملنے کی مقرر کر کے اُٹھا اورآپا خواتین کے حصے کی طرف بڑھ گئیں اور ہم دوسری طرف مُڑ گئے ۔ تاکہ وضو کر کے تخیۃ المسجد کے نفل ادا کر سکیں ۔پھپھا جان نے کہا :
’’ مسجد کی خوب صورتی تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں ، اب ذرا وضو خانہ بھی دیکھیے۔‘‘
’’ وائو‘‘ میرے اوربھائی کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔ ہلکے سبز رنگ کے سنگ مر مر سے آراستہ وضو خانہ واقعی دیکھنے کی چیز تھا سیپ کی شکل کے واش بیسن پھول کی پتیوں سے مشابہ تراشہ سبز سنگ مر مر کی راکری( مصنوعی پہاڑی) جس سے پانی جھرنے کی صورت بہہ رہا تھا ۔ ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے کسی قدیم بادشاہ کے محل سرا میں پہنچ گئے ہوں۔
وضو کے بعد چھوٹے ہال میں نفل ادا کیے ۔چھت سے ایک خوب صورت سا فانوس لٹک رہا تھا ۔ معلوم ہوتا تھا جیسے اس میں بھی قیمتی جواہرات لگے ہیں ۔ دروازوں اورکھڑکیوں کے شیشوں پربھی رنگین شیشوں سے دیدہ زیب پھول بنے تھے ۔
نماز کے اوقات کے بعد مسجد سیاحوں کے لیے کھول دی جاتی ہے چناں چہ یہاں مختلف ممالک کے باشندے نظرآ رہے تھے جو قطار بنائے مرکزی ہال میں جانے کے منتظر تھے ۔چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں انھیں باری باری ہال میں لے جایا جا رہا تھا ۔ ہم بھی اپنی باری پراندر پہنچ گئے۔ ہال بہت بڑا تھا ۔ہمارا اندازہ تھا کہ سات سے دس ہزار تک لوگ اس میں نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ سب سے عجوبہ تو اس کا قالین تھا ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ہاتھ سے بنا ہوا قالین ہیجو ایران میں تیار ہوا ۔ چھت سے نہایت شان دار فانوس لٹک رہا تھا ۔ یہدنیا کا دوسرا بڑا فانوس ہے ۔ اس کا قطر تینتیس فٹ اور اونچائی انچاس فٹ ہے جب کہ وزن بارہ ٹن ہے ۔ مسجد میں کل سات فانوس لگے ہیں جن میں چالیس کلوگرام خالص سونا استعمال ہوا ہے ۔ یہ فانوس جرمنی سے منگوائے گئے ہیں ۔ سامنے کی دیوار پر خوب صورتی سے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ تحریر ہیں ۔
جب ہم باہر نکلے تو رات گہری ہو گئی تھی ۔ مسجد دلکش روشنیوں میں جھلملا رہی تھی ۔ راہداری کے ساتھ ساتھ تالاب تھا جس میں محرابوں کا عکس بڑادل فریب نظارہ پیش کررہا تھا ۔امی کو پھر مسجد ِ قرطبہیاد آگئی۔
’’ امی،آپ نے اتنی دفعہ مسجد قرطبہ کا ذکر کیا ہے کہ اب تو میرا ابھی وہاں جانے کودل کرنے لگا ہے ۔‘‘ بھائی نے نہایت ہوشیاری سے اگلے تفریحی سفرکی راہ ہموار کی۔
’’ اگر موقع ملا توان شاء اللہ ضرور جائیں گے ۔‘‘ بابا نے کہا ۔’’ اپنی تاریخ سے واقفیت رکھنی نہایت ضروری ہے ۔ اپنے اسلاف کے کارناموں پرجہاں ہمارا سر فخر سے بلند ہوتا ہے اوراپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے ۔ وہیں ماضی کی کوتاہیاں ، اپنے حال کو سنوارنے اوربہترمستقبل کا خاکہ بنانے میں مدد دیتی ہیں ۔‘‘
اب ہم واپس اپنے مسکن کی طرف جا رہے تھے اور منصوبے بنا رہے تھے کہ کل کہاں کہاں جانا ہے ۔پھپھا جان بولے :’’ کل آپ کو ’بردوبئی‘ لے کر چلیں گے ۔‘‘
یہ لفظ ہمارے لیے بالکل نیا تھا ۔ ہم سوچنے لگے کہ یہ نجانے کیا چیز ہے ؟
٭…٭…٭

اللہ کے نام سے
نوری ساتھیو!
السلام علیکم۔
جب بچپن میں ہم حساب سیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے جمع کا قاعدہ سکھایا جاتا ہے کیوں کہ یہ سب سے آسان ہوتا ہے ۔2+2=4 سے شروع کر کے ہم ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں جمع کرنا سیکھ جاتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ہم سارے قاعدے اور کلیہ سیکھ جاتے ہیں ۔ حساب کا ایک دلچسپ قاعدہ یہ ہے کہ آپ ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں جمع کریں اور پھر حاصل جمع کو صفر سے ضرب دیں تو سب کچھ صفر ہو جاتا ہے ۔
زندگی میں بھی ہم اسی طرح چیزیں جمع کر رہے ہوتے ہیں ۔ پیسہ ، گھر ، گاڑی، ایک اور گھر ، ایک اور گاڑی، سونا ، موتی، دولت ، عزت ، شہرت کا اچانک ایک دن موت کا فرشتہ آ پہنچتا ہے اور جیسے سب کچھ صفر سے ضرب کھا جاتا ہے اور اگر کہیں یہ سب کچھ سود ، رشوت ، ذخیرہ اندوزی ، دھوکا دہی یا اور کسی غلط طریقہ سے حاصل کیا ہوا ہو تو میزان منفی میں چلا جاتا ہے ۔ کیسا خسارے کا سودا ہے !
اللہ رحیم و کریم نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں ، کوتاہیوںکو مٹا سکیں اور اپنی نیکیوں کو انفنٹی سے ضرب دے سکیں جی ہاں، رمضان کی آمد آمد ہے ۔ نبی کریم ؐ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ انسان کو اس کی ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک ملتا ہے ۔ مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے ، میں ہی اس کا جتنا چاہوںگا اجر دوں گا ۔
چناں چہ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ہم توبہ استغفار کر کے ، ندامت کے آنسو بہا کر اپنا نامۂ اعمال صاف ستھرا کر لیں اور اللہ کی عبادت کر کے ، لوگوں کے کام آکر اپنا میزان بھر لیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اجر و ثواب کی نیت سے روزہ رکھنے کی توفیق دے ، ہمارے روزوں کو قبول فرمائے اور ہماری بخشش فرما دے ۔ آمین۔
والسلام
آپ کی باجی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here