آج کی اس ادبی نشست کے بارے میں فون آیا، ادب اور میڈیا کا نام سنتے ہی میں نے حامی بھرلی ،آجائوں گی ۔ آج کل تو باہر نکلنے پر اتنی شدید پابندی ہے کہ اگر کوئی قوالی پر بھی بلائے تو شاید میں جانے پر رضامند ہو جائوں ۔ ایک سال سے اپنے کمرے میں ہمہ وقت موجود ہوں۔ اب نہ یہاں روزن زنداں ہے کہ فیض صاحب کے اشعار ہی پڑھتی رہوں نہ چھت پر کڑیاںہیں جن کو گنتی رہوں ۔ اس لیے حاضر ہو گئی ہوں ۔ مدعو کرنے والی صاحبہ نے کہا کہ ہم نے آپ کو دعوت نامہ بھیج دیا ہے۔ آج کل دعوت نامہ whatsappپر بھیجا جاتا ہے ۔ بعد میں جب دعوت نامہ پڑھا تو معاًخیال آیا کہ اگر جو یہ ڈبیٹ ہوتا تو میں فوراً مخالف سمت کا رخ کرتی، موضوع ہے کہ :
’’ ادب اور میڈیا خاندان اور نسل نو کے معمار ہیں ‘‘
کچھ سمجھ میں نہیں آیا کیا کہنا چاہیے یا تو گھر میں بند بند عقل چوپٹ ہو گئی ہے یاکوئی اور بات ہے ۔
ادب اگر پڑھا جائے اور اچھا ادب تو یقینا وہ خاندانوں کو بہتر بنارکھتا ہے ۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ نسل نو کا بھی ذکر ہے ۔ اب نسل نو سے ذرا پوچھیے کہ وہ ادب کو کتنا خاطر میں لاتے ہیں ۔ کس کس نے بڑے ادیبوں کو اور شاعروں کو پڑھا ہے اور اگر آج کی بات کی جائے تو معذرت کے ساتھ خود محکمہ تعلیم کے بیشتر افراد حیرت سے پوچھیں گے کہ مشتاق یوسفی کون؟ پطرس کیا کرتے تھے ؟ ظہیر کاشمیری کو ن تھے؟ مصحفی اور مومن کون تھے ؟ میری مراد سب سے نہیں ہے لیکن چونکہ میں محکمہ تعلیم سے 25سال متعلق رہی ہوں اس لیے مجھے ان کا حال احوال بہت اچھی طرح معلوم ہے ۔ آپ نے اگر اسکولوں اور کالجوں میں ادبی کتابیں اردو اور انگلش دونوں دیکھی ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معمار تو شاید یہ ہیں مگر یہ اسی طرح کے معمار ہیں جیسے ہمارے یہاں روز گھر بنتے ہیں اور ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ انتخاب کون کرتا ہے نا معلوم افراد ۔ لکھتے کون ہیں یہ کتابیں ،نا معلوم افراد ۔ ڈگری کون دیتا ہے نا معلوم افراد … تو نسل نو سے میں کیا کہوں کہ تیری تعمیر میں کیا کیا خرابی ہے ۔
اب کرتے ہیں میڈیا کی بات تو میڈیا خاندان بنا نہیں رہا ہے توڑ رہا ہے خدا نہ کرے کبھی آپ ٹی وی آن کریں تو وہاں بس چار دن کی چاندنی ہوتی ہے ۔ دو دن شادی کے دو دن طلاق کے ۔ پتہ ہے 75-70چینل ہیں۔الا ماشاء اللہ سب کے خیالات میں اتنی مطابقت ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ ہم نے چینل بدل دیا ہے ادھر لڑائی ہو رہی تھی دوسری طرف پٹائی ہو رہی تھی ۔ تیسری طرف گھر سے نکالا گیا ۔ چوتھی طرف طلاق ہو گئی۔
نسل نو کوکیا اچھا سبق مل رہا ہے کہ یہاں یہ زندگی بھر کا طوق نہیں ڈالا جا رہا ہے تمہارے گلے میں ۔ کچھ دن مزے کرو پھر اتار پھینکو ۔ کسی اور طرف دیکھو ۔ کمی تو نہیں ہے نہ لڑکوں کی نہ لڑکیوں کی ۔ پھر شاعروں کی جو بھر مار ہوئی ہے انہوں نے عشق کے ایسے نایاب سبق دیے ہیں نسل نو کو بھائی کچھ نہ کرو بس عشق ہی کرتے رہو ۔ تو وہ ہی کر رہے ہیں ۔ ٹی وی پر بھی۔ یو ٹیوب پر بھی ۔زندگی میں بھی ۔
خیر یہ تو میں نے اپنے دل کی دکھی داستان سنائی ہے کہ اب نہ میں ٹی وی دیکھتی ہوں نہ موبائل پر یوٹیوب اور خدا جانے کیا کیا کیونکہ اتنی بھیانک داستانیں میں برداشت نہیں کر سکتی، بلڈ پریشر بہت بڑھ جاتا ہے اور دوائیںبہت مہنگی ہیں لیکن کتابیں ضرورپڑھتی ہوں ، وہ بھی بہت چھان پھٹک کے ۔ کیونکہ ماشاء اللہ نسل نو اس تیزی سے شاعر ، ناول نگار، افسانہ نگار ہو رہی ہے کہ کتابوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں ۔ اب ان کتابوں میں ہے کیا… وہ آپ کا امتحان ہے ۔ بلکہ آزمائش ہے دل و جگر کی ، نظر کی … اور زندگی کی !
لیکن جو بات آپ نے کہنا چاہی تھی کہ ادب میڈیا خاندانوںکو اور نسل نو کو نئی زندگی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کا اصل کام یہی ہے تو یہ سچ ہے مگر اس میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ دیکھیے تربیت اور اٹھان گھر سے شروع ہوتی ہے ۔ اصل معمار خاندان خود ہوتا ہے ۔ تہذیب ،اقدار، اصول ، نیکی یہ سارے سبق ہم اپنے والدین سے سیکھتے ہیں ۔ اس کے بعد جب ہم ادب کی طرف مائل ہوتے ہیں تو خودبخود ہمیں راستہ مل جاتا ہے کیونکہ خاندان نے اس راستے پر چراغ جلائے تھے ۔ تب ہی آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کروہ کتابیں پڑھیں گے جو آپ کی شخصیت کو نکھاریں گی سنواریں گی جلا بخشیں گی ۔ چاہے وہ ادب ہو شاعری ہو ، غیر ملکی ادب ہو۔ وہ آپ کو آگے بڑھاتا جاتا ہے کیونکہ بنیادمضبوط رکھی جا چکی ہے ۔شکریہ!
( حریم ادب کراچی کے زیر اہتمام فکری نشست میں پڑھا گیا)
٭…٭…٭