۲۰۲۳ بتول نومبرانکاری - عائشہ ناصر

انکاری – عائشہ ناصر

سلاخوں کے پارسے اٹھتی سوندھی سوندھی گیلی مٹی کی مہک نے اسے ماضی میں گم کردیا ۔ اس کاکچی مٹی سے تعمیرکردہ ایک کمرے اورصحن پرمشتمل مکان بھی بارش کی بوندیں پڑتے ہی یوںہی مہک اٹھا تھا۔ اس کچے پکے مکان میں وہ کنچے کھیلتا ہؤا بڑا ہؤا، اورجانے کب رنگ برنگے کنچے کھیلتے ہوئے اس کی ماں انیلہ اسے سرکاری اسکول میں داخل کرا آئی ۔ اس کی عمر غالباً سات سے اٹھ برس تھی جب اس نے پہلی بارکاغذ قلم کوچھوا۔آہستہ آہستہ اسے اسکول کاماحول بھانے لگا۔ اساتذہ کے نرم گرم رویہ کا بھی وہ دھیرے دھیرے عادی ہوگیا ۔ اب وہ کاغذ قلم کے ساتھ بستہ میں کنچہ بھی بھر کرلاتا ۔ کھانے کے وقفہ میں رنگےبرنگے کنچے بستہ سےنکلتے اورکھیل کا میدان گویا کنچوں سے رنگین ہوجاتا ۔
یہ موسم گرما کا وسط تھا ۔مون سون شروع ہوچکا تھا۔بارش کی رم جھم اس کے کچے گھر کو مہکا جاتی ۔لیکن ایک دن مینہہ اس زور سے برسا کہ اس کا کچا پکا مکان ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گیا ۔لوگوں نے اسے ، اس کی ماں اورچھوٹی بہن کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا ۔ کچھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کا چھوٹا سا مکان ایک مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ اس کی بیوہ ماں نے ہاتھ جوڑ کراسی بستی میں کچھ بہترگھر میں مقیم اس کے ماموں سے پناہ کی درخواست کی ۔ بہن کے جڑے ہاتھوں کودیکھ کراپنی بیوی کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود اس نے رہنے کی جگہ دے دی۔
وقت اپنی مخصوص رفتار سے دھیرے دھیرے سرکتا رہا ۔ماموں کا اینٹ، سیمنٹ گارے سے بنا مکان ٹائلوں سے سج گیا ۔ باہر لوہے کا ایک چھوٹا سا گیٹ بھی نصب کروا دیا گیا ۔ جیسے جیسے ماموں کاکاروبار ترقی کرتا جا رہا تھا گھر کی حالت بھی بہتر ہوتی چلی گئی ۔ ہاں ان کی حالت اب تک پناہ گزین کی سی تھی ۔ اس کی ماں گھر میں لوگوں کے کپڑے سیتی ، ماموں کوخرچے کے پیسے بھی ماہوار دیتی ۔یہی پربس نہیں مامی اوران کی بیٹیوں کے کپڑے بھی بنا پیسوں کے سی دیتی ۔لیکن اس کے باوجود مامی کے چہرے کے تیور روز ِ اول کی طرح بگڑے ہوئے تھے۔
آٹے ، دال اورچینی کے بھائو جب آسمان سے باتیں کرنے لگے توماموں نے ماہواررقم بڑھانے کا مطالبہ کردیا ۔ انیلہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے ، مہنگائی اورریڈی میڈ کے بڑھتے فیشن کی وجہ سے اب سلائی کے لیے کپڑے بھی کم آنے لگے تھے ۔ اوپرسے بھائی کا خرچ زیادہ دینے کا مطالبہ ، اسے کچھ نہ سوجھا توبیٹے کواسکول سے اٹھا کرورکشاپ میں کام پرلگا دیا ۔ وہ جو آنکھوں میں کئی خواب سجائے سرکاری اسکول میں بمشکل تعلیمی مدارج طے کر رہا تھا ، اک دم پڑھائی چھوڑنے اورورکشاپ کے تشدد زدہ ماحول کی وجہ سے شدید ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ آہستہ آہستہ اس کا رویہ جارحانہ ہوتا گیا ۔ پھر اس نے ورکشاپ جانے کے بجائے سڑکوں پرمٹر گشت شروع کردی ۔جب انیلہ ماہانہ تنخواہ لینے ورکشاپ گئی تومعلوم ہؤا وہ توکئی روز سے کام پر ہی نہیں آیا ۔ اس نے جب گھر آکرپوچھ گچھ کی تووہ آپے سے باہر ہوگیا اورکام پرجانے سے صاف انکارکردیا ۔
معاشی مسائل، منہ کو آتی اولاد ، بے رخی برتتا سگا بھائی ، انیلا دل پربوجھ لے کر ہارٹ پیشنٹ بن گئی ۔ ماں کو زندگی موت کی جنگ لڑتے ، سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے دیکھا تو اسے ہوش آیا اور نوکری کی تلاش شروع کردی ۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے بس میں کنڈیکٹری کی نوکری مل گئی۔
یہ نئی نوکری پرانی نوکری سے بہت بہتر تھی ۔اسے نہ جھڑکیاں سننے کو ملتیں ، نہ گالیاں ، پورا دن مسافروں سے کرایہ جمع کرکے وہ رات کوٹھیکیدار کے ہاتھ میں رکھتا اوراڈے سے اپنی دیہاڑی وصول کرتا ہؤا واپس لوٹ جاتا ۔
بیٹے کوکماتا دیکھ کرانیلہ کی صحت بھی بہتر ی کی جانب گامزن ہونے لگی ۔بیٹی بھی اب جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھ چکی تھی ۔ انیلہ نے خاموشی سے پیسے بچا کراس کا جہیز جوڑنا شروع کردیا ۔پندرہویں برس میں قدم رکھتے ہی اس کے ہاتھ پیلے کردیے ۔ بیٹی کی رخصتی کے ساتھ ہی تمام جمع پونجی بھی ختم ہوگئی لیکن اس کے باوجود وہ بر وقت فرض کی ادائیگی پرخدا کا شکر گزارتھی۔
یہ دوسرے دنوں کی طرح ایک عام سا دن تھا ۔ سورج ڈھلنے کے قریب تھا ۔ اس نے بس کے تنگ دروازے سے جھانکتے ہوئے سورج کی بجھتی روشنی میں نمایاں ہوتےچاند کے ہالے کودیکھا پھر مسافروں سے کرایہ وصول کرنے بس کے اندرونی حصہ کی جانب قدم بڑھا دیے۔پہلے ، دوسرے اورتیسرے مسافر سے کرایہ وصول کرتے ہوئے وہ ایک دم ٹھٹکا ۔سفید کرتے شلوار میں ملبوس بڑی عمرکے ان صاحب کی سائڈ کی جیب سے نوٹ جھانک رہے تھے ، گویا گرنے کے لیے بے تاب ہوں ۔اس کے ذہن میں جانے کیا سمائی وہ کچھ دیر وہیں رک گیا۔پھر بس نے ایک جھٹکا کھایا اورنوٹ ان صاحب کی جیب سے نکل کراس کے ہاتھ میں سما گئے ۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دوسری سواریوں کی جانب متوجہ ہوگیا ۔ اگلا سٹاپ آیا اوروہ صاحب اترے تو اس کے دھڑکتے دل کوکچھ قرار آیا ۔ پھر یہ تواس کا معمول بن گیا ۔ وہ عموماً بڑی عمر کے حواس باختہ لوگوں کو نشانہ بناتا جو بس کے جھٹکوں میں خود کو سنبھال نہ پاتے۔
اس دن بہت دنوں بعد کالی گھٹا چھٹی تھی ۔سورج کی کرنوں نے ہر چیز کوروشن کررکھا تھا ۔ لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے ایک عمر رسیدہ خوش پوش صاحب بس میں داخل ہوئے ۔ان کی پھولی جیب دیکھ کراس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔وہ غیر محسوس انداز میں ان کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ بس نے ایک جھٹکا کھایا اورپھولی جیب سے بٹوا پھسلتا ہؤا اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ لیکن جانے آج اس کے ستارے گردش میں تھے یا کوئی اوروجہ تھی کالے بٹوے سے نوٹ نکلتے ہوئے بس کے مٹیالے فرش پرآگرے۔
’’ اوئے چور! میرا بٹوہ چرا رہا ہے ۧ…..موٹےشیشوں والی عینک کے پار سے یہ منظردیکھ کر وہ صاحب چلا اٹھے ۔ ان کے چلانے پر دیگرلوگ بھی متوجہ ہوگئے ۔پھر توجیسے بس کے گھٹن زدہ ماحول میں ایک قیامت برپا ہوگیا ۔
’’ ارے پکڑو ! کنڈیکٹرچور ہے ….‘‘
’’ میری بھی جیب کٹی تھی اس بس میں ….‘‘ بس مختلف آوازوں سے بھر گئی ۔ کچھ مسافروں نے ڈرائیور سے بس بھی رکوا دی ۔لوگوں نے اسے کھینچ کھانچ کر بس سے باہرنکالا اورپیٹنا شروع کردیا ۔ کسی نے 15 پرکال بھی ملا دی ۔پولیس آئی اوراسے لوگوں کے نرغے سے نکال کرلے گئی ۔ اسے حوالات میں بند کردیا گیا ۔اس کے پاس نہ تگڑی رقم تھی ، نہ سفارش اوروہ رنگے ہاتھوں بھی پکڑا گیا تھا ۔ اسے تین سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی ۔ اس کی ماں نے جیل کے چکرکاٹے ، اسے چھڑانے کی پوری کوشش کی لیکن سب بے سود رہا ۔ ماموں نے تواس سے رہا سہا تعلق بھی ختم کرلیا۔ بہن کی نئی نویلی سسرال نے صاف کہہ دیا کہ اگر اپنے مجرم بھائی سے کوئی تعلق رکھنا ہے تو پہلے ہم سے تعلق ختم کرنا ہو گا ۔ اب لے دے کے اس کی محنت کش ماں ہی بچی تھی جو حوالات میں اس سے ملنے آتی۔ کبھی اس کے لیے کھانا لے آتی، کبھی فقط محبت کے دوبول کہہ کر ہی چلی جاتی ۔ وہ ماں کے آگے سرنہیں اٹھا پاتا ۔ اس نے اپنی عزت دار ماں کا سر سب کے سامنے جھکا دیا تھا ۔
آخر کار تین سال گزرے اور اس کی سزا کی مدت پوری ہوئی ۔وہ حوالات سے اپنا مختصر سامان سمیٹتا ماموں کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا ۔ اس نے دروازہ پر دستک دی ، بنا پوچھے ہی دروازہ کھل گیا ، سامنے اس کی ماں کھڑی تھی، جیسے اس کے انتظار میں دروازہ پرہی نگاہیں ٹکائے بیٹھی ہو۔ اس نے سلام کیا اوراندرداخل ہو گیا ۔ سامنے ریشمی چادر والے تخت پہ ماموں بیٹھا سگار پی رہا تھا ۔ اس کو دیکھ کرچلاتے ہوئے بولا۔
’’ تیری ہمت کیسے ہوئی یہاں قدم رکھنے کی ….‘‘ انیلہ بھائی کوغصہ میں دیکھ کر گھبرا اٹھی ۔ بھائی کی منت سماجت کرنے لگی ، ہاتھ پیر جوڑنے لگی ۔ مامی اور ان کی بیٹیاں تمسخر اڑاتی نظروں سے یہ منظردیکھ رہی تھیں ۔ اس سے اپنی ماں کی یہ ذلت برداشت نہ ہوئی ، وہ الٹے قدموں واپس پلٹ آیا۔
ابھی اس نے دروازے سے باہرقدم رکھا ہی تھا کہ اسے اپنی ماں جائی ، اپنی بہن آتی دکھائی دی ۔وہ بہن سے ملنے کے لیے آگے بڑھا ، بہن اس کی طرف لپکی لیکن پیچھے سے اپنے شوہرکو آتا دیکھ کربہن نے بھی رخ موڑ لیا ۔ وہ جیل میں ہی چوری سے تائب ہوچکا تھا ۔ حوالات کی تنگ و تاریک کوٹھڑی اس کی نیم شب میں خدا سے کی گئی آہ وزاریوں کی گواہ تھی۔خدانے تو شاید اس کی توبہ قبول کرلی تھی لیکن اسے دھتکار کرجرائم کی نہج تک پہنچانے والا عزت دارمعاشرہ اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here