ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت- بتول جون ۲۰۲۱

وعدے کا پاس رکھنا اور اسے پورا کرنا یعنی ایفائے عہد انبیا و رسل علیھم السلام کی صفات میں سے اور متقین و صالحین کی نشانیوں میں سے ہے۔ایفائے عہد ربانی ادب ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی وصف اور بلند پایہ اسلامی رویہ ہے۔مسلمان اپنے عہد کی حفاظت کرتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے خواہ وہ لکھا گیا ہو یا محض زبانی طور پر کیا گیا ہو۔ مسلمان جب عہد کر لے تو ایفائے عہد لازم ہے، اور یہ بھی اس کے لوازمات میں سے ہے کہ عہد اللہ کی فرمانبرداری کے دائرے میں ہو اور خیر کے کاموں کا ہو، اور اس کی حدود کو توڑنے اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی نہ ہو ورنہ نہ کوئی عہد ہے اور نہ اس کے ایفاکا تقاضا۔
ایفائے عہد سے مراد عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ، وعدوں کو پورا کرنا، اور جس چیز کا وعدہ کیا ہو اسے پوری سچائی اور امانت داری سے ادا کرنا۔ عہد کی پابندی مردوں کا شیوہ اور عظیم لوگوں کی صفت ہے۔رسول کریمﷺ کے مکارم ِ اخلاق میں عہد کی پابندی بدرجہ اولٰی شامل ہے۔رسول اللہ ؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عہد نہیں توڑا۔ قرآنِ کریم میں عہد کے بارے میں تفصیلاً ارشاد ہے:
’’اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد نہ توڑ ڈالو جب کہ تم اپنے اوپر اللہ کو گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمہارے سب افعال سے با خبر ہے۔تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتااور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے، حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلاف کی حقیقت تم پر کھول دے گا‘‘۔ (النحل، ۹۱۔۹۲)
عہد کی قسمیں
عہد کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ انسان کا اللہ تعالی کے ساتھ
یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ارشاد ِ الٰہی ہے: ’’میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ ہے اسے میں پورا کروں، اور مجھ ہی سے تم ڈرو‘‘۔ (البقرۃ،۴۰)
اللہ تعالی سے بندوں کا ایک پیدائشی عہد بھی ہے، دنیا میں پہلے انسان کو بھیجتے ہوئے اللہ نے ایک عہد کے ساتھ بھیجا تھا کہ ’’جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا‘‘۔ (البقرۃ،۳۸)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دانش مند لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے‘‘۔ (الرعد، ۲۰)
۲۔ ایک انسان نے دوسرے انسان یا ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے باندھا ہو
اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو، یا کسی نہ کسی طور پر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے۔اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں عہود شامل ہیں، خواہ فرد اور فرد کے درمیان ہوں یا دو ممالک کے درمیان۔ اس میں نکاح کا عہد بھی شامل ہے، ملازمت اور کاروبار کے معاہدے بھی اور وہ سماجی عہد بھی جو غیر تحریر شدہ ہے مگر اس کی پابندی معاشرے کے سب افراد پر لازم ہے، جیسے پڑوسی سے حسنِ

سلوک اور عدم ایذا کا عہد، مسلمانیت اور انسانیت کا عہد وغیرہ۔
ایفائے عہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی‘‘۔ (بنی اسرائیل، ۳۴)
۳۔ اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا عہد
اس کی اہمیت اوپر کے دونوں عہدوں کے بعد ہے۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی روا نہیں ہے۔
جن چیزوں کے معاملے کو عہد کی مانند قرار دیا گیا ہے ان میں ’’قرض کی ادائیگی‘‘ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق میں اس کی بڑی تاکید کی ہے، حتیٰ کہ ایک شہید کے شہادت پاتے ہی تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں سوائے قرض کی ادائیگی کے۔
والدین سے حسنِ سلوک بھی ایسا ہی عہد ہے، کہ ان سے نیکی اور احسان کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، اور ان کے حق کو تمام انسانوں کے حق سے مقدم سمجھنا ہی وفاداری ہے۔
ملازمین اور مزدوروں سے کیے گئے عہد کی پابندی بھی لازم ہے،کہ ان سے کیے ومعاہدے کے مطابق انہیں حقوق دیے جائیں، ان کی اجرتیں نہ روکی جائیں، اور نہ انہیں دیتے ہوئے تنگ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’تین لوگوں کی طرف سے میں قیامت کے روز جھگڑا کروں گا، (ان میں سے ایک وہ) جس نے کسی شخص کو اجرت پر رکھا اور اس سے پورا کام لیا اور اسے اس کا حق (یعنی اجرت )ادا نہیں کی‘‘۔ (رواہ البخاری،۲۲۲۷) یعنی وعدہ خلافی کی۔
تجارت ہو یا اجرت یا ملازمت فریقین کے مابین ہونے والے زبانی و تحریری معاہدے اور وعدوں کی تکمیل ایمان کا حصّہ ہے، اور ان کی شرائط دیکھ بھال کر طے ہونی چاہییں، تاکہ وہ شریعت کے دائرے کے اندر ہوں۔ جس قدر عہد کی پابندی کی جائے گی، مالی اور مشترکہ معاملات میں اتنا ہی باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
عہدِ الست
اللہ تعالیٰ سے ہر انسان نے عہدِ الست کر رکھا ہے،اور یہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان سب سے قدیم اور پختہ عہد ہے۔ تو حید اور اللہ کی بندگی کا عہد ہر انسان نے کیا ہے اور اس پر قیامت کے روز جواب بھی لیا جائے گا، ارشاد ہے:
’’اور اے نبی ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے کی، اور ہم بعد کو ان کی نسل میں پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا‘‘۔
یہ عہد تمام انسانوں کو اللہ کی بندگی، اس سے اخلاص برتنے، اس کی تعظیم کرنے، اس کی عبادت اور احکام کی بجا آوری کرنے، اور منع کردہ افعال اور اعمال سے باز رہنے، رسولوں کا اتباع کرنے اور دین کو تھام کر رہنے کا پابند بناتا ہے، اور اسے وفا کرنا ہر بندے پر لازم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس عہد کو توڑنے سے منع فرمایا:
’’اللہ کے عہد کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو‘‘۔ (النحل، ۹۵)
جو عہد اللہ سے کیا ہو یا دین ِ الٰہی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہو۔اس معاملے میں سچا اور مخلصانہ رویہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد سے سرشار بندوں کا پیش کیا، فرمایا:
’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے‘‘۔ (الاحزاب، ۲۳)
یعنی کوئی سر دھڑ کی بازی لگا چکا اور کوئی اس کے لئے تیار ہے کہ وقت آئے تو اس کے دین کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کر

دے۔مومن کی زندگی کا سرمایہ اللہ کے عہد کی پاسداری ہی ہے۔
انبیاء علیھم السلام سے عہد
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ؑ سے بھی پختہ عہد لیا ہے، جس کی انہیں پابندی کرنا ہو گی، ارشاد ہے:
’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیؑ اور عیسی ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔ تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لئے تو اس نے دردناک عذاب مہیا ہی کر رکھا ہے‘‘۔ (الاحزاب، ۸)
یعنی اللہ تعالیٰ کا تمام پیغمبروں سے بشمول محمد ؐ یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ ہم حکم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے۔اور اللہ تعالیٰ محض عہد نہیں لیتا بلکہ وہ اس بارے میں سوال بھی کرنے والا ہے کہ اس کی کس حد تک نگہداشت کی۔اور جنہوں نے سچائی کے ساتھ اس کے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد کہلائیں گے۔
عہد شکنی کی مذمت
اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والوں کی مذمت کی ہے، اور ایسے لوگوں کو حیوانات سے تشبیہ دی ہے، فرمایا:
’’یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔(خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن سے تو نے معاہدہ کیاپھر ہر موقع پر وہ اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے‘‘۔ (الانفال، ۵۵۔۵۶)
ابن ِ سعدی کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن میں کفر، عدم ایمان اور خیانت کی تین اقسام جمع ہو گئیںکہ وہ نہ تو کسی عہد کا پاس کرتے ہیں نہ اپنے کہے کسی قول کا، یہ کتوں اور گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ اور جب ان سے حالت ِ حرب میں سامنا ہو تو کہ ان کے لئے کسی عہد کی کوئی قیمت ہے نہ میثاق کی ، تو انہیں عبرت ناک سزا دو۔اور انہیں اس طرح قابو کرو کہ بعد والے بھی یاد رکھیں۔
اور اگر آپ کا کسی قوم سے لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ ہو، اور ان کے حالات سے ان کی خیانت کو محسوس کریں ، اگرچہ علانیہ خیانت کا ظہور نہیں ہوا، تو ان کا عہد ان کی جانب پھینک دیں، اور اعلان کر دیں کے ان کے اور ہمارے مابین اب کوئی عہد باقی نہیں رہا، تاکہ دونوں گروہوں کو اس نئی حالت کا اچھی طرح پتا چل جائے، اور ان کے سامنے عہد کے ٹوٹ جانے کا واشگاف اعلان کئے بغیر کوئی بھی پیش قدمی یا کوشش غداری کہلائے گی۔
رسول اللہ ؐ کا پاس ِ عہد
رسول اللہ ؐ یہود سے کیے ہوئے عہدوں کا بھی سب سے بڑھ کر پاس کرتے، خود یہود نے اس پر گواہی دی کہ آپؐ عہد شکن تھے نہ کبھی عہد کے خلاف کیا۔ہرقل نے جب ابو سفیان کو اپنے دربار میں بلا کر رسول ِ کریم ؐ کے بارے میں سوالات کیے، اس وقت ابوسفیان رسول اللہ ؐ کا دشمن تھا، اور ہرقل نے آپؐ کے بارے میں کئی سوال کیے، اس نے پوچھا: کیا آپؐ عہد شکن ہیں؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔ (رواہ البخاری)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان نے مجھ سے کہا کہ ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ وہ (یعنی رسول اللہؐ) تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو میں نے کہا: ’’وہ نماز کی ادائیگی، سچائی ، پاکیزگی، اور عہد پورا کرنے اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں‘‘، اس نے کہا: ’’یہی ایک نبی کی صفت ہے۔(رواہ البخاری، ۲۶۸۱)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیں، اللہ ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے‘‘۔ (رواہ الطبرانی،۷۹۷۸)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’یقیناً حسنِ عہد ایمان سے ہے‘‘۔(رواہ الطبرانی، جامع الصغیر، ۲۲۵۸)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ؐ جب بھی خطبہ دیتے ضرور فرماتے: جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جو عہد کی پابندی نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں‘‘۔ (رواہ احمد، ۱۲۵۶۷)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ

کرے وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دیا جائے تو خیانت کرے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۳۳، ومسلم ۵۹)
معاہدہ طے پاتے ہوئے ایفائے عہد
رسول اللہ ؐ نے کفار قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، جس کی ایک شرط یہ تھی کہ’’ اگر قریش کا کوئی فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد ؐ کے پاس جائے گا اسے آپؐ واپس کر دیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا وہ اسے واپس نہ کریں گے‘‘۔عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، قریش کے نمائیندے سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندلؓ ، جو مسلمان ہو چکے تھے، اور کفار نے انہیں قید کر رکھا تھا، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضورؐ کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات! انہوں نے حضورؐ سے فریاد کی کہ انہیں اس حبسِ بے جا سے نجات دلائی جائے، صحابہ کے لئے بھی یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ سہیل نے کہا، اگرچہ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے لیکن شرائط ہمارے درمیان طے ہو چکی ہیں، اس لئے میرے لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ ؐ نے اس کی حجت تسلیم کر لی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے۔
یہود سے معاہدہ
رسول اللہ ؐ نے میثاقِ مدینہ کیا،یہ یہود کے ساتھ واضح شرائط پر معاہدہ تھا، جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں سب متحدّہ دفاع کریں گے۔شرائطِ معاہدہ یہود نے خود قبول کی تھیں، مگر انہوں نے جلد ہی رسول اللہ ؐ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا۔ سب سے پہلے بنی قینقاع نے اپنا معاہدہ اعلانیہ طور پر توڑ دیا، اور اس کے نتیجے میں انہیں جلاوطن کیا گیا۔کعب بن اشرف یہودی کو اسی کی عہد شکنی کی بنا پر قتل کروایا گیا۔بنی نضیر نے سازش سے آپؐ کو قتل کرنے کی تدبیر کی، اللہ نے آپؐ کو خبردار کر دیا، ان کا محاصرہ کیا گیا اور وہ بھی جلاوطن ہونے کو تیار ہو گئے۔ بنی قریظہ نے غزوہ احزاب کے موقع پر یہ کہہ کر لشکرِ اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا کہ :
’’ ہمارے اور محمدؐ کے درمیان کوئی عہد و پیمان نہیں ہے‘‘۔
اور اس بد عہدی کے نتیجے میں ان کے تمام مرد قتل کئے گئے، اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا، اور ان کی املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔
یہود کے تینوں قبائل بد عہدی کی بنا پر انجام کو پہنچے، حالانکہ ان کی جان مال اور عزت کو تحفظ دیا گیاتھا، اور اس معاہدے کی اس وقت تک پاسداری کی گئی، جب تک یہود نے اس عہد کو توڑ نہیں ڈالا۔
مسلمان اور ایفائے عہد
مسلمانوں کی تاریخ مسلمانوں اور غیر مسلموں سے ایفائے عہد کی زریں مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔مسلمانوں نے نہ صرف امن میں بلکہ حالتِ جنگ میں بھی عہد کو پورا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں: ’’مجھے غزوہ بدر میں حاضر ہونے سے اس کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ میں اور میرے والد گائے کے بچھڑے پر سوار تھے، تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے: تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ہم وہاں نہیں جا رہے، ہم تو مدینہ جا رہے ہیں۔ تو انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر عہد لیا اور اسے پختہ باندھا کہ ہم مدینہ ہی جائیں گے اور جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ جب ہم رسول اللہ ؐ کے پاس آئے اور انہیں واقعہ بتایا تو آپؐ نے فرمایا : تم دونوں واپس لوٹ جاؤ، ان سے کیے ہوئے عہد کو نہ توڑو اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگو‘‘۔(رواہ مسلم، ۱۷۸۷)
حضرت عمر بن خطابؓ نے نھاوند (ساسان)کی جانب ایک بڑا لشکر بھیجا، براء بن مالکؓ نے سینکڑوں جنگجؤوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا، اور براء بن مالکؓ اور ھرمزان کے مابین شدید لڑائی ہوئی، براء شہید ہو گئے اور ھرمزان نے بھاگتے ہوئے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ اسے عمرؓ کے پاس لے جایا جائے۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے اس کے قتل کا حکم دیا، ھرمزان نے پانی مانگا، اور اسے پانی پیش کیا گیا، وہ بری طرح کانپ رہا تھا، اس نے کہا

کہ اسے خوف ہے کہ اسے پانی پینے کے دوران قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے اسے امان دے دی کہ جب تک وہ پانی نہ پی لے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس نے پیالہ نیچے پھینک کر توڑ دیا، اور یہ ظاہر کیا کہ خوف سے پیالہ گر گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دوسرا پیالہ منگوایا، تو اس نے پانی پینے سے انکار کر دیا کہ: آپ نے مجھے پانی پینے تک امان دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ چند روز بعد واپس آیا اور اسلام کا اعلان کر دیا۔
معاہد سے ایفائے عہد
عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی معاہد کو کسی جرم کے بغیر قتل کیاوہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہو گی‘‘۔ (رواہ البخاری،۶۹۱۴) سنن ابو داؤد اور النسائی کے الفاظ ہیں کہ ’’جس نے کسی معاہد کی جان کو حلال ہونے کے بغیرقتل کیا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا‘‘۔
جاہلیت کا عہد
عرب اسلام سے قبل جاہلیت میں بھی قول اور قرار کو بہت اہم سمجھتے تھے، اور اس کی پابندی کرتے تھے۔ اسی دور کا ایک واقعہ ہے جو عمرو بن معدی کرب ؓنے حضرت عمر بن خطابؓ کو ملاقات کے وقت سنایا: اس نے کہا جاہلیت کے زمانے میں میں ایک مرتبہ صحراء میں تھا، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہؤا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں سے کچھ دور اس شخص کا گھوڑا بھی موجود ہے جسے میں قتل کرنا چاہتا ہوں۔میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے قریب پہنچ گیا، دیکھا تو اس کا گھوڑا بندھا ہؤا تھا، اور مالک حوائجِ ضروریہ میں مشغول تھا۔ میںنے آواز لگائی: اپنا بچاؤ کر لو، میں تمہیں قتل کرنے لگا ہوں۔ وہ اٹھ کر میری جانب بڑھا اور پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عمرو بن معدی کرب۔ وہ بولا : ابو ثور، تم نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، تم گھوڑے پر سوار ہو؛ اور میں پیدل۔میں نے کہا: جب تک تم گھوڑے پر سوار نہ ہو جاؤ، تمہیں امن حاصل ہے۔ وہ چلتے ہوئے گھوڑے کے پاس گیا، اور زمین پر بیٹھ گیا، اور بازو اور ٹانگیں پیٹ سے ملا دیں۔ میں نے اسے کہا : اپنا بچاؤ کر لو، میں تمہیں قتل کرنے لگا ہوں۔ وہ بولا: تم نے کہا نہیں تھا کہ جب تک میں سوار نہ ہو جاؤں، امن میں ہوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ وہ بولا: پھر میں سوار ہی نہیں ہوں گا۔ میں اسے چھوڑ کر آگیا، اے امیر المؤ منین ، اس نے اس طرح مجھ سے چال چلی۔ (دیکھیے: ایام العرب، احمد جاد)
عہد کی باز پرس
دنیا میں کیے جانے والے ہر عہد کی باز پرس بھی ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس تو ہونی ہے ‘‘۔ (الاحزاب، ۱۵)
اللہ تعالیٰ سے جو بھی عہد باندھتا ہے وہ اس کے سامنے کوئی نہ کوئی آزمائش کا موقع ضرور لے آتا ہے تاکہ اس کا جھوٹ سچ کھل جائے، اور اس کو جانچ لیا جائے کہ اس نے کیسا کچھ سچا عہد اس سے کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی منصبِ امامت سے معزولی کا سبب عہد شکنی کو قرار دیا، دراں حالیکہ ان سے متعدد موقع پر میثاق (یعنی پختہ عہد)لیا گیا تھا، انہوں نے اس میثاق کو بھی توڑ دیا جو ان پر طور اٹھا کر لیا گیا تھا، سبت کے بارے میں کیے گئے عہد کو بھی پورا نہ کیایہاں تک کہ ان پر دھتکار پڑی اور وہ بندر بنا دیے گئے۔
بنی اسرائیل کی عہد شکنی کی فہرست اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی:
’’یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو‘‘۔ (البقرۃ، ۸۳۔۸۴)
ایفائے عہد ان صفات میں سے ہے، جو جنت میں داخلے کا

ذریعہ ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب بات کرو سچ بولو، جب وعدہ کرو اسے پورا کرو، اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اپنے ہاتھ (اذیت دینے سے) روک کر رکھو اور جب تمہیں امانت سپرد کی جائے تو اسے ادا کرو‘‘۔ (رواہ احمد، ۲۶۰۲)
ایفائے عہد مومن اور کافر دونوں ہی سے ہونا چاہیے۔اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ کچھ لوگوں کے لئے قول و قرار کو مضبوط تھامنے والا ہو اور کچھ لوگوں کے لئے خسیس! مومن اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس پاکیزہ کلمے کا عہد باندھتا ہے، اس کی ساری زندگی اسی عہد کے تابع ہوتی ہے۔جس کلمے نے اسے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر جنت کے بالا خانوں تک پہنچنے کی راہ دکھلائی، اس کے لئے مسلمانیت کا یہ عہد سب سے قیمتی ہے اور وہ دنیا کے زرو مال یا عزت و جاہ کے لیے اسے توڑ نہیں سکتا۔
اے امت ِ مسلمہ! عہد وفا کرنا محض نعرے اور سلوگن نہیں ہیں، اور نہ منہ سے کہی جانے والی باتیں ہیں، بلکہ یہ اسلامی اخلاق ہے جسے مسلمان اپنی زندگی اور روز مرہ کے حالات میں برتتا ہے اور اس عہد کو وفا کرتے ہوئے ہر شے کی قربانی دے دیتا ہے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x