ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وائرس – بتول نومبر۲۰۲۰

تین بے حد فرمانبردار بیٹے ،جو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔
’’ واہ تربیت کرنا ہو تو نورین سے سیکھو۔لڑکوں کی پرورش کوئی آسان کام ہے۔ لیکن ماشاء اللہ ایسے نمازی ، نیک ، باادب بچے… آج کل کے دور میں تو خال خال ہی نظر آتے ہیں‘‘۔
نورین ایسے جملے سنتے ہی مسکراتے ہوئے بتاتیں کہ کس محنت سے انہوں نے بہترین ماحول فراہم کیا۔ کیسے دن رات کھپ کر پرورش کی۔کیسے اپنے خوابوں کی قربانی دی۔ وہ گردن ہلکے سے جھکا کر روہانسی آواز میں کہتیں۔
’’مجھے تو بڑے آرام سے یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل جاتی لیکن ہمیشہ سے ذہن میں تھا کہ ماں کو گھر میں ہونا چاہیے تو بس اپنے کئیریر پر کمپرومائز کیا۔ بیٹوں کی تربیت کی، ان کی جسمانی اور اخلاقی ضروریات کا خیال کیا ، ہوم اسکولنگ کی۔ سمجھو نہ دن کی خبر نہ رات کی۔ باقی پیسا تو آنی جانی شے ہے۔ عمر بھی گزر ہی جاتی ہے۔ بھابھی پتہ نہیں کیسی مائیں ہوتی ہیں جو دن دن بھر بچے ساس کے سپرد کرکے خود جاب پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ کیا خاک تربیت ہوگی ایسے بچوں کی‘‘۔
وہ ادا کے ساتھ بھابھی سے کہتیں جو بے بسی سے اپنے شرارتی بچوں کی حرکتیں دیکھ کے شرمندہ ہو جاتیں۔ جاب کرنا ان کی مجبوری تھی۔ کرائے کا مکان، مستقل بیمار میاں کی جاب ختم ہونے کی وجہ سے چڑھا قرضہ ، مہنگائی کا طوفان۔ ورنہ دل تو ان کا بھی چاہتا تھا کہ سب چھوڑ چھاڑ گھر بیٹھ جائیں۔ اسکول ٹیچر کی جاب آسان بھی نہ تھی۔ پڑھا پڑھا کے زبان خشک ہو جاتی، کاپیاں چیک کرنا خود ایک جان جوکھوں کا کام تھا، والدین مائیکرو اسکوپ لگا کے ٹیچر کی غلطیاں ڈھونڈتے، پھر ساتھ ہی گھر کے تمام کام۔ ان سے پوچھا جاتا تو بس ایک ہی خواہش تھی کہ کبھی بے فکری سے سب باہر کے کام کسی کے سپرد کر کے خود گہری نیند سو جائیں۔ لیکن فی الحال یہ ایک سہانا خواب ہی تھا۔
’’ ارے بھئی ماں کا کام ہوتا ہے شروع سے اچھا کھانا کھلائے لیکن آج کل کی مائیں ، کہاں اس پہلو پہ توجہ دیتی ہیں۔ میں نے تو شروع سے اپنے بیٹوں کوچٹخاروں کا عادی نہ بنایا۔ مگر ہر ایک میں اتنا دل گردہ کہاں۔ آج کل تو بس میگی بنائی کھلا دی ، دلیے جیسے کھانے ، بھلا بچے کی جان کیا بنے گی۔ نہ قدرتی طاقت بخش غذائوں کا پتہ نہ ممتا کی خوشبو کا احساس۔بس برائلر مرغی جیسے بچے ہیں۔ یہ ڈبہ بند دور نے تو عورتوں کو سست ہی بنا دیا ہے۔ ہم تو چٹنی بھی سل بٹے پہ پیستے ہیں۔ کہ بلنڈر میں بنی چٹنی تو بس نرا ہرا پانی ہے نہ غذائیت نہ ذائقہ‘‘۔
چھوٹی نند کے سامنے تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ تیسرا سموسہ بلنڈر کی بنی چٹنی میں ڈبو ڈبو کے کھاتے ہوئے گویا ہوتیں۔ نند جو گھر میں معذور ساس سسر کی خدمت کے ساتھ مستقل مہمان داری اور اوپر تلے کے بچوں میں ایسا گھری تھی کہ انجیر ، شہد اور صحت بخش غذاؤں سے خواہش کے باوجود تعلق رکھنا مشکل تھا دل ہی دل میں شدید احساس جرم میں مبتلا ہوجاتی۔
دیورانی کے سامنے ادا سے کبھی کیبنٹ کھول کر چم چم چمکتی مصالحے کی برنیاں دکھاتیں ، کبھی الماری کے پٹ کھول سنہری کناروں والے ڈنر سیٹ نکلتے۔ ساتھ میں داستان امیر حمزہ کیسے جہیز کی تیاری کے لیے چپل گھسا گھسا مارکیٹوں کے سروے کے بعد یہ سامان لیا اور 12 سال گزرنے کے باوجود سب ایسا اجلا نیا رکھا ہے گویا کبھی استعمال ہی نہیں ہوا۔ ان کے ہاں یہ آج کی عوتوں جیسے پلاسٹکی رواج نہ تھے کہ ہر کچھ سال بعد برتن ٹوٹنے کی بنا پر نئے ڈنر سیٹ آ رہے ہیں۔ دیورانی سر جھٹک کے باتیں ایک کان سن دوسرے سے نکالتی۔ اس کے پاس اس سلیقہ مندی کے جواب میں کچھ نہ تھا۔ والد کی وفات کے بعد بمشکل بھابھیوں نے موٹا جھوٹا سامان دے کر سر کے بوجھ کی طرح اتارا تھا۔ اونے پونے خریدا کم قیمت سامان سال بھر بھی ساتھ نہ نبھا سکا۔ اب دکھانے سنانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ خاموشی ہی میں عافیت تھی۔
انہی سب فخریہ جذبات کے دوران جب ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی تو کچھ لمحے تو نورین حیران ہی رہ گئیں۔ لیکن چلو یہ بھی اچھا ہی ہے۔ مسکرا کے سوچا۔ اب تک کی تمام پریگننسیز بڑے سکون و اطمینان سے گزری تھیں لیکن اس بار تو واش روم سے پاؤں باہر آتا کہ ابکائیاں کرتیں دوبارہ لپکتیں۔ میاں صبح کے گئے شام آتے۔ نورین طبیعت ، گھر سنبھالتے عاجز آ جاتیں۔ بچے اسکول میں ڈال دیے۔ کہاں کی ہوم اسکولنگ اور کہاں کی ماڈرن اسکولوں کی برائیاں۔ سب بھول بھال بس دیوار پکڑ پکڑ کے کچن میں آتیں اونے پونے نوڈل چڑھا پلیٹ میں نکال بچوں کے سامنے پٹخ ، خود وہیں گر سی جاتیں۔ اللہ اللہ کر کے تین مہینے گزرے الٹیاں تھمیںتو ایک دم ایسی خارش اٹھتی کہ کھجا کھجا کہ بے کل ہوگئیں۔ زخم پڑ گئے، پائوں سوج کے کپا نہ چلاجائے نہ ہلا جائے۔ پڑوسن جن کو کچھ ہی مہینے پہلے آج کل کی لڑکیوں کے نخروں پہ لیکچر دیا تھا کہ ایسے ہی نو مہینے اینٹتے گزارتی ہیں مسکراتیں کہ:
’’چلو بھئی خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘۔
آخر کار ان سب مسائل کا اختتام ہؤا۔ ننھی گڑیا کی دنیا میں آمد سے ، منا سا دہانہ ، گلابی رنگت پہ خوب ہی پھینی سی ناک۔ میاں کے دوست کی بیگم نے دیکھتے ہی کہا۔
’’بھابھی منی کی ناک تو بہت موٹی ہے۔ اب وہ سارے ٹوٹکے جو آپ نے فرحین کی ناک کے لیے بتائے تھے وہ آزمائیے تو کچھ کھڑی ناک بنے گی‘‘۔
’’ ہاں بھئی یہ تو ماں کاہی کام ہے۔ دودھ پلاتی جائے ناک کو انگلی سے دباتی رہے۔ ساتھ ساتھ پیشانی دبائے۔ بس مائوں کی توجہ ہی نہیں آج کل۔سارا دھیان اپنے آرام پر ہوتا ہے‘‘۔ نورین مسکرائیں۔
لیکن جناب بات ناک پیشانی تک محدود نہ تھی۔ منی بیگم کے سر پہ بال غائب تھے۔اب لاکھ چٹائی جلا لگائی، سرمے میں تیل تو، الٹے استرے سے سات بار گنجا کر لیکن بال تو وہ فصل ثابت ہوئی جس پر بہار آنے کاکوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ پھر بال ناک پیشانی کے خدوخال کی فکر تو ثانوی تھی۔ ننھی بیگم کی عادتیں نرالی تھیں۔ رات بھر بھو بھاں رونا، دن بھر سونا وہ بھی نزاکت بھری نیند کے چار گھر چھوڑ پڑوس کے درخت پر چڑیا سرگوشی میں بھی چہکارے تو بلک بلک کے روتے روتے نیلے پڑ جانا۔ نازک اندام خاتون کوپھر گھنٹہ بھر گود میں لے کے ٹہل ٹہل کے چپ کرایا جاتا تو اس وقت تک معصوم بڑے بھائی خود ہی پلیٹوں میں دہی نکال کر بازار کی روٹی کبھی باسی سالن سے لگا کرکھاتے ، یونیفارم میں ہی لڑھک کے سو جاتے۔روز نہانا ، وقت پر پڑھائی ، سب خواب بنتا جا رہا تھا۔ رات کو اکثر ہی میاں صاحب برتن دھو کے اونے پونے کچن سمیٹتے۔ صفائی کے لیے ماسی آتی تھی لیکن اس کے بھی مزے ہو گئے تھے۔کہاں تو باجی خوردبین لگا کے اس کی صفائی کو چیک کرتی تھیں کہاں اب یہ عالم تھا کہ کئی کئی دن انگلی سے ڈسٹنگ کرتی لیکن مالکن کو پتہ نہ چلتا۔ کپڑے 6، 6 دفعہ کھنگلواتی تھیں اب ایک دفعہ پانی نکال کر رسی پہ لٹکاکرجان چھٹتی۔
ایسے ہی بھاگتے دوڑتے دنوں میں منی کچھ سنبھلیں تو بچوں کے خراب رزلٹ کارڈ ان کے دل دہلانے کے لیے موجود تھے۔ یا اللہ کیا خطا ہوگئی مجھ سے! منجھلے بیٹے کے کلاس میں توجہ کی کمی پر بھی ریمارک تھا۔ نظر اٹھا کے دیکھا تو حیران ہوگئیں۔ اترے زرد چہرے ، نکلتے ہوئے قد پر گدلا یونیفارم جو چھوٹا ہو رہا تھا، بڑھے ہوئے بال ، گندے مٹی زدہ جوتے جن کو پالش چھوئے زمانہ ہوگیا۔ وہ ویل ڈریس بچوں کی اماں کہلاتی تھیں۔
’’بھئی ہم تو موزہ بھی میچنگ پہناتے ہیں نہ جانے کیسی پھوہڑ عورتیں ہوتی ہیں نہ خود پہننے اوڑھنے کا طریقہ آتا ہے نہ بچوں کو سکھاتی ہیں‘‘۔
نخوت سے ناک سکیڑے یہ جملے وہ ہمیشہ ہی جٹھانی کے بچوں کو دیکھ کے کہتی تھیں جو گرمیوں میں تیز رنگ کے جوڑے پہنے ان کے نازک مزاج پر گراں گزرتی تھیں۔
’’جائو جا کے کپڑے بدلو ، کھانا کھائو‘‘۔ بد دلی سے کانوں میں گونجتی اپنی ہی آواز سے جان چھڑائی۔ روبوٹ کی طرح تینوں کمرے کی طرف گئے لیکن ان کی نظر عالیان کی کمر پہ بنے جوتے کے نشان پر تھی۔ ایک نہیں کئی نشان۔
’’عالیان یہ تمہاری کمر پہ کیا ہؤا ہے؟ ‘‘
’’کچھ نہیں اماں ‘‘ وہ بغیر مڑے دھیمے سے بولا۔ گیلی گیلی سی آواز ماں کا دل اب کیسے غافل رہ سکتا تھا ۔
وہ اٹھ کے اس کے سامنے آئیں۔’’ کچھ نہیں اماں‘‘۔
بھیگی آنکھیں ۔ ’’بیٹے کیا بات ہے‘‘۔ ان کا سب سے فرمانبردار بیٹا۔
’’ امی بھائی کو وین میں لڑکے بہت مارتے ہیں لٹا کے لاتیں، گھونسے… ہنستے ہیں تم مینٹل ہو کہاں سے آئے ہو۔bot alien dumb‘‘ چھوٹا والا بے تابی سے بولا۔
’’شایان چپ ہو جاو‘‘۔
’’ عالیان‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کے کمرے میں لے آئیں۔ ’’کیا بات ہے بیٹا ماں سے چھپائو گے ؟‘‘
’’ اماں ہم ہوم اسکولنگ کی وجہ سے نارمل بچوں جیسے نہیں ہیں۔ میرے سارے سرٹیفیکٹ، ساری نالج زیرو ہوجاتی ہے کیونکہ مجھے وہ ساری باتیں نہیں آتیں جو لڑکے کر تے ہیں۔ میں بالکل alien ہوں ان کے درمیان۔ آپ پہلے ہی مینا کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں۔اس لیے میں آپ کو تنگ نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
وہ چپ تھیں…دم بخود… خود اپنے الفاظ ایسا سنگسار کرتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں چھوٹی بہن نے بیٹے کا بتایا کہ لڑکے اس کو bullyکرتے ہیں تو گھنٹوں انہوں نے بھری محفل میں اس بات پر بیان دیا کہ یہ سب ماں کی کوتاہی ہے جو بیٹا Bullyہوتا رہا اسے خبر نہیں ہوئی۔
’’ بھئی میں تو بچوں کی ہر بات سے باخبر ہوں‘‘۔ محفل سے رخصت ہوتے ہوئے بہن سے ملنے ائیں تو وہ اترے چہرے کے ساتھ دھیمی آواز میں بولی۔
’’ باجی کاش اپنی تعریفوں کے پل باندھتے تم دوسروں کو نہ گرایا کرو ایسی بڑائی کا کیا فائدہ جو دوسروں کے وجود پر چڑھ کر بنائی جائے‘‘۔
اور انہوں نے کتنا منہ بنایا تھا۔ ’’یہ چھٹکی بھی نہ… کیسے فلسفے جھاڑتی ہے‘‘۔
لیکن آج عالیان کی قمیض اتار کے اس کی نیلوں نیل کمر کو دیکھ کے ان کی آنکھوں سے ایک جھڑی جاری تھی۔ ننھا شایان روتی مینا کو لے آیا۔ لیکن وہ اس سے بے نیاز بس بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔
سچ تو یہ تھا کہ ان کا ساراسگھڑاپا ، ساری سلیقہ مندی ، ساری تربیت اولاد ،ان کااجلا دمکتا وجود سب کا سب کسی کی عنایتوں کا نتیجہ تھا۔ وہ تو اپنی انگلی کی جنبش بھی اپنی مرضی سے نہ کر سکتی تھیں۔شرمندگی سے سر جھکائے ان کو اپنا وجود ایک ہوا بھرے گیس کے غبارے کی مانند لگ رہا تھا جو ایک باریک سوراخ سے پھسپھسا ہو کر بلندی سے زمین پر آ گرتا ہے۔ بلند رہنا بھی کیا انسان کے اپنے اختیار میں ہے !
نورین کولگا وہ خود نمائی اور احساس برتری کے ایسے وائرس کی لپیٹ میں ہیں جس نے ان کے اجلے وجود کو اندر تک بیمار کردیا ہے۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x