ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روشن چراغ – بتول اگست ۲۰۲۲

’’ثوبیہ تم تو بالکل پاگل ہو ، آجکل کے زمانے میں کون ایسی باتیں کرتا ہے؟خاندانی ،ویل سیٹلڈ لڑکے کو ٹھکرانا ناشکری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
زرمین نے اپنی بیٹی ثوبیہ کے مسلسل انکار سے زچ آکر کہا۔
بہروز ان کا لاکھوں میں ایک بھتیجا تھا ۔ اس نے اسلام آباد کی ٹاپ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔اس کے بنائے سولر اینیرجی کار کے ماڈل کی پورے ملک میں دھوم مچی تھی ۔ حال ہی میں اسے بہت شاندار پیکیج پر امریکہ میں نوکری کی پیشکش ہوئی جو فوری طور پر اس نے قبول بھی کر لی ۔زرمین کے بھائی بھابھی ثوبیہ کے لیے اپنے بیٹے بہروز کا رشتہ مانگ چکے تھے۔ثوبیہ اور بہروز ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔بہروز کے والدین اسے امریکہ بھجوانے سے پہلے ان دونوں کی شادی کروا دینا چاہتے تھے تاکہ وہ ثوبیہ کو بھی ساتھ لے کر جائے ۔
’’ماما مجھے بہروز کے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ جانتی ہیں نا میں اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی ‘‘۔
ثوبیہ نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو لپیٹ کر کلپ لگاتے ہوئے کہا:
’’وہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں جا رہا ‘ اس کے والدین گھر بار سب پاکستان ہیں ‘وہ جلد لوٹ آئے گا‘‘۔
زرمین نے نرم لہجے میں ایک بار پھراسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’ماما یہ سب کہنے کی باتیں ہیں رؤف خالو بھی نوکری کرنے امریکہ گئے تھے ‘پچیس سال ہو چکے ہیں ‘کیا وہ واپس آئے ؟‘‘
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بے جی میرے ملک چھوڑ کر جانے کا سن کر بہت دکھی ہیں ’میں انہیں رنجیدہ نہیں کر سکتی۔‘
ثوبیہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی ‘اس کے خوابوں میں کسی پردیسی شہزادے کے ساتھ دور دیس کی سلطنت کی ملکہ بننا نہیںتھا ‘ اسے تو اپنے وطن کی فضاؤں سے عشق تھا ‘ اپنے وطن کی مٹی اسے جان سے زیادہ عزیز تھی ‘اپنی آئیڈیل دادی جان جن کی زبانی قیام پاکستان کےسینکڑوں قصے سن کر وہ جوان ہوئی تھی ‘،انہیں وہ کسی صورت دکھ پہنچانا نہیں چاہتی تھی ۔
زرمین بیگم خاموش ہو گئیں ۔وہ زندگی کے اس اہم فیصلے کے لیے ثوبیہ پر دباؤ بھی نہیں ڈالنا چاہتی تھیں، اکلوتی بیٹی کی کوئی خواہش کبھی رد نہ کی تھی پر اتنے اچھے رشتے سے انکار بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔
٭ ٭ ٭
تجمل حسین ایک قابل ڈاکٹر تھے ‘ان کا تعلق پنجاب کے خوبصورت گاؤں خان پور بیلہ سے تھا ۔ان کے والد ایک زمیندار تھے ۔برسوں پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا ۔والدہ اختری بیگم اور بڑا بھا ئی تیمور حسین گاؤں میں ہی رہائش پذیر تھے۔
اختری بیگم ایک نہایت با وقار خاتون تھیں۔قیام پاکستان کے وقت ان کے تمام خاندان کو ہندو بلوائیوں نے ان کی نظروں کے سامنے شہید کر دیا تھا ۔وہ اس وقت تقریباً نو برس کی تھیں…..بلوائیوں کے خوف سے وہ بھاگ کر پڑوس کے گھر پہنچیں ‘وہ ان کی والدہ کی ایک بہت اچھی سکھ سہیلی کا گھر تھا ‘انہوں نے اختری بیگم کو اپنے گھر چھپا لیا ۔ان کے شوہر بھی بہت رحم دل انسان تھے ‘وہ اپنے گاؤں میں ہونے والے اس ناحق قتل و غارت سے بہت دکھی تھے ۔ان دونوں نے بہ مشکل اپنی جان پر کھیل کر اختری بیگم کو سرحد پار جانے والے لٹے پٹے کارواں کے حوالے کیا….کسی نہ کسی طرح وہ سب چھپتے چھپاتے پاکستان پہنچے…سرحد کےایک گاؤں کی بے اولاد خاتون نے اختری بیگم کو گود لے لیا۔وہ گاؤں کے زمیندار گھرانے سے تھیں ۔انہوں نے اختری بیگم کو بہت پیار سے پالا انہیں دینی تعلیم دلوائی اور ان کی شادی اپنے بھتیجے شاہنواز سے کروادی۔
اختری بیگم کو رب نے زندگی کی تمام خوشیوں سے نوازا، پر انہیں اپنے پیاروں کے خاک و خون میں تڑپتے چہرے کبھی نہ بھولے ۔وہ اکثر نمناک آنکھوں سے اپنی ماں کی میٹھی لوریاں اپنے بچوں کو سناتیں ۔اپنے والد کا دست شفقت بھائیوں کا دلار سب ان کے دل پر نقش تھا … .وہ اپنے آبائو اجداد کے گاؤں کی فضاؤں کو خان پور بیلہ کی سوندھی مٹی کی خوشبو میں تلاش کرتیں ۔اللہ نے انہیں دو بیٹوں سے نوازا ۔بڑے بیٹے تیمور نے باپ دادا کی زمینوں کو سنبھالا جبکہ چھوٹا بیٹا تجمل شہر کا بڑا ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت میں مصروف تھا۔
وقت گزرتا گیا ۔یادیں دھندلا گئیں پر ان یادوں سے جڑا درد ان کے سینے کے نہاں خانوں میں جوں کا توں موجود رہا ۔تیمور نے اپنے خاندان میں ہی شادی کی ۔خدیجہ بہت اچھی شریک حیات ثابت ہوئی ۔ انہیں اللہ نے ایک بیٹے کی نعمت دی۔خدیجہ نے پیار محبت سے خاندان کو پروان چڑھایا ۔
تجمل صاحب کی شادی ایک ساتھی ڈاکٹر زرمین سے ہوگئی ۔اللہ نے انہیں ایک بیٹی کی رحمت سے نوازا ۔تجمل صاحب اکثر و بیشتر اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر گاؤں اپنی ماں سے ملنے چلے جاتے اختری بیگم کو سب گاؤں والے عزت سے بےجی کہتے تھے ۔ثوبیہ کے لیے گاؤں میں گزارے یہ دن عید سے کم نہ ہوتے وہ بے جی کے پاس بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کرتی ۔ گاؤں کی سوندھی مٹی اسے بے حد لبھاتی تھی….تایازاد سرفراز اسے اپنے ہرے بھرے کھیت اور پھلوں کے باغات کی سیر کرواتے ۔
٭ ٭ ٭
’’ماما کو میری فیلینگز کا احساس ہونا چاہیے ‘میں دنیا کے کسی بھی ملک نہی جانا چاہتی ‘میں پاکستان سے دور کبھی خوش نہیں رہ سکتی‘‘۔
ثوبیہ نے یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھی اپنی کلاس فیلو منال سے کہا
منال کریمی کولڈ کافی پیتے ہوئے ٹھٹک گئی اور حیرت سے ثوبیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔
’’ثوبیہ واٹس رانگ ود یو ڈئیر ‘۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیے ‘شادی کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ زندگی کی شروعات اپنی مرضی سے کرنے کا گولڈن چانس مل رہا ہے،جس کے خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے ‘‘۔
منال کا تعلق الٹرا ہائی سوسائٹی سے تھا ‘۔اس سوسائٹی میں سب سے زیادہ اہمیت کیریئر اور پروفیشن کو دی جاتی تھی . . .اسے وطن اور وطن کی محبت جیسے الفاظ کچھ نامانوس سے لگے ۔
ثوبیہ اپنی پیاری سہیلی کی بات سن کر مسکرائی اور بولی ’’منال تم بھی میری ممی جیسی باتیں کر رہی ہو ۔پر میں نہی جانتی کہ کیوں میرے لیے پاکستان کو چھوڑنے کا تصور بھی محال ہے‘‘ ۔
منال نے کہا :
’’ایسا ہے تو پھر تو تمہیں بہروز سے ڈسکس کرنا چاہیے‘‘۔
’’منال میں بات کر چکی ہوں پر اس کے خیال میں پاکستان کی اکانومی اس وقت کرائسس کا شکار ہے ‘ عقلمندی اسی میں ہے کہ ایبراڈ نکل جائیں۔میں نے اسے صاف کر دیا ہےکہ یہ وطن ہمارے آبائو اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔میں اسے چھوڑ کر کہیں جانے والی نہیں ہوں‘‘۔
ثوبیہ نے اپنے جذبات و احساسات اپنی سہیلی کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔اس کی بات سن کر منال نے شرارت سے کہا:
’’لگتا ہے کہ تمہارے اندر کوئی بوڑھی روح حلول کر گئی ہے ‘ایسی باتیں تو بس نانیاں دادیاں ہی کرتی ہیں ‘‘۔
منال کی بات ختم ہوتے ہی دونوں سہیلیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں ۔
٭ ٭ ٭
خان پور بیلہ اور ارد گرد کے علاقے طویل عرصے سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی اور قحط کی صورتحال سے دوچار تھے ۔ سر سبز کھلیان ویران ہو چکے تھے ۔سینکڑوں مویشی مر چکے تھے۔بےجی بہت رنجیدہ تھیں۔اتنی عمر بیت گئی پر کبھی انہوں نے اپنے پیارے گاؤں کی یہ حالت زار نہ دیکھی تھی۔انہوں نے گاؤں والوں کی ہر ممکن مدد کی ۔اناج اور غلے کے گوداموں کے منہ کھول دیے ۔بےجی کی راتوں کی نیندیں اچاٹ ہو چکی تھیں۔رات بھر سجدہ ریز ہو کر رحمت کی برسات کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔
ادھر بہروز کے والدین بھی شادی کی تاریخ طے کرنے پر اصرار کر رہے تھے ۔
تجمل صاحب نے انہیں اس سلسلے میں بے جی سے حتمی فیصلہ لینے کا عندیہ دیا ۔پروگرام طے کر کےدونوں خاندان اپنی گاڑیوں میں خان پور بیلہ کے لیے نکلے ۔
گاؤں کی پگڈنڈیاں سوکھے پتوں اور گھاس پھونس سے اٹی تھیں ۔
ثوبیہ بہت حساس لڑکی تھی ۔اپنے خوبصورت گاؤں کی یہ حالت زار دیکھ کر نمدیدہ ہو گئی۔کچھ ہی دیر میں وہ حویلی پہنچ گئے۔
بے جی کی بڑی سی حویلی کے وسیع و عریض صحن میں سرفراز گاؤں کے ضرورت مند افراد کو اناج کی بوریاں تقسیم کر رہا تھا اس کام کی ذمہ داری اسے بے جی نے دے رکھی تھی ۔روزانہ کئی گھرانے اپنے لیے اشیائے خوردو نوش لے جاتے ۔
بے جی اور تنویر صاحب کے گھرانے نے سب مہمانوں کو خوش آمدید کیا ۔
خدیجہ بھابھی نے سب کے لیے پر تکلف کھانا بنا رکھا تھا ۔ضیافت نوش کرنے کے بعد سب بیٹھک میں بات چیت کے لیے جمع ہوگئے ۔
بے جی نے بات کا آغاز کیا ۔
’’میرے بچو آج بہت عرصے بعد ہمارے خاندان میں خوشیوں کی شہنائیاں گونجنے والی ہیں ۔میرے رب نے مجھ پرزندگی بھر بے شمار فضل کیا ۔اب عمر کے اس حصے میں جبکہ میری زندگی چراغ سحری ہے ‘میں تم سب کو کچھ نصیحت کرنا چاہتی ہوں ‘‘۔
بے جی کی باتیں سن کر سب افسردہ ہو گئے ۔
کچھ دیر توقف کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئیں۔
’’پیارے بچو اس وطن کی پاکیزہ آزاد فضاؤں میں سانس لینے سے قبل ‘ہم ایک غلام قوم تھے ‘ہماری کوئی شناخت نہ تھی ‘ہماری کوئی مرضی نہ تھی وہ ایک تاریک دور تھا،ہمارے شام و سحر فرنگی آقاؤں کے رحم و کرم پر تھےہم گھٹ گھٹ کر جی رہے تھے ۔ لیکن ہمارے بزرگوں کی رگوں میں موجود غیور خون جوش مار رہا تھا ۔انہوں نے اپنے لیڈر قائد اعظم کے ساتھ مل کر اس ذلت بھری غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا فیصلہ کر لیا ۔اس جدو جہد میں لاکھوں بے گناہ شہید ہوئے ۔سینکڑوں عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں ‘پر ایک آزادوطن حاصل کرنے کی لگن میں سب نے بے دریغ ہر طرح کی قربانیاں دیں ‘‘۔
سب بےجی کی باتیں بغور سن رہے تھے ۔
ثوبیہ اور سرفراز تو اپنی دادی جان سے قیام یاکستان کے حالات و واقعات بارہا سن چکے تھے ‘لیکن بہروز پہلی بار بےجی سے ملا تھا وہ حیرت زدہ سب باتیں سن رہا تھا۔
بےجی خاموش ہوئیں تو بہروز نے پوچھا ۔
’’بے جی آپ کے سب گھر والے کہاں ہیں ؟ان کے بارے میں بھی کچھ بتائیں‘‘۔
بےجی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔وہ بولیں۔
’’پتر بہروز میری ان بوڑھی آنکھوں نے اپنے شفیق ماں باپ کو برچھیوں کے وار سے شہید ہوتے ہوئےدیکھا ہے اور اپنے بھائیوں کے سر تلواروں کے وار سے کٹتے ہوئے دیکھے ہیں۔بس میں نہیں جانتی کہ مجھے کیسے سوھنے رب نے زندہ بچایا اور اس پاک وطن تک پہنچایا ‘‘۔
بیٹھک میں موجود سب کی آنکھیں بےجی کی بپتا سن کر اشکبار تھیں۔
بہروز روہانسا ہو کر بےجی کے قریب قالین پر بیٹھ کر بولا :
’’بےجی آپ بہت گریٹ ہیں ‘اتنے سارے دکھ سمیٹ کر بھی ہر طرف خوشیاں بکھیرتی ہیں ‘‘۔
بے جی نے بہروز کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور مسکرا کر بولیں۔
’’ہاں میرے پتر ہم سب کو مل جل کر ایسے ہی ایک دوسرے کے آنسو پونچھنے ہیں ۔ خشک سالی کا شکار ہمارے اس گاؤں کی طرح پاکستان بھی اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے ‘اگر ہم نے اسے نہیں سنبھالا ‘ تو خدانخواستہ بزرگوں کی اس میراث کو اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھیں گے‘‘۔
بہروز بے جی کی باتیں پورے انہماک سے سن رہا تھا ۔بے جی نے اسے تخت پوش پر اپنے قریب بٹھا لیا ‘اور کہنے لگیں۔
’’تم جیسے قابل نوجوان اس وطن کے دمکتے ہیرے ہیں ۔اگر اپنے وطن کے اندھیرے دور کرنے کے بجائے تم کسی اور کے دروبام روشن کرو گےتو ہم اجالے کہاں تلاش کریں گے؟بس پتر مجھے یہی غم کھائےجا رہا ہے ‘‘۔
بے جی اپنی بات مکمل کر چکی تھیں ۔ان کا بوڑھا باہمت چہرہ ان کے دلی کرب کی غمازی کر رہا تھا ۔
اچانک بے جی کے سینے میں درد کی شدید لہر اٹھی ۔ان کے منہ سے ایک کراہ نکلی اور وہ بےہوش ہوکر ایک طرف ڈھلک گئیں ۔
سب دوڑ کر بے جی کے ادرگرد جمع ہو گئے ۔
تجمل صاحب اپنی گاڑی سے میڈیکل بکس نکال لائے۔معائنے سے پتا لگا کہ بےجی کا بلڈ پریشر بہت زیادہ تھا ۔تجمل صاحب نے فوری طور پر انہیں انجکشن لگایا ۔
بے جی کی بیماری کی خبر سن سارا خاندان جمع ہوگیا ۔
ثوبیہ کا رورو کر برا حال تھا ۔اماں جی کے لیے ڈھیروں دعائیں کی جا رہی تھیں ۔
اسی کیفیت میں پوری رات بیت گئی ۔
صبح تڑکے کسی مسجد سے مؤذن کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔
اماں جی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ہر کسی کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے ۔
بہروز دوڑکر اماں جی کے پاس پہنچا ان کا ماتھا چوم کر بولا :
’’بےجی آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ‘میں نے فیصلہ کر لیا ہے ‘میں اپنے ساری صلاحیتیں اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی پر لگا دوں گا ‘میں پاکستان کا بیٹا ہوں ‘ میں اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا ‘‘۔
بے جی کا زرد پڑتا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔سب شاداں تھے ۔ثوبیہ کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا ۔
اچانک بادلوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹائیں آسمان پر چھا گئیں ۔
زور دار بارش کے ساتھ خشک پڑی زمین مٹی کی سوندھی خوشبو سے مہک اٹھی ۔ گاؤں کےباسیوں کے اللہ اکبر کے نعروں اور خوشیوں بھرے گیتوں سے فضا گونج اٹھی ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x