ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک شام آئی اور … – بتول دسمبر ۲۰۲۰

دن بھر بجلی بند رہی ۔شدید قسم کے حبس اور گھٹن میں پندرہ لوگوں کا کھانا اس نے حقیقی خدا سے دعا مانگتے ہوئے اور مجازی خدا سے ڈرتے ہوئے بنایا ۔
فریزر سے ٹھنڈے یخ پانی کی بوتل نکال کے پاس رکھ لی تھی جب بھی دم گھٹنے لگتا پسینہ سے حالت خراب ہوتی غٹ غٹ کر کے بوتل خالی کر جاتی ۔
میاں کو بس ایک ہی شوق تھا یار بیلی جمع ہوں اور کھانا پینا ۔تاش کھیلے جائیں شطرنج کی بازی لگے کیرم بھی بہت عالی شان قسم کا بنوا کے رکھا ہؤا تھا کیرم بورڈ کی باری بھی آہی جاتی ۔ان سب کے ساتھ لڈو تو ویسے ہی تانیث کے صیغے میں محبوب بلکہ محبوبہ تھی ۔
کس بل سارے حرا کے نکلتے ،شاید نام کا اثر ہوگیا،سال کے بارہ میں سے گیارہ مہینے چولھے کی حرارت ہی سے فیضیاب ہوتی۔اب بھی کھانا بھجوا کے باورچی خانے کا پھیلاوہ سمیٹ کر نہانے کے لیے گئی۔خوب اچھی طرح نہا دھو کے باہر نکلی تو پنکھے کی ہوا میں آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئیں۔
دس ایک سیکنڈ کی نیند بھی نہ لی ہوگی کہ عروہ دھم سے اس کے اوپر سوار ہو گئی ۔
’’ماما جی ماما جی بھائی مجھے مارتے ہیں‘‘۔
تھکا ہارا وجود پل بھر کے لیے سکون کی نیند بھی نہ لے پایا تھا کہ چھوٹی بیٹی نے اٹھا دیا ۔غصہ تو بہت شدید آیا مگر ضبط کرتے ہوئے بس اتنا ہی کہا ۔
’’عروہ بیٹے میری آنکھ ابھی لگی تھی‘‘۔
’’ماما جی آپ تو بس سارا دن سوئی رہتی ہیں ۔میری کون سی کوئی اور دوسری ماما ہیں جن سے شکایت لگاؤں۔خنساء کی تو دو ماما ہیں ‘‘اس نے کلاس فیلو کا نام لیا جس کا باپ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستانی بیوی کے اور سعودیہ میں رہتے ہوئے سعودی بیوی کے حقوق پورے کرتا تھا۔
حرا کو چھ سالہ بیٹی کے بیان پر ہنسی بھی آئی اور پریشانی بھی ہوئی۔ اس نے گود میں لے کے اس کا منہ چوما اور بالوں کا جوڑا بناتی چائے کے اہتمام کے لیے دوبارہ سوکن خانے کا رخ کیا ۔
کچھ عرصہ میاں بیمار رہے تو اس مجلس میلے سے تو جان چھٹی مگر حال احوال پوچھنے کے بہانے یار بیلیوں کی آمد اور جامد یعنی جم کے بیٹھے رہنے والا سلسلہ تو برقرار رہا ۔ساتھ میں چائے پانی وغیرہ کا اہتمام تو ضروری تھا ہی۔عروہ ، حماد اور نعمان کے بعد عبد القادربھی گھر کی رونق اور مردم شماری میں اضافے کے لیے دنیا میں تشریف لا چکا تھا ۔دن تیزی سے گزرتے رہے بچوں کی مصروفیت بھی زیادہ ہوتی گئی یہاں تک کہ جب عروہ کا رشتہ طے ہؤا تو نعمان سے چھوٹا عبد القادر ابھی سات سال کا تھا ۔تینوں بیٹوں سے محبت اپنی جگہ لیکن اسے عروہ بہت پیاری تھی۔ سات بیٹے بھی ہوتے تو عروہ کی بات ہی اور تھی ۔
رشتہ معقول تھا ۔ان کی مجبوری بھی وہی تھی کہ دادی بیمار تھی پوتے کے سر پر سہرے کے پھول دیکھ کر مرنا چاہتی تھی۔ ادھر معاملہ الگ تھا۔ چار بہنوں کا اکلوتا اور سب سے چھوٹا بھائی مظفرمسعود تقدیر کے لکھے کے مطابق عروہ کا جوڑ بن رہا تھا۔
واقفیت بھی تھی اور بھروسہ بھی ۔اللہ نے چاہا تواس رشتے میں خیر ہی خیر ہوگی ۔وہ اپنے آپ کو تسلی دیتی ۔اسے زندگی کے ،جینے کے گر بتاتی۔سسرال میں رہنے کا ڈھنگ ذرا فرق ہوتا ہے، وہاں خوشی ہونے والی باتوں پر آنکھوں میں آنسو لانے والے بہت ہوتے ہیں ۔اپنی سسرالی زندگی کا تجزیہ وہ نمناک آنکھوں سے سناتی ۔جہیز کے علاوہ بھی تو سو بکھیڑوں سے گزر کر بیٹی کی شادی ہوتی ہے۔ ان سارے کاموں میں سب سے زیادہ متاثر حرا کی نیند کے اوقات ہوئے۔
بہت سے چھوٹے چھوٹے بظاہر گنتی میں نہ آنے والے ڈھیروں کام جو عروہ کرتی تھی اب حرا کو کرنا ہوتے ۔ کام کے لیے ایک تیرہ چودہ سالہ بچی رکھی ہوئیتھی مگر وہ تو خود صم بکم تھی۔حلوہ کی پلیٹ پکڑانے کو کہو تو آلو کا تھیلا پکڑا دیتی ۔
شادی میں چند دن تھے کہ بیٹی کی جدائی کا غم تھا یا کاموں کی زیادتی، حرا کو ٹائیفائڈ ہوگیا ۔ دکھ تکلیف سارا اپنی جان پر جھیلتی رہی ۔
عروہ بھائی کے ساتھ مارکیٹ گئی ہوئی تھی ۔تھکن کے باعث حرا لیٹی تو نیند آگئی ۔میاں نے بھی سوتا دیکھ کے دروازہ بند کردیا ۔
دوستوں سے جمع ہو کر شغل میلے کا شوق تو مدت مدید سے وہ چھوڑ چکے تھے ۔
عروہ بازار سے آتے ہوئےبرگر اور فروٹ چاٹ پیک کروا کے لائی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی چہکتی آواز سے حرا ہڑ بڑا کے اٹھی ۔ آنکھیں ملتے ہوئے اس نے پوچھا ۔
’’کیا ہؤ ابیٹے ‘‘۔
’’امی امی وہ جو ڈنر سیٹ کا ڈیزائن ہمیں پسند تھا اور مارکیٹ میں ختم تھا وہ آج مجھے ایک چھوٹی سی دکان پر نظر آگیا ‘‘اس کی آواز میں بچے کی سی معصومیت اور خوشی تھی ۔
’’بہت اچھی بات ہے ‘‘حرا نے گھومتے سر کو ہاتھوں سے تھاما اور چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔
’’اوہ سوری امی آپ سو رہی تھیں ۔مجھے اندازہ نہیں ہوا ‘‘عروہ منمنائی۔
’’کوئیبات نہیں بس طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آنکھ لگ گئی‘‘حرا نے تسلی دی اور خریداری دیکھنے میں مصروف ہوگئی ۔سات دن کے بعد شادی تھی ۔وہ سات دن بھی بیت گئے اور شادی بھی بخیروخوبی انجام پاگئی ۔
اکلوتی بیٹی کو رخصت کرنے میں حوصلہ ختم ہوجاتا ہے۔ حرا کا بھی حوصلہ ختم ہؤ ا۔ دل بس پیٹ سے پیدا کی بیٹی کو دیکھنے کے لیے ہمکتا۔اس کی وارڈروب کھول کر تا دیر کپڑے دیکھتی ۔ارے بیٹی سے اتنا زیادہ پیار تھا !یہ اس کے جانے کے بعد اندازہ ہؤا۔جب تک دن کے ایک مخصوص وقت میں اسے فون کال نہ کر لیتی اس کا دل بے قرار رہتا۔کچھ عرصہ میں اس نے بڑے بیٹے کی شادی کردی اورپھرنعمان کا رشتہ بھی طے کردیا ۔
عروہ کی بھی جلد ہی خوشخبری متوقع تھی ۔حرا اس کے لیے چھوٹے چھوٹے کپڑوں کی خریداری کر چکی تھی کہ ایک شام سینے میں درد نے دنیا سے بے نیاز کردیا ۔درد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ زندگی ممکن نہ رہی۔موت نے زندگی کو دھکا دے کے پیچھے کردیا۔ رات کے بارہ بجے درد نے آخری سفر شروع کیا اور محض بیالیس منٹ میں مسافرت مکمل ہوگئی ۔
؎ :اک شام آئی اور کہاں لے گئی مجھے
صبح کی نماز کے بعد فون پر عروہ کی بھابھی نے اسے ماں کی جدائی کی اطلاع دی ۔ہر چند کہ اس نےاس کی بیماری سے گفتگو کا آغاز کیا اور دو منٹ تفصیل بھی بتائی مگر عروہ سے یہ خبر برداشت نہ ہوئی۔
اس نے فون پر ہی بین ڈالے۔
’’میری ماما مرگئیں آپ مجھے اب بتا رہی ہیں بھابھی‘‘وہ شاک میں تھی ۔
’’میں ضرور بتا دیتی مگر ماما جی نے منع کیا تھا‘‘ عروہ کی بھابھی مہناز نے کہا ۔
جیسے تیسے ماں کے گھر پہنچی تو لبوں پہ ایک ہی بات تھی۔
’’ میری امی بیس منٹ درد برداشت کرتی رہیں۔میری امی‘‘وہ دھاڑیں مار کے روئی ’’میں بھاگ کے آجاتی پانچ منٹ کا تو راستہ ہے ……میں تو رات جاگ رہی تھی…….میری ماما ‘‘وہ صدمہ سے نڈھال تھی ’’میری ماما ملے بغیر چلی گئیں‘‘۔
’’آپی میں نے ماما جی سے کہا تھا عروہ آپی کو بلا لوں تو میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہوں نے کہا ،میری عروہ جلدی سو جاتی ہے اسے سوتے سے مت اٹھانا اس کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ۔ اللہ کے سپرد‘‘۔
’’ماما جی چلی گئیں بھابھی‘‘عروہ غم سے بے ہوش ہوچکی تھی۔
’’ ماں تو ماں ہوتی ہے ناں ‘‘پاس کھڑی نند نے پانی کے چھینٹے عروہ کے منہ پر مارے اوردوپٹے کے پلو سے اپنے امڈتے آنسوصاف کرنے لگی۔

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x