ڈاکٹر جاوید اقبال باتشؔ

غزل – بتول مارچ ۲۰۲۳

غزل اندر کا غم کہہ ڈالے تو گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو تنگ آکر جو مرضی کر لو زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو وہ بھی اک دن اچھا جاؤ ہو کر برہم کہہ ڈالے تو زخمِ دل، ہونٹوں کا اپنے رکھ دے مرہم کہہ ڈالے تو چپ ہوں پر آنکھوں کا بادل دل کا موسم کہہ ڈالے تو وہ اب تک تو میں ہے لیکن اک دن گر ہم کہہ ڈالے تو جھوٹی برکھا گر وہ تجھ سے برسو چھم چھم کہہ ڈالے تو کیا گزرے محرابوں پر کچھ زلفوں کا خم کہہ ڈالے تو کیا ہے کوئی قوسِ قزح کو سُر کا سَرگم کہہ ڈالے تو کوئی، عجب کیا ان آنکھوں کو جاموں کا جم کہہ ڈالے تو مٹی پانی، بارش، کوئی پی جا تھم تھم کہہ ڈالے تو کیوں آنکھوں کا کاجل پھیلا زلفِ برہم کہہ ڈالے تو تم بھی سکھیوں میں ہو، آ کر ہم

مزید پڑھیں